نئی منزل کے حصول کی تاریخ ساز قرارداد



آج ملک بھر میں یوم پاکستان ملی جوش و جذبے سے منایا جا رہا ہے۔آج کا دن 23 مارچ 1940کو آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں منظور کی گئی قرارداد کی یاد میں منایا جاتا ہے جس کی روشنی میں برصغیر کے مسلمانوں نے اپنے لئے ایک علیحدہ وطن کا  خواب  شرمندہ تعبیر کیا۔ یہ قرارداد لاہور منٹو پارک میں پیش کی گئی جہاں اس کی یادگار کے طور پر مینار پاکستان تعمیر کیا گیا۔اس دن کی مناسبت سے تمام سرکاری و نجی عمارتوں پر قومی پرچم لہرائے جاتے ہیں، یوم پاکستان کی اہمیت سے نئی نسل کو روشناس کرایا جاتا ہے۔22  مارچ سے 24 مارچ، 1940 کو لاہور کے منٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تین روزہ سالانہ اجلاس کے اختتام پر وہ تاریخی قرارداد منظور کی گئی تھی جس کی بنیاد پر مسلم لیگ نے برصغیر میں مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کے حصول کے لیے تحریک شروع کی اور سات برس کے بعد اپنا مطالبہ منظور کرانے میں کامیاب رہی'قراردادِ پاکستان سے قیامِ پاکستان تک کا عرصہ سات سال پر محیط ہے مگر واقعات کے لحاظ سے یہ صدیوں پر بھاری ہے۔آزادی کا قافلہ رواں دواں تھا مگر اس کے راستے میں رکاوٹیں ہی رکاوٹیں تھیں۔انگریزوںاور ہندوئوں نے سازشوں کا جال بچھا دیا تھا۔یہ دونوں قوتیں مقصدِ واحد پر متحد تھیں کہ مسلمانوں کو حصولِ وطن کی منزل تک کسی صورت نہ پہنچنے دیا جائے۔ان سازشوں میں بعض اپنے بھی غیروں کی مدد کر رہے تھے۔قائداعظم اور دیگر قائدین کو بے شمار لالچ دئیے گئے۔رشوتیں پیش کی گئیںاور بے شمار دیگر حربے آزمائے گئے۔مگر تمام بدخواہوں کی ساری سازشوں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اور کاروانِ آزادی انتہائی قلیل مدت میں منزلِ مقصود پر پہنچ گیا۔23 مارچ منزلِ آزادی کا وہ سنگِ میل تھا جہاں سے منزل کی روشنی صاف دکھائی دے رہی تھی،جہاں دو قومی نظرئیے کا اثبات ہوا اور جہاں اسلامیانِ برصغیر کا تشخص ابھر کر سامنے آگیا۔یہ وہی مقام تھا جہاں اقبال کے افکار اور قائداعظم کے اقوال کی شان و شوکت اور عظمت کا احساس نہ صرف اجاگر ہوا بلکہ یہ افکار واقوال عمل کے سانچے میں ڈھلتے ہوئے دکھائی دیئے۔قائد اعظم کا یہ فرمان نئے اسلامی ملک کا منشور بن کر سامنے آیا۔ یومِ پاکستان ہمیں ماضی کے مناظر میں لے جاتا ہے،تحریکِ پاکستان کی یادوں کو تازہ کرتا ہے۔1937 کے انتخابات نے مسلمانوں کی سوچ کو بدل کر رکھ دیا تھا جب کانگریس کی حکومت نے ہندوں کی اکثریتی آبادی کی خوشنودی کے لیے ایسے متنازعہ اقدامات کیے کہ جن سے اقلیتی فرقے مسلمانوں کو اپنی بقا کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔ انگریزوں نے جو مغربی جمہوریت ، ہندوستان میں متعارف کروائی تھی ، قائداعظم اس کے حق میں نہیں تھے کیونکہ ان کے خیال میں ایسے نظام میں اکثریت ہمیشہ اقلیت پر حکومت کرتی۔ جداگانہ انتخابات بھی اس کا حل نہیں تھے کیونکہ مسلمان کبھی بھی مرکزی حکومت نہیں بنا سکتے تھے ، اس لیے سیاسی طور پر فیصلہ کن قوت بھی نہیں بن سکتے تھے۔کانگریس کا اڑھائی سالہ دور اقتدار مسلمانوں کے لیے ایک ڈرائونا خواب ثابت ہوا تھا۔ جب 1939 میں دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو انگریز سرکار نے کانگریس حکومت کے مشورے کے بغیر ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے ہندوستان کو بھی جنگ میں جھونک دیا تھا جس پر کانگریس نے احتجاجا استعفی دے دیا تھا۔ اس پر مسلم لیگ نے ملک گیر یوم نجات منایا۔قرارداد لاہورکو پہلی بار قرارداد پاکستان کا نام آل انڈیا مسلم لیگ کے مخالف وطن پرست مسلمان سیاسی اتحاد ، آل انڈیا آزاد مسلم کانفرنس نے اپنے اپریل 1940 کے جلسہ میں دیا تھا جس کی ہندو پریس نے بڑے مزے لے لے کر طنزیہ تشہیر کی تھی۔ اسی قرارداد کی بنیاد پر 1945'46 کے انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ نے قائد اعظم کی قیادت میں سو فیصدی مسلم نشستیں جیت کر ہندوستان کے مسلمانوں کی نمائندگی کا دعوی سچ ثابت کر دکھایا تھا۔قرارداد کے متن کے مطابق آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ اجلاس ، آئینی مسائل پر 27 اگست ، 17 اور 18 ستمبر اور 22 اکتوبر 1939 اور 3 فروری 1940 کی قراردادوں کی روشنی میں یہ مطالبہ کرتا ہے کہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 میں شامل وفاق کی تجویز ، اس ملک کے مخصوص حالات میں مکمل طور پر نامناسب اور ناقابل عمل ہے۔کوئی بھی آئینی منصوبہ اس ملک میں قابل عمل یا مسلمانوں کے لیے قابل قبول نہیں ہوگا کہ جب تک جغرافیائی طور پر متصل اکائیوں کی حد بندی نہ کی جائے۔ ان خطوں میں جہاں مسلمان عددی طور پر اکثریت میں ہیں ، جیسا کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی علاقوں میں، ان کو آزاد ریاستوںکی شکل دی جائے جن میں تمام اکائیاں آزاد اور خود مختار ہوں۔آئین میں مسلم اکائیوں اور خطوں میں غیرمسلم اقلیتوں اور دیگر علاقوں کے مسلم اقلیتوں کے مذہبی، ثقافتی، اقتصادی، سیاسی، انتظامی اور دیگر حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے باہمی مشاورت سے مناسب اور موثر اقدامات کی ضمانت دی جائے۔آئین میں یہ گنجائش رکھی جائے کہ مسلم خطے ، دفاع، خارجی امور، رسل و رسائل پر عملدرآمد اور دوسرے ضروری امور کے اختیارات پر بھی قابض ہو سکیں۔اس قرارداد میں برصغیر کے مسلمانوں کے سیاسی نصب العین کا فیصلہ کیا گیا تھا اور برطانوی ہندوستان کی آئینی حدود میں رہتے ہوئے یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ اجلاس نہایت غوروغوض کے بعد اس ملک میں مسلمانوں کے لیے صرف ایسے آئین کو قابلِ عمل اور قابلِ قبول قرار دیتا ہے جو جغرافیائی اعتبار سے باہم متصل خطوں کی صورت میں حدبندی کا حامل ہو اور بوقتِ ضرورت ان میں اس طرح ردوبدل ممکن ہو کہ جہاں جہاں مسلمانوں کی اکثریت بہ اعتبار تعداد ہو ، جیسے کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی علاقے ہیں ، انہیں آزاد ریاستوں کی صورت میں یکجا کردیا جائے اور ان میں شامل ہونے والی وحدتیں خودمختار اور حاکمیت کی حامل ہوں۔قراردادِ پاکستان کے مصنف اس وقت کے وزیرِ اعلی پنجاب سرسکندر حیات خان تھے جو کہ پنجاب مسلم لیگ کے صدر بھی تھے۔ مسلم لیگ میں شمولیت سے قبل آپ یونیسٹ پارٹی کے سربراہ تھے۔یہ قرارداد پاکستان کی نظریاتی بنیاد بن گئی۔ قائداعظم محمد علی جناح نے  بائیس مارچ کو ہونے والے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے پہلی بار کہا کہ ہندوستان میں مسئلہ فرقہ وارانہ نوعیت کا نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی ہے یعنی یہ دو قوموں کا مسئلہ ہے۔ ہندوئوں اور مسلمانوں میں فرق اتنا بڑا اور واضح ہے کہ ایک مرکزی حکومت کے تحت ان کا اتحاد خطرات سے بھر پورہوگا، انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس صورت میں ایک ہی راہ ہے کہ دونوں قومیتوں کی علیحدہ مملکتیں ہوں۔دوسرے دن انہی خطوط پر 23 مارچ کو اس زمانہ کے بنگال کے وزیراعلی مولوی فضل الحق المعروف شیرِ بنگال نے قراردادِ لاہور پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ اس وقت تک کوئی آئینی پلان نہ تو قابلِ عمل ہوگا اور نہ مسلمانوں کو قبول ہوگا جب تک ایک دوسرے سے ملے ہوئے جغرافیائی یونٹوں کی جدا گانہ علاقوں میں حد بندی نہ ہو۔23 مارچ 1940 کو شہر لاہور میں مسلمانان ہند نے اپنی منزل کا اعلان کیا تھا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے آزاد خطوں کی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں۔ اس تاریخی قرار داد کی رو سے آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس پورے غور و خوض سے اس نتیجے پر پہنچا کہ ہندوستان کے آئینی مستقبل سے متعلق صرف وہی تجویز قابل عمل اور قابل قبول ہو گی جو مندرجہ ذیل اصولوں پر مبنی ہو گی۔ یعنی موجودہ صوبائی سرحدوں میں ردوبدل کر کے ملک کی تقسیم اس طرح کی جائے کہ ان علاقوں میں آزاد ریاستیں قائم ہو سکیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے یعنی ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی خطے میں جو علاقے شامل ہوں گے ان کو مکمل خود مختاری اور اقتدار اعلی حاصل ہو گا۔ قوم کو ایک واضح نصب العین مل چکا تھا اور خوش قسمتی سے قائد اعظم جیسے مدبر قائد میسر تھے جن کی قیادت سحر انگیز اور ولولہ انگیز ہونے کے علاوہ سیاست میں صداقت اور دیانتداری کی علمبردار تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد ہو چکے تھے۔ 1945 میں وائسرائے ہند لارڈ ویول نے مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی مقبولیت اور دوسری جماعتوں کی طاقت کا اندازہ کرنے کے لئے انتخابات کروائے۔ کانگرس کے ایما پر بننے والے مسلمانوں کے نام نہاد متحدہ محاذ کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ کو تاریخی فتح حاصل ہوئی اور مسلم لیگ مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت بن کر سامنے آئی اور اس طرح حصول پاکستان کی منزل قریب سے قریب تر ہوگئی۔اکتوبر 1946 میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس میں مسلم نمائندگان کی قیادت خان لیاقت علی خان کی کی۔ ادھر حکومتی ایوانوں میں قائد اعظم مسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ اور قیام پاکستان کے لئے سیاسی جنگ لڑ رہے تھے تو دوسری طرف ہندو مسلم فسادات نے پورے ملک کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان فسادات میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔ تین جون کو تقسیم ہند کے منصوبے کا اعلان کیا گیا۔ اس طرح 14 اگست 1947 کو وہ مملکت دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئی جو مسلمانوں کے دلوں کی آواز تھی۔