گلگت بلتستان اسمبلی نے گلگت بلتستان کے سرکاری ملازمین کاترمیمی بل2022 برائے ڈاکٹرزکی کثرت رائے سے منظوری دی ہے جس کے تحت بعض امراض کے ماہرڈاکٹروں کی ریٹائرمنٹ کی عمر60 سال سے بڑھاکر65 سال کردی ہے۔ وزیر قانون سید سہیل عباس شاہ نے بل ایوان میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ ایکٹ2011کے سیکشن گیارہ ون میں ترمیم حکومت کے پاس آئی تھی ہم نے ہرممکن کوشش کی مگر بعض شعبوں کے سپیشلسٹ ڈاکٹرز دستیاب نہیں ہیں جس کی وجہ سے مجبورا ہم نے بعض شعبوں کے ماہرڈاکٹروں کی ریٹائرمنٹ کی عمر کی حد60 سال سے بڑھا کر 65 سال کردی ہے امجدحسین ایڈووکیٹ نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ڈاکٹروں کی ترقی رک جائے گی اس لئے اگرمجبوری ہے توریٹائرمنٹ کے بعدڈاکٹروں کو پانچ سال کے لئے کنٹریکٹ پر تقرری کی جائے۔حاجی خالق نے کہا کہ پورے ملک میں ملازمین اورڈاکٹروں کی ریٹائرمنٹ کی عمر60سال ہے ۔وزیراعلی اس میں پانچ سال کااضافہ کرکے نہیں معلوم کس کونوازناچاہتے ہیں وزیرصحت حاجی گلبرخان نے کہا کہ جب ہم نے اقتدار سنبھالاتوگلگت بلتستان میںڈاکٹروں کی شدید قلت تھی ہم نے کوشش کرکے کافی حدتک ڈاکٹروں کی کمی کوپورا کیا ہے مگر بعض امراض کے ماہرڈاکٹردستیاب نہیں ہیں جس کی وجہ سے مجبوراہم نے یہ قدم اٹھایا ہے۔وزیراعلی خالدخورشید خان نے کہا کہ ہم نے ریٹائرہونے والے ڈاکٹروں کو کنٹریکٹ پربھرتی کرنے کی بڑی کوشش کی مگرریٹائرہونے کے بعد ڈاکٹردوبارہ سرکاری نوکری کرنانہیں چاہتے ۔ انہوں نے کہا کہ بعض امراض کے سپیشلسٹ ڈاکٹروں کی پوری دنیا میں قلت ہے‘ بیہوشی کے ڈاکٹروں کی ترقی یافتہ ممالک میں بھی قلت ہے ۔حکومت نے اس حوالے سے باقاعدہ ڈاکٹروں اورہسپتال کے اعلی آفےسران سے مشاورت کی جس کے بعد ہم نے بل میں ترمیم تجویزکی ہے اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں تھا۔سرکاری ملازمےن کی عمر کی حد میں اضافے کے حوالے سے مختلف آراءپائی جاتی ہےں اس ضمن میں اپنے اپنے دلائل ہےں کچھ عرصہ قبل ےنگ ڈاکٹرز ایسو سی ایشن گلگت بلتستان نے اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کی ریٹائرمنٹ کی عمر کی حد 60 سال سے 65 سال کرنے کی مذمت کی تھی ان کا کہنا تھا کہ عمر کی حد میں اضافہ طبی شعبے میں خدمات انجام دینے والون سے زیادتی ہے۔ بہت سے جونےئر ڈاکٹر بے روزگار ہیں اور مستقبل قریب میں اپنی اسپیشلائزیشن مکمل کرنے کے قریب ہیں جنہیں اس فیصلے سے بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا۔ پورے ملک میں کہیں بھی ایسا قانون موجود نہیں ہے لیکن جی بی حکومت خلاف قانون کام کر رہی ہے جس سے بہت سارے ڈاکٹروں کا حق مارا جائے گا۔ اس فیصلے سے وہ ڈاکٹر بھی متاثر ہوں گے جو ساٹھ سال کی عمر کے بعد ریٹائر ہونا چاہتے ہیں۔ اس فیصلے سے ان کے اگلے گریڈ میں ترقی پانے کے امکانات بھی کم ہو جائےںگے۔ ےہ بات مانی جا سکتی ہے کہ سپےشلائزڈ ڈاکٹرز کی کمی ہے لےکن اس کا حل ےہ نکالا جا سکتا ہے کہ جونےئرز ڈاکٹرز کو سےنئرز کے ساتھ کام کرنے کا موقع دےا جائے تاکہ وہ اپنا تجربہ انہےں منتقل کر سکےں‘ےہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس طرح دوسروں کا حق مارا جاتا ہے اور حقداروں کو آگے آنے کا موقع نہےں ملتا‘کوئی بھی ناگزےر نہےں ہوتا‘کےا انتہائی سےنئر سےاستدانوں کی بجائے انتہائی جونےئر پارٹےوں کے سربراہ اور حکمران نہےں بنے۔ہم جانتے ہےں کہ وفاقی حکومت نے بھی غورو خوض کے بعد سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں تین سال کا اضافہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔صوبہ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی سابق صوبائی حکومت نے سرکاری ملازمین کی عمر کی حد 60 سے بڑھا کر 63 سال کر دی تھی اور اس کا ےہ جواز پےش کےا تھا کہ اس کا مقصد سالانہ بنیادوں پر چوبےس ارب روپے کی بچت ہوگی اور اس رقم کو ترقیاتی منصوبوں میں استعمال کیا جائے گا۔ پشاور ہائی کورٹ نے خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر 60 سال سے بڑھا کر 63 برس کرنے کا فیصلہ کالعدم کردیا تھا۔چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے کہا تھاکہ ےہ صرف خیبر پختونخوا کے لیے کیوں ہے، یہ پورے ملک کے لیے کیوں نہیں حالانکہ آپ کے چیف سیکرٹری نے بھی اعتراض کیا ہے کہ یہ فیصلہ وقتی فائدہ دے گا لیکن تین سال بعد پھر مسئلہ ہوگا۔صوبائی وزیر خزانہ تیمور جھگڑا نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد اعلان کیا تھا کہ اس کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے۔حکومت نے کہا تھا کہ بھارت میں تعلیم اور صحت کے شعبوں میں موجود ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سال سے زائد ہے اور چند دیگر ممالک میں عمر کی حد 67 سال سے بھی زائد ہے۔ آئین کی دفعہ 240 ب کے تحت صوبائی حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ اس بارے میں صوبائی اسمبلی میں قانون سازی کی جاسکے۔ ابتدا میں سول سرونٹ ایکٹ 1973 میں سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر 50 سال مقرر کی گئی تھی جس کے بعد اسے بڑھا کر 60 برس کردیا گیا تھا۔ پاکستان میں اوسط عمر 1973 میں 55 برس سے بڑھ کر 2018 میں 63 سال ہوچکی ہے تقریبا پانچ ہزار ملازمین ہر سال ریٹائر ہوتے ہیں جبکہ قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی شرح بھی 50 فیصد ہے۔وفاقی حکومت کے ڈاکٹر عشرت حسین کا کہنا تھا کہ ہمارا ملک دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں نوجوانوں کی بڑی تعداد ہر سال نوکری کی عمر تک پہنچتی ہے۔ ہم اس تعداد کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ ہر سال وفاق میں قریبا 12 سے 14 ہزار سرکاری نوکریاں دستیاب ہوتی ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے نوجوانوں کو یہ نوکریاں ملیں اور ان کا راستہ نہ رکے، اس لیے ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں وزیراعظم کو رپورٹ جلد پیش کی جائے گی۔