لینڈ ریفارمز بل: باہمی اتفاق رائے کی ضرورت

گلگت بلتستان میں لےنڈ رےفارمز کے حوالے سے جتنے منہ اتنی باتےں سامنے آ رہی ہےں‘ بھانت بھانت کی بولےوں میں کان پڑی آواز سنائی نہےں دے رہی‘ کسی جانب سے اس بل کی حماےت میں آوازےں بلند کرتے ہوئے اسے اےک بڑا کارنامہ قرار دےا جا رہا ہے اور کسی جانب سے اسے خطے کے مفادات کے برعکس گردانتے ہوئے علاقے کے مفادات کے خلاف اقدام کہا جا رہا ہے۔وزیراعلی خالد خورشید نے کہا ہے کہ لینڈ ریفارمز بل حتمی نہیں ہے اس میں ترامیم بھی ہوسکتی ہیں ہم ہر ضلع کے عوام سے تجاویز مانگ رہے ہیں حتمی بل تب آئے گا جب سب کا اتفاق رائے طے ہوگا اور تمام جگہوں سے تجاویز آئیں گی ہم نے اپوزیشن کو بھی اس بابت مل بیٹھنے کی دعوت دی ہے مگر اپوزیشن والے ہٹ دھرمی دکھا رہے ہیں یہ لوگ مجوزہ قانون کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں اس کا ہمارے پاس کوئی حل نہیں ہے کسی کو بل کے کسی نکتے پر اعتراض ہے تو ہمارے ساتھ شیئر کرے ایسا تو نہیں ہوسکتا کہ ہمارے پاس آنے کے بجائے اپوزیشن والے میڈیا میں شور شرابہ کریں۔ ایم ڈبلیو ایم کے صوبائی صدر سید علی رضوی شیخ علی محمد کریمی کاچو ولایت مولانا اسحاق ابراہیم آزاد نے وزیراعلی خالد خورشید سے کہاکہ لینڈ ریفارمز بل پر ہمیں شدید تحفظات ہیں‘ بل میں شامل قابل اعتراض چیزیں فوری حذف کی جائیں ‘ہم اپنا ڈرافٹ دیں گے اس کو شامل کیا جائے عوامی امنگوں کے مطابق بل تیار کیا جائے بصورت دیگر حکومت کیلئے مسائل کھڑے ہوسکتے ہیں۔درےں اثناءاپوزیشن لیڈر امجد حسین ایڈوکیٹ نے کہا لینڈ ریفارمز بل منظور نہیں ہونے دینگے، لینڈ ریفارمز بل گر زبردستی پاس کروانے کی کوشش کی گئی تو بل لانے والے اصل کرداروں کا نام بتائیں گے۔یہ بل عوام گلگت بلتستان کے خلاف سازش ہے اس کو کسی صورت پاس نہیں ہونے دیں گے۔اگر صوبائی حکومت عوام کو ان کی ملکیت دینا چاہتی ہے اور لینڈ ریفارمز کرنے پر سنجیدہ ہے تو وہ 2016 کو پیش ہونے والا بل پاس کرے ہم پورا کریڈٹ صوبائی حکومت کو دیں گے۔ 2016 کے بل میں تمام جماعتوں کے ممبران کے دستخط موجود ہیں جبکہ قوم پرست رہنما نواز خان ناجی بھی اس بل کی حمایت کرتے ہےں۔گلگت بلتستان پر ایک ایسے شخص کو مسلط کردیا ہے جس کو جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں آتا ہے۔خالد خورشید اور کچھ مفاد پرست لوگ تحریک انصاف کے نظریے کی آڑ میں اپنے مفادات حاصل کررہے ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ وہ اگر عمران خان کے نظریے پر چلتے ہیں تو انہوں نے صوبے میں کونسا ایسا کام کیا جو عمران خان کے ویژن کے مطابق ہو۔ صوبائی حکومت نے احساس دسترخوان پروگرام بھی بند کردیا۔ صوبائی حکومت کے پاس تھرمل جنریٹر چلانے کے لئے پیسے نہیں لیکن سات کروڑ روپے وکیل کو دےدیئے۔ اپوزیشن لیڈر نے مزید کہا وفاق یا کوئی اور صوبہ وزیر اعلی کو پروٹول دیتا ہے تو اس میں اعتراض نہیں ہونا چاہئے یہ تو گلگت بلتستان کے وسائل کی بچت ہے۔ ہاں اگر کوئی صوبہ وزیر اعلی کو بطور وزیر اعلی پروٹوکول نہیں دیتا تو اس پر بات کریں گے۔گلگت بلتستان میں گندم کا ذخیرہ ختم ہوچکا تھا لیکن وزیر اعلی زمان پارک میں مصروف تھے چیف سیکرٹری کی جانب سے بھیجے گئے خط پر کابینہ اجلاس بلایا اور گندم کا مسئلہ حل ہوا۔