چینی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور سمگلنگ

پنجاب میں چینی کی قیمتوں میں اضافے اور چینی کی افغانستان اسمگلنگ کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہےں۔ اب تک چار لاکھ ٹن چینی افغانستان اسمگل ہوچکی، چینی پچےس روپے فی کلو مہنگی ہونے سے ملز کو 115 ارب کا فائدہ ہوا۔ملک کے مختلف شہروں میں چینی کی قیمت میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے۔کین کمشنر کے تحت ہونے والی تحقیقات میں اسمگلنگ میں ملوث ملز مالکان اور ڈیلرز کا بھی پتا چلایا جائے گا جبکہ اس حوالے سے بھی تحقیقات کی جائے گی کہ چینی کون سے راستوں سے سرحد پار بھیجی گئی۔گزشتہ چند روز میں مختلف شہروں میں چینی کی قیمت میں پچیس سے تیس روپے تک اضافہ ہوچکا، ایک کلو چینی ایک سو تیس روپے تک جاپہنچی ہے۔کہا جاتا ہے کہ حال ہی میں کوئٹہ سے چاغی پہنچنے والی ایک ٹرین سے تقریبا 112 ٹن کی چینی پرمِٹ نہ ہونے کے باعث ضبط کروا کر واپس کوئٹہ بھیج دی گئی تھی۔اےک اندازے کے مطابق کوئٹہ سے تقریبا ہر دوسرے روز سو ٹن چینی اور ہفتے میں تقریبا سات سوٹن چینی غیر قانونی راستوں کے ذریعے افغانستان پہنچائی جا رہی ہے۔افغانستان کے چیمبرز آف کامرس کے مطابق بھی ایسے بیس سمگلنگ روٹس ہیں جن کے ذریعے چینی اور دیگر اشیائے خورونوش پاکستان سے افغانستان پہنچائی جاتی ہیں۔اس سامان پر کسٹم ڈیوٹی نہیں دی جاتی اور دونوں ملکوں کے درمیان بنی چیک پوسٹوں سے ہوتی ہوئی یہ بسیں اور ٹرک افغانستان کے آٹھ مخلتف صوبوں میں پہنچ جاتے ہیں۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان مختلف تجارتی معاہدے قائم ہیں لیکن حکام کا کہنا ہے کہ ان معاہدوں کے باوجود سمگلنگ روٹس سے دوائیں اور چینی افغانستان پہنچ جاتی ہے۔اس وقت ڈسٹرکٹ چاغی بلوچستان کا ایک اہم پوائنٹ ہے، جہاں سے چینی افغانستان سمگل کی جاتی ہے لیکن یہ صوبہ بلوچستان کا واحد پوائنٹ نہیں۔اس کے علاوہ بلوچستان کے افغانستان سے متصل دیگر علاقوں جیسے چمن، قلعہ سیف اللہ، قلعہ عبداللہ، پشین اور ژوب کے علاقے بھی سمگلنگ روٹ میں شامل ہیں۔سمگلنگ کے راستوں کی کھوج لگانے پر پتا چلا کہ پاکستان سے چینی جانے کا قانونی اور کچھ حد تک غیر قانونی راستہ ایک ہی ہے۔اگرچہ راستہ ایک ہی استعمال ہوتا ہے لیکن جہاں مقامی تاجروں کی بڑی گاڑیوں کو پرمِٹ دیکھ کر چھوڑ دیا جاتا ہے، وہیں غیر قانونی طور پر جانے والے ٹرک کا پرمِٹ ہی نہیں دیکھا جاتا۔یہ پرمِٹ پاکستان کی حکومت کی جانب سے مقامی تاجروں اور ان کی کمپنیوں کو جاری کیا جاتا ہے۔ جس میں کمپنی کے مالک کے شناختی کارڈ کی جانچ کرنے اور کاروبار کو دیکھنے کے بعد ان کے نام پر پرمِٹ جاری کیا جاتا ہے۔ اس پرمِٹ کے تحت مالک کے تابع مال لے جانے والے ٹرک اور انھیں چلانے والے ڈرائیوروں کی نشاندہی بھی کی جاتی ہے۔چاغی سے چند ماہ میں ہونے والی سمگلنگ کے نتیجے میں ڈپٹی کمشنر چاغی حسین جان بلوچ نے چینی کے پرمِٹ ایشو کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔یہ پابندی تب تک جاری رہے گی جب تک تمام چینی سپلائی کرنے والوں کی رجسٹریشن نہیں ہو جاتی لیکن تاجروں کے مطابق سرحد سے متصل دیگر علاقوں میں ایسی پابندی عائد نہیں۔