ماں اور بچے کی صحت کے پروگرام کی اہمیت

چیف سیکرٹری گلگت بلتستان محی الدین احمد وانی اور یونیسف کے کنٹری ڈائریکٹر کے مابین ملاقات میں حکومت گلگت بلتستان کی جانب سے کی جانے والی مختلف اقدامات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ملاقات میں یونیسیف کی جانب سے ماں اور بچے کی صحت اور ای سی ڈی پروگرام میں حکومت گلگت بلتستان کی معاونت کے حوالے سے بھی گفتگو کی گئی۔اس حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے چیف سیکرٹری گلگت بلتستان کا کہنا تھا کہ یونیسف گلگت بلتستان میں طالبات کے سکولوں میں واش ایکسٹینشن پراجیکٹ کو نافذ کرنے کے لیے کام کاج کا جائزہ لے گا اور گلگت بلتستان حکومت کو موبائل لیبر اور ہیلتھ کلینکس کی فراہمی کے ذریعے دور دراز علاقوں میں بچوں اور ماں کی صحت پر کام کرنے میں مدد فراہم کرنے کے لیے گلگت بلتستان کو بھی مدد فراہم کرے گا۔ملاقات میں بچوں میں رکی ہوئی نشوونما کو کنٹرول کرنے کے لیے غذائی سپلیمنٹس پر بھی بات چیت ہوئی۔ماں کے ساتھ بچے کی صحت کے تحفظ کی باقاعدگی سے قبل از پیدائش کی دیکھ بھال کرنا بہت ضروری ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حمل کے دوران صحت مند رہنے کے لئے اضافی نظم و ضبط کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن ایسے حربے ہیں جو طویل مہینوں میں اچھی طرح کھانے اور ورزش کرنے کی ترغیب دینے کے لئے مددگار ہوسکتے ہیں۔ یہاں ایسے طریقے ہیں جن سے آپ کو صحت مند رہنے اور ایکٹو رہنے میں مدد کرسکتے ہیں۔ ہمارامعاشرہ غذائی قلت کاشکارہے۔ متوسط طبقے کی آمدنی اتنی کم ہے کہ گھریلو اخراجات ہی پورے نہیں ہوتے تو حاملہ عورت جسے اضافی غذائی اشیا کی ضرورت ہوتی ہے، وہ کہاں سے پوری کرے۔ غذائی قلت ماں کی صحت کوتباہ کردیتی ہے کیونکہ قدرتی طورپربچے کی افزائش کاعمل کچھ ایسا ہے کہ بچہ تو ماں سے اپنی غذائی ضرورت پوری کرلیتا ہے لیکن ماں کمزورسے کمزورترہوتی چلی جاتی ہے۔ بچے کی افزائش، پرورش اور بہتر نشوونما کے لیے ماں کی صحت کابہترہونابھی ضروری ہے۔ہم میں سے سب یہی چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے صحت مند ہوں تاکہ آنے والامستقبل مضبوط اور توانا ہاتھوں میں ہولیکن اگرماں ہی صحت مند نہیں ہوگی تو بچہ خود بخود کمزوراورخدانخواستہ کسی جسمانی نقص کے ساتھ بھی دنیا میں آسکتاہے۔ آج جوغذائیں ہماری خواتین کھاتی ہیں پہلی چیز تویہ ہے کہ وہ خالص نہیں ہوتیں اوردوسری یہ کہ اگرکہیں خالص اشیا دستیاب بھی ہوں توبہت سارے خاندانوں میں انہیں خریدنے کی سکت نہیں ہوتی۔ بچے کی پیدائش کاعرصہ یعنی پورے نو ماہ ایک ماں ہی اپنے بچے کوغذا فراہم کرتی ہے۔ماں کو بچے کی پیدائش سے لے کر دوسال کی عمر تک اپنادودھ پلاناچاہیے۔ اگرایسی صورت میں عورت دوبارہ حاملہ ہوجائے تو طبیعت کی خرابی اورغذاکی کمی کی وجہ سے معصوم بچے کادودھ چھڑوادیاجاتاہے، جوماں کی صحت کے ساتھ ساتھ بچے کی صحت کوبھی شدید نقصان پہنچاتاہے۔ ایک بچے کی پیدائش کے بعد اگردوسال کے اندراندردوبارہ حمل ٹھہرجائے اورماں اپنے پہلے بچے کوبھی دودھ پلاتی ہوتوایسی صورت میں ڈاکٹراسے اضافی غذالینے کامشورہ دیتے ہیں۔ تاہم اگروہ ایسانہ کرے توجو بچہ دنیامیں آنے والا ہے اور خودماں کی صحت بری طرح متاثرہوتی ہے۔ماں کی تعریف وہ عورت ہے جو بچے کو جنم دیتی ہے یا جس پر بچوں کی جسمانی اور جذباتی دیکھ بھال کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس کے سوا پناہ دینے اور ہماری رہنمائی کرنے والا کوئی اور نہیں ہے ماں ہی ہے جو ہم سے اتنی محبت کرتی ہے کہ ہم جو کچھ بھی کریں محبت کم نہیں کرتی ہے۔ حاملہ کو اپنی دیکھ بھال کرنا کسی بھی کام سے زیادہ اہم کبھی نہیں رہنا چاہیئے۔ یہاں آپ کو اور آپ کے بچے کو زیادہ سے زیادہ صحت مند رکھنا بہت ضروری ہے حاملہ ماں کو حمل کے دوران ایکٹو رہنا اور صحت مند کھانا ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا ہے ۔ پہلے ماہ کی تھکاوٹ اور صبح کی بیماری، اس کے ساتھ ساتھ خوبصورت بیماریاں جو بعد میں آتی ہیں جیسے کمر میں درد کے ساتھ کام کرنا صحت مند کھانے کا انتخاب بہت مشکل بنادیتی ہیں۔صحت مند کھانے کا مطلب صحت بخش کھانے پر عمل کرنا ہے جس میں مختلف قسم کی غذائیت سے بھرپور غذائیں اور مشروبات شامل ہوتے ہیں۔مختلف قسم کی سبزیاں، پھل، پورے اناج، چربی سے پاک یا کم چربی والی ڈیری مصنوعات اور پروٹین کی غذائیں کھائیں۔کم شکر، سیرشدہ چربی، اور سوڈیم نمک کے ساتھ غذاﺅں اور مشروبات کا انتخاب کریں۔ریفائنڈ اناج اور سٹارچ کو محدود کریں، جو کوکیز، سفید روٹی اور کچھ ناشتے کی غذاﺅں جیسی غذاﺅں میں شامل ہوتی ہیں۔ماں کوفولک ایسڈ، آئرن اور آیوڈین لےنا چاہےے ‘فولک ایسڈ دماغ اور ریڑھ کی ہڈی کے کچھ پیدائشی نقائص کو روکنے میں مدد کرتا ہے۔آئرن اور آیوڈین یہ دونوں ماں اور بچے کو صحت مند رکھنے میں مدد کریں گے۔اپنے ڈاکٹر سے قبل از پیدائش وٹامن کے بارے میں بات کریں اور جو آپ کے لئے صحیح ہے وہی استعمال کریں۔مچھلی اور شیل فش میں صحت مند چربی ہوتی ہے جو بچے کے لئے اچھی ہوتی ہے لیکن کچھ مچھلیوں میں پارے کی مقدار زیادہ ہوتی ہے، یہ ایک ایسی دھات ہے جو بچے کی نشوونما کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ سمندری غذا کھانا ایک اچھا خیال ہے مگر جس میں صحت مند چربی زیادہ ہوتی ہے لیکن وہ پارے میں کم ہوتی ہے۔ان غذاﺅں میں بیکٹیریا ہو سکتے ہیں جو آپ کے بچے کو تکلیف پہنچا سکتے ہیں۔ اس لیے ان سے دور رہیں ان میں شامل ہیں۔کم پکی ہوئی مچھلی یا شیل فش، جیسے سوشی یا کچے سیپ۔کچا یا نایاب گوشت، مرغی، یا انڈے۔غیر پاسچرائزڈ جوس یا دودھ۔دوپہر کا کھانا یا ڈیلی گوشت اور سمندری غذا جب تک کہ وہ گرم بھاپ میں پکی ہوئی نہ ہوں۔کیفین کے ساتھ مشروبات کو محدود کریں اور شکر شامل کریں۔اگر آپ کافی یا چائے پیتے ہیں تو ڈیکیف کا انتخاب کریں۔ بغیر میٹھے کے مشروبات چنیں اور چینی شامل نہ کریں۔سوڈا، فروٹ ڈرنکس اور توانائی یا اسپورٹس ڈرنکس جیسی شکر کے ساتھ مشروبات کی بجائے پانی یا سیلٹزر پےئں۔حاملہ ہونے کے دوران صحت مند ہونے کا مطلب سپر وومن ہونا نہیں ہے بلکہ اپنے جسم کی بات سنیں اور جب آپ کو ضرورت ہو تو ضرور آرام کریں چاہے اس کا مطلب بھوپور نیند لینا ہو، کتاب کے ساتھ صوفے پر لیٹنا ہو، یا جلدی بستر پر جانا ہو۔ اگر آپ کے حمل کے دوران کسی بھی موقع پر آپ کو تشویش ہے کہ آپ کو کچھ وٹامنز یا معدنیات کی کافی مقدار نہیں مل رہی ہے، تو اپنے ڈاکٹر سے بات کریں۔ اس سے آپ یہ تعین کر سکتے ہیں کہ آپ کہاں اپنا کم خیال کررہے ہیں اور اس کمی کو کیسے پر کیا جائے۔کہاجاتا ہے کہ صحت مند معاشرے کی بنیاد صحت مند ماں ہے اگر ماں کی صحت اچھی ہوگی تو بچے کی صحت بھی بہتر ہوگی۔صحت مند معاشرے کو پروان چڑھانے کیلئے ماں کا صحتمند ہونا انتہائی اہمیت کا حامل ہے، کم عمری کی شادیوں کو روکنا پڑے گاکیونکہ اس سے نہ صرف خود کمسن ماں بلکہ اس کے آنے والے بچوں کی زندگی بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ ماں اور بچے کی صحت کو یقینی بنائے بغیر صحت مند معاشرے کا قیام ممکن نہیں۔ عمر میں اضافے کے ساتھ ایسے مریضوں کی شرح بھی بڑھ رہی ہے۔ چالیس سال اور اس سے زائد عمر کی خواتین کا کم ازکم سال میں ایک بار چھاتی کا معائنہ ضرور ہونا چاہیے۔ پاکستان میں سب سے بڑا مسئلہ جہالت اور لاعلمی ہے۔ ملک بھر میں چھے لاکھ سے زائد اتائی لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔ زچگی کے وقت فوری طبی امداد نہ ملنے کی صورت میں خواتین کی خون بہہ جانے کے باعث موت واقع ہوجاتی ہے۔آج کل مغربی دنیا میں حاملہ ماں اور نوزائیدہ بچے کی صحت کا خاص طور پر خیال رکھا جاتا ہے اور اس کی دنیا بھر میں تلقین بھی کی جاتی ہے، یہ اچھی بات ہے اور اچھی بات جس طرف سے بھی آئے اسے قبول کرنا چاہیے۔ لیکن اس بات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ ماں اور بچے کی صحت کے بارے میں مغرب کا تصور اور تناظر بہت محدود ہے جبکہ اسلام کا تناظر اس کے بارے میں بہت وسیع ہے۔ مغرب صرف جسمانی صحت کی بات کرتا ہے اسے روحانی اور اخلاقی صحت سے کوئی غرض نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس کے بارے میں سوچنے کے لیے تیار ہے حالانکہ بچہ صرف جسم کا نام نہیں بلکہ جسم اور روح دونوں کے ملاپ سے بچہ تشکیل پاتا ہے، ماں کے پیٹ میں بچے کو روح کا کنکشن ملے تو وہ بچہ کہلاتا ہے لیکن اگر وہ روح کے بغیر پیدا ہو جائے تو اسے اسی طرح زمین میں دفن کر دیا جاتا ہے، اسلام میں دونوں باتوں کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بچے کی ولادت کے بعد جہاں اسے پہلی جسمانی خوراک کے طور پر کسی نیک آدمی سے گھٹی دلانا سنت ہے، وہاں اس کے کان میں آذان اور اقامت کہنا بھی سنت ہے۔ گھٹی اس کے جسم کی خوراک ہے جبکہ آذان اس کی روح کی خوراک ہے اور زندگی کے تمام مراحل میں اسلام نے اس توازن کو قائم رکھا ہے۔ علما کرام اور خطبا بھی بچے اور ماں کی صحت کے بارے میں موجود معروضی صورتحال سے آگاہی حاصل کر کے حالات کی بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کریں، بچے کی جسمانی اور روحانی دونوں قسم کی صحت کے بارے میں قوم کی راہنمائی ضروری ہے، علما کرام کو چاہیے کہ وہ دونوں پہلوﺅں کے بارے میں معروضی صورتحال سے آگاہی حاصل کریں۔