وزیر اعظم کے مشیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان قمر زمان کائرہ نے گلگت کے عوام کی ضرورت کے پیش نظر گلگت میں نو تعمیر شدہ ایل پی جی ائر مکس پلانٹ کو فوری چلانے کی ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام کے مسائل کا حل ان کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ قمر زمان کائرہ نے کہاکہ نوتعمیر شدہ ایل پی جی پلانٹ کو آپریشنل کرنے کے ساتھ ساتھ صارفین کو گیس کنکشن کی فراہمی کو بھی یقینی بنایا جائے، ایل پی جی پلانٹ کی تعمیر گلگت کے عوام کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں ہے ۔انہوں نے کہاکہ جہاں اس پلانٹ سے گلگت کے عوام کو زندگی کی ایک بنیادی سہولت میسر ہو گی وہاں یہ پلانٹ سیاحت اور ماحولیات کے حوالے سے ایک سنگ میل بھی ثابت ہو گا جس کی مدد سے گلگت بلتستان میں جنگلات کا تحفظ ممکن ہو گااور سیاحت کو فروغ حاصل ہوگا۔گلگت میں نو تعمیر شدہ ایل پی جی ائر مکس پلانٹ کو فوری چلانے کی ہدایات ےقےنا اہم قدم ہے۔مائع پٹرولیم گیس سے مراد وہ گیس ہے جو معدنی تیل سے حاصل ہوتی ہے اور بطور ایندھن گاڑیوں اور چولہوں میں استعمال ہوتی ہے۔ یہ بنیادی طور پر پروپین ہوتی ہے۔سلنڈر کے اندر دباﺅ کے تحت یہ گیس مائع میں تبدیل ہو جاتی ہے اس لیے اس کا نام اےل پی جی ہے اس کا سلنڈر سیدھا رکھا جاتا ہے تا کہ مائع کے اوپر کی گیس استعمال ہو سکے۔ یہ مائع جب گیس بنتا ہے تو اس کے حجم میں لگ بھگ ڈھائی سو گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس سی این جی اپنے سلنڈر کے اندر بھی گیس ہی کی شکل میں رہتی ہے اور مائع میں تبدیل نہیں ہوتی۔ اسی وجہ سے سی این جی کے سلنڈر کو استعمال کے وقت سیدھا رکھنا ضروری نہیں ہوتا۔اگر یہ گیس لیک ہو تو آگ لگنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس لیے اس میں ایک تیز بو دار مرکب اےتھانےتھےول ےا ایمائل مرکیپٹان ملا دیا جاتا ہے جس کی بو لیکیج کا پتہ دیتی ہے۔ سی این جی اور سوئی گیس جب لیک ہوتی ہے تو ہوا سے ہلکی ہونے کی وجہ سے آسمان کی طرف جاتی ہے اور اس طرح خطرہ کم ہو جاتا ہے لیکن ایل پی جی ہوا سے بھاری ہوتی ہے اور لیک شدہ ایل پی جی وہیں موجود رہتی ہے اور نظر بھی نہیں آتی جس سے آگ لگنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ہوا سے بھاری ہونے کی وجہ سے لیک ہونے والی ایل پی جی پانی کی طرح ڈھلان کی طرف بہتی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ اوپر کی منزل میں لیک ہونے والی ایل پی جی کی وجہ سے نچلی منزل میں آگ لگ جائے۔ دنیا بھر میں ایک کروڑ پچاس لاکھ گاڑیوں میں کئی کروڑ ٹن یعنی اربوں گیلن ایل پی جی استعمال ہوئی۔ایل این جی اور ایل پی جی توانائی کے ذرائع ہیں وہ جھوٹ بولتے ہیں، دونوں مرکب ہیں جو بنیادی طور پر ہائڈروکاربون سے تعلق رکھتے ہیں ایل این جی اور ایل پی جی دونوں گیسوں پر مشتمل ہیں، لیکن آسانی سے اسٹور اور نقل و حمل کے لئے وہ مائع شکل میں تبدیل کردیئے جاتے ہیں لہذا وہ مائع کے طور پر برقرار رکھنے کے لئے اعلی پریس حالات کے تحت محفوظ کیا جاتا ہے۔