وزیر اعلی مفرور ملزمان کو پناہ دینے کے جرم کا مرتکب ہوچکا ہے۔ جو لوگ ریاست کے ملزم ہیں ان کو وزیر اعلی خالد خورشید اپنا مہمان بناکر خوشی محسوس کرتے ہیں۔ وزیر اعلی کی قانون کی ڈگری کے حوالے سے سوال کے جواب میں اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ ایک جھوٹ چھپانے کے لئے خالد خورشید بار بار جھوٹ بول رہا ہے۔ خالد خورشید نے پہلے ایگزٹ کی ڈگری جمع کروائی پھر کوئن میری کی ڈگری دی اس کے بعد یونیورسٹی آف لندن کی ڈگری سامنے لائے۔ خالد خورشید چاہتے ہےں کہ گلگت بلتستان میں جلسے جلوس ہوں تاکہ وہ اس کو کیش کرسکےں ہم ایسا نہیں کرنے دیں گے۔ وزیر اعلی خالد خورشید کا عوام کے ساتھ کوئی سروکار نہیں وہ اپنے دوستوں شبلی فراز اور مراد سعید کے ساتھ گلگت بلتستان کے دورے پر آئے ہےں اور کچھ دنوں بعد واپس ان کے ساتھ اسلام آ باد چلے جائےں گے ۔انہوں نے مزےد کہا کہ لینڈ ریفارمز بل کے حوالے سے افضل شگری کے آرٹیکل کو بنیاد بناکر ہم اپنی تحریک کو رول بیک نہیں کرسکتے ہیں حکومت کی جانب سے جو بل لایا گیا ہے اس کی ابتدا سے آخر تک ہمیں قبول ہی نہیں ہے ہمیں حکومتی بل کے ایک ایک نکتے پر اعتراض ہے ہم کوئی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ نہیں کررہے ہمیں چیزوں کا علم ہے بل بڑی سازش کے پلان کا حصہ ہے ان کا اپنا نقظہ نظر ہے مگر ہم بل کو مسترد کرچکے ہیں ہم اپنا بل پبلک کررہے ہیں عوام حکومت اور اپوزیشن بل کا خود موازنہ کریں اور فیصلہ کریں کہ کونسا بل اسمبلی میں پاس ہونا چاہئے کے پی این کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ حکومت جو بل اسمبلی میں لیکر آرہی ہے وہ پورے گلگت بلتستان کے عوام کے خلاف گہری سازش ہے جن لوگوں نے بل بنایا ہے ان کرداروں کا نام بھی جلد منظر عام پر لائیں گے اور ان کرداروں کے مقاصد بھی عوام کو بتائیں گے بل بنانے والے کرداروں کا ہمیں پوری طرح سے علم ہے جلد سب کو بے نقاب کریں گے ۔ بل کو ای ٹی آئی کی زمینوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بنایا گیا ہے منظم سازش اور منصوبہ بندی کے تحت زمینوں کی ہےئت تبدیل کی جارہی ہے حکومت چاہتی ہے کہ عوام کو نئے قانون کے تحت شکنجے میں بند کیا جائے مگر بدقسمتی یہ ہے کہ اسمبلی میں ہمارے پاس اکثریت موجود نہیں ہے اگر ہمارے پاس اسمبلی میں سترہ ووٹ ہوتے تو ہم اپنا بل لیکر آتے اور اس کو پاس بھی کرادیتے لیکن پوری قوم کی بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے پاس سترہ ووٹ نہیں ہیں ہمارے پاس سترہ ووٹ ہوتے تو ہم قومی مفاد میں زمینوں کا بل اسمبلی سے پاس کراچکے ہوتے پھر سارے کردار تماشہ دیکھتے مافیاز تماشائی بن جاتے تاہم سترہ ووٹ نہ ہونے کی وجہ سے ہم اپنا بل لاکر اسمبلی سے پاس نہیں کرسکے ہمیں تمام سازشیوں کا علم ہے سترہ ووٹ کے ذریعے ہم تمام سازشوں کا بہتر انداز میں مقابلہ کرسکتے ہیں۔ سازشوں کا مقابلہ کرنے کیلئے ہم سترہ ووٹ کے محتاج ہیں ‘مسائل سنگین ہوتے جارہے ہیں ‘عوام مشکلات کے گرداب میں پھنس کر رہ گئے ہیں جن لوگوں کو ووٹ دیکر آگے بھیجا گیا ہے وہ مہرے بن گئے ہیں حکومتی بنچوں پر بیٹھے ارکان کا کردار انتہائی مشکوک ہے وہ سوائے اپنے مفادات کے عوامی مفادات کیلئے کوئی کردار ادا نہیں کررہے ہیں۔