ملک میں گزشتہ تقرےبا اےک سال سے سےاسی صورتحال انتہائی دگرگوں ہے‘ حالانکہ ہمارے ملک میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی ہم آہنگی کی بہت اشد ضرورت ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ میں نہ مانوں کی پالیسی نے ملک کو جس صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔ اس میں تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے وہ سیاستدان جوامریکا اور برطانیہ جیسے ممالک کو اپنا قبلہ تصور کرتے اور ان ممالک کے نظام ہائے سیاست کو اپنے لیے آئیڈیل قراردیتے ہیں اور عمل وہ اس کے برعکس کرتے ہیں ۔ قول وفعل کے اسی تضاد نے ان کے عوام میں اعتباریت اور ساکھ کو نقصان پہنچایا اور ملک کو پیچیدہ مسائل میں الجھا کر رکھ دیا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ امریکا اور برطانیہ میں جہاں ایک طرف حکمران جماعت قومی ایشوز پر اپوزیشن کو اعتماد میں لیتی اور الجھے مسائل کو مل جل کر حل کرنے کی سعی کرتی ہے وہاں اپوزیشن بھی بڑے ایشوز کو حکومت ِ وقت ہی کی سردردی پر محمول نہیں کرتی اورتمام معاملات اسی پر چھوڑ کر تنقید برائے تنقید کا مکروہ عمل اختیار نہیں کرتی بلکہ شیڈو کابینہ تشکیل دیتی اور متبادل حل بھی تجویز کرتی ہے۔ برسر اقتدار جماعت اور اپوزیشن جو انتخابات سے قبل ایک دوسرے کے بخیے ادھیڑ نے میں تمام وسائل اور توانائیاں صرف کر دیتے ہیں جب انتخابی عمل ختم ہوجاتا اور منتخب حکومتوں کی تشکیل ہو جاتی ہے تواپنے رویوں میں مثبت تبدیلی لے آتے ہیں حکومت اور اپوزیشن دونوں اپنے اپنے دائرہ عمل میں رہتے ہوئے قومی خدمت کا خوشگوار فریضہ انجام دینے میں لگ جاتے ہیں ۔ جب کہ ہمارے ہاں جب الیکشن انعقاد پذیر ہوجاتے اور حکومتیں تشکیل پا جاتی ہیں تو سیاسی دشمنی ختم ہونے کے بجائے ذاتی دشمنی میں تبدیل ہو جاتی ہے اور اگلے الیکشن تک مخالفت برائے مخالفت اور ایک دوسرے کے خلاف زہر اگلتے رہتے ہیں ۔ ہمارے سیاستدانوں اصل مسائل جانتے ہیں لیکن افسوسنا ک بات یہ ہے کہ انہوں نے قومی مسائل کو اپنا مسئلہ سمجھا ہی نہیں اور نہ قومی ایشوز کے حوالے سے کبھی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے یہی وجہ ہے کہ سب کچھ جاننے کے باوجود مسئلہ ہے کہ پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتا چلا جا رہا ہے،حل ہونے ہی میں نہیں آرہا۔اب بھی اگر تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں کی قیادت قومی و صوبائی ایشوز اور مسائل کو حل کرنے میں سنجیدگی کامظاہرہ کریں اور ملک وقوم کو ان مشکلات سے نجات دلانے کے لیے ذمہ داری کا ثبوت دیں تو حالات کوبہتری کی طرف لانے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی ۔ لیکن اگر ہمارے سیاسی رہنماﺅں نے ماضی کا رویہ جاری رکھا اور اپنے اپنے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے کوشاں رہے تو صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے ۔