آن لائن فراڈ کا بڑھتا ہوا رجحان

پاکستان میں شہریوں کے ساتھ آن لائن فنانشل فراڈ کی شکایات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے تاہم ایسی وارداتوں میں ملوث ملزمان کی دور دراز علاقوں میں موجودگی کے باعث ایف آئی اے سائبر کرائم کو کارروائیوں اور ملزمان کی گرفتاریوں میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ ساتھ کے ڈائریکٹر آپریشنز عاصم خان قائم خانی کا کہنا ہے کہ فیملی ایشوز پر مبنی شکایات میں کارروائی کی شرح سو فیصد ہے تاہم آن لائن فراڈ کے حوالے سے کارروائی میں مشکلات ہیں۔آن لائن فنانشل فراڈ میں ملوث ملزمان یا گروہ زیادہ تر پنجاب یا ملک کے دےہی علاقوں سے کیے جارہے ہیں اس وجہ سے ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کو کارروائیوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ملک میں موبائل فون کے استعمال کے ساتھ ہی فراڈ کا سلسلہ شروع ہوا۔شہریوں کو مختلف انعامی سکیموں کا جھانسا دے کر مختلف طریقوں سے لوٹا جا رہا ہے ۔ آئے روز موبائل اور مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پیغامات موصول ہوتے ہیں جن میں انعام نکلنے کا پیغام درج ہوتا ہے۔جعلی اکاﺅنٹس بنا کر لوگوں کو کبھی شادی، دوستی یا کبھی کاروبار کے نام پر لوٹا جاتا ہے۔اسی طرح لوگوں کے جعلی فیس بک اکاﺅنٹ بنا کر ان کے دوستوں کو مدد کے پیغامات بھیجنا بھی اب عام ہے۔ بے روزگاری اور دیگر معاشی مسائل کے باعث آئے روز ایسے پیغامات دیکھنے کو ملتے ہیں جہاں گھر بیٹھے بڑی رقم کمانے کا جھانسہ دیا جاتا ہے۔ اب بے روزگار اور غیر ہنر مند افراد جو پہلے ہی کسی موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں وہ ان دھوکے بازوں کے جھانسے میں آ کر گھر والوں یا کسی دوست سے ادھار لے کر وہ رقم بھی ڈبو دیتے ہیں۔آن لائن پلیٹ فارمز کو استعمال کرتے ہوئے یا پھر ٹیلی فون کالز پر لوگوں کو نشانہ بنانے کے واقعات میں چند خصوصیات مشترکہ ہیں۔ ملزمان یا تو لالچ کے ذریعے نشانہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں، یا پھر طریقہ واردات اگر مختلف ہو جلد بازی دکھاتے ہیں۔ اس تیزی کے باعث سادہ لوح افراد کو موقع ہی نہیں ملتا کہ وہ اس معاملے میں کچھ تحقیق کر سکیں۔ معاشی مسائل میں گھِرے ہوئے لوگ راتوں رات امیر ہونے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں دھوکہ باز لالچ کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے انہیں پہلے سے دستیاب رقوم سے بھی محروم کر دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ سماجی حیثیت کو خراب کرنے یا بلیک میل کر کے رقم ہتھیانے کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔ بینک اور مالیاتی ادارے صارفین کو آگاہ کر رہے ہیں کہ وہ کسی کے ساتھ بھی اپنا ذاتی ڈیٹا شئیر مت کریں۔ سپوفنگ کے عمل کے ذریعے صارفین کو بظاہر یہی دکھائی دیتا ہے کہ انہیں بینک کے نمبر سے کال آ رہی ہے۔صارفین کو چاہیے کہ چاہے کوئی شخص سٹیٹ بینک کا نمائندہ ہی بن کر کال کیوں نہ کرے، کسی صورت بھی اپنا ذاتی ڈیٹا شئیر مت کریں۔ غیر مستند پلیٹ فارمز کے علاوہ اپنا کریڈٹ کارڈ استعمال مت کریں۔ آن لائن ادائیگیوں کے لیے ورچوئل کارڈز کا استعمال بھی مفید ہو سکتا ہے، جس سے آپ کا اکاﺅنٹ بیلنس محفوظ رہتا ہے۔ اس کے علاوہ جب بھی کسی کام میں کمائی کا جھانسا دے کر سرمایہ کاری کی دعوت دی جائے تواس پر متعلقہ محکمے یا اس شعبے کے ماہر سے رابطہ کر لیں۔پاکستان میں سائبر کرائمز کے حوالے سے پہلا قانون 2007 میں بنا۔ 2016 میں پیکا ایکٹ منظور ہوا جس میں سائبر قوانین پر عملدرآمد اور خلاف ورزی کی صورت میں سزاﺅں کا مکمل فریم ورک بھی شامل تھا۔ آن لائن جرائم سے نمٹنے کے لیے پیکا قوانین 2016 میں ایف آئی اے اور پی ٹی اے کو مکمل اختیار دیا گیا ہے۔ بڑے شہر جہاں ان اداروں کے دفاتر موجود ہیں، وہاں تو آسانی سے متاثرہ فریق داد رسی کے لیے پہنچ سکتے ہیں مگر دور دراز کے وہ علاقے جہاں ان اداروں کے دفاتر اور قوانین کے حوالے سے آگاہی موجود نہیں وہاں لوگ فریب میں پھنس جاتے ہیں۔آن لائن پلیٹ فارمز کو استعمال کرتے ہوئے یا پھر ٹیلی فون کالز پر لوگوں کو نشانہ بنانے کے واقعات میں چند خصوصیات مشترکہ ہیں۔آن لائن فراڈ کرنے والے وہ مجرم ہیں جو دنیا کے کسی بھی خطے میں بیٹھ کر آرام سے اپنے شکار کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔آن لائن فراڈ کا دائرہ اتنا ہی بڑا ہے جتی ہماری زمین۔ رقم چوری ہو کر کہاں گئی یہ پتا چلاتے چلاتے ایک وقت ایسا آتا ہے جب آپ سمجھتے ہیں کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔اگر آن لائن جعلساز متحدہ عرب امارات میں بیٹھا ہوا ہے یا اس نے آن لائن پیسہ چوری کر کے اسے وہاں کے کسی بینک اکاﺅنٹ میں منتقل کردیا ہے تو پھر اس بینک کی طرف سے کوئی مدد نہیں مل سکتی ہے اور نہ ہی وہاں کی پولیس مدد کرتی ہے یعنی مجرم جرائم کرتے رہتے ہیں اور پھلتے پھولتے رہتے ہیں۔دنیا کے مختلف حصوں میں نظام میں ایسی کتنی خامیاں ہیں جس کی وجہ سے آن لائن دھوکہ دہی کرنے والوں کو پکڑنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جاتا ہے۔انٹرپول دنیا کی سب سے بڑی بین الاقوامی پولیس ایجنسی ہے۔ دنیا کے 194 ممالک اس کے ممبر ہیں اور یہ ایجنسی اپنے رکن ممالک کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے۔غلط ہاتھوں میں لوگوں کا ڈیٹا کسی قیمتی خزانے کی طرح ہوتا ہے۔ آن لائن فراڈ کے ذریعے دنیا بھر میں اب تک کتنی رقم چوری ہوئی ہے یہ جاننا تقریبا ناممکن ہے۔یہ جاننا بھی مشکل ہے کہ آن لائن فراڈ کے ذریعے چوری کی گئی رقم سائبر دنیا میں کہاں پہنچی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر ایسے معاملات کبھی حل ہی نہیں ہوتے ہیں۔آن لائن فراڈ کے زیادہ تر معاملات میں پیسہ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ جاتا رہتا ہے۔ منی لانڈرنگ کا یہ گروہ بہت سے ممالک میں پھیلا ہوا ہے۔ ایسے معاملات میں چوری شدہ پوری رقم کا واپس ملنا تقریبا ناممکن ہے۔ بیچ میں بہت سی پارٹیاں ہیں اور سب کا اپنا حصہ ہوتا ہے۔ آن لائن فراڈ کو روکا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے قوت ارادی کے ساتھ وسائل کا ہونا بھی ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سائبر کرائم تحقیقات میں اچھا کیریئر بنانا مشکل سمجھا جاتا ہے۔اس کے برعکس آن لائن جعلسازوں کے لیے یہ کام بغیر کسی لاگت اور کم خطرے کے ایک منافع بخش کاروبار ہے۔