محکمہ سماجی بہبود گلگت بلتستان کے چائلڈ پروٹیکشن یونٹ گلگت اور یونیسیف کے تعاون سے گلگت میں صحافیوں کے لئے ایک روزہ آگاہی سیشن کا انعقاد کیا گیا۔ سماجی بہبود گلگت بلتستان کے وزیر کرنل عبید اللہ بیگ نے کہا کہ بچوں پر تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کو روکنے کیلئے معاشرے میں آگاہی فراہم کرنا ناگزیر ہے اور اس سلسلے میں ذرائع ابلاغ سے وابستہ صحافی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ گلگت بلتستان میں بچوں پر تشدد کی روک تھام کے لئے کمیٹی اور کمیشن بھی بنایا گیا ہے اور مذکورہ کمیشن میں پریس کلب کے صدر کو بھی شامل کیا جائیگا۔ اسوقت گلگت بلتستان کے تینوں ڈویڑنز میں چائلڈ پروٹیکیشن کے فوکل پرسن کی تعیناتی عمل میں لائی گئی ہے اور بچوں پر تشدد کے حوالے سے پورے گلگت بلتستان کے سکولوں اور سول سوسائٹی کو آگاہی دینے کیلئے اقدامات کئے جائیں گے۔ اس حوالے سے کوئی بھی بچوں پر تشدد کے حوالے سے 1112 پر شکایت جمع کروا سکتا ہے۔ اسکے علاوہ محکمہ سوشل ویلفیئر گھریلو تشدد کو کم کرنے اور ریکارڈ میں لانے کے حوالے سے بھی کام کر رہا ہے۔جلد ہی بچوں پر تشدد کے خاتمے کا بل اسمبلی میں پیش کیا جائیگا۔ آگاہی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے سیکریٹری اطلاعات ضمیر عباس نے کہا کہ بچہ مستقبل کا باپ ہے اور بچہ جیسا ہو گا ویسے باپ بنے گا۔ بچے کی صحت ، خیالات اور نفسیات پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔والدین اپنے بچوں کی پرورش اور اخلاقی تربیت کا خصوصی خیال رکھیں۔ بچوں کیساتھ دوستانہ ماحول میں رہتے ہوئے انکی تربیت کریں تاکہ بچہ بلا کسی روک ٹوک کے اپنی روزمرہ کی سرگرمیوں کے حوالے سے خود آگاہ کرسکے۔بچوں پر تشدد اےک المےے سے کم نہےں ‘کچھ عرصہ قبل قومی اسمبلی نے بچوں کو جسمانی سزائیں دینے کی ممانعت کے قانونی بل کی منظوری دی تھی اس بل کے مطابق بچوں پر ہر قسم کے جسمانی تشدد کی ممانعت ہو گی اور اس کے مرتکب افراد کو سزا دی جا سکے گی تاہم یہ قانون گھروں میں والدین پر لاگو نہیں ہو گا۔بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں اس قانون سازی کا خیر مقدم کر رہے تھے اور اس امید کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ بچوں پر تشدد کے تدارک کا یہ قانون بہتر اور غیر متشدد معاشرے کی تشکیل کی راہ ہموار کرے گا۔اس سے قبل پاکستان میں بچوں پر تشدد کی روک تھام کا کوئی قانون موجود نہیں تھا۔ البتہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ سال تعزیرات پاکستان کے سیکشن 89 کو معطل کر کے تعلیمی اداروں میں بچوں پر تشدد کو ممنوع قرار دیا تھا۔بل کے متن میں کہا گیا کہ سرکاری و غیر سرکاری کام کرنے کی جگہوں، مدارس و دیگر تعلیمی اداروں میں بچوں پر جسمانی تشدد کی ممانعت ہو گی اور بچوں کے خلاف کسی قسم کی تادیبی کارروائی میں جسمانی تشدد شامل نہیں ہو گا۔بل کے متن کے مطابق بچوں پر جسمانی تشدد کے خلاف شکایات کےلئے وفاقی حکومت طریقہ کار بنائے گی۔بل میں کہا گیا ہے کہ بچوں پر تشدد کے مرتکب افراد کو نوکری میں تنزلی، تنخواہ میں کٹوتی اور جبری ریٹائر کرنے کی انتہائی سزا دی جاسکے گی۔