سکردو میں سپورٹس کمپلیکس کی تعمیر کا اہم فیصلہ

پاکستان سپورٹس بورڈ نے سکردو میں جدید طرز پر سپورٹس کمپلیکس تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے ‘ منصوبے کے پی سی ون کی تیاری باقاعدہ شروع کردی گئی ہے سپورٹس کمپلکس کا پی سی ون جلد تیار کرلیا جائے گا منصوبے پرچھ سے دس ارب روپے تک کے اخراجات ہونگے منصوبے کا پی سی ون آئندہ چند ہفتوں میں تیار کرلیا جائے گا مجوزہ سپورٹس کمپلیکس کے منصوبے کی تکمیل سے یہاں کے نوجوانوں کو ان کی دہلیز پر کھیلوں کی تمام سہولیات میسر آئیں گی مجوزہ سپورٹس کمپلیکس جدید سہولیات سے مزین ہوگا گلگت بلتستان کے کھلاڑیوں کو ایک چھت تلے جمع کرنے کیلئے سپورٹس بورڈ اپنا بھرپور کردار ادا کررہا ہے مجوزہ سپورٹس کمپلیکس میں ان ڈور گیم کی سہولت بھی ہوگی۔ سکردو عید گاہ کے مقام پر قائم اسٹیڈیم کی حفاظت کیلئے چھ کروڑ روپے کی لاگت سے باﺅنڈری وال تعمیر کی جارہی ہے منصوبے کا ٹینڈر کرکے ٹھیکہ بھی دیدیا گیا ہے باﺅنڈری وال کی تعمیر عید کے بعد شروع ہوگی جو کچھ کیا جارہا ہے نوجوان نسل کی بہتری کیلئے کیا جارہاہے جہاں کھیلوں کے میدان آباد ہونگے وہاں ہسپتال ویران ہونگے۔ نوجوان نسل کھیلوں کے مواقع نہ ملنے کے باعث بڑی ذہنی اذیت میں مبتلا ہے سپورٹس کمپلیکس کا قیام نوجوان نسل کے دکھوں کا مداوا کرے گی ۔سکردو میں جدید طرز پر سپورٹس کمپلیکس تعمیر کرنے کا فیصلہ نہاےت اہم اور مثبت فےصلہ ہے۔ہم جانتے ہےں کہ مختلف کھیلوں میں باقاعدگی سے مشغول رہنا انسان کو مختلف دائمی بیماریوں سے بچاتا ہے۔ کھیل وزن کو قابو کرنے، خون کی گردش کو بہتر بنانے اور تناﺅ کی سطح کو قابو کرنے میں بھی مدد کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، کھیل بہترین ذہنی اور جسمانی نشوونما کا باعث بنتے ہیں اورہڈیوں کو مضبوط بناتے ہیں۔کھیل صحت مند زندگی کے حصول کیلئے نہایت ضروری ہےں ۔ کھیل یعنی کوئی بھی ایسا کام جو ہماری ذہنی اور جسمانی نشونما میں اہم کردار ادا کرے ۔ کھیل صرف تفریح کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ جسم کو چاق و چوبند اور صحت مند بنانے کا بھی ذریعہ ہے ۔ کھیلنے سے دماغ تر وتازہ ہوتا ہے اور ایسی قائدانہ صلاحیتوں کو ابھارتا ہے جو کوئی اور چیز نہیں ابھار سکتی ۔ اگر کھیل نہ ہوں تو ہمارا جسم بالکل لاغر و کمزور ہو جاتا ہے ۔ بہت سی بیماریاں اس کو گھیر لیتی ہیں اور وہ جلد بڑھاپے کی طرف بڑھنا شروع کر دیتاہے ۔ اور اس کی خود اعتمادی لڑکھڑانے لگتی ہے ۔ کھیل خواہ ان ڈور ہوں ےا آﺅٹ ڈور ہر طرح سے انسانی نشونما پر اثر ڈالتے ہیں ۔ ان ڈور سے دماغی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور ذہنی قابلیت بھی ابھرتی ہے ۔آﺅٹ ڈور ہمارے جسم کو چست ، لچکدار اور پھرتیلا بناتے ہیں ۔ جو بچہ فزیکل فیٹنس کے اصول سے واقف ہو وہ خود کو ہر کھیل کے مطابق ڈھال سکتا ہے اور اس سے اس کی انفرادی اور اجتمائی طور پر کام کرنے کی صلاحیت بھی ظاہر ہو تی ہے ۔ کھیل کی اہمیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تعلیمی اداروں نے بھی اس میدان میں قدم رکھ دیا ہے ۔