پاک چین سرحد کی بندش کا خاتمہ

پا ک چائنہ سرحد یکم اپریل سے تجارت کےلئے کھول دی جائے گی۔ خنجراب ٹاپ سے چارسال بعد سرحد کھولنے کے اعلان پر تاجروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ دس اپریل سے بارڈر پاس کا اجرا ہوگا۔ ےہ گلگت بلتستان کے بارڈر ٹریڈ سے منسلک تاجروں کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔ یکم اپریل سے شروع ہونے والی دو طرفہ تجارت کیلئے تاجروں سے بارڈر پاس کیلئے درخواستیں وصولی کا عمل شروع کردیا ہے، اس لئے تاجرحضرات اپنی درخواستیں چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز میں آفس اوقات پر جمع کرائیں تاکہ بارڈر کے حصول کیلئے چیمبر کوشاں رہے گی ۔کورونا وبا کے باعث نومبر 2019 سے پاک چائنہ بارڈر دو طرفہ تجارت کیلئے مکمل طور پر بندکر دیا گیا تھا، صدر عمرا ن علی کے مطابق بارڈر پاس کے اجراءکیلئے چیمبر آف کامرس نے اپنی تمام تر تیاریاں مکمل کرلیں،انہوں نے پاک چائنہ تجارت سے منسلک تاجروں کی سہولت کیلئے آفس سیکرٹری کو ہدایات جاری کی ہے کہ وہ سوست بارڈر پاس کیلئے جمع ہونے والی درخواستوں پر فوری عملدرآمد کیلئے کوششیں تیز کریں، تاجروں کو کوئی بھی پریشانی نہیں ہونی چاہیے، چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسڑی تاجروں کے مسائل کے حل اور سہولیات دینے کیلئے ہمہ وقت کوشاں ہے۔تاجر کہتے رہے ہےں کہ کرونا کا بہانہ بناکر پاک چین بارڈر کی بندش سے گلگت بلتستان کے تاجروں کا استحصال ہورہا ہے طویل عرصے سے بارڈر کی بندش سے پاک چین بارڈر ٹریڈ سے وابستہ ہزاروں تاجر دیوالیہ اور بے روزگا ہوچکے ہیں کرونا ویکسین چین کی تخلیق ہے پھر کروناکے ڈر سے بارڈر بند رکھنا گلگت بلتستان اور پاکستان کے تاجروں کے ساتھ زیادتی ہے جبکہ سینکڑوں چینی باشندے اس وقت گلگت بلتستان سمیت ملک کے دیگر حصوں میں موجود ہیں آزادانہ طورپراپنے کام کاج میں مصروف ہیں لہذا ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت پاکستان اور گلگت بلتستان حکومت بارڈر کھولنے کے لیے اقدامات کرے بصورت دیگر ہم سخت احتجاج کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔پاکستان کا شمار دنیا کے خوبصورت ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقہ جات کی خوبصورتی کا کوئی ثانی نہیں۔ اس کے بلندوبالا پہاڑ، برف سے ڈھکی چوٹیاں، بہتے جھرنے، ندیاں،خوبصورت جھیلیں، پانچ دریا،زرخیز اور سر سبز و شاداب وادیاں، قدیم تہذیبیں، تاریخی مقامات، معدنی ذخائر سے مالا مال چٹانی سلسلے، گھنے جنگلات،وسیع ریگستان، گہراسمندر، خوبصورت ساحل، جزائر اور چارموسموں کی موجودگی کے ساتھ ہر قسم کی آب و ہوا اس کو سیاحوں کی دلچسپی کا باعث بناتی ہے۔ اس کے علاوہ مختلف رنگا رنگ ثقافتیں، بولیاں، اور قدیم اور تاریخی تہذیبوں کی موجودگی پاکستان کو ایک بہترین اور مثالی ملک بنا دیتی ہے۔اب اگر پاکستان کا اندرونی جائزہ لیا جائے تو یہ انمول دھرتی بیش بہا خزانوں اور وسائل سے مالا مال نظر آتی ہے۔ بنیادی طور پر پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ کاشتکاری کے علاوہ مویشی بانی، پولٹری اور ماہی گیری بھی یہاں کے لوگوں کا ایک قابلِ ذکر ذریعہ معاش ہے جس کو بھرپور توجہ کے ساتھ ملکی معیشت میں زرِمبادلہ کے زخائر بڑھانے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔زراعت کے شعبے میں ترقی صرف اسی وقت ممکن ہے کہ حکومت مستقل بنیادوں پر سنجیدگی کے ساتھ طویل المیعاد منصوبہ بندی کرتے ہوئے نئے ڈیمز کی تعمیر کے ساتھ ساتھ زرعی ٹیکنالوجی میں آگے بڑھے۔ کسانوں کو دیسی طریقوں کے بجائے جدید کاشتکاری کے طریقے سکھائے جائیں، جدید مشینری اور جدید معلومات تک ان کی رسائی کو ممکن بنایا جائے۔ ان تمام اقدامات سے زرعی انقلاب لا کر معیشت کو مضبوط کیا جا سکتا ہے۔پاکستان قدرتی معدنیات کی دولت سے بھی مالا مال ہے۔ اہم معدنیات میں کوئلہ، نمک، جپسم، خام لوہا، کرومائیٹ، تانبا، سنگ مرمر، قیمتی پتھر، گیس اور خام تیل شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ ایسے معدنی ذخائر موجود ہیں جو کہ ابھی تک دریافت نہیں کئے جا سکے ۔ بلوچستان میں تیل و گیس کے ذخائر وافر مقدار میں موجود ہونے کے شواہد پائے گئے ہیں۔ا گرچہ یہ معدنی وسائل اقتصادی اور صنعتی ترقی میں اپنا اہم کردار ادا کررہے ہیں تاہم بنیادی منصوبہ بندی کے فقدان کی وجہ سے اب تک اس چھپے خزانے سے اس طرح سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا جو ملک کو اس کی اصل اور تیز ترین اقتصادی ترقی اور خوشحالی کی طرف لے جانے میں مددگار ثابت ہو۔ یہ ضروری ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے پاکستان میں موجود معدنیات و قدرتی وسائل سے بھرپور فائدہ اٹھایا جاسکے۔جب گوادر کا پندرہ لاکھ اےکڑ رقبہ پاکستان میں شامل ہوا‘ اس وقت شاید کسی کو بھی یہ اندازہ نہ تھا کہ آنے والے برسوں میں گوادر پاکستان کی قسمت بدلنے کا باعث بن جائے گا۔2002 میں گوادر پورٹ کی تعمیر کا فیصلہ کیا گیا۔ گوادر پورٹ کا قیام، پاکستان کے بہترین مستقبل کی نوید رکھتا ہے۔دراصل گوادر پورٹ ہی پاکستان اقتصادی راہداری جیسے گیم چینجر کی بنیاد بنا۔ پاکستان کا سی پیک، اشیائے ترسیل کا ایک ایسا میگا منصوبہ ہے جو کہ بہت سارے ممالک کو سڑکوں اور ریلوے کے جدید نظام کے ساتھ ساتھ، گوادر سی پورٹ کے ذریعے آپس میں ملاتے ہوئے تجارت کے نئے دروازے کھول کر دنیا میں طاقت کے توازن کو بدل کر رکھ دے گا۔ اس کے علاوہ پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ وسطی ایشیائی ممالک کی سماجی و اقتصادی ترقی کے لئے کئی مواقع فراہم کرتا ہے۔ سی پیک اور گوادر بندرگاہ کی مدد سے وسط ایشیائی ممالک علاقائی تجارت اور رابطہ کاری کو زیادہ سے زیادہ فروغ دے سکتے ہیں۔چین اس منصوبے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے اس طرح اس منصوبے کے ذریعے پاکستان کے چین کے ساتھ تجارت کے نئے دروازے کھل جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا یہ منصوبہ دشمنوں کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے اور اس وقت دنیا بھر کی نگاہیں اس عظیم الشان منصوبے کی جانب لگی ہوئی ہیں۔ آج دوست تو دوست دشمن بھی اِس کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔بلاشبہ ہماری پاک دھرتی نہایت انمول ہے۔ یہ پاک وطن عطیہ خداوندی ہے۔ ہمارے پرکھوں کی بیش بہا قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ آج جس طرح ہم اپنے پیارے وطن میں آزادی سے سانس لے رہے ہیں اس آزادی کے حصول کے لئے ہمارے اسلاف نے بڑی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ سر کٹائے گئے، عصمتیں پامال ہوئیں، جاگیریں نیلام ہوئیں، عورتوں نے اپنی عزتیں بچانے کے لئے کنوں میں چھلانگیں لگائیں۔ لاکھوں بچے یتیم ہوئے، لاکھوں عورتیں بیوہ ہوئیں خاندان کے خاندان صفحہ ہستی سے مٹ گئے صرف اور صرف دنیا کے نقشے پر اس پاک وطن کو لانے کے لئے۔ یہ سب معمولی نہیں تھا نہ ہی اتنا آسان۔ پاکستان اور چین کی اعلی ترین سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان تواتر کے ساتھ سرکاری اداروں کے ذریعے رابطہ رہتا ہے۔ حربی استعداد کو بڑھانے اور ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کے لئے پاکستان اور چین کی تینوں مسلح افواج متواتر مشترکہ مشقیں کرتی رہتی ہیں۔ پاکستان اور چین کے درمیان تمام اہم علاقائی اور عالمی مسائل پر مکمل اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ اس کی مثال چین کی طرف سے کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کی حمایت اور پاکستان کی طرف سے ایک چین اور ساﺅتھ چائنا سی پرچین کے مقف کی مکمل حمایت ہے۔ دوستی اور تعاون کے رشتوں کو متواترمستحکم کرنے کے لئے پاکستان اور چین نے مختلف سطح پر مشاورتی میکانزم تشکیل دے رکھے ہیں ان میں وزرائے خارجہ کی سطح پر سٹریٹجک ڈائیلاگ، خارجہ سیکرٹری ، وائس چیئرمین کی سطح پر پولیٹیکل مشاورت اور جنوبی ایشیا ہتھیاروں کے کنٹرول، انسدادِ دہشت گردی، انسانی حقوق، بحالیِ امن، میری ٹائم ڈائیلاگ، بارڈر مینجمنٹ اور کونسلر افیئرز شامل ہیں۔ پاکستان اور چین کے موجودہ باہمی تعلقات کا ایک نیااور نمایاں پہلو معاشی اورثقافتی شعبوں میں روزافزوں تعاون ہے۔ معاشی تعاون کی سب سے نمایاں مثال تو سی پیک ہے جس کے تحت پاکستان اور چین کے انفراسٹرکچر کی تعمیر اور توانائی کی پیداواری اضافے کے لئے مشترکہ منصوبوں پر کام کررہے ہیں مگر گزشتہ دو دہائیوں میں دو طرفہ تجارت میں کئی گنا اضافہ بھی دونوں ملکوں میں اقتصادی تعاون کی بلند سطح کو ظاہر کرتا ہے۔ اس وقت چین پاکستان کا سب سے بڑا ٹریڈنگ پارٹنر ہے اور جنوبی ایشیا میں بھارت کو چھوڑ کر پاکستان کو چین کا سب سے بڑا ٹریڈنگ پارٹنر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔حال ہی میں پاکستان اور چین نے دوطرفہ تعلقات کے تمام پہلوﺅں کا جائزہ لیا اور سیاسی سےکیورٹی تعاون، دوطرفہ تجارت ، اقتصادی اور مالی تعاون ، ثقافتی تبادلوں ،سیاحت اور عوام کے درمیان تعلقات کو وسعت دینے اور مستحکم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔دونوں فریقوں نے چین پاکستان اقتصادی راہداری کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے علاقائی روابط اور تعاون کو فروغ دینے کے لیے تیسرے فریق کی شرکت سمیت پاکستان چین اقتصادی راہداری کی توسیع کے کام کو جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔ گلگت بلتستان پاک چےن تجارت کا بنےادی راستہ ہے اس کی طوےل عرصے سے بندش کوئی جواز نہےں تھا کےونکہ کرونا کو ختم ہوئے عرصہ گزر گےا ہے امےد ہے کہ پاک چےن سرحد کھولے جانے سے تجارتی صورتحال میں بہتری آئے گی۔