انتخابات کے التواء پر اختلافات



پاکستان تحریک انصاف نے پنجاب میں تیس اپریل کو ہونے والے انتخابات ملتوی کرنے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے سیکرٹری جنرل اسد عمر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے آئین کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں، ایک ایسا فیصلہ دیا گیا جو آئین اور سپریم کورٹ کے واضح احکامات سے متصادم ہونے کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کے اپنے موقف سے بھی متصادم ہے۔ جب عدالتوں میں یہ معاملہ گیا تو الیکشن کمیشن نے موقف اپنایا کہ آئین میں گنجائش نہیں ہے کہ الیکشن کمیشن خود انتخابات کی تاریخ کا تعین کرسکے، اب پتا نہیں انہوں نے کون سی آئینی شق دیکھ لی جس کے مطابق اب نوے روز میں نہ صرف انتخابات کرانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کے پاس یہ بھی اختیار ہے کہ وہ فیصلہ کرلے کہ اس نے کب الیکشن کا انعقاد کرانا ہے۔اسد عمر نے کہا کہ یہ کیسا حسن اتفاق ہے کہ الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ حکمران اتحاد کی جانب سے کیے گئے اس مطالبے کے چند گھنٹے بعد سامنے آتا ہے جس میں اس خواہش کا اظہار کیا جاتا ہے جس کے بعد فیصلہ آجاتا ہے کہ آٹھ اکتوبر کو ہم نے صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کرانے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ابھی عمران خان نے پارٹی کا اجلاس بلایا تھا، اجلاس میں جو فیصلے کیے گئے وہ میں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں جس میں پہلا فیصلہ یہ کیا گیا کہ اس فیصلے کو قانونی طور پر چیلنج کیا جائے گا، کل سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کردی جائے گی جس میں اس فیصلے کو غیر آئینی قرار دے کر کالعدم قرار دینے کی استدعا کی جائے گی۔ان کا کہنا تھا کہ گورنر خیبر پختونخوا نے پہلے ہی فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ ملک کے پہلے سیاستدان بن جائیں جس پر آرٹیکل چھ لگے اور انہیں سزا ملے، انہوں نے واضح طور پر آئین اور سپریم کورٹ کے احکامات ماننے سے انکار کردیا، ان کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ دائر کرچکے ہیں، امید ہے سپریم کورٹ اس معاملے کو بھی سنے گی۔اسد عمر نے کہا کہ ہفتے کے روز ہونے والا پارٹی کا جلسہ تاریخی ہوگا، جلسے میں آئین کے دفاع کے لیے سپریم کورٹ کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا جائے گا، پی ٹی آئی سپریم کورٹ کے پیچھے کھڑی ہے، ججز نے فیصلے آئین و قانون کے مطابق کرنے ہیں لیکن پوری قوم بھی ان کے ساتھ کھڑی ہے۔چیئرمین پی ٹی آئی نے ہدایات دی ہیں کہ ہمارے سینیٹرز پیر کے روز ہونے والے جوائنٹ سیشن میں شرکت کریں گے اور پارٹی کا موقف بھرپور انداز میں پیش کریں گے، اس کے علاوہ پارٹی کے امیدواروں کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ اپنی انتخابی مہم جاری رکھیں۔ انہوں نے اپنی الیکشن مہم کو نہیں روکنا، اپنے حلقوں کے اندر کام جاری رکھنا ہے، ہمیں عدلیہ سے امید ہے کہ وہ آئین سے انحراف نہیں ہونے دے گی اور فیصلہ آئے گا کہ جس تاریخ کا اعلان کردیا گیا ہے اسی کو الیکشن کرائے جائیں گے، اس لیے پی ٹی آئی کے ٹکٹ کے امیدواران نے اپنی انتخابی مہم جاری رکھنی ہے۔اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ 23 مارچ کو آئین پاکستان کو توڑ کر ہمیں جو تحفہ دیا گیا، ہم اس کے خلاف رٹ پٹیشن دائر کریں گے، ملک بھر کی 96 بار ایسوسی ایشنز نے اس فیصلے کو مسترد کیا ہے، وکلا کی جو بھی تحریک چلے گی، پی ٹی آئی اس کے پیچھے کھڑی ہوگی۔فواد چوہدری نے کہا کہ سپریم کورٹ نے تین دو کی واضح اکثریت سے حکم دیا لیکن وزیر قانون اور اٹارنی جنرل نے کہا کہ تین چار سے ہمارے حق میں فیصلہ ہوگیا ہے، پھر اس کے بعد کوئی نظر ثانی کی اپیل فائل نہیں کی، کل ہم سوچ رہے تھے کہ یہ مشترکہ اجلاس میں ہمارے خلاف کوئی قرار داد لائیں گے لیکن ایجنڈے پر ہم نہیں سپریم کورٹ تھی، یہ تو سپریم کورٹ پر حملہ ہے۔ سپریم کورٹ پر حملے کے لیے پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلایا گیا، اس سے قبل بھی انہوں نے سپریم کورٹ پر حملہ کیا، سپریم کورٹ کے جج کی آڈیو پکڑی گئی، اس میں بھی یہ لوگ ہی ملوث تھے، اسی طرح سے پہلی دفعہ گھر بیٹھے ضمانت قبل از گرفتاری دی گئی اور وہ بھی حمزہ شہباز کو، پاکستان میں ایک ہی اسپیکر قاسم سوری کی رولنگ کالعدم قرار دی گئی جس کی بنیاد پر یہ حکومت بنی ہوئی ہے۔ حکومت آج جن ججز پر تنقید کر رہی ہے ان میں تین جج اس بینچ میں شامل تھے جنہوں نے اسمبلی بحال کرنے کا فیصلہ دیا جس کے نتیجے میں یہ حکومت قائم ہوئی اور آج انہیں چیف جسٹس اور دیگر ججز سے تکلیف ہوگئی ہے، اگر انہیں فیصلے پر اعتراض تھا تو نظر ثانی کی اپیل کرتے، آج پورا پاکستان مطالبہ کر رہا ہے کہ الیکشن کمیشن پاکستان کے پانچوں اراکین پر آرٹیکل چھے کا مقدمہ درج ہونا چاہیے، یہ لوگ ہیں جن پر پہلی بار آرٹیکل چھ کا مقدمہ عمل در آمد ہوگا۔سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ کل عمران خان نے اپنی جان کو درپیش خطرات سے آگاہ کیا، آج پنجاب حکومت نے اس سلسلے میں جے آئی ٹی تشکیل دی ہے، یہ خوش آئند ہے، اگر پنجاب حکومت نوٹس لیتی ہے، ہم اپنے خدشات اس کے ساتھ شیئر کریں گے، امید ہے غیر جانبدار جے آئی ٹی اس معاملے کو آگے لے کر بڑھے گی۔ پوری قوم انتخابات کے لیے تیار ہے، 30 اپریل کو پنجاب میں الیکشن ہونے ہیں، آئین اور سپریم کورٹ کے واضح احکامات ہیں۔فواد چوہدری نے کہا کہ ہم تو مذاکرات کے لیے تیار ہیں لیکن یہ حکومت انتخابات نہیں کرانا چاہتی، انہوں نے کہا کہ انتقامی کارروائی کرنے والوں کا احتساب ہوگا، 30 اپریل کے بعد اس نگران حکومت کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔ادھر وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ موجودہ حالات میں انتخابات خونی ہوں گے، تمام سیاسی قوتوں کو مل کر بیٹھنا چاہیے، الیکشن کمیشن نے ملکی معروضی حالات میں انتخابات ملتوی کرنے کا درست فیصلہ کیا، تیسرے آپشن کے لیے حالات سازگار نہ کریں۔وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ آج ملک کی جغرافیائی صورتحال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور شاید اسی وجہ سے ہم معاشی تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں، اس میں خاطر خواہ پیش رفت ہوتی نظر نہیں آرہی، اس کے لیے ہمیں کئی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔آج جس معاملے پر زیادہ بات کی جارہی ہے وہ ملک میں انتخابات ہیں، ملک میں ایک بحران کی سی کیفیت ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جبکہ ملک کے دو صوبوں کی اسمبلیاں ایک شخص کی انا کی بھینٹ چڑھ گئیں، پنجاب جو کہ ملک کے نصف حصے سے زائد ہے اور خیبرپختونخوا جو ملک کا تیسرا بڑا صوبہ ہے، وہاں کی اسمبلیاں تحلیل ہونیکے بعد کی صورتحال، دہشت گردی میں اضافہ جس کی وجوہات گزشتہ حکومت کے فیصلے ہیں، جس کی وجہ سے دہشت گردی کی لہر ہمیں ورثے میں ملی۔