چیف سیکرٹری گلگت بلتستان محی الدین وانی نے کہا ہے حکومت گلگت بلتستان کی کوشش ہے کہ وہ طالب علموں کو حصول علم میں آسانیاں مہےاکرے اور جدید دور کے تقاضوں کے مطابق تعلیم فراہم کرے۔ چیف سیکریڑی گلگت بلتستان نے بچوں کو اپنی تمام تر ترجیحات کو علم کے حصول پر مرکوز کرنے اور آئی ٹی ریفارم اور سمارٹ کلاسز سے استفادہ کرنے پرزور دیا۔جدےد دور کے مطابق تعلےم وقت کی اہم ضرورت ہے۔ایک اچھے نصاب کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف طالبعلم کو خواندہ بناتا ہے بلکہ طالبعلم کو اس کے ماحول سے مطابقت پیدا کرنے اور معاشی سرگرمیوں سے عہدہ برآ ہونے کے قابل بھی بناتا ہے۔تعلیمی نصاب کا اولین مقصدطالبعلم کی ایسی تربیت کرنا ہے کہ وہ عملی زندگی میں پیش آنے والے مسائل کو اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر سلجھاتے ہوئے معاشرے میں باوقار شہری کی حیثیت سے زندگی گزار سکے۔ طالبعلم کی کردار سازی کے علاوہ اس کی فکری، تمدنی اور تہذیبی تربیت کا انحصار بھی تعلیمی نصاب پر ہوتاہے۔ترقی یافتہ ممالک میں تعلیمی نصاب اس بنیاد پر مرتب کیا جاتا ہے کہ سکولوں اور کالجوں سے فارغ ہونے والے طلبااور طا لبات اپنے مضا مین میں ماہر ہوں۔ اگر کوئی طالب علم معاشیات سیکھ رہا ہے تو اسے ایک اچھا ماہر اقتصادیات اور ذمہ دار شہری بن کر نکلنا ہوگا۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارا تعلیمی نصاب اس معیار پر پورا نہیں اترتا جوطلبا کو ڈگری دینے کے علاوہ انہیں عملی زندگی میں کامیاب اور مہذب شہری بناسکے۔یہی وجہ ہے کہ اس نصاب کے پیداکردہ طالب علم ڈگری کے ذریعے نوکری تو حاصل کر لیتے ہیں لیکن ووٹ کا صحیح استعمال، قوانین کی پابندی، احترام انسانیت اور رواداری جیسے اوصاف حمیدہ سے محروم ہوتے ہیں۔ ہمارے نظام تعلیم کی تباہی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم ابھی تک نصاب تعلیم کی کوئی سمت تعین نہیں کرسکے کہ ہمیں اپنے طالبعلم کو کیا پڑھانا ہے؟ اور کس طرح پڑھانا ہے؟ہمارا نصاب منطق کی بجائے جذباتیت پر مبنی ہے جس میں فرسودہ روایات اور گھسی پٹی کہانیوں کو نصاب کا حصہ بنا کر طلبا کی سوچ کو محدود کر دیا گیا ہے۔ہر گزرتے دن کے ساتھ سائنس ترقی کر رہی ہے اور دنیا ایک قدم آگے بڑھ رہی ہے جس کا براہ راست اثر تعلیمی نظام اور نصاب پر پڑا ہے لیکن ہمارے ہاں آج بھی گزشتہ صدی کا نصاب رائج ہے جس میں کئی نسلوں سے ترمیم نہیں کی گئی۔یہی وجہ ہے کہ عالمی اداروں کی رپورٹ کے مطابق ہم تعلیم کے میدان میں اقوام عالم سے دو دہائیاں پیچھے ہیں۔نئی نسل کی نفسیات اور ماحول کے مطابق ایسا نصاب مرتب کرنے کی اشد ضرورت ہے جو جدید دور کے تقاضوں پر پورا اترتا ہو۔مشہور فلسفی وہائٹ ہیڈ کا قول ہے علم زیادہ ہے اور زندگی چھوٹی، اس لیے زیادہ مضامین مت پڑھائیں لیکن جو کچھ پڑھائیں اسے بھرپور انداز میں پڑھائیں۔اس کے برعکس ہمارے ہاں نصاب میں معیار کے بجائے مقدار پر زور دیا جاتا ہے۔ موجودہ دور میں درسی کتابیں اتنی ضخیم ہوچکی ہیں کہ بچے کے لیے ان کا پڑھنا تو کجا اٹھانا بھی بوجھ ہوتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ درسی نصاب کی موجودہ کتابوں میں غیر ضروری مواد زیادہ ہوتا ہے جس میں ایک ہی بات کی بار بار تکرار کی جاتی ہے جس کا عام زندگی سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ اس پر ستم بالائے ستم یہ کہ نصاب میں اکثر ابواب اتنے خشک اور بور ہوتے ہیں کہ ان میں بچے کی دلچسپی کے لیے کوئی چیز نہیں ہوتی۔ پھر کتابوں کے اسباق بھی بے ترتیب ہوتے ہیں جن سے بچوں کو اپنا ذہنی تسلسل برقرار رکھنے میں خاصی دشواری ہوتی ہے۔اس مسئلہ سے نمٹنے کے لیے نصاب مرتب کرنے والے اداروں کو پرائمری اور سیکنڈری سطح کے طلبا کی ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی صورتحال کو سمجھنا ضروری ہے جس کو مدنظر رکھتے ہوئے نصاب کو عام فہم اور دلچسپ انداز میں ترتیب دیا جائے تاکہ طالبعلم اپنی صلاحیتوں کو بہترین انداز میں بروئے کار لاسکیں۔نصاب تعلیم کا انحصار ریاست کی قومی تعلیمی پالیسی پر ہوتا ہے جس میں مستقبل کے اہداف کا تعین کیا جاتا ہے۔ وقت اور حالات کے تحت جہاں دیگر ریاستی امور و معاملات تبدیلیوں اور تغیرات سے گزرتے ہیں وہیں تعلیمی اہداف بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں ۔چونکہ نصاب تعلیم قومی اہداف سے مشروط ہوتا ہے، اس لیے اس میں بھی وقتا فوقتا تبدیلیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔پاکستان کے تعلیمی نصاب میں ترامیم کے لیے امریکی ادارے اور دیگر عالمی اداروں کی مداخلت بھی تشویشناک ہے، کیوں کہ کوئی بھی ملک اپنے اقداروروایات کے مطابق اپنا نصاب مرتب کرنے میں آزاد ہوتا ہے۔ہمارے ہاںتعلیمی پالیسیوں کا انحصار سیاسی قیادت اور ان کے مقاصد پر ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں مثبت انداز میں تعلیمی نصاب کا ڈھانچہ تبدیل کرنے کے لیے کوئی عملی اقدامات نہیں کیے گئے۔ہر آنے والے حکمران نے تعلیمی میدان میں ناکامیوں کا اعتراف کیا لیکن تعلیمی پالیسیاں بناتے وقت سیاسی مفادات کو ملکی مفاد پرفوقیت دی۔ناقص تعلیمی پالیسیوں اور مفاداتی نصاب تعلیم کی وجہ سے تعلیمی اہلیت کے حوالے سے ہمارا معاشرہ بانجھ ہوگیاجس کی وجہ سے ہم سات دہائیاں گزر جانے کے باوجود کوئی عالمی سطح کے دانشوریا اپنے دیگرشعبہ زندگی میں مہارت کے حامل افراد تیار نہیں کر پائے۔ہمےں معمولی ترامیم کے بجائے تعلیمی نصاب کا ڈھانچہ بدلنے کی ضرورت ہے ،جو اکیسویں صدی کے تقاضوں کے عین مطابق ہو۔تعلیمی ماہرین اور دینی سکالرز کی زیر نگرانی تعلیمی نصاب کو از سر نو ترتیب دیا جائے جو حقیقی معنوں میں ایک اسلامی فلاحی ریاست کی ثقافتی اقدار کا آئینہ دار ہواور اس نصاب میں قومی زبان اردو کی اہمیت و حیثیت کوبھی ملحوظ خاطر رکھا جائے۔سائنس اور دیگر شعبوں میں ہونے والی تیز رفتار ترقی کے پیش نظرہر سال نصاب پر نظر ثانی کرنی چاہیے جس میں جدید دور کے تقاضوں، طلبا کی نفسیات وضرورت اور قابل اساتذہ کے تجربات کی روشنی میں نصاب کے مسودے کی منظوری کے لیے ایک مربوط نظام تشکیل دیا جائے ۔