خنجراب پاس کی بندش کا خاتمہ

پاکستان اور چین کے درمیان اہم تجارتی شاہراہ خنجراب پاس کو تین سال کے وقفے کے بعد دوبارہ کھول دیا گیا جسے کووڈ 19 کی وبا کے باعث تقریبا تین سال کی بندش کے بعد دوبارہ کھول دیا گیا ہے۔سرکاری خبر رساں ایجنسی اے پی پی کے مطابق گلگت بلتستان کو چین کے صوبہ سنکیانگ سے جوڑنے والے بائی پاس کو 2020 میں کووڈ 19 پھیلنے کے بعد بند کردیا گیا تھا۔ چینی حکام نے تجارت کے لیے پاس کو دوبارہ کھولنے سے متعلق خط پاکستانی حکام کو ارسال کردیا ہے۔خنجراب پاس کی چینی جانب کے حکام کو پاکستان سے سامان کی آمد شروع ہونے سے قبل کووڈکے حوالے سے تمام ضروری اقدامات کی ہدایت کی گئی ہے، اسی طرح پاکستانی سرحدی حکام کو بھی کووڈکے حوالے سے تمام اقدامات کے لیے کہا گیا ہے۔وزیراعظم شہباز شریف نے خنجراب پاس دوبارہ کھلنے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خنجراب پاس کھلنے سے سی پیک کی رفتار بڑھانے کی راہ میں حائل ایک اور رکاوٹ دور ہو گئی اور تین سال بعد پاکستان اور چین میں تجارتی راہداری کی بحالی بہت خوشی کا لمحہ ہے۔وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری بیان کے مطابق شہباز شریف نے کہا کہ عظیم آہنی بھائی چین کے ساتھ تجارت کی بحالی خوش آئند ہے اور امید ہے کہ تجارتی راہداری کھلنے سے دونوں ممالک میں تجارت میں اضافہ ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ تین سال بعد دونوں ممالک میں تجارتی راہداری کی بحالی بڑی خوشی کا لمحہ ہے، جو سفر نومبر 2019 میں رکا تھا وہ 2023 میں پھر سے بحال ہوگیا ہے، 2018 میں سی پیک جس رفتار پر چھوڑ کر گئے تھے اب میں اسے دوگنا رفتار سے بڑھانا چاہتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ سی پیک نوازشریف اور چین کی عظیم قیادت کا خطے اور عوام کے لیے خوشحالی اور ترقی کا تحفہ ہے، امید ہے کہ دونوں ممالک میں تجارتی سرگرمیوں میں ہر روز اضافہ ہوگا۔مسلم لیگ نون کے صدر نے کسی کا نام لیے بغیر کہا کہ ایک فارن فنڈڈ شخص نے سی پیک کو متنازع بنانے کا جرم کیا۔وزیراعظم نے تجارتی و سفری بحالی پر دونوں ممالک کے حکام اور ٹیم ممبرز کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ چین کی قیادت اور عوام کی پاکستان کے لیے محبت اورتعاون ناقابل فراموش ہے۔ایک معاہدے کے تحت دونوں ممالک کے درمیان درہ خنجراب کے ذریعے تجارتی اور سفری سرگرمیاں یکم اپریل سے شروع ہو کر 30 نومبر تک جاری رہیں گی، جبکہ گلگت بلتستان کی وادی سوست سے چین کے صوبے سنکیانگ تک روزانہ بس سروس ہوگی۔واضح رہے کہ سرد موسم اور اونچائی پر آکسیجن کی کمی کے باعث درہ خنجراب عام طور پر ہر سال یکم اپریل سے 30 نومبر تک کھلتا ہے اور یکم دسمبر سے 31 مارچ تک بند رہتا ہے تاہم پاکستان کی فوری ضرورت اور دیگر سامان کی ہموار کسٹم کلیئرنس کو یقینی بنانے کے لیے پورٹ کو اس سال کے اوائل میں دو بار عارضی طور پر کھولا گیا تھا۔انتہائی سرد موسم، شدید برف باری اور آکسیجن کی کمی سمیت مشکلات کے باوجود مقامی کسٹمز نے سامان کی نقل و حمل کو یقینی بنانے کے لیے 24 گھنٹے کام کیا ہے۔