صوبائی وزیر سیاحت و ثقافت راجہ ناصر علی خان نے کہا ہے کہ اپنے رویوں میں
تبدیلی لا کر حفظان صحت کے اصولوں کے عین مطابق سروسز فراہم کی جائیں تو دو
کمروں پر مشتمل گیسٹ ہاﺅس بھی بڑے بڑے ہوٹلوں کے برابر زر مبادلہ کما سکتے
ہیں۔ گلگت بلتستان کی حکومت ایکسچینج پالیسی کے تحت عوام کو بین الاضلاعی
دورے کروا کر ایک دوسرے کی ثقافت اور روایات سے آشنا کروایا جائے گا۔
۔صوبائی وزیر سیاحت و ثقافت راجہ ناصر علی خان نے کہا کہ گلگت بلتستان کے
لوگوں کو ایکسچینج پالیسی کے تحت ایک دوسرے اضلاع کا دورہ کروایا جائے گا
تاکہ وہ مختلف ثقافت اور روایات سے آشنائی حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ تہذیب و
تمدن کا بھی پتہ چل سکے۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان قدرتی وسائل سے
مالامال علاقہ ہے ہوٹلوں کی صنعت کو فروغ دے کر نہ صرف کثیر زرمبادلہ کمایا
جا سکتا ہے۔ بلکہ علاقے کی ثقافت اور روایات کو بھی دنیا میں پھیلایا جا
سکتا ہے۔اس موقع پر دیگر مقررین نے بھی خطاب کرتے ہوئے سیاحت کے شعبے میں
ہوٹل انڈسٹری کے کردار پر تفصیل کے ساتھ بریفنگ دی۔ماہرین کے مطابق ثقافت
معاشرتی وراثت کے مختلف عناصر میں سے ایک عنصر ہے۔ اس کا تعلق ان افکار و
نظریات کے ساتھ ہے جنہیں معاشرے کے افراد اختیار کرتے ہیں اور یہ افکار و
نظریات ان کی عملی زندگی میں مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتے ہیں۔ انسانی
معاشرے میں آنے والی سماجی اور معاشرتی تبدیلیوں میں ایک محرک ثقافت بھی
رہا ہے۔ ثقافت معاشرتی اور سماجی تبدیلی کا موجب ہوتی ہے، اگر وسیع تر
تناظر میں ثقافت کے مفہوم و معنی کاتعین کیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ
ثقافت معاشرے کا ایک ایسا پہلو ہے جس کا تعلق ان انسانی سرگرمیوں کے ساتھ
ہے جو انسانی معاشرے میں انجام پاتی ہیں اس طرح ثقافت میں علوم، فنون اور
عقائد سب شامل ہو جاتے ہیں اور اس میں معاشرے کے مختلف افراد کے وہ اسباب
زندگی بھی شامل ہیں جن کے تحت وہ زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ یعنی ثقافت
معاشرے کے اعتقادی، فکری اور معاشرتی پہلوں سے عبارت ہے۔ تاہم ثقافت کے
محتویات کے باب میں ماہرین کی آرا مختلف ہیں۔ثقافت کی اِصطلاح انسانی زندگی
کی تمام سرگرمیوں کا احاطہ کرنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے، عام ذہن ثقافت
کو مہذب معاشرہ کی اصطلاح سمجھتا ہے جہاں یہ اچھے آداب و اطوار اور مہذب
علمی گفتگو کا مظہر ہوتی ہے۔ ایک غیر مہذب فرد کوجو ان اوصاف سے محروم ہو
اور چاہے وہ اپنی صحرائی اور وحشی ثقافت میں فائق تر ہی کیوں نہ ہو اسے غیر
تہذیب یافتہ یعنی غیر شائستہ سمجھا جاتا ہے بالکل اس طرح جیسے لفظ، جانور