ادھر وزیر قانون و ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن گلگت بلتستان سید سہیل عباس شاہ نے کہا ہے کہ اپوزیشن لیڈر امجد حسین ایڈووکیٹ لینڈ ریفارمز کو سیاست کی نظر کر نا چاہتے ہیں گلگت بلتستان کے اہم ترین مسئلے کو کسی صورت سیاست کی نظر نہیں ہونے دینگے۔حق ملکیت کا خالی نعرہ لگانے والے کھل کر لینڈ ریفامز کی مخالفت میں سامنے آگئے ہیں گلگت بلتستان کی عوام خالی نعروں والی برےگیڈ کو یاد رکھے گی گلگت بلتستان کے عوام باشعور ہےں وہ جانتے ہیں کہ انکے حق میں کیا بہتر ہے اور کیا غلط ہے۔ لینڈ ریفارمز پر موجودہ حکومت کی کوششوں پرعوام کی جانب سے پذیرائی ملنے پر اپوزیشن لیڈر بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے ہیں لینڈ ریفارمز کی مخالفت وہ لوگ کر رہے ہیں جنہوں نے دیامر کی چالیس ہزار کنال زمین مفت میں واپڈا کے حوالے کی ۔عوام کا اتنا خیال تھا تو تب اپنی پارٹی کی حکومت کو روکتے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت واحد حکومت ہے جس نے کابینہ میں فیصلہ کیا آئندہ کسی کو مفت زمین نہیں دی جائیگی۔ تاریخ میں پہلی بار پاکستان تحریک انصاف کی حکومت لیڈ ریفارمز کرنے جا رہی ہے تو ایسے میں اس اہم مسئلے کو سیاست کی نظر کرنا انتہائی افسوسناک عمل ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ لینڈ ریفارمز عوام کی خواہشات کے مطابق ہوں جس کے لئے ہم نے تحصیل سطح پر مشاورت کی اور تجاویز لی ہیں اور اس بل کو عوام کے سامنے رکھا عوام سے کچھ بھی مخفی نہیں رکھا گیاہے عوامی رائے حکومت کو مقدم ہے اور گلگت بلتستان کی موجودہ حکومت عوام کی رائے سے متصادم کوئی فیصلہ نہیں کریگی۔جماعت اسلامی گلگت بلتستان نے بھی مطالبہ ہے کہ جی بی میں سٹیٹ سبجکیٹ قانون کو بحال کیا جائے ،لینڈ ریفارمز ایکٹ کے حوالے سے عوام کے تحفظات کو دور کیا جائے۔مولانا عبد السمیع امیر جماعت اسلامی گلگت بلتستان نے عوامی ایکشن کمیٹی سید یعصوب الدین کے نمائندہ وفد سے گفتگو مےں کہا ہم حکومت کے پیش کردہ لینڈ ریفارمز ایکٹ کو مسترد کرتے ہیں ،ہم مشاورت سے قانون سازی کریں گے۔مولانا عبد السمیع نے عوامی ایکشن کمیٹی کے نمائندہ وفد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مزید کہا کہ گلگت بلتستان میں کوئی زمین خالصہ سرکار نہیں ہے ،ہم ایک ایک انچ زمین کی حفاظت کرینگے،حکومت مسائل حل کرنے میں ناکام ہوچکی ہے ،ہماری اسمبلی اور صوبائی حکومت بیوروکریسی کے رحم و کرم پر ہے،ہم جب تک ایک قوم نہیں بنیں گے تب تک ہمارے مسائل حل نہیں ہونگے۔ جماعت اسلامی گلگت بلتستان کا جی بی کے حوالے سے شروع سے یہ موقف ہے کہ جی بی ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہے۔گلگت بلتستان کے عوام کو آزاد کشمیر طرز کا نظام دیا جائے اسی نظام میں جی بی کے عوام کے حقوق کا تحفظ ہے ۔ ہم سمجھتے ہےں کہ کوئی بھی مسئلہ گفت و شنےد اور مذاکرات کے ذرےعے حل کےا جا سکتا ہے ےہ مسئلہ فےثا غورث نہےں کہ حل میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ لےنڈ رےفارمز بل کی جن شقوں پر اعتراضات ہےں انہےں مذاکرات کے ذرےعے دور کر لےا جائے ےا قابل قبول بنانے کا اہتمام کےا جائے‘ خطے کے مشترکہ مفاد میں اےک دوسرے کی ٹانگےں کھےنچنے سے اجتناب ہی بہتر ہے تاکہ اس کے فوائد سے ےکساں طور پر مستفےد ہو جا سکے۔