صوبائی وزیر کاظم میثم نے کہا ہے کہ موجودہ سسٹم بہت آلودہ ہوچکا ہے ‘تین سےکرٹری تعلیم گزر چکے تینوں سےکرٹریزکے پاس مسائل لیکر گیا تینوں نے ہاں میں ہاں ملائی مسائل کو حق بجانب قرار دیا مگر عمل درآمد کبھی نہیں ہوا۔ اساتذہ کو ادھر سے ادھر کرنا کوئی سیاست نہیں ہے‘ سیاسی بنیادوں پر تبادلے اساتذہ کی توہین ہے ۔انہوں نے کہاکہ ہم مایوس نہیں ہیں نظام کو درست کرنے کیلئے ہر وقت لڑیں گے ہمارا معاشرہ بہت ہی فرسودہ ہے اس کو درست کرنے میں وقت لگے گا میں نے کبھی سیاسی بنیادوں پر اساتذہ کے تبادلے کی حمایت نہیں کی آئندہ بھی ایسے عمل کی نفی کرتا رہوں گا اساتذہ کے تبادلے قانون اور ضابطے کے تحت ہونے چاہیں اساتذہ قوم کے معمار ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ تعلیمی اداروں میں میرٹ کی بالادستی ہونی چاہیئے جب تک میرٹ کی بالادستی نہیں ہوگی تب تک معیار تعلیم کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا سکولوں اور کالجوں میں داخلے میرٹ پر دینا ہونگے‘ہم چاہتے ہیں کہ سکولوں اور کالجوں میرٹ داخلے ملنے چاہیں ‘جب تک سکولوں اور کالجوں کا نظام درست نہیں ہوگا تب تک ہماری قوم ترقی نہیں کرسکتی تعلیم کو زندگی اور موت کامسئلہ بنانا چاہیئے۔سےاسی بنےادوں پر تبادلوں کی روش بہت پرانی ہے جس کی وجہ سے صورتحال میں بہتری کی بجائے ابتری در آتی ہے۔تعلیم کا اولین مقصد انسانیت کی تعمیر ہے ۔دنیاوی تجربات سے آگاہی اور واقفیت ہی تعلیم کا لازمی جزو ہے۔طلبہ کو زندگی کے نشیب و فراز سے آشنا کرنا اور زندگی کی کشمکش کے لئے تیار کرنا ہی تعلیم کااولین مقصد ہے۔ ماحول کا تعلیم و تدریس پر گہر ا اثر پڑتا ہے۔ فروبل استاد کو ایک باغبان اور طالب علم کو ایک پودے سے تشبیہ دیتاہے۔باغبان کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کے باغ کے شجر سایہ دار ،ثمر آور اپنی خوب صورتی،لذت اور خوشبو میں یکتا و نمایاں ہوں۔ اسی طرح ایک معلم بھی علم کی قدر و منزلت طلبا میں پیدا کرتے ہوئے پسندیدہ معاشرتی اقدار کو پروان چڑھتا ہے۔ تعلیم کا اہم کام زندگی کے لئے معاون و مددگار معلومات ،مہارتوں اور تجربات سے طلبا کو واقف کرنا ہے اگر تعلیم ان امور کا احاطہ نہیں کرتی ہے تووہ بے فیض تصور کی جاتی ہے۔ درس و تدریس کو جتنا آسان سمجھا لیا گیا ہے در حقیقت یہ کام اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ہر بچے کو حصول علم کے لئے اپنی ذات سے استفادہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔اس ایک نکتہ کا استحصال کرتے ہوئے اساتذہ اپنے فرائض منصبی سے سرمو انحراف نہیں کر سکتے ہیں۔اساتذہ کے لئے لازم ہے کہ وہ طلبا کی ذہنی سماجی معاشی حالات سے با خبر رہتے ہوئے حالات کے مطابق بچوں کی علمی تشنگی کو سیراب کرنے کے سامان فراہم کرےں۔تعلیم و تربیت کے زمرے میں ماحول کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔اکتساب کی ترقی اور تنزلی میں ماحول کا نمایاں حصہ ہوتا ہے۔