ایک معمولی کیڑے مکوڑے سے بڑے جانوروں تک تمام نوع حیوانات کا احاطہ کرتا
ہے۔ اس طرح لفظ ثقافت میں ابتدائی انسان کی ذہانت کی معمولی جھلملاہٹ سے لے
کر جدید شہری آبادی کے شکوہ تک سب شامل ہیں۔بعض ان میں صرف معرفت، عقائد،
فنون اوراخلاق کو شامل کرتے ہیں، جب کہ بعض کے نزدیک اس میں دین، خاندان،
جنگ، امن جیسے ضابطے بھی شامل ہیں جو انسانی نفسیات اور حیاتیات تک کا
احاطہ کیے ہوتے ہیں۔ تاہم اگر ہم مشرق اور مغرب کے تصورِ ثقافت کو دیکھیں
تو اسلام اور غیر اسلامی دنیا کے تصورِ ثقافت میں بنیادی فرق تصورِ دین کا
ثقافت کا عنصر ہونا ہے۔ کیوں کہ مغربی نظریات میں دین سے مراد ایک ما بعد
الطبیعاتی نکتہ نظر ہے جس کا تعلق علوم و فنون سے ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ
زندگی کی زندہ اور عملی قدر نہیں جبکہ اسلامی نکتہ نظر میں دین ما بعد
الطبیعاتی اور فلسفیانہ حقیقت نہیں ہے بلکہ زندگی کی ایک ایسی زندہ حقیقت
ہے جس سے زندگی کا کوئی گوشہ خارج اور باہر نہیں ہے کیونکہ جب دین کو محض
ایک فلسفیانہ مسئلہ سمجھ لیا جائے تو اس سے عقیدہ اخلاقی اقدار اور زندگی
کے عملی معاملات سے بالاتر ہو کر ایک مجرد تصور رہ جاتا ہے۔ جس کا زندگی پر
کوئی اثر نہیں رہتا۔ زندگی اخلاقی اقدار سے محروم ہوتی چلی جاتی ہے۔ جس کا
مظہر آج کا مغربی معاشرہ ہے۔ جبکہ اسلام کے معاشرتی نظام میں دین کو زندہ
قدر قرار دیا گیا ہے۔ زندگی کی کوئی بھی حقیقت اور کوئی بھی معاملہ چاہے اس
کا تعلق سماجیات سے ہو، معاشرتی امور، سیاسیات یا اقتصادیات سے ہو، قومی،
ملکی یا بین الاقوامی امور سے ہو، یہ سب کے سب دین میں داخل ہیں۔ دین کے
فراہم کردہ اصولوں کی روشنی میں ان امور کو چلایا جا سکتا ہے۔ جبکہ دنیوی
مقاصد اور مفادات کبھی بھی کسی بھی صورت میں دینی اقدار اور معیارات سے
آزاد، الگ اور خود مختار نہیں رہتے۔کسی بھی قوم کی ثقافت کے لیے ضروری ہے
کہ وہ ایسی اقدار پر قائم ہو جس کا تعلق عقیدہ، فکر، طرزِ زندگی اور زندگی
کے مقصد کے تعین کے ساتھ ہو، اس طرح ثقافت روحانی، نفسیاتی اور معاشرتی
اثاثہ قرار پاتی ہے جو تاریخ کا ایک ایسا مرکز و محور ہوتی ہے جس سے کسی
بھی قوم کی تاریخ کے مختلف پہلو اور گوشے جنم لے رہے ہوتے ہیں۔ تاہم اگر
ثقافت مثبت معاشرتی اقدار کو جنم نہ دے یا وہ اپنی اساس کے لحاظ سے مستقل
اور آفاقی اصولوں سے محروم ہو تو ایسی ثقافت کھوکھلی اور ادھوری ثقافت قرار
پائے گی۔ جو کوئی بھی بڑی تہذیب تشکیل دینے میں ایک فعال کردار ادا نہیں
کر سکتی۔ اس لیے ضروری ہے کہ ثقافت معاشرے میں ایسی بنیادی اقدار کی صحیح
اور موثر تعبیر اور ترجمانی کرے جو اقدار معاشرے کے مثبت اور اہم خدوخال کا
تعین کریں اور معاشرے کی ترقی اور نشوونما کی حرکت کو منظم کریں اور اس کے
