مثبت فیصلہ........

پنجاب حکومت نے صوبے میں کم سے کم اجرت بتےس ہزار روپے مقرر کردی۔ پنجاب کی نگران حکومت کی جانب سے کم ازکم ماہانہ اجرت میں سات ہزار روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔اس حوالے سے نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق کم سےکم اجرت پچےس ہزار سے بڑھا کر بتےس ہزار روپے کردی گئی ہے۔اجتماعی و معاشرتی زندگی میں نظام چلانے کے لئے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ اشیا اور صلاحیتوں کا تبادلہ کرنا ناگزیر ہے۔ اِس لئے کہ ہر آدمی اپنی تمام ضروریات از خود کسی بھی طرح پوری نہیں کر سکتابلکہ اسے کئی چیزوں کے پورا کرنے میں دوسرے لوگوں کی حاجت پڑتی ہے اور وہ دوسروں کا محتاج ہوتا ہے۔چنانچہ شروع زمانے میں لوگوں میں تبادلے کا یہ طریقہ رائج تھا کہ وہ آپس میں چیزوں اور صلاحیتوں کا باہم تبادلہ کرلیا کرتے تھے تو ان کا نظام چل جاتا تھا، مثلا مکھن دے دیااور اس کے بدلے گندم لے لی، انڈے دے دیئے اور ان کے بدلے اخروٹ لے لئے۔ اب بھی دور دراز کے دیہات میں کوئی ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں دوسری چیز لینے کا طریقہ رائج ہے ، اسی طرح پیسے دے کر کوئی چیز حاصل کرنا بھی تجارت ہے، کیونکہ پیسے بھی مطلوبہ چیز کی نمائندگی کرتے ہیں۔دوسری صورت یہ کہ اگر ایک شخص کو کسی چیزکی ضرورت ہے اور اس کے پاس اس کے عوض دینے کے لیے کوئی چیز یا پیسے نہیں ہیں تو وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کوئی خدمت و محنت کرکے اس کے عوض کوئی چیز لے لے تو اس کے اِس عمل کو مزدوری شمار کیا جاتاہے ۔جیسے گندم کی کٹائی کرنا اور اس کے بدلے میں گندم لینا،پتھر وغیرہ توڑنا اور اس کے بدلے میں پیسے وصول کرنا وغیرہ، یہ مزدوری کہلاتا ہے اور اب تقریبا ساری دنیا کا دارومدار اسی طریقہ کار پر ہے۔ہمارے معاشرے میں یو ں توہر طبقے کے لوگ گوناں گوں مسائل سے دوچار ہیں لیکن بندہ مزدور کے اوقات تو سب سے تلخ ہیں ۔ جس کے دم قدم سے آج دنیا کی ساری بہاریں ہیں اور اس کی رونقیں آباد ہیں،جگمگاتے شہر، بلند و بالا عمارتیں، صاف شفاف سڑکیں ،خوب صورت باغ،لہلہاتے کھیت ،بل کھاتی ندیاں اور نجانے دنیا کی کتنی ہی ایسی پر رونق اور دلکش چیزیں ہیں جو ان مزدوروںہی کے خون پسینہ کی مرہونِ منت ہیں، لیکن ستم ظریفی ملاحظہ فرمائےے کہ معاشی خوش حالی اور اس کی ترقی میں مزدوروں کا حصہ انتہائی معمولی ہے حالانکہ وہ اِس کے سب سے زیادہ حق دار ہیں۔مزدوروں اور ملازموں کی اجرت اس قدر ہونی چاہئے کہ کم از کم خوراک اور پوشاک کے معاملے میں ان کا معیارِ زندگی مالکوں اور آقاﺅں کے قریب قریب ہو۔دوسرے یہ کہ اجرت کی مقدار اتنی ہونی چاہیے کہ مزدور و خادم اہل و عیال کی اچھی طرح پرورش کرسکے اور ان کی ضروریاتِ زندگی پوری کرسکے۔اجرت کے سلسلے میں اس اصولی ہدایت کے بعد اسلام نے یہ بھی حکم دیا ہے کہ اس کی مقدار پہلے ہی واضح کردی جائے تاکہ ابہام اور شک شبہ باقی نہ رہے ۔ ایک شخص نے کہیں ملازمت اختیار کی ہے،اس ملازمت میں جو فرائض اس کے سپرد کئے گئے ہیں وہ امانت ہیں، ان فرائض کو وہ ٹھیک ٹھیک بجا لائے اور جن اوقات میں اس کو ڈیوٹی دینے کا پابند کیا گیا ہے ان اوقات کا ایک ایک لمحہ امانت ہے،لہذا جو فرائض اس کے سپرد کئے گئے ہیں اگر وہ اِن فرائض کو ٹھیک ٹھیک انجام نہیں دیتا بلکہ کام چوری کرتا ہے تو ایسا شخص اپنے فرائض میں کوتاہی کررہا ہے اور امانت میں خیانت کررہا ہے۔مثلا ایک شخص سرکاری دفتر میں ملازم ہے اور اس کو اس کام پر لگایا گیا ہے کہ جب فلاں کام کیلئے لوگ تمہارے پاس آئیں تو تم ان کا کام کردینا ۔یہ کام اس کے ذمہ ایک فریضہ ہے جس کی وہ تنخواہ لے رہا ہے، اب کوئی شخص اس کے پاس اس کام کیلئے آتا ہے وہ اس کو ٹال دیتا ہے، اس کو چکر لگانے پہ مجبور کررہا ہے تاکہ یہ تنگ آکر مجھے کچھ رشوت دے تویہ غلط ہے ۔آج کل کے سرکاری دفاتر اِن مسائل سے بھرے پڑے ہیں، سرکاری ملازم جس عہدے پر بھی ہے وہ سمجھتا ہے کہ جو شخص میرے پاس آرہا ہے اس کی کھال اتارنا اور اس کا خون نچوڑنا ،میرے لئے حلال ہے۔یہ امانت میں خیانت ہے۔ اس کام کی جو تنخواہ لے رہا ہے وہ تنخواہ بھی حرام ہوگئی اگر وہ اپنے فرائض ٹھیک طرح سر انجام دیتا ہے اور پھر تنخواہ لیتا ہے تو وہ تنخواہ اس کیلئے حلال ہوتی ہے اور برکت کا سبب ہوتی ہے،لہذا اس کام کرنے پر جو رشوت لے رہا تھا وہ تو حرام ہی تھی لیکن اس نے حلال تنخواہ کو بھی حرام کردیا،اس لئے کہ اس نے اپنے فرض کو صحیح طور پر انجام نہیں دیا۔اسی طرح ملازمت کیلئے یہ طے کیا تھا کہ میں آٹھ گھنٹے ڈیوٹی کروں گا، اب اگر اس آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی میں کام چوری کرگیا اور کچھ وقت اپنے ذاتی کام میں استعمال کرلیا تو جتنا وقت اس نے اپنے ذاتی کام میں استعمال کیا اس وقت میں اس نے امانت میں خیانت کی، کیونکہ آٹھ گھنٹے اس کے پاس امانت تھے، اس کیلئے جائز نہیں تھا کہ اس میں اپنا کوئی ذاتی کام کرے، اب اگر اس وقت میں دوستوں سے باتیں شروع کردیں یہ امانت میں خیانت ہے اور جتنی دیر یہ خیانت کی اتنی دیر کی تنخواہ اس کیلئے حلال نہیں۔وفاقی بجٹ میں مزدور کی کم سے کم اجرت پچےس ہزار روپے ماہانہ کردی گئی تھی لیکن کرائے کا مکان، بجلی اور گیس کا بل نکال کر صرف اور صرف خسارہ بچتا ہے۔اےسے میں مہنگائی کے باعث بل اور کرایہ پورا کریں یا گھر کا چولہا جلائیں؟مہنگائی میں اضافہ اور اجرت میں کمی سے پاکستانیوں کی زندگی مشکلات کا شکار ہوئی ہے۔ پاکستان میں حقیقی اجرت پندرہ فیصد کم ہوئی ہے، جب کہ حکام کا کہنا ہے کہ غذائی اجناس کی بھاری رقوم دیہی علاقوں میں منتقل ہوئی۔ مہنگائی میں اضافے اور حقیقی اجرت میں کمی نے پاکستانیوں کی اکثریت کی زندگی مشکل بنادی ہے۔کم از کم اجرت کا تعین کے لیے مہنگائی، قوتِ خرید اورضروریاتِ زندگی کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ پاکستان میں قانون کے مطابق کم ازکم اجرت مقرر ہے جو موجودہ مہنگائی کے تناسب سے انتہائی کم ہے لیکن اس پر بھی عمل درآمد نہیں ہورہا۔ دیہاڑی دار چھ کروڑ مزدوروں پر لیبر قوانین اور سماجی بہبود کے قوانین کااطلاق نہیں ہوتا جبکہ انڈسٹریر کے مزدوروں کی اکثریت بھی لیبر اور سماجی بہبود کے قوانین کے حقوق و مراعات سے محروم ہے۔ اس پر ظلم کی بدترین صورت یہ مسلط کردی گئی ہے۔ کم ازکم اجرت موجودہ مہنگائی کے تناسب سے پچاس ہزار روپے ماہانہ کی جانی چاہےے۔ ریٹائرڈ ملازمین کی پنشنوں میں مہنگائی کے مطابق اضافہ اور بر وقت ادائیگی کا اہتمام کیا جائے۔ المےہ ےہ ہے کہ زیادہ تر مزدوروں کو ماہانہ اجرت کے حوالے سے پتہ بھی نہیں ہوتا اور ان کو جتنا بھی معاوضہ دیا جاتا ہے، وہ اسی پر کام کرتے ہیں کیونکہ ہر کسی کو اپنے گھر کا چولہا جلانے کے لیے تھوڑے بہت پیسے چاہیے ہوتے ہیں۔اگر مزدور کسی کارخانے یا ریستوراں کے مالک سے کم از کم اجرت کی بات بھی کریں تو ان کو کہا جاتا ہے کہ ہم اس سے زیادہ نہیں دے سکتے۔اسّی فیصد مزدوروں کو کم از کم اجرت سے کم ماہانہ تنخواہ دی جاتی ہے لیکن اس حوالے سے کوئی حکومتی اقدامات نظر نہیں آتے ۔صوبائی حکومت نے ماضی میں ایک قانون بنایا تھا کہ مزدور کو کم از کم اجرت دینے کو یقینی بنانے کے لیے کارخانے دار کے لیے مزدور کی تنخواہ ان کے اکاﺅنٹ میں بھیجنا لازمی ہوگا، تاہم یہ طریقہ بھی بے سود رہا۔کچھ کارخانوں کے مالکان نے مزدوروں کے بینک اکاﺅنٹس تو بنائے لیکن ان میں کم از کم اجرت کی رقم جمع کرکے مزدور سے بقایا رقم واپس لے لی جاتی ہے اور مزدور مجبورا اس رقم کو واپس کر دیتے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت لیبر فورس کی تعداد سات کروڑ ہے اس میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے ۔ ان چھ کروڑ سے زائد مزدوروں میں خواتین کی تعداد تقریبا ایک کروڑ چالےس لاکھ ہے۔ان مزدوروں میں سے تقریبا 38 فیصد زراعت، جنگلات، ماہی گیری اور شکار سے وابستہ ہیں جبکہ سولہ فیصد سے زائد لیبر مینوفیکچرنگ کارخانوں میں کام کرتے ہیں۔اسی طرح سات فیصد سے زائد تعمیراتی شعبے، چودہ فیصد ہول سیل شعبے، چھ فیصد سے زائد ٹرانسپورٹ،چودہ فیصد سے زائد سوشل یا ذاتی لوگوں کی خدمت جبکہ دو فیصد دیگر شعبوں سے وابستہ ہیں۔ اگر کم از کم اجرت کی بات کی جائے تو تمام شعبوں میں مردوں کے مقابلے میں خواتین کو کم اجرت دی جاتی ہے اور انہیں جتنی اجرت دی جاتی ہے وہ متعین کردہ کم از کم اجرت سے بھی کم ہے۔اعدادوشمار کے مطابق سب سے کم اجرت ماہی گیری، جنگلات اور زراعت سے وابستہ مزدوروں کو دی جاتی ہے جبکہ سب سے زیادہ اجرت فنانس، انشورنس اور بزنس کے شعبوں میں کام کرنے والے افراد کو دی جاتی ہے۔ جتنے بھی مزدور ان شعبوں میں کام کرتے ہیں، ان کے دیگر حقوق کا خیال بھی نہیں رکھا جاتا جیسا کہ ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ جو ایک قسم کی پینشن ہے کی سہولت ان کو نہیں دی جاتی۔اےسے میںحکومت کم از کم اجرت دینے کو کیسے یقےنی بنائے گی؟