کہا جاتا ہے کہ آن لائن فراڈ کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جاسکتا اور اس کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ مقامی حالات پر توجہ دی جائے۔جرم کی دنیا میں رجحان ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے اور وقت کے ساتھ اس میں بھی تبدیلی آتی ہے۔پہلے بہت سی بینک ڈکیتیاں ہوتی تھیں۔بینک لوٹنے کے لیے ہتھیاروں اور دیگر سازوسامان کی ضرورت ہوتی ہے جس میں جان کا خطرہ بھی ہوتا تھا۔ بدلتے وقت کے ساتھ یہ مجرم سائبر کرائم کی دنیا میں منتقل ہو گئے کیونکہ یہاں خطرہ بہت کم تھا اور لوٹ مار کا منافع بہت زیادہ تھا۔پھر وہ وقت بھی آیا جب انٹرنیٹ کی قیمت اتنی کم ہو گئی کہ ہر ہاتھ نے سائبر دنیا کو تلاش کرنا شروع کر دیا۔ براڈ بینڈ متعارف ہونے کے وقت دو سو ڈالر میں ملنے والا انٹرنیٹ کنکشن آج ایک ڈالر تک جا پہنچا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور اس کے ساتھ ہی سائبر مجرم بھی بڑھ گئے ہیں۔ جیسے جیسے دنیا ڈیجیٹل ہوتی چلی گئی سائبر کرائم کا گراف بڑھتا ہی گیا پھر موبائل بینکنگ کا دور آیا جس نے آن لائن جعلسازوں کو اور زیادہ موقع فراہم کر دیے۔ زیادہ تر لوگ بہت کم تعلیم یافتہ ہیں اور وہ ٹیکنالوجی کو ٹھیک طرح سے نہیں سمجھتے ہیں لہذا سائبر مجرمان ان موبائل والٹ سے رقم آسانی سے چوری کرلیتے ہیں۔آن لائن فراڈ کا سب سے زیادہ شکار مقامی افراد ہوتے ہیں ۔ سائبر کرائم کا گراف آسمان چھونے لگا تو حکومت نے بھی اس پر قابو پانے کے لیے قوانین کی شکل میں ضروری اقدامات کیے۔پاکستان آئے دن اخباروں میں آن لائن دھوکہ دہی، دھاندلی یا جعلسازی کی خبریں نظر آئیں گی۔اےسی فون کالز، ایس ایم ایس یا ای میل موصول ہوتی ہےں جس میں رومانس، لاٹری یا کسی بھی قسم کی تازہ اپ ڈیٹ کے لیے کسی لنک پر کلک کرنے کے لیے کہا جاتا ہے اور مخصوص معلومات طلب کی جاتی ہےں۔ دھوکہ دہی کے طریقے ڈیجیٹل ہو گئے ہیں۔بینکنگ محتسب پاکستان کے مطابق، 2021 میں مالیاتی گھپلوں کی 37364 شکایات موصول ہوئیں، 2022 میں، بینکنگ محتسب پاکستان نے کل 19670 شکایات درج کیں۔ پاکستان ٹیکنالوجی اور آئی ٹی کی ترقی کے لحاظ سے بہت زیادہ ترقی یافتہ نہیں لیکن اسکیمنگ، ہیکنگ اور آن لائن فراڈ میں بہت آگے ہے ۔2018 میں پاکستان کے تقریبا تمام بینکوں کو ہیک کر لیا گیا تھا ‘مجرموں نے لوگوں کے اکاﺅنٹس سے بڑی رقم اڑا لی تھی۔ہمارے ہاں مالی گھپلے اور دیگر فراڈ بہت عام ہو چکے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو ہر روز کئی طریقوں سے دھوکہ دے کر ان کے پیسے لوٹتے ہیں۔یہ لوگ عام طور پر دیہی علاقوں سے کام کرتے ہیں اور غریب لوگوں کو مختلف اسکیموں کے ذریعے پھنساتے ہیں، جن میں اکثر سم کارڈ خریدنے کےلئے ان کی شناخت چوری کرنا شامل ہے۔اس لےے نجی اور سرکاری دونوں بینکوں کو بینکنگ سسٹم کو اپ گریڈ کرنے کے لیے سرمایہ کاری کرنی چاہیے اور اپنے صارفین کو دھوکہ بازوں اور فراڈ سے بچانے کے لیے بہتر حفاظتی اقدامات، جیسے اینٹی سکمنگ ڈیوائسز پر انحصار کرنا چاہیے۔عوام پر لازم ہے کہ سوشل میڈیا ٹیکسٹنگ یا میسجنگ ایپس پر کسی کو کبھی بھی اپنے بینک سے متعلق تفصیلات نہ دیں۔