المےہ ےہ ہے کہ آج بھی کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ کھیل صرف وقت کا ضےاع ہےں یا پھر فارغ وقت گزارنے کا ذریعہ ہےں ۔ یہ لوگ بچوں کو صرف تعلیم پر زور دینے کیلئے مجبور کرتے ہیں کیونکہ شاید یہ لوگ کھیلوں کی اہمیت اور ان کے بے شمار فوائد سے انجان ہیں ۔ جبکہ کھیل انسان کی شخصیت کو سنوارنے میں بے حد اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ کھیل کود سے انسان میں فرماں برداری ، تحمل مزاجی ، صبر ، انتظام اور قوتِ برداشت بڑھتی ہے ۔ انسان اتفاقِ رائے سے کام کرنا اور ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرنا سیکھ جاتا ہے ۔ اور اس میں دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کرکے اسے شکست دینے کے جذبات پیدا ہوتے ہیں ۔ ہر کھیل کے اپنے قوائد و ضوابط ہوتے ہیں جو کہ کھلاڑی کو نظم و ضبط کا پابند بناتے ہیں ۔ کھیل کے دوران جب کھلاڑی ناکام ہو جائے تو وہ ہمت نہیں ہارتا اور نہ ہی غصہ کرتا یا ناراض ہوتا ہے کیونکہ ایک کھلاڑی بخوبی جانتا ہے کہ ہار جیت تو کھیل کا حصہ ہے ۔ ہنری نیوبولٹ نے کہا ہے : کھلاڑی کو انعام کی پروا کئے بغیر کھیلنا چاہئے اسی کو وہ سامنے رکھ کر دوبارہ کوشش کرتا ہے اور جیت کی راہ پر گامزن ہوتا ہے ۔ جس سے انسان کا کردار مضبوط ہوتا ہے ۔ اسلئے کہا جاتا ہے کہ کھیل روح کی غذا بھی ہے ۔ کھیل سائنسی طرزسے بھی اہم کردار ادا کرتے ہےں ۔ کھیل سے انسان کا دماغ تیز ہوتا ہے اور صحیح کام کرنے میں مدد دیتا ہے ۔ جسم کے اعضا طاقتور اور پٹھے مضبوط ہوتے ہیں ۔ انسان کی طبیعت بھی ہشاش بشاش رہتی ہے ۔ کھیلنے سے انسان کا جسم بالکل فِٹ رہتا ہے اور بیماریاں بھی دور رہتی ہیں کیونکہ کھیل ورزش کی ہی ایک قسم ہے اور بیماریوں کے خلاف قوتِ مدافعت پیدا کرتی ہے ۔ مختلف بیماریوں کے علاج کو مدِ نظر رکھتے ہوئے میڈیکل کی فیلڈ میں بھی فزیکل تھراپی متعارف کروا ئی گئی ہے ۔ جس میں لوگوں کے دماغ اور جسم کے مختلف اعضا کے صحیح سے کام کرنے کے لئے مختلف اقسام کی ورزش کروائی جاتی ہے ۔ جوکہ اصل میں کھیل کا ہی حصہ ہے ۔ اسی کو مدِ نظر رکھتے ایک شعبہ ہیلتھ اینڈ فزیکل ایجوکیشن کے نام سے بنایا گیا ہے ۔ جہاں ورزش اور صحت کے متعلق تعلیم دی جاتی ہے اور اس پہ ریسرچ اور پریکٹس بھی کروائی جاتی ہے ۔ کیونکہ کہا جاتا ہے کہ جس معاشرے میں کھیل کے میدان آباد ہوتے ہیں تو اس معاشرے کے اسپتال ویران ہوتے ہیں اور ایسے معاشرے کی ترقی اور خوشحالی یقینی ہوتی ہے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ حکومت کی جانب سے بھی کھیل کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اقدامات اٹھائے گئے ہیں اور حکومت نے تعلیمی اداروں میں بھی کھیل کے میدان کے موجود ہونے پر خاص توجہ دی ہے اور ان تعلیمی اداروں میں کھیلنے کے مناسب وقت ، جگہ اور ماحول کا انتظام کیا ہے ۔پہلے صرف مردوں کو اس میں حصہ لینے کی اجازت تھی مگر اب خواتین کیلئے بھی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو انہیں بھی بین الاقوامی سطح پر کھیلنے کا موقع فراہم کرتی ہے ۔ ان فیسٹیول میں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد حصہ لیتے ہیں اور دل و جان سے پر اعتماد ہو کر اپنی صلاحیتوں کو پیش کرتے ہیں ۔ جہاں قومیں کافی حد تک اپنی ایک شناخت بناتی ہیں اور اپنے ملک کا نام روشن کرتی ہیں ۔ اس لئے کھیلوں کی اہمیت نہ صرف طلبا اور جوانوں میں نا قابلِ تردید ہے بلکہ قوموں کی عظمت اور شناخت بھی کھیلوں سے منسلک ہے ۔ جسمانی اور ذہنی طور پر صحت مند اور تندرست قوموں کو ہی فطرت بنی نوع انسان کی قیادت سونپتی ہے۔ آج دنیا میں عسکری ، اقتصادی اور سیاسی میدانوں میں انہی قوموں کو عروج حاصل ہے جو کھیل کے میدان میں سرِ فہرست ہیں۔ ماہرین کے مطابق 2025 میں عوامی جمہوریہ چین امریکہ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے عالمی لیڈر کا درجہ حاصل کر لے گا اور یوں اس مقولے کو سچ ثابت کر دکھائے گا کہ دنیا میں بہترین دماغ انگریز کا، بہترین زبان عربوں کی اور بہترین ہاتھ چینیوں کے ہیں۔سو تاریخ کا سبق یہی ہے کہ اقتصادی پیمانے یعنی جی ڈی پی فی کس آمدنی وغیرہ کی بجائے کھیل کے میدان میں برتری ہی دراصل زندہ معاشروں کی ترقی کا اصل پیمانہ ہوا کرتی ہے۔فی کس آمدنی جیسی اقتصادی اصلاحات تو گمراہ کن ہیںجس میں آپ چند لوگوں کے عیش کی اوسط نکال کر پوری آبادی پر پھیلا دیتے ہیں۔ کھیلوں کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی حضرتِ انسان کی۔ جب سے حضرتِ انسان نے دماغ سے کام لینا شروع کیا وہ اپنے ماحول میں موجود جانوروں، چرند پرند اور اپنے جیسے انسان کو مسخر کرنے کے طریقے سوچتا رہا۔یہ بنیادی طور پر فطرت پر قابو پالینے کو خواہش ہی تھی جس کے زیرِ اثر اس نے اپنی جسمانی صلاحیتوں کو مضبوط اور بہتر بنانے کے لیے ورزش کا انداز اختیار کیا اور عقلِ سلیم کو بروئے کار لاتے ہوئے ان علوم میں مہارت پیدا کی جس کی بدولت وہ جنگلی جانوروں کا شکار اور انسان سے جنگ و جدل میں برتری حاصل کرنے کے قابل ہو سکے۔ تمام قدیم تہذیبوں میں کھیل کسی نہ کسی شکل میں ہمیشہ موجود رہے ہیں۔ قدیم مصری تیراکی، دوڑوں ، کشتیوں، تیر اندازی اور گیند سے کھیلی جانے والی کھیلوں میں حصہ لیتے رہے ہیں۔یونانی اور رومی رتھوں کی دوڑ، جیولن تھرو، ڈسکس، ہیمر تھرو اور ایسے کھیل جن میں جانوروں اور مشینوں سے مدد لی جاتی تھی، میں شرکت کیا کرتے تھے۔ فرانس ، افریقہ اور آسٹریلیا کے غاروں میں تیس ہزار سال قبل کے ایسے آثار ملے ہیں جن کے مطابق اس عہد کا انسان تیراندازی کے فن میں یکتا تھا۔اہرامِ مصر کی دیواروں پر ایسی علامتیں کندہ ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ قدیم مصری تیراندازی میں مہارت رکھتے تھے۔ قدیم اور تہذیبوں کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کھیلوں کی مختلف سرگرمیوں میں دلجمعی سے حصہ لیتے تھے۔ ان کا یہ عمل گویا اپنی بقا کی خاطر شکار کے علم سے آگاہی کا غماز تھا۔سو کھیل کی اصل روح آغاز ہی سے خود کو جنگ و جدل اور دشمنوں سے بچاﺅ کے لیے تیار کرنے میں پوشیدہ رہی ہے۔ قدیم یونانی تو قدیم اولمپک کھیلوں کے بانی بھی تھے۔