وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سوست بارڈر کے ذریعے پاک چین راہداری کی تین سال بعد بحالی خوشی کا لمحہ ہے، جو سفر نومبر 2019 میں رکا تھا وہ 2023 میں پھر سے بحال ہوگیا۔خنجراب پاس دوبارہ کھلنے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عظیم آہنی بھائی چین کے ساتھ تجارت کی بحالی خوش آئند ہے، خنجراب پاس کھلنے سے سی پیک کی رفتار بڑھانے کی راہ میں ایک اور رکاوٹ دور ہوگئی، امید ہے کہ تجارتی راہداری کھ لنے سے دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں اضافہ ہوگا۔ 2018ءمیں سی پیک جس رفتار پر چھوڑ کر گئے تھے اسے دگنا سے زیادہ رفتار سے بڑھانا چاہتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ ایک فارن فنڈڈ شخص نے سی پیک کو متنازع بنانے کا جرم کیا، دونوں ممالک کی عظیم دوستی کی پیٹھ میں خنجر گھونپا، امید ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی سرگرمیوں میں ہر روز اضافہ ہوگا۔چین اور پاکستان کے حکام نے سی پیک کے تحت سرگرمیوں اور دوطرفہ تجارت کی بحالی کے لئے خنجراب پاس راہداری دوبارہ کھولنے کے تمام انتظامات مکمل کرلئے ہیں جس کے بعد سی پیک منصوبوں اور دوطرفہ تجارت میں ایک مرتبہ تیزی آجائے گی۔ معاہدے کے تحت گلگت بلتستان کی وادی س ست کے سرحدی مقام سے چین کے سنکیانگ ریجن روزانہ بس روانہ ہوتی ہے،چین پاکستان اقتصادی راہداری سی پیک فریم ورک کے تحت نومبر2016 سے یہ انتظام بہت اچھے انداز سے جاری تھا تاہم نومبر2019 میں اسے راہداری اور تجارتی وسفری انتظام کو بند کردیاگیاتھا۔ اس بندش کی وجہ کورونا وبا بیان کی گئی تھی۔ اس بندش کی وجہ سے ہزاروں لوگ بے روزگار ہوگئے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق ستر فیصد مقامی آبادی کی روٹی روزگار کا انحصار خنجراب پاس کے راستے ہونے والی تجارت اور آمدو رفت کی سرگرمیوں پر ہے۔اب پاک چین سرحد یکم اپریل کو تجارت کیلئے کھول دی جائے گی۔ کرونا کی وبا پھیلنے کے بعد سے اب تک پاک چین سرحد مسلسل بند ہے تاہم چین میں پھنسے سامان کی ترسیل کیلئے چند روز کیلئے جزوی طور پر سرحد کو کھولا گیا تھا۔ پاک چین سرحد بند رہنے سے گلگت بلتستان کے سینکڑوں تاجر دیوالیہ ہو گئے تھے۔ چیمبر آف کامرس نے تاجروں سے بارڈر پاس کیلئے درخواستیں وصولی کا عمل شروع کر دیا ہے، 10 اپریل سے بارڈر پاس کا اجرا ہوگا۔ وزیر خارجہ کی بہترین کوششوں کیوجہ پاک چائنہ دو طرفہ تجارت یکم اپریل 2023 سے شروع ہونے جا رہی ہے جوکہ گلگت بلتستان کے بارڈر ٹریڈ سے منسلک تاجروں کیلئے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ہم جانتے ہےں کہ فروری 2009 میں پاکستان اور چین نے آزاد تجارتی معاہدہ کیا جس سے دونوں ممالک کی تجارت جو 2002 میں صرف 1.3ارب ڈالر تھی، 2020 میں بڑھ کر 20ارب ڈالر تک پہنچ گئی جس میں چین سے پاکستان کو 18 ارب ڈالر اور پاکستان سے چین کو 2 ارب ڈالر کی ایکسپورٹس ہوئیں۔اس معاہدے سے چین نے 60 فیصد اور پاکستان نے صرف 4فیصد فائدہ اٹھایا لیکن پاک چین FTA کے دوسرے مرحلے میں چین نے پاکستان کو 363 اشیا ڈیوٹی فری ایکسپورٹ کی اجازت دی ہے جس سے 2021 میں دونوں ممالک کی تجارت بڑھ کر 27.82 ارب ڈالر ہوگئی جس میں چین سے پاکستان ایکسپورٹ 24.23ارب ڈالر اور پاکستان سے چین ایکسپورٹ 69 فیصد اضافے سے 3.6 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔پاک چین دوستی کا اہم باب سی پیک ہے جس کا بےس اپریل 2015 کو چینی صدر نے تاریخی معاہدہ کیا۔ اس معاہدے کے تحت چین نے پاکستان میں 65 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جس میں 34ارب ڈالر کے توانائی منصوبوں سے دس ہزار میگاواٹ اضافی بجلی پیدا کی گئی جبکہ 11ارب ڈالر کے انفراسٹرکچر اور گوادر پورٹ کے منصوبے ہیں۔ اسپیشل اکنامک زونز کے منصوبوں میں چین سے صنعتوں کی منتقلی دونوں ممالک کیلئے گیم چینجر ثابت ہوگی۔وزیر اعظم شہباز شریف نے چین کے ہم منصب لی کی چیانگ کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو میں کہا تھاک کہ پاکستان اقتصادی راہداری منصوبوں کو تیزی سے آگے بڑھانے کے لیے حکومت کا عزم پختہ عزم ہے ۔ وزیر اعظم نے حکومت کے موجودہ وقت میں جاری اور نئے سی پیک منصوبوں کو تیز کرنے کے عزم کا اظہار کیا جن سے پاکستان کی سماجی و اقتصادی ترقی میں بہت زیادہ تعاون حاصل ہوا ہے۔انہوں نے دونوں ممالک کو مل کر کام کرنے اور دونوں ممالک کی متعلقہ ایجنسیوں کے درمیان تعاون بڑھانے کی ضرورت کو اجاگر کیا تاکہ خصوصی اقتصادی زونز کو جلد از جلد مکمل طور پر فعال کیا جاسکے۔ پاکستان چین سسٹر سٹی شراکت داری کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے ان چینی حکام کے تجربے سے سیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا جو اپنے صوبوں میں خصوصی اقتصادی زونز قائم کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔انہوں نے خاص طور پر دونوں ممالک کے لیے اسٹریٹجک اہمیت کے حامل منصوبوں جیسا کہ ایم ایل ون پروجیکٹ پر چین کے ساتھ مل کر نئے جوش اور ولولے کے ساتھ کام کرنے کے عزم کا بھی اظہار کیا۔ پاکستان کی خودمختاری، علاقائی سالمیت اور قومی ترقی کے لیے مضبوط حمایت پر پڑوسی ملک کا شکریہ ادا کیا اور چین کے بنیادی مفاد کے تمام مسائل پر اپنی حکومت کی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کیا۔دونوں رہنماﺅں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ پاکستان اور چین دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ شراکت داری کو نقصان پہنچانے کی کسی کو بھی اجازت نہیں دیں گے۔انہوں نے اس بات کا بھی اعادہ کیا کہ پاکستان اقتصادی منصوبوں اور اداروں میں کام کرنے والے تمام چینی شہریوں کے تحفظ، سلامتی کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے اور لی کی چیانگ کو یقین دلایا کہ حکومت، پاکستان میں ان کی بہتر حفاظت کے لیے ضروری اقدامات اٹھانے کے لیے پرعزم ہے۔عوامی سطح پر روابط پر زور دیتے ہوئے شہباز شریف نے پاکستانی طلبہ کے خاندانوں کے جذبات سے بھی آگاہ کیا جو اپنی تعلیم دوبارہ شروع کرنے کے لیے چین واپس جانا چاہتے ہیں۔ چینی وزیر اعظم نے شہباز شریف کو اقتصادی تعاون بڑھانے، تجارت کو وسعت دینے اور چین سے پاکستان میں زیادہ سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے لیے چین کی تیاری کا یقین دلایا۔شہباز شریف اور لی کی چیانگ نے اس خیال کا اشتراک کیا کہ پاک چین ہمہ موسمی اسٹریٹجک تعاون پر مبنی شراکت داری کو دونوں ممالک کے عوام کے اہم مفادات کے ساتھ ساتھ ابھرتی ہوئی علاقائی صورتحال اور عالمی ماحول کے درمیان امن اور استحکام کے وسیع تر مفادات کی خدمت کو جاری رکھنا چاہیے۔