قابل قدر قدرتی گیس کے طور پر مختصر ہے یہ ہائیڈرالک کاربن کا ایک مرکب ہے، بنیادی طور پر میتھین سے متعلق اس میں بقیہ، پروپین، ایتھنی، کچھ بھاری الکیس اور نائٹروجن بھی شامل ہیں۔ایل این جی بوجور، غیر زہریلا، رنگارنگ مرکب ہے ایل این جی قدرتی گیس سے پیدا کی جاتی ہے ایل این جی پلانٹ میں، پانی، ہائیڈروجن سلفیڈ، کاربن ڈائی آکسائیڈ اور کچھ دیگر مرکبات جو کم درجہ حرارت کے نیچے منجمد ہوں گے ہٹا دیا جاتا ہے۔ایل این جی کا ایک نقصان نقصان دہ اسٹوریج، نقل و حمل سہولیات، اور بنیادی ڈھانچے کی ضروریات سے متعلق ہے۔لیپت شدہ پٹرولیم گیس کو ایل پی جی کے طور پر مختصر کیا گیا ہے یہ ہائیڈروکاربن گیسوں کا ایک مرکب ہے جس میں بنیادی طور پر پروپین اور بھوک شامل ہے چونکہ یہ زیادہ تر پروپین گیس پر مشتمل ہے، کچھ دیر تک ایل پی جی کو پروپین کے طور پر بھیجا جاتا ہے۔یہ ہوا سے بھاری ہے ایل پی جی گیسوں کا ایک باضابطہ مرکب ہے جس میں موٹر گاڑیاں اور کھانا پکانے کے لئے کچھ دیگر ہیٹنگ آلات کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ایل پی جی فوری طور پر ہوا میں جلاتا ہے جس میں کھانا پکانے اور دیگر مقاصد کے لئے یہ ایک اچھا ایندھن بناتا ہے جب یہ گاڑیوں میں داخلی دہن انجنوں کو طاقت کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے تو، ایل پی جی کو آٹو گیس کے طور پر نام دیا جاتا ہے یہ ایک صاف ایندھن ہے، اور دہن پر، یہ نقصان دہ جذبات اور کاربن ڈائی آکسائڈ جو گرین ہاﺅس گیس ہے کی کم مقدار پیدا کرتا ہے۔اس کے علاوہ، گیس کے مقابلے میں یہ کم مہنگا ہے تاہم، منفی طرف، ایل پی جی کی دستیابی محدود ہے اور بھی میل کی تعداد میں ایک گاڑی کم ٹینک سے چل سکتا ہے گاڑی کم ہے تو اس میں کم توانائی کا مواد ہے۔ایل پی جی ایک جیواشم ایندھن ہے، لہذا یہ پٹرولیم کی اصلاحات کے ذریعہ تیار کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ، یہ قدرتی گیس کی طرف سے تیار کیا جا سکتا ہے۔ایل پی جی کمرے کے درجہ حرارت اور دباﺅ میں جلدی سے پھیلتا ہے کیونکہ اس کا کم از کم پوائنٹ ہے جو کمرے کے درجہ حرارت سے کم ہے لہذا پریس سٹیل کی بوتلوں میں ایل پی جی فراہم کی جاتی ہے۔ ایل این جی بنیادی طور پر میتھین پر مشتمل ہے، اور ایل پی پی میں بنیادی طور پر پروپین شامل ہے۔ ایل پی جی عام طور پر گھر میں استعمال کیا جاتا ہے جبکہ ایل این جی نہیں ہے ایل این جی بنیادی طور پر دیگر توانائی کی ضروریات کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ایل این جی قدرتی گیس سے پیدا کی جاتی ہے، اور ایل پی جی پیٹرولیم کی اصلاح سے تیار کی جاتی ہے۔ہم جانتے ہےں کہ گیس جیسی بنیادی سہولت کی عدم دستیابی کی وجہ سے لوگ لکڑی کو ایندھن کے طور پر استعمال کرتے ہیں، جسے روکنے کےلئے گیس کی فراہمی ناگزیر ہے۔جن علاقوں میں کوئی بجلی نہیں، گیس نہیں اور نہ دیگر زندگی کے بنیادی سہولیات میسر ہیں لہذا گھر کا چولہا چلانے اور پیٹ پالنے کےلیے یہاں کے لوگ درخت نہیں کاٹیں گے تو اور کیا کریں گے۔