ہم جانتے ہیں کہ معاشی استحکام کیلئے سیاسی ہم آہنگی بہت ضروری ہے کیونکہ اس سے کاروباری ماحول بہتر ہوتا ہے، غیرملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوتا ہے اور سیاستدان اپنی توانائیاں فضول سمت میں ضائع کرنے کے بجائے افہام و تفہیم سے ملک و قوم کو درپیش معاشی مسائل حل کرسکتے ہیں۔ کسی بھی ملک میں سیاسی چپقلش کی وجہ سے اس ملک کی بین الاقوامی سطح پر ساکھ متاثر ہوتی ہے ،بے یقینی کی صورتحال پیدا ہونے کی وجہ سے بین الاقوامی سرمایہ کار سرمایہ کاری سے کم از کم تب تک ہاتھ کھینچ لیتے ہیں جب تک واضح صورتحال سامنے نہیں آجاتی ، غیرملکی سرمایہ کاری کا عمل منجمد ہونے سے صنعت سازی کا عمل رک جاتا ہے جس سے مجموعی طور پر معیشت پر بہت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔گلگت بلتستان کو صنعتی، تجارتی اور معاشی و سیاحتی سرگرمیوں کا مرکز بنانے کیلئے سیاسی ہم آہنگی بہت ضروری ہے۔ہمیں منافقانہ طرز عمل سے اجتناب کرناہوگا جب تک ہم منافقانہ طرز عمل اورطرز سیاست کو ختم نہیں کریں گے تب تک ملک میں پائیدار ترقی اور خوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔سیاسی مخالفین کو چاہےے کہ وہ علاقے کی تعمیروترقی کیلئے مل کرآگے بڑھیںشہر کی ترقی کیلئے ہمارے ساتھ چلیں۔تلخیوں کوختم کرتے ہوئے حکومت اور اپوزیشن کو انتخابی، معاشی، سیاسی اور عدالتی اصلاحات پر بات کرنی چاہیے۔پاکستان ایک عظیم ملک ہے، ہمیں اپنی ذمہ داریاں سمجھنے کی ضرورت ہے۔پاکستان میں جمہوریت کے مستقبل کو شدید اندیشے لاحق ہیں۔ سیاستدان خود حکومت پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور فوج و عدلیہ کو مدد کے لئے بلاتے ہیں۔اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے سیاسی قوتوں کو چوکنا اور ہوشیار رہنا ہوگا۔ ملک میں جمہوریت قائم رہنے سے ہی سیاسی پارٹیاں حکومت کرنے اور فیصلے کرنے کی مجاز ہوسکتی ہیں۔ اس لئے اس نازک وقت میں سیاسی اور گروہی اختلافات سے قطع نظر سب سیاسی قوتوں کو یکجہتی، ہم آہنگی اور سیاسی بلوغت وبصیرت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ تمام معاملات قانون اور آئین کے تقاضوں کے مطابق طے کرنے کے لئے ایک دوسرے سے تعاون بے حد ضروری ہے۔وطن عزیز کے موجودہ تشویش ناک حالات ، اہل فکر و نظر سے مخفی نہیں ہیں۔رواداری، تحمل، برداشت اور اتحاد ویک جہتی کا تصور مفقود ہوتا جارہا ہے،ایک خاص فلسفہ زندگی کو تھوپنے کے تانے بانے ترتیب دیے جارہے ہیں۔ ہماری ساکھ عالمی سیاسی پیمانے پر مجروح ہورہی ہے۔اس لیے اس تناظر میں قومی یک جہتی کے تصور کو واضح کرنااور اس کی اہمیت و افادیت سے ملک کے باشعور اور سیکولر افراد کو آگاہ کرانا بہت ضروری ہوجاتا ہے۔قومی یک جہتی اورہم آہنگی کیا ہے؟ یہاں پر قومی یک جہتی کے تصور اور حقیقی خدو خال کو واضح کرنا ضروری ہے تاکہ کسی غلط فہمی اور خلطِ مبحث کا اندیشہ نہ رہے۔قومیت اور یک جہتی دونوں مل کر ملک کی تہذیبی، لسانی، تاریخی اور رنگی ونسلی رنگا رنگی کی نمائندگی کرتے ہیں۔زبان و ادب، رہن سہن ، تصورات اور رسم و رواج میں اشتراک و یگانگت اور تہذیبی وثقافتی مظاہر میں مماثلت قومی یک جہتی کی تشکیل میں معاون ہوتے ہیں۔