اس سال خنجراب پاس کو عارضی طورپر 30 جنوری سے 10 فروری کے درمیان 12 دن کے لیے کھولا گیا تھا جبکہ پورٹ 19 سے 20 جنوری کے درمیان کھلی تھی۔سرحدی گزر گاہ کے دوبارہ کھلنے سے دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی سرگرمیوں کو فروغ دینے میں مدد ملے گی۔سی پیک کے تحت چین اور پاکستان کے درمیان پہلی تجارتی سرگرمی نومبر 2016 میں قراقرم ہائی وے کے ذریعے شروع ہوئی تھی، تاہم دونوں ممالک کے درمیان کورونا وائرس کی منتقلی روکنے کے لیے خنجراب پاس نومبر 2019 میں ہی بند کر دیا گیا تھا۔ نئی حکومت کو کئی چیلنجوں کا سامنا ہے جن میں سے ایک چیلنج پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت ترقی کے اہم منصوبوں کو روبہ عمل لانا اور ان کی تکمیل ہے۔ وزیر اعظم پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبوں کے حوالے سے اس لئے بھی زیادہ پر عزم ہیں کہ وہ بیرونی دنیا سے سرمایہ کاری کرواکر پاکستان میں ترقی و روزگار اور کاروبار کے نئے مواقع پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ پر اب ٹھوس بنیادوں پر اب کام کرکے ان کو ثمر آور بنا کر حقیقت کے روپ میں عوام کے سامنے لانا ہے۔منصوبے سے پاکستان میں روزگارکے مواقع میں اضافہ ہوا ہے ، چین کی ایک پٹی ایک شاہراہ چھے راہداریوں میں سے ایک اہم اقتصادی راہداری ہے۔ سی پیک منصوبے کے تحت چین پاکستان میں اربوں ڈالرز سے زائد کی سرمایہ کاری کررہاہے ۔اس میں سے 34 ارب ڈالرز صرف توانائی کے حوالے سے شروع کئے گئے بیشتر منصوبوں پرخرچ ہو رہے ہیں اوران منصوبوں میں اکثرتکمیل کے مراحل کی جانب تیزی سے گامزن ہیں۔ سی پیک کے تحت 22 ارب ڈالرکی رقم بنیادی ڈھانچے اوردیگرمنصوبوں کے لئے مختص کی گئی ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت ملک بھرمیں نو اقتصادی زونز قائم کئے جائیں گے۔ سی پیک کی وجہ سے ملک میں روزگار کے نئے مواقع میں اضافہ ہورہا ہے۔صنعتی بستی کے قیام کے لئے اقدامات کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے۔ اقتصادی زون میں پھلوں اوراشیائے خوراک کی پیکیجنگ، ٹیکسٹائل سٹچنگ و نیٹنگ اوردیگر متعلقہ صنعتوں کے قیام اوران کے لئے سہولیات پر توجہ دی جائے گی۔چینی اخبار گلوبل ٹائمز میں اپنے لکھے گئے ایک آرٹیکل میں وزیراعظم نے کہا کہ پاک چین دوستی جیسا کوئی رشتہ نہیں جو ہمارے لوگوں کی روح کو گہرا کرتا ہو، پاکستان کے لئے چین کے ساتھ تعلقات ہماری خارجہ پالیسی کی بنیاد ہیں، چین میں پاکستان کو آئرن برادر کہا جاتا ہے جبکہ ہمارے تعلقات کو دنیا میں منفرد مضبوطی، پائیدار استحکام اور قابل اعتبار بنیادوں پر سراہا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اکےسویں صدی کے تقاضے ابھرتے ہوئے چیلنجوں کے ساتھ ساتھ مواقع سے نمٹنے اور اپنے خطے کو تنازعات اور افراتفری سے دور کرنے کے لئے ایک نئے دور کا تقاضا کرتے ہیں، ہم اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ باہمی احترام اور تعاون کے جذبے کی بنیاد پر دوستانہ تعلقات ہیں اور اقوام متحدہ کے چارٹر، قراردادوں اور مسئلہ کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب تنازعات کا مذاکرات اورسفارت کاری کے لئے پرامن حل چاہتے ہیں ۔ چینی صدرشی جن پنگ نے اکثر کہا ہے کہ عالمی کارروائی ردعمل اور یکجہتی کی ضرورت ہے اس کھلتے ہوئے عالمی منظر نامے کے درمیان چین پاکستان تذویراتی شراکت داری میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے ۔شہباز شریف نے کہا کہ کووڈ 19 وبائی مرض کے بعد چین نے پاکستان کے ساتھ جو یکجہتی اور امداد فراہم کی ہے وہ ہماری کل وقتی دوستی کی واضح مثال ہے۔ پاکستان آج اپنے آپ کو بے مثال تبدیلیوں کے دھانے پردیکھ رہا ہے جب وہ ایک مضبوط، پائیدار اورجامع اقتصادی ترقی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ چین موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لئے آوازاٹھا رہا ہے اور اس نے اس تباہی سے نمٹنے کے لئے اپنے طریقہ کار کو اپ گریڈ کیا ہے۔ ہم ابتدائی وارننگ سسٹم، لچک دار انفراسٹرکچر کی تعمیر اور ڈیزاسٹرمینجمنٹ میں چین کی تکنیکی ترقی سے سیکھنے کے منتظر ہیں، علم پر مبنی معیشت قومی ترقی کے نئے محرک کے طور پر ابھری ہے۔ سی پیک کے اعلی معیارکی ترقی کے اگلے مرحلہ میں صنعت، توانائی، زراعت، ریل اور سڑکوں کے نیٹ ورک، گوادر پورٹ کو تجارت اور ترسیل، سرمایہ کاری اور علاقائی رابطوں کے مرکز کے طورپر ترقی دینے جیسے اہم شعبوں کو شامل کیا جائے گا، ہمارا مجموعی مقصد پاکستان کی جامع اور پائیدارترقی، سماجی و اقتصادی ترقی اور اپنے لوگوں کی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے سی پیک کی صلاحیت کو بروئے کار لانا ہے۔پاکستان میں چینی عملہ اور منصوبوں کی حفاظت ہماری اولین ترجیح ہے، پاکستان میں قیمتی چینی جانوں کا ضیاع ہمارا نقصان ہے، ہم کسی کو اپنی قریبی دوستی اور مضبوط اقتصادی شراکت داری کو نقصان نہیں پہنچانے دیں گے، ہماری حکومت ان قابل مذمت حرکتوں کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑے گی۔ مبصرین کے نزدیک پاکستان اور چین کی دوستی ان کے متعلقہ قومی مفادات کے تحت چل سکتی ہے، جغرافیائی قربت اور ماضی کے تجربات کی مشترکات نے ہمیں اکٹھا کیا ہوگا لیکن پاکستان میں ہمارے لئے اور حقیقی معنوں میں ہمارے دونوں ممالک کے لوگوں کے برادرانہ رشتے بہت گہرے ہیں جو بین الریاستی تعلقات کے عمومی اصولوں سے بالاتر ہیں اور ہمیں ایک ابدی اور لازوال رشتے میں پروتے ہیں۔ اپنے دوطرفہ ثقافتی تبادلوں کووسعت دینے اور دونوں ممالک کے لوگوں کو ایک دوسرے کے مزید قریب لانے کے لئے اپنی کوششوں کو تیز کرتے ہوئے ہمیں اپنے نوجوانوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ تبادلوں کی حوصلہ افزائی کرنے پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ ہماری دوطرفہ دوستی کی بہترین روایات کو آگے بڑھا سکیں اور ہمیں اس کی اہمیت سمجھنے میں مدد فراہم کریں۔تیزی سے بدلتی دنیا میں پاکستان اورچین دونوں اپنے عوام کے روشن مستقبل کے ساتھ ساتھ خطہ کے امن و استحکام کے لئے کردار ادا کرنے کے لئے ایک مشترکہ ویژن کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، یہ ایک ذمہ داری ہے جو تاریخ نے ہمارے کندھوں پر ڈالی ہے اور ہم اسے ضرور نبھائیں گے۔