پھلوں کی ناقابل برداشت قیمتیں اور بائیکاٹ مہم

گلگت بلتستان میں فروٹ کی قیمتےں آسمان سے باتےں کر رہی ہےں ‘روزہ داروں کے لئے فروٹ خریدنا خواب بن گیا ہے ۔من مانی قیمتوں کی وجہ سے گلگت کے شہریوں نے فروٹ بائیکاٹ کے مہم کا آغاز کردیا ہے اور سوشل میڈیا کے ذریعے عوام سے اپیل کی جارہی ہے کہ فروٹ کا بائیکاٹ کیا جائے تاکہ گراں فروشوں کے ہوش ٹھکانے آئینگے چونکہ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے جو نرخ نامی جاری کیا گیا ہے اس کے برعکس اپنی من مانی قیمتوں پر فروٹ فروخت کئے جارہے ہیں ۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ ہم لوگوں کی اپنی غلطی ہم مہنگا ہونے کے باوجود پھل خریدتے ہیں ہمیں صرف ایک ہفتہ بائیکاٹ کرنا ہوگا اور اس وقت عوام دیکھیں کہ ریٹ نیچے کیسے آتے ہیں شہریوں نے تمام صارفین سے اپیل ہے کہ 27 مارچ سے 31 مارچ تک افطاری کے لیے پھلوں کی خریداری بالکل بند یا بہت محدود کر دیں تاکہ پھلوں کی قیمتیں عام شہریوں کی پہنچ میں آ جائیں۔ہر سال ماہِ مقدس رمضان المبارک کی آمد پر اشیائے خورونوش کی قیمتیں بلند ترین سطح پر پہنچ جاتی ہیں ، جن پر حکومت بھی اگر کوئی ریلیف دے تو پھر بھی یہ عام حالات سے مہنگی ہی رہتی ہیں۔ افسوس کہ امسال بھی ایسا ہی دیکھنے میں آیا ہے اورخود ساختہ اضافے کے باعث انتہائی بنیادی ضرورت کی اشیاکی قیمتیں یکدم آسمان کو چھونے لگی ہیں، سبزیوں کے دام بڑھا دیے گئے جبکہ پھلوں کی قیمت میں بھی اضافہ کیا گیا۔ دنیا بھر کے مہذب ممالک میں ان خصوصی دنوں اور تہواروں کے موقع پر اشیائے ضرور یہ کی قیمتیں کم کر دی جاتی ہے جب کہ وطنِ عزیز میں الٹی گنگابہتی ہے۔ ہر سال ہی رمضان المبارک میں گرانی اپنے عروج پر پہنچی ہوتی ہے۔ دودھ، آٹا، گھی، تیل،سبزیاں وغیرہ سب مہنگے ہو جاتے ہیں اور پھل تو غریبوں کے لیے شجر ممنوعہ اس لیے ہو جاتے ہیں کہ وہ ان کی خریداری کے متحمل نہیں ہو سکتے۔وفاقی اور صوبائی حکومتیں فوری طور پر نا جائز منافع خوروں کے خلاف کاروائی کرنے کے لیے اقدامات کا اعلان کریں اور منافع خور وں پر صرف جرمانہ عائد کرنے کے بجائے انہیں سخت ترین سزائیں بھی دیں تاکہ خود ساختہ مہنگائی کا سلسلہ رک سکے۔ رمضان کے مہینے میں اللہ نے ہر مسلمان بالغ پر روزے کو فرض کیا ہے، اسے گناہوں سے مغفرت، ثواب و رضا، دعاں کی قبولیت اور اللہ سے تقرب کا مہینہ قرار دیا ہے۔قرآن میں اللہ کا ارشاد ہے۔ رمضان کے مہینے میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کیلئے ہدایت اور فرقان کی دلیل ہے، جو شخص اس ماہ کو پائے، وہ اس میں روزے رکھے اور جو بیمار یا مسافر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں قضا کرے، اللہ تعالی تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے، وہ تمہارے ساتھ تنگی نہیں چاہتا۔ افسوس ہم رمضان کی برکتیں سمیٹنے کی بجائے رمضان میں عوام کو لوٹنے میں مصروف ہیں رمضان ہمیں بھوک برداشت کر کے غریب پروری کا درس دیتا ہے مگر ہم اس کے بر عکس رمضان میں غریب کو مارنے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں۔ جبکہ بہت سے غیر اسلامی ممالک میں رمضان کی مناسبت سے سیل لگائی جاتی ہیں جہاں پر مسلمانوں کو ارزاں نرخوں پر اشیائے خوردونوش دستیاب ہوتی ہیں جہاں پر امیر و غریب دونوں اس بابرکت مہینے کی برکتوں و رحمتوں سے استفادہ کرتے ہیں۔ خصوصی رمضان ڈسکاﺅنٹ پیکج متعارف کروائے جاتے ہیں۔ مسلم بھائیوں کے لئے بڑے بڑے افطار۔ دستر خوان سجائے جاتے ہیں لیکن بدقسمتی سے عالم اسلام کی واحد ایٹمی قوت اور اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والی مملکت خداداد پاکستان میں رمضان جیسے با برکت اور رحمت کے مہینے کو باعث زحمت بنا دیا جاتا ہے۔پاکستان جو ماہ رمضان المبارک میں اسلام کے نام وجود میں آیا اور قرآن وسنت کے عملی نظام کے نفاذ کا اللہ سے عہد کیا گیا تھا۔ لیکن پچھہترسال کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود ہم نے اس عہد کی پاسداری نہیں کی۔ رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی ذخیرہ اندوز متحرک ہوجاتے ہیں۔ ملک میں مہنگائی کا طوفان برپا ہوجاتا ہے۔ روز مرہ کی اشیا کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔ حکومت جو بھی ہو وہ صرف رمضان پیکیج کا اعلان کر کے یوٹیلیٹی اسٹورز میں چند اشیا پر سبسڈی دے کر اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو جاتی ہے ۔ہر رمضان میں انتظامیہ عوام کو مہنگائی کے سیلاب سے بچانے کے دعوے تو کرتی ہے مگر گراں فروشی اور مہنگائی پھر بھی کنٹرول سے باہر ہوجاتی ہے۔ دکاندار، تاجر اور خوردہ فروش شہریوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں اور حکومت مہنگائی کے جن کو قابو نہیں کرپاتی۔ لہذا ماضی کی طرح تاریخ اس بار بھی مہنگائی اور بے روزگاری کے سیلاب کے سامنے بے بسی کی تصویر بنی نظر آتی ہے ۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں فوری طور پر نا جائز منافع خوروں کے خلاف کاروائی کرنے کے لئے اقدامات کا اعلان کریں اور منافع خور وں پر جرمانہ عائد کرنے کے بجائے سخت ترین سزاﺅں کے اقدامات کئے جائیں۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ضلعی حکومت کے نمائندوں کو صحیح معنوں میں عوام کا خادم بنایا جائے اور ان سے مہنگائی کے خاتمے کے لئے مرکزی کردار اداکروایا جائے۔ضروری ہے کہ حکومتی عمل داری یقینی بنائی جائے،کیوں کہ اس کے بغیر اب چارہ بھی نہیں۔ملک بھر میں مہنگائی کے عفریت پر قابو پانے کے لئے نہ صرف راست اقدامات کئے جائیں بلکہ رمضان المبارک میں عوام کو گرانی سے بچانے کا موثر بندوبست بھی کیا جائے۔ذمہ داران سرکاری نرخ نامے کے مطابق اشیا ضروریہ کی فروخت ممکن بنائیں،گراں فروشوں کے خلاف کڑی کارروائیاں کی جائیں۔بصورت دیگر مہنگائی کا سونامی غریب عوام کی کمر توڑ کر رکھ دے گا کیونکہ منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں نے قیمتوں میں من مانا اضافہ کیا ہے اور ساتھ ہی مصنوعی قلت بھی پیدا کر دی ہے۔لہذا حکومت کو ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کے ساتھ ساتھ منافع خوروں کے خلاف بھی سخت کاروائی کرنی چاہئے۔جب رمضان آتا ہے تو اسے زیادہ سے زیادہ کمائی اور منافع کا مہینہ سمجھتے ہوئے ہر چیز کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کر دیا جاتا ہے اور غریب آدمی اس مہینے میں رحمتوں کو سمیٹنے کے بجائے اپنا نان نفقہ پورا کرنے کی فکر میں ہی مبتلا رہتا ہے ۔ ماہ صیام تو نیکیاں کمانے کامہینہ ہے مگر وطن عزیز میں سفید پوش طبقے کی مجبوریوں کا خوب فائدہ اٹھایا جا تا ہے اور ان منافع خوروں ، ذخیرہ اندوزوں سے پوچھ گچھ کرنے والا کوئی نہیں ؟