جیلوں میں اصلاحات کی ضرورت

آئی جی جیل خانہ جات گلگت بلتستان فرید احمد نے کہا ہے قیدیوں کو معاشرے کا بہترین شہری بنانے کےلئے جیلوں میں اصلاحاتی نظام لانا میری سب سے اولین ترجیح ہے ۔ ڈسٹرکٹ جیل غذر کے ہنگامی دورہ کے موقع پر آئی جی جیل خانہ جات نے قیدیوں سے ملاقات کی‘ بنیادی مسائل سنے اور سپرنٹنڈنٹ جیل غذر کو قیدیوں کو جیل قوانین کے مطابق کھانے کی فراہمی اور بیمار قیدیوں کو فوری علاج معالجہ کے لیے عملی اقدامات کرنے کے ساتھ جیل کی سےکیورٹی تسلی بخش قرار دیتے ہوئے مزید بہتر کرنے کے احکامات صادر کیے۔جیلوں میں ایک طرف تو قیدیوں کو ان کے مستقبل کے خدشات سوہان روح ہوتے ہیں، دوسری طرف وہ تعمیری مقاصد اور مثبت عنصر نہ ہونے کی وجہ سے آمادہ جرم رہتے ہیں۔ ہر قیدی کی انتہائی خواہش ہوتی ہے کہ اسے جلدازجلد رہائی مل جائے۔ تاہم اگر جیلوں میں تعمیری منصوبے شروع کر دیے جائیں تو قیدیوں کی توجہ بہت حد تک جرائم کوشی کی جانب سے ہٹ کر شریفانہ رویوں کو اپنانے کی طرف مبذول ہوسکتی ہے۔ےہ تجوےز پےش کی جاتی رہی ہے کہ جیلوں میں فیکٹریاں لگائی جائیں جس سے قیدیوں کی نفسیاتی کیفیات میں شخصی تبدیلیاں آنے کے روشن امکانات بھی ہیں اور ملکی معیشت میں بھی ان کا ایک کردار ہوگا۔اچھے مل مالکان اور فیکٹری اونرز سے اس ضمن میں تعاون حاصل کیا جاسکتا ہے۔جیل خانہ جات بالعموم عدالتوں سے ہٹ کر فاصلے پر ہوتے ہیں۔ جیل کے اندر کی دنیا باہر کی دنیا سے بالکل ہی مختلف ہوتی ہے۔ وہاں کا ماحول، وہاں کی فضا باہر کی آزاد فضا اور گہماگہمی اور پررونق فضا سے یکسر جدا ہوتی ہے۔ عدالتوں کے دور ہونے کی وجہ سے جیل حکام کو اسیروں کو عدالتوں میں پیش کرنے کے لیے خاصا اہتمام پڑتا ہے۔ مقید اور زنجیربپا قیدیوں کو عدالتوں تک لے جانے میں کئی قباحتیں ہیں۔ سےکیورٹی کے انتظامات، خطرناک قیدیوں کے مفرور ہوجانے کے امکانات،جیسا کہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے، اور پھر عدالت تک لے جانے میں کئی دوسرے کیس میں دلچسپی رکھنے والوں کی دراندازی کے اندیشے، ان سب چیزوں کا ازالہ کیا جانا چاہیے۔ قیدیوں کا ایک مسئلہ فراہمی خوراک بھی ہے۔ ایک متمدن ملک کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسیروں کوبھوکا نہ مارے۔ قید بہر صورت قید ہے۔ اس کی معاشرے سے کٹ جانے کی اذیت کچھ کم نہیں، چہ جائیکہ قید میں پڑے ہوئے افراد کو خوراک کی کمی کی وجہ سے طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا کیا جائے۔ حکومت کی جانب سے جو خوراک مقرر کی گئی ہے، اس کے معیار کی بھی ضمانت نہیں دی جاسکتی اور نہ ہی مقدار لائق تحسین ہے۔ ان دنوں فی قیدی روزانہ خوراک کا خرچہ بہت کم ہے جس سے اےک وقت کا کھانا بھی مشکل ہے ۔آج کل کے مہنگا ئی کے دور میں اتنی معمولی رقم مختص کرنا ناقابل فہم ہے۔ کم خوراک، ناقص غذا اور گھٹن اور پریشانیوں کے ماحول میں قیدیوں کا بیمار ہو جانا یقینی ہو جاتا ہے جس کے لیے حکومت کو اصلاح احوال کرنی چاہیے۔ قیدیوں کے لیے ایک طرف تو کھانے کا معیار کمتر بلکہ ناقص ہے، دوسرے وہ طریق کار جس کے ذریعے قیدیوں کو کھانا مہیا کیا جاتا ہے، وہ بھی ناقص ہی نہیں، کئی طرح کی بے ضابطگیوں کا شکار ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اس سے بدعنوانیوں کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ اجازت نہ ہونے کے باوجود بعض قیدی گھر سے کھانا منگواتے ہیں۔ بعض جیل کے اندر ہی اپنا کھانا خود پکاتے ہیں۔ اب جو قیدی پہلی اور دوسری شق پر عمل کر رہے ہوتے ہیں، ان میں سے گھر سے کھانا منگوانے والوں کا پورا کھانا قیدی تک نہیں پہنچتا۔ تیسری شق پر عمل پیرا ہونے سے ایک طرف تو کھانا ناقص ہوتا ہے، دوسری طرف پہلی دو شقوں یعنی گھر سے کھانا منگوانے اور خود تیار کرنے والوں کو بھی اس میں شمار کیا جاتا ہے جو ایک بے ضابطگی ہے۔ یوں وہ معمولی رقم جو اسیروں کے کھانے کے لیے مخصوص ہوتی ہے، اس میں خورد برد ہو جاتی ہے۔ جو قیدی گھر سے کھانا منگوانا چاہیں یا جیل میں ہی اپنا کھانا خود تیار کرنا چاہیں، ان کو اس کی اجازت دے دی جائے اور ان کے لیے مختص رقم حساب کتاب کے بعد واپس خزانے میں جمع کرائی جائے یا ایسا بندوبست کیا جائے کہ ایسے قیدیوں کو جیل سے مہیا کیے گئے کھانے سے مستثنی قرار دے کر ان کے لیے اس مد میں رقم حاصل نہ کی جائے۔قیدیوں کی اکثریت تو ان پڑھ یا نیم خواندہ لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے تاہم ایک خاصی تعداد خواندہ یا تعلیم یافتہ لوگوں کی بھی ہوتی ہے مگر یہ لوگ جیل کے قوانین سے قطعا نابلد ہوتے ہیں۔ ان قواعد وضوابط کا جاننا ہر قیدی کے لیے ضروری ہے تاکہ وہ ان پر عمل پیرا ہوسکیں۔جیل میں مریضوں کی عمومی حالت تو ویسے ہی کچھ اچھی نہیں ہوتی تاہم ٹی بی کے مریض تو مرنے سے پہلے ہی زندہ درگور ہو جاتے ہیں۔ ضروری ہے کہ ان کی خصوصی دیکھ بھال کی جائے۔ چونکہ یہ علاج مسلسل بھی ہے اور مہنگا بھی، اس میں ذرا سی کوتاہی مریض کے مرض میں ایک طویل تسلسل پیدا کر دیتی ہے، ایک دن اگر دواکا ناغہ ہو جائے تو پچھلے کئی دن کا علاج اکارت جاتا ہے، اس لیے اس مد میں علاج کی مناسب سہولتیں بہم پہنچایا جانا بے حد ضروری ہے۔ قیدیوں میں عورتیں بھی ہوتی ہیں اور پھر ان میں حاملہ عورتیں بھی ہوتی ہیں۔ ایسا نہ ہونے پائے کہ ایک فرد کو قیدوبند میں رکھ کر ایک دوسرے فرد کی جان بھی خطرے میں پڑ جائے۔ حاملہ کے پیٹ کے بچے کا تو کوئی قصور نہیں۔ ایسی عورتوں کے ساتھ جیل کی مدت میں نرمی کا سلوک ہونا چاہیے۔ جیلوں میں موسم کی شدت سے بچنے کے لیے مناسب انتظامات نہیں ہوتے اور قیدیوں کو محض تحقیر آمیز رویہ رکھتے ہوئے اس قابل بھی نہیں سمجھا جاتا کہ وہ بھی انسانی ضروریات سے بے نیا ز نہیں۔ وہ قیدی تو ہیں لیکن بہر صورت انسان ہیں، وقتی طور پر اگر ان کا جرم ثابت بھی ہوگیا ہے تو بالکل انسانیت ان سے چھن نہیں گئی۔ زحمت قیدوبند ہی کیا کم ہے کہ مزید ان پر ستم توڑے جائیں اور انہیں زندگی کی ضروریات ہی سے محروم رکھا جائے۔جیلوں کا ایک بہت بڑا مسئلہ اسیروں کی کثرت اور جگہ کی قلت ہے۔ جہاں پانچ قیدیوں کی گنجائش ہے، دس پندرہ تک بھی قیدی بند کر دیے جاتے ہیں ۔ بقدر گنجائش قیدیوں کو جیلوں میں رکھا جائے۔ مزید برآں سکیورٹی کا مناسب بندوبست کرکے برآمدوں کو بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مزید بیرکس کا تعمیر کیا جانا بھی ازحد ضروری ہے۔ بالعموم قیدیوں کے کمروں میں بند کرنے کے اوقات غیرمتبدل رہتے ہیں اور اگر ان میں قدرے تبدیلی بھی کی جاتی ہے تو بھی قیدیوں کو اذیت ناک حد تک موسمی شدت کو سہنا پڑتا ہے۔ مثلا گرمیوں کے موسم میں پانچ بجے ہی قیدیوں کو کمروں میں بند کر دینا شدت موسم کی وجہ سے ان کے لیے سخت باعث تکلیف ہوتا ہے کیونکہ پھر انہیں دن کا باقی حصہ اور رات بھر اندر ہی رہنا پڑتا ہے۔اس لےے موسمی تغیرات کے ساتھ ساتھ قیدیوں کو بیرکوں میں بند کرنے کے اوقات میں مناسب تبدیلیاں لائی جائیں ۔ امیر لوگ کسی نہ کسی طرح ضمانت کروا کر جیل سے باہر آجاتے ہیں اور غریب بے چارے معمولی جرائم پر بھی کئی کئی سال جیلوں میں پڑے رہتے ہیں۔ ضمانت میں جج حضرات کو صوابدیدی اختیار ہوتا ہے، وہ چاہیں تو ضمانت قبول کریں، چاہیں تو مسترد کر دیں۔ یہ بات بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ جیل حکام کے پاس روبکاری کے لیے مناسب بندوبست نہیں ہوتا جس سے قیدیوں کے راہ فرار اختیار کر لینے کی بھی کئی سبیلیں نکل آتی ہیں۔ ملزم کئی کئی سال جیلوں میں پڑے رہتے ہیں، پھر کہیں جاکر ان کی بے گناہی ثابت ہونے پر انہیں بری کیا جاتا ہے۔ اس سے پہلے جیل میں عرصہ دراز گزارنے پر قیدی یا تو اپنی تعمیری صلاحیتیں بالکل برباد کرکے ناکارہ ہو جاتا ہے یا پھر واقعی مجرم بن کر نکلتا ہے۔ جب تک کوئی شخص واقعی مجرم ثابت نہ ہو جائے، اسے قید میں نہ رکھا جائے۔ اس کے لیے ماہرین کوئی دوسرے طریقے سوچیں جس سے اچھا خاصا بھلا مانس انسان بدمعاش اور مجرم نہ بن سکے۔فوجداری مقدمات قائم کرنے سے پہلے اےف آئی آر ایک مستند اور قومی دستاویز ہوتی ہے۔ کسی قتل کے بعد مقتول کے وارث عموما اےف آئی آر میں ہر اس شخص کا نام شامل کروادیتے ہیں جن سے ان کی دشمنی ہوتی ہے اور اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ قاتل تو مفرور ہو جاتا ہے مگر اس کے لواحقین اور رشتے دار گرفتار کر لیے جاتے ہیں اور انہیں جیل میں بند کر دیا جاتا ہے۔ اسی طرح جب کوئی واردات ہوتی ہے تو اصل مجرم راہ فرار اختیار کر کے روپوش ہو جاتے ہیں۔ پولیس کا ایک تفتیشی حربہ یہ بھی ہے کہ اصل مجرموں تک رسائی حاصل نہ کر سکنے کی صورت میں اس کے عزیزواقارب اور رشتہ داروں کو پکڑ کر لے جاتی ہے حالانکہ وہ بالکل بے قصور ہوتے ہیں۔ ان کی بے وجہ اہانت کی جاتی ہے اور انہیں حبس بے جا میں رکھا جاتا ہے۔ جیبیں الگ بھر لی جاتی ہیں اور بے قصوروں کو الگ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔یہ بڑی ناانصافی اور زیادتی ہے کہ عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں کو ذلیل و رسوا کیا جائے جبکہ ان کا اس سانحے میں کوئی قصور بھی نہ ہو اور عین ممکن ہے کہ قاتل پر ان میں سے کسی کا بس بھی نہ چلتا ہواور ایسا بالعموم ہوتا ہے مگر یہ بے گناہ دھر لیے جاتے ہیں اور قیدوبند کی صعوبتیں سہنے لگتے ہیں۔