اس مقصد کے لیے دونوں رہنماﺅں نے دوطرفہ تعاون کو مزید بڑھانے کے لیے تبادلوں کی رفتار کو بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔نئے دور کے تقاضے ابھرتے ہوئے چیلنجوں کے ساتھ ساتھ مواقع سے نمٹنے اور اپنے خطے کو تنازعات اور افراتفری سے دور کرنے کے لئے ایک نئے دور کا تقاضا کرتے ہیں، ہم اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ باہمی احترام اور تعاون کے جذبے کی بنیاد پر دوستانہ تعلقات ہیں اور اقوام متحدہ کے چارٹر، قراردادوں اور مسئلہ کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب تنازعات کا مذاکرات اورسفارت کاری کے لئے پرامن حل چاہتے ہیں ۔ چینی صدرشی جن پنگ نے اکثر کہا ہے کہ عالمی کارروائی ردعمل اور یکجہتی کی ضرورت ہے اس کھلتے ہوئے عالمی منظر نامے کے درمیان چین پاکستان تذویراتی شراکت داری میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے ۔ پاکستان آج اپنے آپ کو بے مثال تبدیلیوں کے دھانے پردیکھ رہا ہے جب وہ ایک مضبوط، پائیدار اورجامع اقتصادی ترقی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ چین موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لئے آوازاٹھا رہا ہے اور اس نے اس تباہی سے نمٹنے کے لئے اپنے طریقہ کار کو اپ گریڈ کیا ہے۔ہم ابتدائی وارننگ سسٹم، لچک دار انفراسٹرکچر کی تعمیر اور ڈیزاسٹرمینجمنٹ میں چین کی تکنیکی ترقی سے سیکھنے کے منتظر ہیں، علم پر مبنی معیشت قومی ترقی کے نئے محرک کے طور پر ابھری ہے۔ سی پیک کے اعلی معیارکی ترقی کے اگلے مرحلہ میں صنعت، توانائی، زراعت، ریل اور سڑکوں کے نیٹ ورک، گوادر پورٹ کو تجارت اور ترسیل، سرمایہ کاری اور علاقائی رابطوں کے مرکز کے طورپر ترقی دینے جیسے اہم شعبوں کو شامل کیا جائے گا، ہمارا مجموعی مقصد پاکستان کی جامع اور پائیدارترقی، سماجی و اقتصادی ترقی اور اپنے لوگوں کی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے سی پیک کی صلاحیت کو بروئے کار لانا ہے۔ مبصرین کے نزدیک پاکستان اور چین کی دوستی ان کے متعلقہ قومی مفادات کے تحت چل سکتی ہے، جغرافیائی قربت اور ماضی کے تجربات کی مشترکات نے ہمیں اکٹھا کیا ہوگا لیکن پاکستان میں ہمارے لئے اور حقیقی معنوں میں ہمارے دونوں ممالک کے لوگوں کے برادرانہ رشتے بہت گہرے ہیں جو بین الریاستی تعلقات کے عمومی اصولوں سے بالاتر ہیں اور ہمیں ایک ابدی اور لازوال رشتے میں پروتے ہیں۔ اپنے دوطرفہ ثقافتی تبادلوں کووسعت دینے اور دونوں ممالک کے لوگوں کو ایک دوسرے کے مزید قریب لانے کے لئے اپنی کوششوں کو تیز کرتے ہوئے ہمیں اپنے نوجوانوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ تبادلوں کی حوصلہ افزائی کرنے پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ ہماری دوطرفہ دوستی کی بہترین روایات کو آگے بڑھا سکیں اور ہمیں اس کی اہمیت سمجھنے میں مدد فراہم کریں۔ تیزی سے بدلتی دنیا میں پاکستان اورچین دونوں اپنے عوام کے روشن مستقبل کے ساتھ ساتھ خطہ کے امن و استحکام کے لئے کردار ادا کرنے کے لئے ایک مشترکہ ویژن کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، یہ ایک ذمہ داری ہے جو تاریخ نے ہمارے کندھوں پر ڈالی ہے اور ہم اسے ضرور نبھائیں گے۔