تعلیمی اصلاحات وقت کاتقاضاہے کیونکہ جب تک عصرحاضرکے تقاضوں کے عین مطابق نظام تعلیم رائج نہیں کیاجائے گا تب تک بنیادی مسائل سے بھی چھٹکارہ ممکن نہیں ہے ۔ہمارے نظام میں تعلیم میں نہ صرف نصاب ہی نقائص سے بھرا ہوا ہے بلکہ طریقہ تدریس میں بھی بہت سی خامیاں پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے آج ہم یہ جان ہی نہیں پا رہے کہ بچے کوکس طرح پڑھائی کی طرف راغب کیاجاسکتاہے اوربچہ تعلیم کے کس شعبہ میں دلچسپی رکھتا ہے ۔ ملک میں کلرکوں کی بھاری تعدادتوپیداہورہی ہے لیکن ایجادات کرنے والے دماغ ناپید ہیں ۔ جن بچوں کے اندر کوئی صلاحیتیں موجودہوتی ہیں وہ بھی گائیڈلائن نہ ہونے کی وجہ سے ضائع ہوجاتی ہیں۔ طریقہ تدریس پرغور و فکر کی ضرورت ہے ، نجی و سرکاری اسکولوں میں یکساں نصاب تعلیم ترتیب دیئے بغیرہم وہ مقاصدحاصل نہیں کرپائیں گے جوایک ترقی یافتہ قوم کی ضرورت ہیں۔ سرکاری اسکولوں کے طلبا میں جواحساس کمتری کی لہر پائی جاتی ہے اس سے چھٹکارا پانا ضروری ہے کیونکہ ملک کی اکثریت سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کررہی ہے اوراگرسرکاری اسکولوں میں اصلاحات نہ کی گئیں تو ذہین بچوں کی ایک بڑی تعداد ضائع ہوتی رہے گی۔ قوم کواس وقت اعلی تعلیم یافتہ ایسے افرادکی ضرورت ہے جوبین الاقوامی معیارکے مطابق تعلیم حاصل کرکے دنیا کا مقابلہ کرتے ہوئے گلوبل ویلیج میں مقابلے کی دوڑ میں بھی شامل ہوسکیں۔اس لےے طریقہ تدریس کو بہتر سے بہتر بنایا جائے تفویض و تحقیق کو فروغ دیا جائے مقابلوں کا انعقاد کیا جائے اور ان مقابلوں میں نجی اور سرکاری اسکولوں کے طلبا کو ایک ہی پلیٹ فارم دے کر ایک دوسرے کے مدِ مقابل کھڑا کیا جائے۔ہرانسان میں کوئی نہ کوئی ہنر ، صلاحیت موجود ہوتی ہے اور اگر اس طرح کے مواقع ملیں تووہ اپنے اندرکے سوئے ہوئے انسان کوجگا کرایک مکمل انسان بنانے پرآمادہ ہوسکتاہے لیکن اس کیلئے مسلسل جدو جہد اوراس طرح کے صلاحیت کو بے نقاب کرنے والے پروگرامز کی ضرورت ہے تاکہ قوم کوجدیدتقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں مددملے ۔ طلبا کی ذہانت اور انکے اندر چھپی ہو صلاحیتوں اور جسمانی تعلیم کو فروغ دیتے ہوئے طلبا کی ذہنی صلاحیت کو اجاگر کرنے کا موقع فراہم کےا جائے اور مخصوص سلیبس کی کورس آﺅٹ لائن اور محدود سرحد سے نکل کر اپنے اندر کی چھپی ہوئی اضافی خدا کی طرف سے عطا کی ہو صلاحیت کو جاننے، پہچاننے اور ابھارنے کا موقع فراہم کےا جائے ۔پاکستان کے لئے ایک ناکام ریاست کی اصطلاح اسی بیانئے کی جنگ کا حصہ ہے۔ جس میں پاکستانی معاشرے کی اچھائیوں کی بجائے برائیوں کو اچھالا جاتا ہے۔جس کا نتیجہ مایوسی اور فرسٹریشن کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے ۔اس مایوسی اور فرسٹریشن کا مقابلہ تعلیم کے ذریعے سے ہی ممکن ہے۔ اس لئیے آج کے دور میں تعلیم کی ضرورت و اہمیت پہلے سے دو چند ہو گئی ہے لےکن ےہ جدےد دور کے تقاضوں کے مطابق ہونی چاہےے۔
