موسمیاتی تبدیلیاں اور شجر کاری کی اہمیت

گلگت بلتستان کے سینئر وزیرجنگلات راجہ ذکریا خان مقپون نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی بڑا چیلنج ہے اس سے نمٹنے کے لئے جنگلات کا رقبہ بڑھانا ہوگا،بلتستان میں رواں سال 38لاکھ پودے لگائے جائیں گے، سکردو میں شجرکاری مہم کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سینئر وزیر نے کہا کہ علاقے میں جنگلات اور جنگلی حیات کا تحفظ ہر شہری کی اولین ذمہ داری ہے۔اس وقت محکمہ جنگلات سے منسلک ادارے علاقے میں جنگلات کے رقبے کو بڑھانے کیلئے علاقے کے عوام اورکاشت کاروں کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں ،رواں سال محکمہ فارسٹ کو بلتستان ریجن میں 38لاکھ پودے لگانے کا ہدف دیاگیا ہے جس کے تحت اس سال ضلع سکردو میں 13لاکھ پودے، کھرمنگ میں 6 لاکھ پودے، شگر میں 10لاکھ پودے اور گانچھے میں 9 لاکھ پودے لگائے جائیں گے۔اس سال مختلف سرکاری سکولوں میں بھی سدا بہارپودے لگائے جائیں گے۔اس حوالے سے سرکاری سکولوں کو پودے فراہم کئے جائیں گے۔عوام اور کاشتکاروں کے ساتھ ملکر بنجر زمینوں پر پودے لگانے کے لیے محکمہ جنگلات بھرپور تعاون کر رہا ہے اسکے علاوہ علاقے میں جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے بھی ہمارے ادارے مختلف کمیونٹی کے لوگوں کے ساتھ ملکر بھرپور کوششیں کررہے ہیں ۔ےہ درست ہے کہ موسمےاتی تبدےلےاں صورتحال کو روز بروز خراب کر رہی ہےں‘موسمیاتی تبدیلی کے اسباب ، اثرات اور اس سے لاحق سنگین خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے مختلف سطحوں پر مربوط کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں تعلیمی و تحقیقی میدان میں اس موضوع پر اب تک ہونے والا کام تقریبا نہ ہونے کے برابر ہے۔ اشد ضروری ہے کہ اعلی تعلیمی اداروں خصوصا جامعات میں اس سلسلے میں تحقیقی مراکز اور جدید تجربہ گاہیں قائم کی جائیں اور ماہر افرادی قوت پیدا کی جائے۔ تحقیق کے چند اہم توجہ طلب نکات میں موسمیاتی تبدیلی کے ذمہ دار مقامی انسانی و قدرتی عوامل کو جانچنا، فضائی آلودگی کی اہم وجوہات جاننا اور اس کی نقل و حرکات کا بروقت جاننااور موسمیاتی تبدیلی انسانی صحت ، مزاج اور رہن سہن ، بیماریوں کے پھیلاﺅ، زراعت اور اجناس کی پیداوار ، زمین اور پانی کے حساس ماحولیاتی نظام پر اثرات کا جائزہ لینا اور اس کے ساتھ ساتھ ان اثرات کا مقابلہ کرنے کے لئے حل تلاش کرنا اور حکمتِ عملی واضح کرنا شامل ہوسکتے ہیں۔اس کے لےے حکومتی سطح پر ماحولیات کے قوانین پر عمل کروانا، صنعتوں سے زہریلی گیسز کے اخراج کو کم کرنا، جنگلات کے کٹاﺅ کو روکنا اور نئے جنگلات لگانا، شہری علاقوں میں کوڑا کرکٹ کا بہتر نظام بنانا، فضلہ جات ٹھکانے لگانے والی جگہوں کا مناسب انتخاب کرنا، گرین انرجی کی پیداوار کو بڑھانے کے لئے اقدامات کرنا اور اس والے سے عوامی سطح پر احساسِ ذمہ داری جگانا اور تربیتی پروگرامز منعقد کرنا وغیرہ شامل ہیں۔