لیے ایک جامع فکر کا تعین کریں۔ کیوں کہ کلچر کسی بھی معاشرے کے اجتماعی
طرز عمل کا مظہر ہوتا ہے۔پاکستان ایک کثیر الثقافتی معاشرہ تو ہے مگر حیرت
انگیز بات یہ ہے کہ لباس کے معاملے میں آپ کو بہت زیادہ فرق نظر نہیں آئے
گا۔ شمالی علاقوں کے لوگ مہمان نواز اور زندہ دل ہیں۔ پولو وہاں کا منفرد
کھیل ہے جو کہ اب پوری دنیا میں مشہور و معروف ہو چکا ہے۔ انسانی زندگی
گزارنے کے قدیم طور طریقے ابھی بھی موجود ہیں۔ اس علاقے کو چھپا ہوا خزانہ
بھی کہا جاتا ہے۔ پاکستا ن کا قومی جانور مارخور بھی اسی علاقے میں پایا
جاتا ہے جو انتہائی سخت حالات اور ماحول میں زندہ رہنے کا عادی ہے۔ پاکستان
کا قومی درخت دیودار بھی اسی علاقے میں پایا جاتا ہے۔ اس درخت کی عمر کافی
لمبی ہوتی ہے۔ قومی پرندہ چکور اور قومی پھول چنبیلی بھی اسی علاقے میں
پائے جاتے ہیں۔ چکور اور چنبیلی اب ملک کے دوسرے صوبوں میں بھی پائے جاتے
ہیں۔ پولو گلگت بلتستان کا قدیم قومی کھیل ہے‘ آج بھی یہ کھیل قدیم انداز
میں صرف گلگت بلتستان میں ہی کھیلا جاتا ہے۔گلگت بلتستان میں بولی جانی
والی زبانیں قدیم لسانی آثار میں سے ہیں جن کے دامن مختلف تہذیبوں کے رنگوں
سے مالا مال ہیں۔گلگت بلتستان میں چٹانوں اور پتھر کی سلوں پر منقش
جانوروں اور مہاتما بدھ کی تصویریں، ہندسوں ا سٹوپاز کے نقوش اور بدھ مت کے
گومپوں کے آثار انقلابات زمانہ کے ہاتھوں مٹ جانے کے باوجود اب بھی باقی
ہیں۔ اس طرح کے چٹانی نقش و نگار ماضی میں ان علاقوں میں موجود طبعی ماحول
کے متعلق اہم معلومات فراہم کرتے ہیں۔ داریل میں قائم بدھ مت یونیورسٹی اور
شگر میں واقع سکیورلونگ گومپہ کی روایات سے ان علاقوں کی قدیم تاریخ و
تہذیب کے کئی باب کھلتے ہیں۔یہاں کی خوراک میں گلگت کے نسالو و ڈاﺅ ڈاﺅ،
ہنزہ نگر کے چھپ چھورے، شربت اور درم پھٹی، بلتستان کے مارزن، پڑاپو اور
ازوق لاجواب ہےں ۔ گلگت بلتستان کا علاقہ موسیقی و رقص کے میدان میں بھی
کسی سے پیچھے نہیں۔ بلکہ یہاں ایران وعراق، ہندوستان و تبت اور وسط ایشیائی
ریاستوں کی موسیقی کے حسین امتزاج پر مبنی درجنوں اقسام کے راگ اور دھنیں
رائج ہیں۔ بلتستان کے شمشیر رقص گاشوپا، چھوغو پراسول اور پھورگون کار جبکہ
ہنزہ کے اپی ژھونٹ، الغنی اور دنی جیسے رقص کا تماشا دیکھنے کے بعد یہ
اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ قراقرم و ہمالیہ کے پہاڑوں کے درمیان بسنے
والے یہ کوہستانی لوگ کس قدر باذوق اور رقص و موسیقی کے دلدادہ ہیں۔اس
صورتحال میں حکومت کا حالےہ فےصلہ ےقےنا مثبت نتائج کا حامل ہو گا اور اس
سے اندرونی سطح پر بھی سےاحت کو فروغ حاصل ہو گا اور وہ لوگ جو کسی وجہ سے
اپنے ہی پورے علاقے کے بارے میں آگاہی نہےں رکھتے اس پالےسی سے آگاہ ہو
سکےں گے۔
