وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ پنجاب میں الیکشن کی تاریخ کے حوالے سے دیے گئے فیصلے پر نظرثانی کرے اور فل کورٹ بنائے، فل کورٹ کا جو بھی فیصلہ ہو گا ہمیں قبول ہو گا۔اسلام آباد میں وکلا کمپلیکس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نے کہا کہ میرے لیے یہ خوشی کا موقع ہے کہ یہاں آج لائرز کمپلیکس کا سنگ بنیاد رکھا گیا جس کے لیے 1.8ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے، کاش اس رقم کا یہاں اعلان نہ کیا جاتا کیونکہ مجھے ڈر یہ ہے کہ حکم نہ آجائے یہ الیکشن کمیشن کے حوالے کردیں۔ آپ وکلا سے زیادہ آئین و قانون کے لیے کسی نے بھی جدوجہد نہیں کی، آپ نے عدلیہ کی بحالی کجے لیے ڈنڈے اور گولیاں کھائیں، دن رات پاکستان بھر میں جلوس اور ریلیاں نکالیں لیکن میں آج یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں تو یہ حکم دیا جاتا ہے کہ وزیراعظم اکیلا کچھ نہیں کابینہ ہے تو جنہوں نے یہ حکم دیا انہوں نے یہ اپنے اوپر آج تک کیوں لاگو نہیں کیا۔ان کا کہنا تھا کہ مولوی تمیز الدین کیس آپ سے زیادہ کون جانتا ہو گا کہ کس طرح کراچی میں ہائی کورٹ میں ان کے حق میں فیصلہ ہوا اور پھر جسٹس منیر نے نظریہ ضرورت ایجاد کیا جس نے پاکستان کو کہاں پہنچا دیا، عدالت عالیہ اور عدالت عظمی کا ہم سب کو احترام کرنا چاہیے، ججز کا احترام کرنا چاہیے لیکن جو قانون وہ دوسروں کے لیے بنائیں، اسے خود اپنے اوپر بھی لاگو کریں۔شہباز شریف نے کہا کہ نورکنی بینچ بنا اور آخر وہ تین بینچ کا رہ گیا، دو نے معذرت کر لی، تین رکنی بینچ میں سے بھی ایک جج نے معذرت کی ہوئی تھی، تےن چارکی ایک بحث چل رہی ہے اور جنہوں نے معذرت کی تھی انہیں خود اس بینچ میں نہیں بیٹھنا چاہیے تھا، اگر فل کورٹ کا مطالبہ مان لیا جاتا تو پاکستان میں کون اس فیصلے سے اختلاف کرتا۔ان کا کہنا تھا کہ تین بینچ کا ایک فیصلہ جسٹس قاضی فائز عیسی کا بھی آیا ، اس کو پہلے سرکلر کے ذریعے ختم کیا گیا، بعد میں پھر چھ رکنی لارجر بینچ بنایا گیا، اگر سرکلر کے ذریعے ختم ہونا تھا تو لارجر بینچ بنانے کی ضرورت کیا تھی۔انہوں نے کہا کہ کوئی سیاسی پارٹی الیکشن سے بھاگ نہیں سکتی، اسی دن اس کی سیاست دفن ہو جائے گی، 63 اے کے قانون کو کس طرح سے ری رائٹ کیا گیا اور ہم نے اپیل دائر کی ہوئی ہے اس کا کچھ اتا پتا نہیں ہے، اسی فیصلے میں سیاسی جماعتوں نے بار بار استدعا کی کہ فریق بنایا جائے لیکن کسی نے اس کا نوٹس نہیں لیا۔وزیراعظم نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ آج وقت آ گیا ہے کہ ہم سب اسٹیک ہولڈر کو اپنے گریبان میں جھانکنا ہو گا اور ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہمیں پاکستان کے مستقبل اور آئندہ آنے والی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنانا ہے یا خدانخواستہ ذاتی پسند ناپسند کی لڑائیاں لڑ کر اس ملک کو ایسی جگہ پہنچانا جس سے واپسی ناممکن ہو جائے۔ہم آج بھی عدالت عظمی سے کہیں گے کہ وہ اپنے اس فیصلے پر نظرثانی کریں، فل کورٹ بنا دیں، جن ججوں نے معذرت کی تھی وہ نہ بیٹھیں، جو فیصلہ ہو گا ہم اس کو قبول کریں گے۔ ہمیں پاکستان کا مستقبل بچانا ہے، ہمیں بڑے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے اور ان کا سامنا اکیلا میں یا میری حکومت نہیں کر سکتی، سب کو مل کر کرنا ہو گا، تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل کر اپنا حصہ ڈالنا ہو گا، ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا اور وہ فیصلہ کریں جو پاکستان کے بہترین مفاد میں ہے۔درےں اثناءقومی اسمبلی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن کرانے کے فیصلے خلاف قرار داد منظور کر لی گئی۔قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر راجا پرویز اشرف کی صدارت میں شروع ہوا، وزیراعظم شہباز شریف بھی قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہوئے، وقفہ سوالات کے بعد وزیراعظم ایوان میں آئے تو اراکین نے ڈیسک بجا کر ان کا خیرمقدم کیا۔وفاقی وزیر پارلیمانی امور مرتضی جاوید عباسی نے ایوان میں تحریک پیش کی کہ رولز معطل کرکے قرارداد پیش کرنے کی اجازت دی جائے جس کی منظوری کے بعد بلوچستان عوامی پارٹی کے پارلیمانی لیڈر خالد مگسی نے سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کا فیصلہ مسترد کرنے کی قرارداد ایوان میں پیش کی۔قرار داد پیش کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 28 مارچ 2023 کو معزز ایوان کی منظور کردہ قرار داد میں از خود نوٹس کیس نمبر 1، 2023 کے سپریم کورٹ کے چار جج صاحبان کے اکثریتی فیصلے کی تائید کرتے ہوئے اس پر عملدرآمد اور اعلی عدلیہ سے سیاسی اور انتظامی امور میں بے جا مداخلت سے گریز کا مطالبہ کیا گیا تھا۔اکثر حلقوں نے بھی فل کورٹ کی تشکیل کا مطالبہ کیا تھا لیکن اسے منظور نہیں کیا گیا، نہ ہی ایک کے سوا دیگر سیاسی جماعتوں کا موقف سنا گیا، پارلیمنٹ کی اس واضح قرار داد اور سپریم کورٹ کے چار جج صاحبان کے اکثریتی فیصلے کو مکمل نظر انداز کرتے ہوئے تین رکنی مخصوص بینچ نے اقلیتی رائے مسلط کردی، جو سپریم کورٹ کی اپنی روایت، نظائر اور طریقہ کار کی بھی خلاف ورزی ہے۔خالد حسین مگسی نے مزید کہا کہ اکثریت پر اقلیت کو مسلط کر دیا گیا، تین رکنی اقلیتی بینچ کے فیصلے کو پارلیمان مسترد کرتی ہے اور آئین اور قانون کے مطابق اکثریتی بینچ کے فیصلے کو نافذ عمل قرار دیتی ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ اجلاس آئین پاکستان کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت دائر مقدمات کو فل کورٹ اجلاس کے فیصلوں تک سماعت کے لیے مقرر نہ کرنے کے عدالت عظمی کے تین رکنی بینچ کے فیصلے کی تائید کرتا ہے اور ایک ایگزیکٹیو سرکلر کے ذریعے اس پر عملدرآمد روکنے کے اقدام کو گہری تشویش کی نظر سے دیکھتا ہے۔رکن قومی اسمبلی خالد حسین مگسی نے کہا کہ یہ ایوان اسی عدالتی فیصلے کو عجلت میں ایک اور متنازع بینچ کے روبرو سماعت کے لیے مقرر کرنے اور چند منٹوں میں اس پر فوری فیصلے پر بھی شدید تحفظات کا اظہار کرتا ہے کہ ایسا عمل سپریم کورٹ کی روایات اور نظائر کے صریحا خلاف ہے لہذا یہ ناقابل قبول ہے۔ان کی طرف سے پیش کردہ قرار داد میں مزید کہا گیا کہ یہ ایوان سیاسی معاملات میں بے جا عدالتی مداخلت پر تشویش کا اظہار کرتا ہے، حالیہ اقلیتی فیصلہ ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کررہا ہے اور وفاقی اکائیوں میں تقسیم کی راہ ہموار کر دی گئی ہے، لہذا یہ ایوان ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام کے لیے آئین اور قانون میں درج طریقہ کار کے عین مطابق ملک بھر میں ایک ہی وقت پر عام انتخابات کے انعقاد کو ہی تمام مسائل کا حل سمجھتا ہے۔