اےن ڈی اےم اےے بھی موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے آنے والی آفات اور ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لئے دن رات کوشاں ہے جس کی وجہ سے جانی نقصان میں کمی آئی ہے اور قیمتی املاک کو بچانے میں مدد مل رہی ہے اور عوام میں اس بارے آگاہی مہم کے ذریعے شعور بھی بیدار ہو رہا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ماڈلز، ورکشاپس، ٹرینگز، لیکچرز کے ذریعے اس میدان میں تربیت یافتہ افراد پیدا کرنا اور تعلیمی، صنعتی اور متعلقہ سرکاری اداروں کے اساتذہ اور سٹاف کو تربیت دینا، عوامی سطح پر موسمیاتی تبدیلی کے اسباب اور اثرات کے بارے میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر عوام کے لئے آگاہی مہم چلانا اور رہنمائی کرنا بھی شامل ہے تاکہ وہ اس معاملے میں ذمہ دار شہری کا کردار ادا کرسکیں۔اس کے علاوہ مقامی ، علاقائی اور عالمی سطح پر تحقیق کرنے ، انفرادی سطح پر تحقیق کرنے، انفرادی اور ادارتی تعاون بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ علمی و تحقیقی اور ٹیکنالوجی کے موجودہ خلا کو کم کیا جاسکے اور اجتماعی کوششوں کو فروغ دیا جاسکے۔ ملکوں اور اداروں کے درمیان موسمیاتی اور دیگر متعلقہ معلومات کا بروقت تبادلہ اور اس میدان میں مزید محققین اور تربیت یافتہ افرادی قوت پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیا جانا چاہئے۔موسمیاتی تبدیلی آب و ہوا کے قدرتی نظام میں بگاڑ کا نام ہے جس کی بڑی وجہ انسانی طور طریقوں، معمولات، استعمالات اور خواہشات میں بگاڑ کا پیدا ہونا ہے جن میں قدرتی وسائل، مثلا پانی، خوراک، لکڑی اور زمین کا بے تحاشا اور بلاضرورت استعمال اور ان کا ضیاع شامل ہے۔ انفرادی و اجتماعی طور پر ہمیں چاہیے کہ اپنی بڑھتی ہوئی خواہشات کو محدود رکھیںاوراللہ تعالی کی دی ہوئی نعمتوں کی قدرکریں اور ضرورت کے احساس کے تحت چیزیں استعمال کریں، پلاسٹک کے لفافوں اور اس سے بنی دوسری اشیا کے استعمال کو کم کرتے جائیں، پانی کو ضائع ہونے سے روکیں اور اگر ممکن ہو سکے تو استعمال شدہ صاف پانی کو ری سائیکل کریں۔ قریبی جگہوں میں سائیکل پر یا پیدل جائیں، گھروں میں سولر انرجی کا نظام لگائیںاور بجلی کے استعمال کو کم کریں، گندگی نہ پھیلائیں،گاڑی و فرش دھونے ،غسل کرنے میں پانی کا ضیاع نہ ہونے دیں اور قابلِ تلف چیزوں کے استعمال سے بھی پرہیز کریں۔ چیزوں کا استعمال کم، چیزوں کا استعمال دوبارہ اور چیزوں کا استعمال دوسری جگہ کے مقولے کو عملی طور پر اپنانے کی ضرورت ہے۔ ماحولیاتی تباہی کا سبب صنعتی ترقی ہے، جس کی وجہ ایندھن کا استعمال ہے۔ دوعشرے قبل ہی ماہرین خبردار کرچکے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پوری دنیا کو سیلاب اور خشک سالی کا بیک وقت سامنا کرنا پڑے گا۔ کہیں بارشیں زیادہ ہوں گی۔ گلیشیئر پگھلنے کی وجہ سے دریاﺅں میں سیلاب آئے گا اور کچھ خطے خشک سالی کا شکار ہوں گے۔ پاکستان میں بارش اور سیلاب ہے۔ جب کہ افریقا اور لاطینی امریکا کے بعض خطے خشک سالی کا شکار ہیں۔