ہمارے معاشرے میں کمسن بچوں کے خلاف تشدد میں گزشتہ چند برسوں میں تشویش ناک حد تک اضافہ دیکھا گیا ہے چوںکہ بچے کمزور ہوتے ہیں اور طاقت ور کمزور کو ہمیشہ زدوکوب کرتے ہیں۔اب ےہ قانون بچوں پر تشدد کے خلاف ایک رکاوٹ ثابت ہو گا۔ پاکستان میں دو کروڑ سے سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں اور بچوں کے اسکول سے بھاگ جانے کی سب سے بڑی وجہ تعلیمی اداروں میں تشدد ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ پارلیمنٹ میں موجود مذہبی رہنماﺅں نے اس قانون کی حمایت کی اور اسلامی نظریاتی کونسل نے اس بل کی توثیق کی ۔یہ مسئلہ صرف قانون لانے سے نہیں بلکہ قواعد و ضوابط بنا کر عملدرآمد اور والدین، اساتذہ و اداروں کی تربیت سے حل ہو سکے گا۔ بچے پر تشدد اس کی نشوونما، رویے، شخصیت اور کامیابی پہ بہت اثر انداز ہوتا ہے جس کے نتیجے میں اس کا مستقبل بھی متاثر ہوتا ہے۔تشدد کے نتیجے میں بچے اپنے تعلقات میں ناکام اور زندگی گزارنے کا برا طریقہ اپنا لیتے ہیں اور انتہائی سطح کی صورت میں وہ معاشرے کا بہتر شہری بننے کے بجائے جرائم اور تشدد کی طرف جا سکتے ہیں۔معاشرے میں بچوں پر تشدد کے منفی اثرات سے متعلق لوگوں میں آگاہی نہیں ہے جس کے لیے شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر پاکستان کی نوجوان نسل سے بہتر کردار کی توقع ہے تو اس کے لیے ان کے بچپن میں تشدد کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔ بچوں پر تشدد کا جواز تعزیرات پاکستان کے سیکشن 89 میں ملتا ہے جو کہتا ہے کہ بارہ سال تک کے بچے کو بہتری کے لیے مارا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے لیے بچوں کے حقوق کے قوانین لانا اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہم اقوام متحدہ کے چائلڈ رائٹس کنونشن جو بچوں کو ہر قسم کے تشدد سے اور استحصال سے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے کے دستخط کنندہ ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ سیکشن 89 کو پہلے ہی غیر قانونی اور آئین سے متصادم قرار دے چکی ہے۔ اس حوالے سے جائزے اور اندازے موجود ہیں کہ بچوں کا اسکول کی تعلیم مکمل نہ کرنے میں سب سے بڑا عنصر جسمانی تشدد ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے تعزیرات پاکستان کے سیکشن 89 کو معطل کرتے ہوئے اسکولوں میں بچوں پر مار پیٹ اور تشدد پر پابندی عائد کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔بچوں کو سزا دینے کےلئے ان پر تشدد کا استعمال کرنا بچے کے حقوق کی خلاف ورزی کرنا ہے۔ بہت سے معاملات میں، بچوں پر تشدد کرنے سے بچے سنگین، جسمانی یا نفسیاتی صدمے کا شکار بن سکتے ہیں اس سے بچوں کو خبر ملتی ہے، کہ مسائل کو حل کرنے کے لئے تشدد ایک قابل قبول اور مناسب طریقہ ہے، یا دوسروں کو مجبور کرنے کے لئے، کہ وہ وہ کام کریں جو کام کرنے کے لئے ہم نے ان سے کہا ہے۔ تشدد بچے کی پورے طور پر نفسیاتی اور جسمانی ترقی ہونے پر بہت اثر ڈالتا ہے۔بچوں پر ایک مہر سی لگ جاتی ہے، وہ غصے اور ناراضگی میں پھنس جاتے ہیں، ان کے اسکول میں پڑھنے لکھنے اور رویے میں مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں اور ان کی نیند میں خرابیاں پیدا ہونے لگتی ہیں۔ بچے جن کو غلط طور پر استعمال کیا جاتا ہے، وہ بچے جارحانہ اور تباہ کن بن سکتے ہیں۔ ان کی خوداعتمادی منفی بن جاتی ہے اور ان کا لوگوں پر بھروسہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس لئے ایسے بچوں میں جنہوں نے تشدد کا تجربہ کیا ہوتا ہے، ان کے نفسیاتی مسائل ڈپریشن، جسمانی گھبراہٹ کے زیادہ امکان ہوتے ہیں ان میں مسائل حل کرنے کے لئے کمی آ جاتی ہے۔ اگر بچوں کو صرف گواہ کے طور پر ہی استعمال کیا گیا ہو، لیکن پھر بھی وہ تشدد کا شکار بن جاتے ہیں۔ جب والدین یا خیال رکھنے والے بچے کے ساتھ اس طرح پیش آئیں کہ بچے کی ذہنی اور سماجی افزائش متاثر ہو تو اسے نفسیاتی یا جذباتی تشدد میں شمار کیا جاتا ہے۔اس نوعیت کے ایک عمل کوبھی نفسیاتی تشدد کے زمرے میں شامل کیا جاتا ہے لیکن بچے کو اس کا طویل مدتی نقصان اس وقت ہوتا ہے جب بچے کے ساتھ والدین کا ایسا رویہ معمول بن جائے، جیسے بات بات پر بچے کو ڈانٹنا، بہتر تعلیمی نتائج کے لیے بچے پر دباﺅ بڑھانا، سختی کرنا یا سزا دینا، اس کی باتوں اور جذبات کو نظرانداز کرنا وغیرہ۔جب بچے کے جسمانی تحفظ کا خیال نہ رکھا جائے اس کی مناسب نگہداشت نہ ہو اسے مطلوبہ توجہ، پیار اور جذباتی سپورٹ نہ دیی جائے اس کی صحت اور مجموعی جسمانی بہتری کے لیے مطلوبہ تعاون نہ کےا جائے اور اس کی تعلیم کو نظرانداز کردیا جائے تو ان تمام باتوں کو بچے کو مکمل طور پر نظرانداز کرنے کے تشدد کے زمرے میں شامل کیا جاتا ہے۔ جو بچے زندگی میں مکمل طور پر نظرانداز کرنے کے تشدد کے کرب سے گزرتے ہیں، ان میں سے اکثر بڑے ہوکر جرائم میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ٹیکنالوجی کے اس دور میں بچے ٹیبلٹس، موبائل فونز اور گیمنگ کنسولز کے عادی ہوچکے ہیں۔تاہم یہ بچوں پرتشدد کا ایک اور ذریعہ بن رہے ہیں۔ بچوں پر آن لائن تشدد انٹرنیٹ پر آن لائن گیمز، سماجی ویب سائٹس جیسے فیس بک، انسٹاگرام اور اسنیپ چیٹ کے ذریعے ہوتا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کے دور میں والدین پر یہ اضافی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی آن لائن سرگرمیوں پر نظر رکھیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کے بچے ہر طرح کے آن لائن تشدد سے محفوظ رہیں۔اس کے نتیجے میں بچوں میں ادراک کی صلاحیت تاخیر سے پروان چڑھتی ہے، اسکول میں ان بچوں کی کارکردگی خراب رہتی ہے، ذہنی صحت کے مسائل پیدا ہوتے ہیں، خودکشی کی طرف مائل ہوسکتے ہیں، خود کو نقصان پہنچانے والے اقدامات میں دلچسپی لے سکتے ہیں اور بڑے ہوکر دیگر بچوں پر تشدد کرسکتے ہیں، اس طرح معاشرے میں بچوں پر تشدد کا رجحان فروغ پانے کے خدشات بڑھتے جاتے ہیں۔حالیہ برسوں میں، بچوں پر تشدد کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے اور پاکستان میں بچوں پر تشدد کے حوالے سے پریشان کن اعدادوشمار سامنے آئے ہیں۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں بچوں پر تشدد کی روک تھام کےلئے قوانین تو موجود ہیں لیکن عمل درآمد کی صورتِ حال انتہائی مایوس کن ہے۔