قرار داد میں مزید کہا گیا کہ یہ ایوان تین رکنی بینچ کا اقلیتی فیصلہ مسترد کرتے ہوئے وزیراعظم اور کابینہ کو پابند کرتا ہے کہ اس خلاف آئین و قانون فیصلے پر عمل نہ کیا جائے۔ یہ ایوان دستور کے آرٹیکل 63 اے کی غلط تشریح اور اسے عدالت عظمی کے فیصلے کے ذریعے ازسرنو تحریر کیے جانے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کرتا ہے کہ عدالت عظمی کا فل کورٹ اس پر نظر ثانی کرے۔پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی محسن لغاری نے قرارداد کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ میرا پارلیمنٹری تجربہ یہ بتاتا ہے جو مخالفت کرنے والے لوگ ہوتے ہیں، انہیں قرارداد پر ووٹنگ کروانے سے قبل بولنے کا موقع دیا جاتا ہے تاکہ وہ بھی اپنا کیس پیش کرسکیں۔ میں بار بار یہ کہنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ ہم اگر ایک اصول اور طریقے کے ساتھ چلیں گے تو میرے خیال میں اس ملک کے لیے بھی بہتری اسی میں ہوگی ۔ اس ایوان کو ایک ایوان ہی رہنے دیں، ہم اس کو جلسہ گاہ نہ بنائیں تو بہتر ہوگا۔قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے پبلک اکانٹس کمیٹی کے چیئرمین نور عالم خان نے کہا کہ احتساب سب کا ہونا چاہئے، سپریم کورٹ کے ججوں کا بھی آڈٹ ہونا چاہئے، پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کرپشن کے جو کیسز بے نقاب کرتی ہے اس پر سپریم کورٹ حکم امتناعی جاری کر دیتی ہے۔نور عالم خان نے کہا کہ ایوان کے اندر اور باہر موجود جماعتوں کے لیڈروں سے استدعا ہے کہ وہ پاکستان کی وفاقیت کو نقصان نہ پہنچائیں، ایک سابق وزیراعظم یہ کہتے ہیں کہ پختونوں کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے تاہم گذشتہ ایک سال میں پختونوں کے خلاف کوئی ظلم نہیں ہوا، انہیں انتخابات کی فکر ہے تاہم یہ فکر نہیں کہ غریب کو آٹا میسر نہیں، معیشت تباہ ہو رہی ہے، سڑکیں بلاک کرکے انتشار پھیلایا جا رہا ہے جس کی وجہ سے آئی ایم ایف نے بھی نخرے شروع کر دیئے ہیں۔پاکستان کے غریب عوام اور معیشت کے لیے سوچیں اور انتشار ختم کریں، 2010 سے پی اے سی میں ہوں، صرف ایک ادارہ سپریم کورٹ آف پاکستان ہے جس کا آڈٹ پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی میں نہیں ہوتا، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے عرض ہے کہ کونسے قانون کے تحت وہ آڈٹ نہیں کرا رہے، کس قانون کے تحت تنخواہیں بڑھائی جا رہی ہیں، کس قانون کے تحت افسران کو بلا کر زبردستی پلاٹ دیئے جاتے ہیں، ہم نے سی ڈی اے کو بلا کر پوچھا کہ بتایا جائے کہ کونسا مراعات یافتہ طبقہ ہے جسے پلاٹ ملے، اس میں اراکین پارلیمنٹ اور کابینہ کے اراکین شامل نہیں۔ بھاشا ڈیم فنڈ کا آڈٹ کرانا چاہتے ہیں جہاں پر پاکستان کے عوام اور اداروں نے فنڈز دیے، وہاں اسٹیٹ بینک کو کہا گیا کہ آڈیٹر جنرل پاکستان کو اس کی تفصیلات نہیں دینی، ایسا کونسا قانون ہے کہ یہ احتساب سے ڈرتے ہیں، میرا روزانہ احتساب ہوتا ہے، ہم احتساب سے نہیں ڈرتے، ہمارے حلقہ کے عوام ہمارا احتساب کرتے ہیں، نیب، ایف آئی اے، ایف بی آر، الیکشن کمیشن سمیت ہر جگہ جوابدہ ہیں۔مجھے بتائیں کہ عمران خان نے 300 کنال زمین کیسے بنائی، بلٹ پروف گاڑی کہاں سے لائی، زمان پارک کا نیا گھر کس نے بنایا۔