ماہرین تعلیم و نفسیات کا اجماع ہے کہ توارث ایک غیر متبدل اور اٹل شئے ہے جب کہ ماحول کو حسب منشا و ضرورت ڈھا لا جا سکتا ہے۔تعلیمی دنیا میں اسی لئے ماحول کو ایک کارگر عامل گردانا گیا ہے۔اکتسابی نظام کے دو اہم جزو ایک وہ پر جوش طلبہ ہوتے ہیں جو اپنے آپ کو تعلیم و تربیت کے ذریعہ تبدیل کرنے کا جویا رکھتے ہیں جب کہ دوسرا اہم جزو ماحول ہوتا ہے۔سازگار ماحول کو وجود میں لائے بغیر کسی بھی قسم کی اکتسابی سرگرمی بے فیض اور وقت کا ضےاع ثابت ہوتی ہے۔طلبہ کی بھلائی اور اکتساب کے فروغ کے لئے ایسے ماحول کو پروان چڑھانا ضروری ہوتا جو انھیں سیکھنے کے لامحدود مواقع فراہم کرے۔اگر اکتساب کے لئے طلبہ کو موزوں ،محتاط ،حوصلہ افزا اور سازگار صحت مند ما حول فراہم کیا جائے تو تحصیل علم کے لئے طلبا پیش قدمی کرنے سے نہیں ڈرتے ہیں۔بہتر ماحول کی وجہ سے معلومات ہمیشہ کے لئے ذہن نشین ہوجاتے ہیں اور طلبہ میں معلومات کو بروقت استعمال کرنے کی قابلیت پیدا ہوجاتی ہے۔ کمرہ جماعت میں سازگار ماحول کی تشکیل میں ناکامی کی وجہ سے اساتذہ سود مند اکتساب کی فراہمی میں ناکام ہوجاتے ہیں اور بچوں میں سیکھنے کا عمل مفلوج ہوجاتا ہے۔ بہتر تعلیمی ماحول کی بنا پرطلبہ میں سود مند اکتسابی نظریات و تجربات پرورش پاتے ہیں۔ اساتذہ اپنی تھوڑی سی توانائی اگر اکتسابی ماحول کو پیدا کرنے میں صرف کردیں تب تدریس ان کے لئے ایک نہایت ہی پرکیف آسودہ اور آسان کاز ہوجاتا ہے۔ تدریسی فرائض کو وہ بحسن و خوبی نہایت آرام و اطمینان اور سکون کے ساتھ انجام دے سکتے ہیں۔ساز گار تعلیمی ماحول طلبہ میں اکتسابی خواہش کو مہمیز کرنے کے علاوہ اکتسابی پیش قدمی کا بھی متحمل بناتا ہے۔ اس سے طلبہ کے ذہنی افق میں وسعت پیدا ہونے کے علاوہ معلومات بھی ہمیشہ کے لئے ذہن نشین ہوجاتی ہیں۔بہتر تدرےس کے لئے متعلم کی سرگرم شمولیت لازمی ہوتی ہے اسی لئے طلبہ کو باربار اکتسابی سرگرمیوں میں شامل ہونے کے مواقع فراہم کریں تاکہ طلبا کو اپنی صلاحیتوں کو پیش کرنے کے علاوہ کرو اور سیکھو کا موقع ملے۔تدریسی سرگرمیوں میں جذبہ تحریک کو نما یاں جگہ دی جائے تاکہ اکتساب میں طلبا دلچسپی لیں۔دلچسپی سیکھنے کی عمل کو تیز کرتی ہے۔طلبہ کو اگر مناسب طریقہ سے ترغیب و تحریک دی گئی تو وہ نئے معلومات کے حصول میں اپنی توانیاں صرف کردیتے ہیں۔طلبہ کو ذہنی طور پر ذمہ داریوں کا احساس دلانے کے لئے ضروری ہے کہ اساتذہ ان سے محبت اور شفقت سے پیش آئیں اور ان میں پائے جانے والے احسا س عدم تحفظ پر قابو پائیں۔ طلبہ میں ذہنی اضطراب اور بندشوں سے آزادی کے ذریعہ اکتساب میں اضافہ ہوگا اور وہ اکتسابی تجربات کو استعمال کرنے کے قابل بھی بنیں گے۔اساتذہ کی جانب سے تیارکردہ حکمت عملی و منصوبہ بندی سے اکتساب کی ضرورت متعلم پر مترشح ہو جانا چاہیئے ۔طلبہ پر جب اکتساب کی ضرورت عیاں ہوجاتی ہے تو اکتساب کا عمل بھی بامعنی ہوجاتا ہے۔ طلبہ کے علمی استحکام کے لئے مشق اور تجربہ کرنے کے وافر مواقع عطاکیئے جائیں تاکہ اکتساب طلبہ کے لئے پرکیف اور بامعنی عمل بن جائے۔