پنج پائی کا علاقہ ایک عرصے تک افغانستان سے تجارت کے لیے استعمال ہوتا تھا لیکن اب اس راستے کو حکومتی سطح پر بند کر دیا گیا ہے اور اب یہاں سے غیر قانونی طریقے سے چینی لے جائی جاتی ہے۔تاجروں اور حکام کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے پنجاب اور سندھ کے راستے چینی کو کوئٹہ پہنچایا جاتا ہے اور کوئٹہ سے افغانستان پہنچا دیا جاتا ہے۔اس کام میں ملوث افراد کے مطابق طریقہ کار کچھ یوں ہے کہ پہلے چینی کو چاغی تک بس، گاڑی، ٹرک یا پھر ٹرین کے ذریعے پہنچایا جاتا ہے اور پھر وہاں سے ڈکھ کے ریگستانی علاقے سے افغانستان تک پہنچا دیا جاتا ہے۔چاغی پہنچے والی ٹرین زیادہ تر ایران کے شہر زاہدان کی طرف جاتی ہے لیکن اس سے پہلے ہی نوکنڈی ریلوے سٹیشن پر اس سے چینی اور دیگر اشیا نکال کر اسے چھوٹی گاڑیوں اور ٹرکوں کے ذریعے افغانستان بھیج دیا جاتا ہے۔یہی طریقہ کار سرحد سے متصل دیگر علاقوں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ جہاں ریگستانی علاقہ استعمال کرتے ہوئے چینی کو چھوٹی گاڑیوں میں سمگل کیا جاتا ہے جبکہ شہروں سے مسافر بسوں کے ذریعے یہ چینی سرحد تک پہنچائی جاتی ہے۔ یہ چینی پنجاب اور گھوٹکی سے کوئٹہ آتی ہے اور یوریا، دواﺅں اور دیگر اشیائے خورونوش کے ساتھ افغانستان بھیجی جاتی ہے۔افغانستان کے چیمبرز آف کامرس کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایسے بےس سمگلنگ روٹس ہیں جن کے ذریعے چینی اور دیگر اشیائے خورونوش پاکستان سے افغانستان پہنچائی جاتی ہیں۔ایسی کئی اور بسوں کے بارے میں حکام کو پتا ہے لیکن وہ سرحد پر قانونی طور سے جانے والے مقامی تاجروں کو روکتے ہیں۔چینی لے جانے کو کچھ لوگ غیر قانونی کاروبار کا ذریعہ بنا کر سرحد پار بھیج رہے ہیں جبکہ اس سے مقامی تجارت کرنے والوں کو نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ اگر حکام کو خدشہ ہے تو افغانستان سے اپنی سرحد پر سختی کریں۔ جو اشیائے خورونوش انڈیا یا پھر افغانستان سے آتی جاتی ہیں، اسے نہیں روکا جا سکتا۔ یہ کوئی امپورٹ یا ایکسپورٹ کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ سامان مقامی لوگوں کے لیے ہوتا ہے۔اگست 2021 میں افغانستان میں طالبان کا قبضہ ہونے کے بعد وہاں کئی چیزوں کی قلت کی خبریں منظر عام پر آنا شروع ہو گئی تھےں۔ ان میں سے ایک قلت چینی کی تھی جو دو سال بعد بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔اس کمی کو پورا کرنے کا راستہ جہاں ایک طرف پاکستان کے ساتھ افغانستان کے ہونے والے معاہدوں کے ذریعے پورا کیا گیا وہیں ایک حل سمگلروں نے غیر قانونی راستوں کے ذریعے چینی پہنچانے سے کیا۔