ےہ درست ہے کہ بھارت کے اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی کمی کی وجہ سے ریاستی حکومت نے فیصلہ کیا تھا کہ ڈاکٹروں کی ریٹائرمنٹ کے لئے عمر کی حد کو 60 سال سے بڑھاکر 65 سال کردی جائے حالانکہ اسپتالوں میں خدمات انجام دینے والے سینئر ڈاکٹروں نے اس فیصلہ کی مخالفت کی ، ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ نئی نسل کو میڈیکل کے شعبہ میں آنے کی ضرورت ہے، تاکہ ضعیف اور عمر دراز ڈاکٹروں کوآرام مل سکے جبکہ حکومت کا کہنا تھا کہ اس وقت ڈاکٹروں کی بہت کمی ہے، جس کی وجہ سے سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کو پریشانیوں کا سامنا ہے، ہر پانچ ہزار مریضوں کے لئے صرف ایک ڈاکٹر ہے، جس کی وجہ سے مناسب طریقہ سے سرکاری اسپتالوں میں کام نہیں ہو پا رہا ہے، حکومت کو چاہئے کہ پوسٹ گریجویٹ میڈیکل طلبا وطالبات سے اس سلسلہ میں خدمات لی جاسکتی ہیں، حکومت کو چاہئے کہ میڈیکل سے جڑے طلبا وطالبات کو تمام بنیادی سہولیات فراہم کرے، تاکہ میڈیکل کورس مکمل کرنے کے بعد وہ بیرونی ممالک جا نے کے بجائے اپنی ہی ملک میں خدمات کو جاری رکھنے کے لئے ترجیح دیں، ےہ موقف بھی سامنے آےا کہ ڈاکٹروں کےلئے عمر کی حد بڑھاکر پےنسٹھ سال کرنے سے میڈیکل مسائل حل نہیں ہوسکتے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ڈاکٹروں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے، جس قدر ڈاکٹروں کی تعداد میں اضافہ ہوگا اسی قدر مریضوں کو سہو لیات فراہم ہوں گی، سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کی تشخیص آسانی سے بروقت ہوسکے گی۔حکومت اس پر غورکرے اور ملک میں تیار ہورہے نئے ڈاکٹروں کو تمام تر سہولیات کے ساتھ معقول تنخواہ بھی دے تو ڈاکٹر اپنے اپنے علاقوں میں ہی کام کرنے کو ترجیح دیں گے، ساٹھ سال سے زائد عمر میں ڈاکٹروں کو کافی تجربہ ہوتا ہے ، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ان کی تندرستی بھی بحال ہوگی، اس لئے اس عمر میں عام طور لوگ کمزور ہوجاتے ہیں، ڈاکٹر بھی انہیں میں شامل ہیں، بعض دفعہ جسمانی اور ذہنی طور پر ڈاکٹر کافی کمزور ہوچکے ہوتے ہیں، انہیں آرام کی ضرورت ہوتی ہے، ایسے میں ان سے طبی خدمات لینا کسی بھی طرح سے مناسب نہیں ہوگا۔ہم سمجھتے ہےں کہ صورتحال کے تناظر میں جو بھی فےصلہ کےا جائے اس کےلئے تمام سٹےک ہولڈرز کی مشاورت کو ےقےنی بناےا جائے تاکہ مشترکہ فےصلوں کو ےقےنی بناےا جا سکے‘ ہر فےصلے میں جہاں خوبےاں ہوتی ہےں وہاں خرابےاں بھی پائی جاتی ہےں۔ادارہ جاتی کامےابی اسی میں مضمر ہوتی ہے کہ وہ آئندہ صورتحال کے تناظر میں اپنا لائحہ عمل مرتب کرے ملازمےن نے رےٹائر ہونا ہوتا ہے اور مشےت اےزدی کے تحت اپنی زندگی کے اےام بھی پورا کرنا ہوتے ہےں جن سے پتہ چلتا ہے کہ ےہی ناقابل تردےد سچ ہے لہذا فےصلوں کو اسی سچ کی بنےاد پر کےا جانا چاہےے۔
