مہنگائی کا یہ سلسلہ کب رکے گا؟

وفاقی حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافہ کردیا ہے۔ وزارت خزانہ کی طرف سے نئے نرخوں کے نوٹیفکیشن میں ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں تےرہ روپے فی لیٹر اضافہ کیا گیا ہے جس کے بعد ڈیزل کی فی لیٹر قیمت 280 روپے سے بڑھ کر 293 روپے ہوگئی ہے۔پٹرول کی قیمت میں فی لیٹر پانچ روپے اضافے کے بعد نئی قیمت 272 روپے جبکہ مٹی کے تیل میں دو رپے 56 پیسے اضافے کے بعد نئی قیمت 187 روپے 73 پیسے ہوگئی ہے۔حکومت کی طرف سے لائٹ ڈیزل کی قیمت 184 روپے 68 پیسے برقرار رکھی گئی ہے۔ ناقابل فہم امر ےہ ہے کہ عالمی مارکےٹ میں تےک کے نرخ کم ہو رہے ںہے جبکہ ہمارے ہاں اضافوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ےہ حقےقت اظہر من الشمس ہے کہ کساد بازاری کے خدشات کے پیشِ نظرعالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتیں دو ہفتے کی کم ترین سطح پر آ گئی ہےں۔ عالمی مارکیٹ میں کروڈ آئل کی قیمت1.07ڈالر یعنی 1.3 فیصد کمی کے بعد 81.59 ڈالر فی بیرل پر آگئی، جو 22 فروری کے بعد کم سے کم قیمت ہے۔اس کے علاوہ امریکی خام تیل ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹ کی قیمت 94 سینٹس کمی یعنی1.2 فیصد کمی کے بعد 75.72 ڈالر فی بیرل پر آگئی ہے، جو کہ 27 فروری کے بعد سب سے کم قیمت ہے۔ تیل کی قیمتوں میں حالیہ کمی کی وجوہات عالمی سطح پر کساد بازاری کے خدشات ہیں۔رپورٹس کے مطابق میں امریکا کا مرکزی بینک یو ایس فیڈرل ریزرو مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے اپنی شرح سود میں اضافہ کرسکتا ہے جس سے کساد بازاری کا خدشہ ہے اور مستقبل میں تیل کی طلب کو کم کر سکتا ہے۔تےک کے علاوہ وفاقی حکومت نے بجلی پر سر چارج تین روپے 23 پیسے فی یونٹ تک بڑھانے کی درخواست کی ہے جس سے صارفین پر 335 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔حکومت کی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا کہ ایک روپے 43 پیسے فی یونٹ سرچارج سے ضرورت پوری نہیں ہوسکتی، سرچارج 3 روپے 23 پیسے فی یونٹ تک بڑھایا جائے۔ پاور ڈویژن کے حکام کا کہنا ہے کہ گردشی قرض تیزی سے بڑھ رہا ہے، یہ سرچارج لگا کر بھی گردشی قرض میں کمی نہیں آئے گی، ڈسکوز کی ناقص کارکردگی کی سزا عوام کو دی جا رہی ہے، عوام کوبوجھ تلے دبا دیا گےا ہے۔حےرت اس بات پر ہے کہ روس سےسستا تےل منگوانے کا جو اعلان کےا گےا تھا اس پر کوئی پےشرفت نہےں ہوئی وزیرِ مملکت برائے پیٹرولیم سینیٹر مصدق ملک نے اعلان کیا تھا کہ روس پاکستان کو کم قیمت پر تیل فراہم کرے گا۔سینیٹر مصدق ملک کا کہنا تھا کہ یہ دورہ توقعات سے زیادہ کامیاب رہا اور روس نے پاکستان کو رعایتی قیمت پر خام تیل اور قابل استعمال تیل جیسے پیٹرول اور ڈیزل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ روس پاکستان کو تیل کے نرخوں پر اتنی ہی رعایت ہی دے گا جو وہ دنیا کے کسی اور ملک کو دے رہا ہے۔ روس کی جانب سے وہی خام تیل پاکستان کو ملے گا جو ہمارے تیل صاف کرنے کے کارخانوں کے ذریعے قابل استعمال بنایا جاسکتا ہے۔ بھارت روس سے کم قیمت پر تیل حاصل کررہا ہے۔ روس یوکرین جنگ کے باعث پیدا شدہ صورتِ حال میں بھارت نے روس سے اپنی تیل کی درآمد کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔مصدق ملک نے کہا تھا کہ روس کے ساتھ تیل کی فراہمی کی تفصیلات طے ہونا باقی ہیں البتہ جنوری میں معاہدہ طے پانے کے بعد پاکستان کو تیل کی فوری فراہمی شروع ہوجائے گی۔جنوری گزر گےا مارچ بھی گزرنے والا ہے سستا تےل کہاں ہے۔توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے پیشِ نظر پاکستان کی حکومت نے روس سے سستا خام تیل خریدنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا ‘ پاکستان نے روس کو اپنی توانائی کی ضروریات سے متعلق خط لکھا جس میں روس کو آگاہ کیا گیا تھا کہ پاکستان روس سے گیس اور تیل خریدنے کے لیے تیار ہے۔پاکستان اپنی ضرورت کا 85 فی صد تیل درآمد کرتا ہے جس میں خام تیل اور قابل استعمال تیل دونوں شامل ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اقتدار میں آتے ہی پی ڈی ایم نے پٹرولیم مصنوعات کے نرخ ریکارڈ بلند سطح پر پہنچا دیے۔ صرف اکتوبر اور نومبر میں قیمتوں میں کمی بیشی نہ کی گئی۔ اس کی وجہ بھی ملک میں ہونے والی بے تحاشا مہنگائی پر عوامی ردعمل کا خوف تھا۔ جانے حکومتوں نے عوام سے حقائق چھپانے کو وتیرہ کیوں بنا لیا ہے۔وزیر خزانہ جو بات تسلیم نہیں کرنا چاہتے وہ یہ ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تازہ اضافہ کسی بین الاقوامی نرخ میں اضافے کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ اس کا سبب آئی ایم ایف سے بیل آﺅٹ پیکیج کی اگلی قسط وصول کرنے کی شرائط پوری کرنا ہے۔آئی ایم ایف نے حکومت کی مالیاتی اور معاشی کارکردگی پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے ٹیکس محاصل بڑھانے کا کہا ہے۔آئی ایم ایف نے مطالبہ کیا کہ حکومت جب تک پٹرولیم مصنوعات پر لیوی کو پچاس روپے فی لٹر نہیں کرتی ٹیکس اہداف کا حصول مشکل ہو گا۔ یوں تو جاری معاشی بحران کے دوران مسلم لیگ ن اور اس کی اتحادی جماعتوں کی سیاسی و انتظامی صلاحیت کئی بار بے نقاب ہوتی رہی ہے لیکن تیل مارکیٹنگ کمپنیوں اور پٹرول پمپ مالکان کے سامنے جھک جانا حکومت کی انتظامی گرفت کمزور ہونے کی علامت ہے۔پٹرول فر وخت کرنے والوں کو بیٹھے بٹھائے کروڑوں روپے کا فائدہ پہنچاےا جاتا ہے ۔ مہنگائی کا ایک نیا طوفان آنے کو ہے۔ہر فیصلہ اور ہر چیز معیشت اور سماجی امن کے ساتھ منسلک ہے۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ حکومتی استعداد میں کمی کی علامت ہے ۔عام آدمی پہلے ہی حکومت کو استحصالی قوت سمجھنے لگا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھا کر حکومت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس کی ترجیحات میں نچلے طبقات کہیں اہمیت نہیں رکھتے۔تاجر برادری نے تیل اور گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے مہنگائی میں اضافہ ہو گا اور پیداواری لاگت میں اضافے کے علاوہ معاشی ترقی میں کمی آئے گی۔پٹرولیم کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے کاروباری و پیداواری لاگت میں اضافہ ہو جاتا ہے جس سے اشیا اور خدمات کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے اور ان کی سپلائی متاثر ہوتی ہے۔