اس سمگلنگ کی ایک اور اہم وجہ تاجر افغانی کرنسی کو بتاتے ہیں جو اس وقت پاکستان کے روپے سے کئی گنا بہتر منافع دیتی ہے اور پاکستانی سمگلروں کو افغانستان میں چینی بیچنے کا دوگنا فائدہ ہوتا ہے کیونکہ جہاں پاکستان میں حکومتی پرائس لسٹ کے مطابق چینی ترانوے روپے فی کلو ہے، وہیں افغانستان میں یہ چینی اےک سو ترانوے روپے فی کلو کی بیچی جاتی ہے۔تاجروں کے مطابق براہِ راست اور قانونی راستوں سے چینی بھیجنے میں منافع کا مارجن کم ہوتا ہے۔ اس میں ٹیکس دینا پڑتا ہے، گاڑیوں کا کرایہ اور ڈرائیوروں کو تنخواہ دینی پڑتی ہے۔ لیکن غیر قانونی طریقے سے سمگلروں کو ٹیکس کی فکر ہوتی ہے، نہ انسانی جان کی۔ انہیں خطرناک راستوں سے دن رات گاڑی اور ٹرک بھگا کر یہ حکومتی سامان سے دگنی اشیا افغانستان پہنچا دیتے ہیں اور کئی مقامات پر سمگل شدہ چینی کی قیمت افغان تاجر ڈالر میں بھی ادا کرتے ہیں۔ تو کوئی صحیح راستہ کیوں اپنائے گا؟حکام کا کہنا ہے کہ اس وقت غیر قانونی طور پر افغانستان بھیجی جانے والی چینی کی روک تھام بمشکل ہی کی جا سکتی ہے لیکن اس کے باوجود یکم مارچ کو کسٹمز حکام چاغی ڈسٹرکٹ کے نوکنڈی ریلوے سٹیشن پر 112 ٹن چینی روکنے میں کامیاب ہو گئے۔ان کوششوں میں ایک بڑی رکاوٹ وسائل کی کمی ہے۔ اس کے باوجود جہاں جہاں سے خبر ملتی ہے وہاں کارروائی کی جاتی ہے۔دوسرا طریقہ پرمِٹ کے اجرا کی روک تھام اور سختی ہے۔اس کی حالیہ مثال بلوچستان کے ضلع واشک میں دیکھنے کو ملی جہاں ڈپٹی کمشنر کو تب ملازمت سے ہٹا دیا گیا جب تقریبا چار سو ٹرکوں کو بغیر پرمِٹ دیکھے جانے کی اجازت دینے کی خبر مقامی لوگوں اور تاجروں نے حکام کو دی۔حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ چمن سرحد سے پیدل افغانستان جانے والے اگر چینی ساتھ لے جائیں تو انہیں روکا نہیں جاسکتا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان بنی چیک پوسٹوں سے ہوتی ہوئی یہ بسیں اور ٹرک افغانستان کے آٹھ مختلف صوبوں میں پہنچ جاتے ہیں۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان مختلف تجارتی معاہدے قائم ہیں لیکن حکام کا کہنا ہے کہ ان معاہدوں کے باوجود سمگلنگ روٹس سے دوائیں اور چینی افغانستان پہنچ جاتی ہیں۔حکام کا کہنا ہے کہ اس وقت غیر قانونی طور پر افغانستان بھیجی جانے والی چینی کی روک تھام بمشکل ہی کی جا سکتی ہے اگرچہ افغانستان کو پاکستان سے سمگلنگ کی اشیا کا بڑا ذریعہ اور راستہ بلوچستان ہے لیکن خیبر پختونخوا سے طورخم اور دوسرے سرحدی علاقوں اور معروف راستوں کے علاوہ غیر معروف راستوں سے بھی آٹا چینی اور دیگر مصنوعات واشیا کی سمگلنگ ہوتی ہے۔ یہ درست ہے کہ سمگلنگ کی مکمل روک تھام آسان کام نہیں لیکن خیال ہے کہ افغانستان کو سمگلنگ کے کاروبارکی بڑے اور اونچے پیمانے پرسرپرستی اس کی روک تھام کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے یہی وجہ ہے کہ حکومتی اعلانات کے باوجود اس کی روک تھام اس لئے نہیں ہو پاتی کہ اس کی سرپرستی خود حکومتی صفوں سے بھی ہوتی ہے جب تک اس مسئلے پر قابو نہیں پایا جائے گا دونوں ملکوں کے درمیان نہ تو قانونی تجارت کو فروغ ملے گا اور نہ ہی اشیائے خوردنی کی قیمتوں کو اعتدال پرلانا ممکن ہو گا۔