طلبہ میں خود کار اکتساب کی حوصلہ افزائی کے لئے مناسب مواقع فراہم کریں تاکہ طلبہ میں اکتسابی تجربات کے متعلق اطمینان کی فضا پیدا کی جائے جوسیکھنے کے عمل میں مزید تحریک کا باعث ہوتی ہے۔اساتذہ درس و تدریس کے دوران لگاتار بچوں کی حو صلہ افزائی کرتے رہیں پوچھے جانے والے سوالات کی جانچ کریں صحیح جوابت پر تعریف و توصیف سے کام لیں اور غلطی کرنے والے طلبہ کی تحقیر سے اجتناب کریں اور صحیح جواب کی سمت ان کی رہنمائی کریں۔اس سے ان میں احساس جاگزیں ہوگا کہ وہ استاد کے پاس اہمیت کے حامل ہیں اور ان کی شخصییت بھی اہمیت رکھتی ہے۔طلبہ کی ذہنی صلاحیت کے مطابق اکتسابی عمل کو ممکن بنائیں تاکہ وہ مسائل سے سامنا کرنے کے قابل بن سکیں۔یہ عمل طلبہ میں اکتساب کے فروغ کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔صرف نصابی سرگرمیوں پر توانائیاں نہ صرف کی جائیں بلکہ طلبہ کی پوشیدہ فطری صلاحیتوں کو فروغ دینے کی کوشش بھی ضروری ہے۔صرف نصابی سرگرمیوں کو جب زیادہ اہمیت دی جاتی ہے تو طلبہ دباﺅ کا شکار ہوجاتے ہیں اور دباﺅ اکتسابی عمل میں ایک بہت بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے۔مثالی کمرہ جماعت کی تزئین و ترتیب کامیابی کے لئے حکمت عملی کی اشد ضرورت ہوتی ہے خواہ وہ جنگ ہو،کھیل،مہم جوئی یا پھر تدریسی محاذ۔تدریسی عمل میں کمرہ جماعت کو مکمل قابو میں رکھنے کےلئے استاد کے لئے حکمت عملی کا استعمال ضروری ہے جس کے ذریعہ وہ طلبہ کو اکتساب کی مثبت شاہراہ پر گامزن رکھ سکتا ہے۔مثالی کمرہ جماعت کی تشکیل کے ذریعہ طلبہ کو اکتساب کی جانب آسانی سے راغب کیا جاسکتا ہے۔اساتذہ کی توجہ صرف نفس مضمون کی تدریس پر نہ رہے کہ کیا پڑھایا جائے بلکہ اساتذہ اپنی توجہ کو طلبہ کی اکتسابی حالت اور ماحول کی طرف بھی مرکوز کریں تاکہ موثر تدریس کی انجام دہی کو ممکن بنایا جاسکے۔مختلف طریقوں اور حکمت عملی کی ذریعہ ایک بے جان کمرہ جماعت کو فعال تدریسی مرکز میں تبدیل کی جاسکتا ہے۔اساتذہ کمرہ جماعت کو طالب علم مرکوز جماعت میں تبدیل کردیں جہاں بچوں کو تحریک و ترغیب اور حوصلہ افزائی کے ذریعہ اکتساب کی جانب مائل و راغب کیا جاسکے۔طلبا چشمہ علم سے اپنی تشنگی کو بجھاسکیں اور جہا ں اعلی سے اعلی اکتساب کی راہیں وا ہو جائیں۔وہ کمرہ جماعت جہاں طلبہ کی حو صلہ افزائی اور موثر اکتساب کے لئے رہبر ی و رہنمائی کی جاتی ہے وہ طلبہ اعلی سے اعلی مقام تک پہنچ جاتے ہیں اورایسے ہی کمرہ جماعت کو معیاری اکتسابی مرکز سے معنون کیا جاتا ہے۔طلبہ کو تعلےمی فضا کو مکدر کردینے والے احوال سے واقف کرانا بھی اساتذہ کے لئے ضروری ہوتا ہے تاکہ طلبہ خوش اسلوبی اور مکمل یکسوئی سے تعلیم کی طرف توجہ کر سکیں۔فضاکو خوش گوار بنانے کے لئے مدرس اپنی تمام تر پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لائے۔اساتذہ اسی وقت اپنی توجہ تدرےس پر مرکوز کر سکتے ہےں جب انہےں ےکسوئی مےسر ہو‘ان کے بے جا تبادلوں سے بھی تدرےسی عمل متاثر ہوتا ہے لہذا اس سلسلے میں پائی جانے والی خامےوں کا تدارک از حد ضروری ہے۔