حکومت کو چاہےے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے رجحان کو روکے کیونکہ اس کی وجہ سے معاشی نمو پر منفی اثرات کے ساتھ ساتھ برآمدی اہداف بھی متاثر ہوتے ہیں اور تیل و گیس کی قیمتوں اور ٹیکسوں میں اضافے کے سبب پاکستان عالمی سطح پر مقابلہ کرنے کے قابل نہیں رہے گا۔ اس صورتحال سے عام آدمی بھی بہت زیادہ مشکلات کا شکار ہے کیونکہ پیداواری لاگت بڑھنے سے اشیا کی قیمتیں خود بخود بڑھ جاتی ہیں۔حکومت کم از کم صنعتوں خصوصا برآمدی سیکٹر کیلئے پٹرولیم ، گیس اور بجلی کے نرخوں کو منجمد کرے۔دانشمندانہ معاشی پالیسی اور گڈ گورننس ہی ملک کو بحرانوں اور معیشت پر منڈلاتے ہوئے خطرات سے نکالنے میں مدد دے سکتی ہے۔موجودہ حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں انرجی سےکیورٹی کو یقینی بنایا جائے قومی سلامتی اور انرجی سےکیورٹی دونوں ہماری بقا کے لئے لازم و ملزوم ہیں اس سلسلے میں حکومت اور سےاسی جماعتوںکو مل کر ایک جامع حکمتِ عملی اپناناہو گی تا کہ ملک میں نہ تو کسی بھی چیز کی ڈیمانڈ اور سپلائی میں عدم توازن پیدا ہو اور نہ ہی بد امنی کے حالات مزید خراب ہوں کیونکہ اس سے معیشت پر ہر لحاظ سے منفی اثرات مرتب ہو تے ہیں جس کے نتیجے میں بے روزگاری غربت اور معاشی نا انصافی بڑھتی ہے۔ پٹرول کے حالیہ بحران کے قابل ذکر اسباب کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہو گا کہ عالمی مارکیٹ میں قیمتوں میں کمی کے باوجود اس کی درآمدجاری رہی جو ہماری پٹرول وغیرہ کی بچت کا 52 فیصد ہیں۔دنیا کے کئی ممالک میں پٹرول وغیرہ کے نرخوں میں 10 فیصدکے برعکس اس کی ڈیمانڈ میں 2 فیصد سے 3 فیصد اضافہ ہوا ۔ ویسے تو عالمی اداروں کے قرضوں کے بوجھ تلے پوری قوم ہی دبی ہوئی ہے اس لحاظ سے پوری قوم ہی کمزور گورننس کی وجہ سے گداگر بنی ہوئی ہے۔ موجودہ معاشی حالات میں عوام کو مطمئن کرنے کےلئے حکومت اور حکومتی اداروں کو اپنے روزمرہ اخراجات میں کمی کر کے عوام کو کچھ نہ کچھ ریلیف دینا ہو گا انہیں ریلیف کے نام پر تکلیف دینا سراسر زیادتی ہے۔پیٹرولیم مصنوعات درآمد کرنے والے اکثر ممالک فیڈرل سٹیبالائزیشن فنڈ قائم کرتے ہیں، جس میں ان مصنوعات کی قیمتیں کم ہونے کی صورت میں تھوڑے سے زیادہ نرخ پر عوام کو بیچ کر پیسے رکھے جاتے ہیں۔ جب بین الاقوامی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں تو حکومتیں اس فنڈ کو استعمال کرتے ہوئے عوام کو سبسڈی دیتی ہیں۔ پاکستان میں بھی قانون سازی کے ذریعے فیڈرل سٹیبیلائزئشن فنڈ کے قیام سے اس مسئلے پر بڑی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ فرنس آئل کی پیداوار کو بہتر طریقے سے ریگولرائز کر کے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں میں بے ہنگم اضافے کا مسئلہ بڑی حد تک حل کیا جا سکتا ہے۔ دنیا میں فرنس آئل کی مانگ میں کمی آ رہی ہے اور پاکستانی ریفائنریز کو وہاں اپنا فرنس آئل کم قیمت پر فروخت کرنا پڑ رہا ہے کیوں نہ پاکستانی ریفائنریز وہی ڈسکاونٹ اپنے ملک میں دیں، اس طرح زیادہ فروخت کے باعث ریفائنریز کی سٹوریج گنجائش بھی بڑھے گی۔