سوشل میڈیا پر صارفین انفرادی طور پر اور گروپس کی شکل میں پھلوں کے بائیکاٹ کی مہم بھی چلا رہے ہیں۔ کراچی میں کچھ افراد نے اپنے طور پر سستے پھلوں کے سٹال لگانے کی کوشش بھی کی لیکن وہاں بھگدڑ مچنے سے یہ منصوبہ بھی ناکام ہو گیا۔اب سوشل میڈیا پر کچھ نمایاں شخصیات اور سماجی کارکن بھی پھلوں کے بائیکاٹ کی ترغیب دے رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرح پھل سستے ہو جائیں گے۔ اگر سب پاکستانی مل کر صرف ایک ہفتے کے لیے فروٹ خریدنا بند کر دیں تو فروٹ کی قیمت نیچے آ سکتی ہے۔کراچی کے سماجی کارکن سید ظفر عباس سوشل میڈیا پر پھلوں کے بائیکاٹ کی مہم میں کافی سرگرم ہیں۔ وہ اس حوالے سے مختلف مشہور شخصیات کے بیانات بھی حاصل کر کے سوشل میڈیا پر پوسٹ کر رہے ہیں۔پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان سرفراز احمد نے بھی پھلوں کے بائیکاٹ کی حمایت کی ہے۔ فروٹ مافیا کیلا 400 سے 500 روپے فی درجن تک فروخت کر رہا ہے۔پاکستان کے مختلف شہروں میں تین دن کے لیے پھل فروشوں کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے۔ فیس بک سے حرکت پکڑنے والی اس فروٹ بائیکاٹ مہم میں حصہ لینے والے لوگ رمضان کے مہینے میں پھلوں کی بڑھتی قیمتوں کی خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔رمضان میں گرمی کی شدت کے باعث پھلوں کی خرید و فروخت کا عمل عموما نمازِ عصر سے ذرا قبل شروع ہوتا ہے مگر فروٹ بائیکاٹ کے دوسرے روز پھل فروشوں کے پاس زیادہ بھیڑ نظر نہیں آ رہی۔بہت سے لوگوں کو ملک بھر میں جاری سوشل میڈیا پر کیے جانے والے بائیکاٹ کا علم نہیں اور اگر ہوتا بھی تو ان کا کہنا ہے وہ پھر بھی پھل خریدتے، کیونکہ ہمیں تو کھانا ہے۔ ہم تھوڑی بارگیننگ کر لیں گے، ایک دو جگہ گھوم لیں گے، پر اب پھل کھانا تو نہیں چھوڑ سکتے۔لوگوں کی بھی شکایت ہے کہ رمضان کے آتے ہی فروٹ مہنگے ہو جاتے ہیں۔ تو مہنگا بھی خریدتے ہیں کیونکہ کیا کریں اب کھانا تو ہے نا۔اگر تین روز کے بائیکاٹ کا مقصد پھل فروشوں کو سبق سکھانا ہے تو اس میں کامیابی ہو گی؟ کیا دوکاندار سبق سیکھےں گے یا تین دن کی بعد پھر سے قیمتیں بڑھ سکتی ہیں؟دوکانداروں کا کہنا ہے ہمارا منافع تو محض دس روپے تک ہوتا ہے۔ اس میں ہم نے سارا دن یہاں دہاڑی بھی کرنی ہے، شاپنگ بیگ کی قیمت بھی نکالنی ہے اور پھر خراب ہونے والے فروٹ کا نقصان بھی برداشت کرنا ہے۔ قیمتیں رمضان میں خصوصا زیادہ ہو جاتی ہیں اور وہ خود بائیکاٹ کے حق میں ہیں مگر پھر بائیکاٹ منڈی میں بیٹھے ان آڑھتیوں کا بھی کیا جانا چاہیے جو مال مہنگا کرتے ہیں۔جب بازار میں قیمتیں کم ہوتی ہیں تو آڑھتی مال روک لیتا ہے اور پھر جب دوبارہ اوپر جاتی ہیں تو مال دوبارہ لے آتا ہے اس طرح قیمتیں تو پھر بھی زیادہ ہی رہیں گی۔ اگر آڑھتیوں کا بائیکاٹ کیا جائے تو وہ بھی ساتھ دینے کو تیار ہیں مگر ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ وہ مال اس کم از کم قیمت تک جس پر وہ منڈی سے خریدتے ہیں۔یہ تو حکومت کا کام ہے کہ دیکھے کہ منڈی میں پھل کتنے میں بِک رہا ہے اور پھر باہر بازار میں کتنے کا بِکتا ہے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ قیمتیں یکساں رہیں۔ اب منڈیوں میں مال نہیں ہے کیونکہ آڑھتی بائیکاٹ ختم ہونے کا انتظار کر رہے ہیں اور جیسے ہی وہ ختم ہو گا، پھل شاید پھر اسی قیمت میں بکنا شروع ہو جائے گا۔