پاکستان میں ماہرین کے مطابق گزشتہ چند سالوں میں جنگلات کی غیر قانونی کٹائی عروج پر رہی جس سے مجموعی طورپر ملک بھر میں جنگلات کا رقبہ تیزی سے کم ہوتا جا رہا ہے۔پاکستان کا شمار اب دنیا کے ان ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے جہاں جنگلات تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ جنگلات کا رقبہ بڑھ کر 45 لاکھ ہیکٹر تک پہنچا یعنی مجموعی طورپر ملک میں پانچ اعشاریہ ایک فیصد رقبہ جنگلات پر مشتمل ہے تاہم جنگلات پر کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے ایف اے او اور دیگر اہم غیر ملکی ادارے ان اعداد و شمار کو درست نہیں مانتے ان کے مطابق پاکستان میں گذشتہ ایک دہائی سے مسلسل ہر سال جنگلات کا رقبہ کم ہوتا جارہا ہے جس کے تحت یہ رقبہ کل رقبے کے تین فیصد تک رہ گیا ہے۔پاکستان میں زیادہ تر جنگلات گلگت بلتستان، خیبر پِختونخوا اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے پہاڑی علاقوں میں پائے جاتے ہیں جبکہ گلگت بلتستان میں سترفیصد جنگلات صرف ضلع دیامر میں پائے جاتے ہیں۔ اس ضلع کی سرحدیں خیبر پختونخوا سے ملتی ہےں۔ےہاں بیشتر جنگلات مقامی لوگوں کی ملکیت ہیں اور شاید اسی کا فائدہ اٹھاکر ٹمبر مافیا یہاں بے دریغ کٹائی کررہا ہے۔ جنگلات کے کاٹنے اور اگانے کے ضمن میں مقامی لوگوں اور حکومت کے درمیان کئی معاہدے بھی موجود ہیں لیکن ان پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوتا بلکہ بعض صورتوں میں ٹمبر مافیا ان کا سہارا لے کر علاقے کو بنجر بنا رہا ہے۔دیامر کے دور افتادہ پہاڑی علاقوں میں جگہ جگہ کٹے ہوئے درختوں کے سر نظر آتے ہیں جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس علاقے میں کس بےدردی سے درختوں کو کاٹا جارہا ہے۔اس کے علاوہ چلاس اور دیگر شہری علاقوں میں جگہ جگہ سڑک کے کنارے درختوں کے ڈھیر نظر آتے ہیں جہاں ان کی کھلے عام خرید و فروخت بھی جاری ہے۔بعض مقامات پر کٹے ہوئے درختوں کی مارکیٹ تک رسائی بھی آسان ہے اور ان کی نقل و حمل پر کوئی روک ٹوک بھی نہیں جس سے ملکی قوانین اور حکومتی اداروں کے کردار پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ جنگلات کے کاٹنے سے نہ صرف لوگوں کی ذاتی زندگی متاثر ہو رہی ہے بلکہ اس سے مجموعی طورپر سماج پر بھی اثرات پڑ رہے ہیں۔ہم شاےد نہےں جانتے کہ جنگلات ہماری زندگی ہیں اور انہےں بچانے کےلئے ہمیں اپنے رویوں میں تبدیلی لانا ہو گی ورنہ آنے والے دنوں میں ان کے بھیانک نتائج سے ہم خود کو بچا نہیں پائیں گے۔پاکستان میں جنگلات کا تیزی سے خاتمہ ایک انتہائی اہم اور سنگین معاملہ ہے لیکن یہ مسئلہ جتنا اہم ہے اتنی سنجیدگی حکومتی ایوانوں میں نظر نہیں آتی۔تاہم بیشتر ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جب تک دور دراز پہاڑی علاقوں میں مقامی آبادی کو روزگار اور توانائی کے متبادل ذرائع فراہم نہیں کیے جاتے اس وقت تک جنگلات کی غیرقانونی کٹائی روکنا ممکن نہیں۔ایل پی جی ائر مکس پلانٹ چلانے سے جنگلات کی کٹائی میں کمی ہو گی اور لوگوں کو اےندھن کے لےے لکڑی کی ضرورت نہےں ہو گی جس سے ماحول بھی خوشگوار ہو گا۔