کم ازکم دو عشرے قبل ماحولیاتی ماہرین نے خبردار کردیا تھا کہ ہم موسم کے رتھ پر سوار تیزی سے میدانِ حشر کی جانب رواں ہیں تو ہم نے سائنسدانوں اور مفکرین کی تنبیہات کو سنجیدہ نہیں لیا۔ جب پانچ برس پہلے پہلی خبر آئی کہ انٹارکٹیکا میں درجہ حرارت بیس درجہ سینٹی گریڈ کی سطح پر آنے کے سبب لاکھوں برس پرانی برف سے ڈھکی چٹانیں ختم ہو رہی ہیں۔ درجہ حرارت میں تیز رفتار تبدیلی بتا رہی ہے کہ اب سے آٹھ برس بعد دنیا کے کئی خطوں میں زندگی ناقابلِ برداشت ہو جائے گی‘آج کا موسمِ بتا رہا ہے کہ کوئی سائنسدان یا خطرے کا بگل بجانے والا مدبر نہیں بلکہ ہم بجائے خود خوش فہم اور عاقبت نااندیش ہیں اور آج مِس مینجمنٹ کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ آج جدید سائنسی دور اور مصروف ترین زندگی میں ماحولیاتی آلودگی ایک بین الاقوامی چیلنج بن چکی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی میں بری، بحری اور فضائی آلودگی بھی شامل ہیں اور ان آلودگیوں کے سبب انسان تو انسان، حیوان، چرند پرند حتی کہ نباتات تک بری طرح متاثر ہو رہے ہیں، کیوں کہ انہیں ایسی کھلی فضا، صاف ہوا اور تر و تازہ ماحول ہی میسر نہیں ،جس میں وہ صحت بخش سانسیں لے سکیں۔ آج جس فضا میں ہم سانس لے رہے ہیں۔ اسے مختلف کیمیائی مرکبات نے نہایت آلودہ بنا دیا ہے، جس سے کرہ ارض پر زندگی اور زمینی ماحولیات کو مسلسل نقصان پہنچ رہا ہے۔ہم نے پہلے جنگلات کو بے دریغ کاٹنا شروع کیا، دریاﺅں سے بے تحاشا ریت بجری اٹھانی شروع کی ،جس سے دریاﺅں کی سطح میں کھارا پانی عود آیا۔ اس نے سمندروں سے کثیر تعداد میں مچھلیاں پکڑ کر انہیں اپنی غذا بنایا، جس سے سمندری حیات کا وجود خطرے میں پڑگیا۔ جنگلات کے کٹاﺅ سے فضا میں آکسیجن کی کمی ہو گئی۔ فطرت کے حسن کو فیکٹریوں سے اٹھنے اور گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں نے دھندلا دیا اور ساری فضا زہریلی بن گئی۔سمندروں اور دریاﺅں میں فیکٹریوں اور کارخانوں سے نکلنے والے کیمیائی فضلے کی موجودگی نے پانی کو زہر آلود کر دیا۔ فضائی آلودگی نے کرہ فضائی یعنی زمین کی حفاظتی غلاف اوزون میں سوراخ کر دیا ،جس سے سورج کی تیز شعاعوں کے ساتھ بالائے بنفشی لہریں بھی سطح زمین تک زیادہ مقدار میں پہنچنے لگیں تو جلد کے سرطان جیسے موذی و مہلک امراض بھی شدت اختیار کرنے لگے۔ہماری اس عاقبت نا اندیشی کے نتیجے میں نہ صرف دوسرے جانداروں بلکہ خود ہمارا نوع انسانی کا وجود اور مستقبل خطرے میں پڑ چکا ہے۔ہماری فضا و ہوا کو زہریلا و آلودہ کرنے والے عناصر میں گاڑیوں اور کاروں سے نکلنے والے دھوئیں میں شامل مختلف مرکبات کے ساتھ کاربن، سیسے اور سلفر کے مرکبات بھی شامل ہوئے ہیں۔ یہ سیسہ انسانی اعصابی نظام اور ذہن پر برے اثرات مرتب کرتا ہے جب کہ سلفر کے مرکبات تیزابی بارشوں کا سبب بنتے ہیں، جس سے انسانوں کے ساتھ ساتھ نباتاتی حیات و حیوانات بھی متاثر ہوتے ہیں ۔زمینی تیزابیت میں اضافہ ہوتا ہے اور پودوں، پھلوں اور فصلوں کی پیداوار اور معیار بھی متاثر ہوتے ہیں۔