گلگت بلتستان کو زراعت میں خودکفیل بنانے کا عزم



 وزیراعلی گلگت بلتستان خالد خورشید نے ایفاد ای ٹی آئی پروجیکٹ کو گلگت بلتستان کے تمام اضلاع تک وسعت دینے اور اس منصوبے کے تحت بونجی ضلع استور، ضلع نگر اور سکردو میں مختلف زمینوں کی آباد کاری کیلئے ایگریمنٹ پر دستخطوں کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ زراعت حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے جس کی وجہ سے زراعت کی سٹیئرنگ کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ فوڈ سیکیورٹی کے حوالے سے مستقبل کے درپیش چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے زراعت کے شعبے پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔ گلگت بلتستان کی پینسٹھ فیصد آبادی کا انحصار زراعت پر ہے۔ اس اہم شعبے پر توجہ دے کر صوبے میں غربت پر قابو پایا جاسکتا ہے اور فوڈ سیکیورٹی کو یقینی بناسکتے ہیں۔ صوبائی حکومت لینڈ ریفارمز کے تحت عوام کو زمینوں کی ملکیتی حقوق دے گی اور زرعی زمینوں کو تحفظ فراہم کرے گی۔ آئندہ تین سے چار سالوں میں گلگت بلتستان کو زرعی شعبے میں خودکفیل بنائیں گے۔ہماری کوشش ہے کہ زرعی شعبے میں گلگت بلتستان کو دیگر صوبوں کیلئے ایک مثال بنائیں۔ای ٹی آئی کے تحت سکولوں کی سطح پر زراعت کے افادیت کے مختلف پروگرامز کا انعقاد کیا جائے گا اور صوبے میں پہلا بین الاقوامی زرعی ایکسپو کا انعقاد کیا جائے گا۔ وزیراعلی گلگت بلتستان خالد خورشید نے زراعت کے شعبے کی ترقی کو اپنی حکومت کی اہم ترجیحات کا حصہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ صوبائی حکومت صوبے میں زراعت کے شعبے کو جدید خطوط پر استوار کرنے، زرعی پیداوار میں خود کفالت حاصل کرنے اور زراعت کے شعبے کو ترقی دے کر لوگوں کے لئے خودروزگار ی کے مواقع پیدا کرنے کے لئے ایک مربوط حکمت عملی کے تحت اقدامات اٹھارہی ہے۔ صوبے میں زراعت کے شعبے کو جدید عصری تقاضوں کے مطابق ترقی دینے کی ضرورت ہے ۔حکومت کو زرعی پیداوار میں خود کفالت کو فوڈ سیکیورٹی پالیسی کے علاوہ اس پالیسی پر عملدرآمد کے لئے ایک قابل عمل ایکشن پلان بھی تیار کرنا چاہیے جو قلیل المدتی ، وسط المدتی اور طویل المدتی اقدامات پر مشتمل ہو۔ فوڈ سیکیورٹی پالیسی میں ایک کثیر الجہتی پالیسی بنائی جائے  جس میں زراعت کے شعبے سے جڑے تمام دیگر ذیلی شعبوں کا احاطہ کیا جائے۔اس پالیسی پر عملدرآمد کے نتیجے میں صوبہ زرعی پیداوار میں خود کفیل ہو جائے گا۔ زرعی شعبے میں خود کفالت ایک اہم پیشرفت ہو گی ۔زراعت کا شعبہ ہماری ترقی اور معیشت کی مضبوطی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کی ترقی ہماری قومی اور مجموعی ترقی کا سبب ہے اور اس کی تنزلی اور مسائل ہمارے قومی تنزل کا سبب ہیں۔ کسان، زمیندار کا زراعت اور قومی ترقی میں کردار بہت اہم اور بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ زراعت ہمارے ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کو خوراک و غذا پہنچانے کا اہم ذریعہ ہے۔ اللہ تعالی نے پاکستان کو زرخیز اور دنیا کے بہترین نہری و آبپاشی نظام اور محنتی و جفا کش افرادی قوت سے نوازا ہے۔ زراعت ہمارے مجموعی جی ڈی پی کا تقریبا اکیس فیصد اور تقریبا کل43فیصد لوگوں کی ملازمت اس پیشے سے وابستہ ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے فوڈ اینڈ ایگری کلچرل آر گنائزیشن کی عالمی درجہ بندی کے مطابق پاکستان کا شمار چنے پیدا کرنے میں دنیا میں دوسرا، خوبانی، کپاس، دودھ، پام ، کھجور میں چوتھا، گنے اور پیاز میں پانچواں ، کینو اور آم میں چھٹا، گندم میں آٹھواں اور چاول پیدا کرنے والے ممالک میں دنیا میں اس کا11واں نمبر ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان مسلم ممالک میں زرعی اجناس کی پیداوار کے سلسلے میں تیسرا بڑا اور دنیا کا آٹھواں بڑا ملک ہے۔پاکستان اپنی زرعی اجناس برآمد بھی کرتا رہا ہے۔ پاکستان چاول،کپاس، مچھلی، پھل خاص طور پر آم ،کینو اور سبزیاں وغیرہ دوسرے ممالک کو بھجواتا ہے، جبکہ گندم، کپاس اور دالیں بیرون ممالک سے منگواتا ہے۔ پاکستان ایشیا کی سب سے بڑی اونٹ مارکیٹ، خوبانی اور گھی کی دوسری بڑی مارکیٹ اور کپاس، پیاز اور دودھ کی ایشیا کی تیسری بڑی مارکیٹ ہے۔ مجموعی طور پر زراعت کی اہمیت اور افادیت جدید دور میں بڑھتی جا رہی ہے۔ آبادی اور ضروریات بڑھ رہی ہیں۔ نئی نئی ٹیکنالوجی اور مشینری دنیا میں متعارف ہو رہی ہے اور زراعت کو جدید اور منافع بخش بنانے کے لئے حکومتی اور نجی سطح پر زیادہ سے زیادہ سہولتیں، چھوٹ، مراعات اور اہمیت دی جا رہی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ ہمیں اس سلسلے میں قابل ذکر اور قابل فہم لیکن قابل حل مسائل کا سامنا ہے۔ سیلاب ہوں یا قدرتی آفات، مہنگائی ہو یا زرعی اجناس کی قیمتوں کا تعین، کھادیں، بیج، کیمیکلز، سپرے، زرعی آلات روز بروز ہمارے کسان کی پہنچ سے باہر ہو رہے ہیں۔ ہمارا زمیندار کم پڑھا لکھا اور اسے جدید زرعی اصلاحات و معلومات اور علوم سے آگاہی نہیں ہے۔ بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ اور پانی کی کم دستیابی نے کسان کے مسائل بڑھا دیئے ہیں، لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ زراعت جیسے اہم اور ملکی معیشت میں ریڑھ کی رہڈی کی حیثیت رکھنے والے اس شعبے کو کماحقہ اہمیت دی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ محکمہ لائیو سٹاک اور جنگلات کی ترقی میں بھی بھرپور دلچسپی بہت اہم ہے۔ کسانوں اور زمینداروںکو زیادہ سے زیادہ سہولتیں اور مراعات دی جانی چاہیں۔ معلومات کی فراہمی، حکومتی اور نجی اداروں کی طرف سے آسان اقساط پر قرضوں کا اجرائ، زرعی ٹیکس میں کمی، جدید ٹیکنالوجی اور مشینری کی کم قیمت اور سبسڈی پر کسانوں کو فراہمی، پانی کی وافر مقدار میں دستیابی، لوڈشیڈنگ میں کمی اور زرعی اجناس کی قیمتوں کے تعین میں کسانوں کو اعتماد میں لینا بہت اہم ہے۔ کسان خوش حال ہو گا ،تو ملک خوشحال ہو گا۔ پاکستان میں زراعت کو جدید خطوط پر استوار کرنے میں حکومت کے ساتھ ساتھ نجی شعبہ بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ کسانوں کو مفت مشورے، زرعی ادویات، سپرے، جدید بیجوں اور ٹیکنالوجی اور آلات کی فراہمی، کھادوں اور کیمیکلز کی دستیابی اور فی ایکڑ پیداوار بڑھانے میں مدد دینے میں نجی شعبہ نمایاں اہمیت اختیار کر رہا ہے۔پاکستان کو بڑھتی ہوئی آبادی، آبپاشی کے غیر معیاری نظام اور زرعی شعبے میں تحقیق نہ ہونے کے باعث مشکلات کا سامنا ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے کسان طبقے کے حقوق کیلئے اصلاحات کرنی ہوں گی اور اضافی خوراک کی پیداوار کیلئے حکومت تمام ضروری وسائل کی فراہمی کو ممکن بنائے ۔ہمارا کسان محنتی اور جفاکش ہے' پاکستان کو زرعی شعبے میں خود کفیل بنانے کیلئے ہمیں اپنی زراعت کو جدت دینا ہوگی پاکستان میں قومی و بین الاقوامی معیاری فوڈز چین کو فروغ مل رہا ہے جو معاشی و معاشرتی طور پر بھی فائدہ مند ہے اس سے کاروبار کو فروغ اور روزگار کے مواقع فراہم ہورہے ہیں۔سابقہ دور میں بھی سابق وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہہ چکے ہیں کہ ایفاد پراجیکٹ زرعی شعبے میں خود کفالت کی منزل حاصل کرنے کیلئے سنگ میل ثابت ہوگا۔ ایفاد پراجیکٹ کے تحت قابل کاشت بنانے والے زمینوں کوزرعی مقاصد کیلئے استعمال لازمی بنایا جائیگا۔ مرحلہ وار زمینوں کی ملکیت عوام کو دی جائیگی۔ ان زمینوں کیلئے واٹر پالیسی بنائی جائیگی۔ ایم بی آر کوفعال کیا جائیگااور زمینوں کا ریکارڈ کمپیوٹرایز کیا جائیگا۔ ایفاد پراجیکٹ کے تحت تقریبادولاکھ کنال زمین کو قابل کاشت بنا کر ان زمینوں تک پانی اور روڈ کی رسائی ممکن بنائی گئی۔ ہے۔ ان زمینوں کے مالکانہ حقوق عوام کو دیے جائینگے اور ان زمینوں کو زرعی مقاصد کیلئے ہی استعمال لازمی قرار دی جائیگی۔ زمینوں کا ریکارڈ مرحلہ وار کمپیوٹرایز کیا جائیگا۔ایفاد پراجیکٹ کی کامیابی کو مدنظر رکھتے ہوئے چار اضلاع سے وسعت دے کر ایفاد پراجیکٹ کو گلگت بلتستان کے تمام اضلاع میں شروع کیا جارہا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ زراعت کی ترقی کے حوالے سے اعلانات کی بجائے عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے تاکہ زراعت کے حوالے سے منصوبوں کو عملی شکل دے کر ان سے حقیقی معنوں میں فائدہ اٹھایا جا سکے۔علاوہ ازیں زرعی شعبہ میں خود کفالت کے حصول کیلئے جدید ٹیکنالوجی کا فروغ وقت کی ضرورت ہے، اس سے ویلیو ایڈیشن کو فروغ ملے گا، کاشتکاروں کی بھی مالی حالت بہتر ہو گی۔