جب دو صوبوں کے الیکشن کی بات آئی تو دو آرا سامنے آئیں، ایک رائے یہ تھی کہ ایک شخص کی انا کی تسکین کے لیے دوصوبوں کے الیکشن الگ سے کرائے گئے تو یہ ایک مستقل سیاسی عدم استحکام کا باعث بنے گا۔ طریقہ کار کے تحت ملک میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے بیک وقت انتخابات ہونے ہوتے ہیں۔دو دفعہ الیکشن کرائیں تو یہ 100 ارب سے زائد کی مشق ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس طریقہ کار کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ وفاقی اکائیوں جن میں آباد کا تناسب بہت مختلف ہے، اس لیے سیاستدان اور سول سوسائٹی اس پر بات کرتے ہیں کہ ملک میں انتخابات بیک وقت ہونے میں ہی ملک کا بھلا ہے، اس سے ملک میں سیاسی استحکام آئے گا، سیاسی و معاشی استحکام ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، ان دنوں ہم دہشت گردی کی لہر کی لپیٹ میں ہیں، الیکشن کمیشن نے بھی کہا کہ گزشتہ چند ماہ میں دہشت گردی کے دو سو واقعات ہوئے ہیں، اس لیے انہوں نے الیکشن کی تاریخ ملتوی کی ہے، اس پر بیٹھ کر بات ہو سکتی ہے لیکن فوری فتوے جاری کردیے گئے کہ الیکشن کمیشن آئین شکنی کا مرتکب ہوا ہے، آرٹیکل چھ کا مرتکب ہوا ہے، یہی آئین تھا جب پی ٹی آئی کے رہنمائوں نے آئین شکنی کرتے ہوئے اسمبلی تحلیل کردی تھی۔ سیاست کی بنیاد ہی بات چیت پر ہے، بدقسمتی سے عمران خان کی ایک اپنی انا، اپنی سوچ اور ایک نظریہ ہے جو پتا نہیں سیاسی کیسے ہے لیکن اگر وہ گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کرنا چاہتے ہیں تو انہیں بیٹھنا چاہیے۔اس لیے ملک کے لیے ایک ساتھ بیٹھیں اور ملک کے مفاد کا سوچیں، ٹروتھ اینڈ ری کنسیلئشن کا عمل ہونا چاہیے، بیٹھ کر بات کریں، گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ ہو تاکہ ملک میں موجودہ سیاسی حدت میں کمی ہو، اگر موجودہ حالات میں انتخابات ہوئے تو یہ خونی انتخابات ہوں گے، اس میں ہم ملک کا نقصان کریں گے، سیاسی، جمہوری نظام چل رہا ہے، اس کو چلنے دیں، تیسرے آپشن کے لیے حالات سازگار نہ کریں، مل کر بیٹھیں، راستے نکالیں، گریبان نہ پکڑیں۔وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ پاکستان کے مفاد میں ہے، الیکشن کمیشن نے معاشی ، سیاسی اور سیکیورٹی کی صورتحال کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کیا ہے۔ مریم اورنگزیب نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 218کے تحت الیکشن کمیشن کو یقینی بنانا ہے کہ شفاف ، غیرجانبدارانہ اور منصفانہ انتخابات ہوں ،آرٹیکل 224کا تقاضا ہے کہ انتخابات کے وقت وفاق اور صوبائی اکائیوں میں نگران حکومتیں قائم ہوں۔ الیکشن کمیشن نے تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد یہ فیصلہ کیا، الیکشن کمیشن کے فیصلے سے ملک میں سیاسی استحکام کی ضمانت ملے گی، تحفظات تھے کہ ایک آدمی کی انا کی وجہ سے دو صوبوں پر زبردستی الیکشن مسلط کیاجارہا ہے۔