سیاسی اور قومی وحدت کا مفہوم انہی مماثلتوں سے برآمد ہوتا ہے۔قومی یک جہتی کا مفہوم تمام حدود قیود سے آزادی سے عبارت نہیں ہے، قومی یک جہتی نہ تو شخصی آزادی پر قدغن لگاتی ہے اور نہ ہی عقیدہ اور ضمیر کے معاملات سے اس کا رشتہ ہے۔قومی یک جہتی کا عقائد ، مذہبی امور اور نجی معاملات سے کوئی علاقہ نہیں ہے بلکہ اپنے مخصوص عقائد و فلسفہ پر عمل کرتے ہوئے وطنیت و قومیت کے رنگ میں رنگ جانے کا نام قومی یک جہتی ہے۔ قومی یک جہتی کا مطلب ہے،مشترکہ امور اور مسائل میں ملک کی تمام مذہبی اور قومی اکائیوں کو اور بلا تفریق تمام شہریوں کو اپنے نظریہ و عمل میں یکسانیت پیدا کرنا اور وطن کی بنیاد پر ہمارے جو مشترکہ مسائل اور قومی و تہذیبی اقدار ہیں، ان کے بقا و تحفظ کے لیے مشترکہ اور متحدہ طور پر جدو جہد اور باہمی تعاون کرنا۔درحقیقت اتفاق اور باہمی ہمدردی اور آپس کی محبت سے ملک کی ترقی و بہبودی ممکن ہے اور آپس کے نفاق اور ضد وعداوت، ایک دوسرے کی بد خواہی میں بربادی ہے ۔قومی یک جہتی کا مسئلہ کوئی نیا نہیں ہے،اس سے پہلے بھی قومی یک جہتی کے تصور کو ملیامیٹ کرنے کی کوششیں کی گئیں ۔پاکستان ایک متنوع معاشرہ ہے جہاں معاشی، ثقافتی، سیاسی، مذہبی اور معاشرتی تفرقات موجود ہیں جو بلاشبہ رنگ نسل، ذات پات اورفرقوں میں منقسم ہے۔یہی تنوع،تفرقات اور اختلاف رائے جب منفی روش اختیار کر جاتے ہیں تو ملکی امن، ہم آہنگی اور معاشرتی تناسب کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ نہ صرف اندرونی بلکہ بیرونی طور پر بھی ان تفرقات اور منفی رویوں کا مقابلہ صرف تحمل برداشت اور امن کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے۔ کسی بھی قوم یا معاشرے کے تہذیب یافتہ ہونے کا بنیادی ستون یہی روایات اور ہم آہنگی ہے جو کہ مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔لےکن ہم عدم برداشت، اختلافات اور انتشار کا شکار ہیں۔ہمیں چاہیے کہ ہم آپس میں پیار، محبت، یکجہتی، بھائی چارے اور اتحاد کا مظاہرہ کریں۔ یہی وقت کی ضرورت ہے اور اسی میں ہم سب کی بہتری بھی ہے۔ نفرت، کینہ، بغض اور عناد کے بت کو پاش پاش کر کے آپس میں انسانیت کے عظیم رشتے میں استوار ہونے کی ضرورت ہے۔بحیثیت قوم باہمی یگانگت اور ہم آہنگی کی مظاہرہ کریں اور عملی کردار ادا کریں۔آپس میں نفرتوں اور کدورتوں کے بتوں کو پاش پاش کر کے ایک دوسر ے کو برداشت کرنے کی روایت ڈالی جائے۔ آپس میں پیار اور محبت کا رشتہ استوار کیا جائے۔ اس لیے خطے مشترکہ مسائل و امور میں خطے کی ساری قوتیں اتحاد و اشتراک اور تعاون کا مظاہرہ کریں۔ اسی میں فلاح کا راز مضمر ہے اور اسی طرح خطہ ترقی کی وسیع شاہراہ پر دور تک چل سکتا ہے ۔ہم جانتے ہیں کہ پاکستان دشمن عناصر پاکستان کو پریشان تباہ حال اور صفحہ ہستی سے مٹا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ سیاست ضرور کی جائے لیکن سیاسی ہم آہنگی کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے عوام کی فلاح و بہبود کو پیش نظررکھا جائے۔
