پاک فوج کے زیر اہتمام چلاس میں قومی جرگے سے کمانڈر ایف سی این اے میجر جنرل کاشف خلیل نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان ایک پرامن خطہ ہے،دہشت گرد عناصر پاکستان کی ساکھ متاثر کرنے کیلئے سر اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں،یہاں کے عوام دیرپا امن کیلئے اداروں کیساتھ تعاون کریں۔گلگت بلتستان ٹورازم کے حوالے سے بہت زرخیز ہے اور پچھلے کئی سالوں سے خطے میں سیاحت کو فروغ ملا ہے۔دیامر میں تعلیمی پسماندگی کے خاتمے کیلئے پاک فوج پہلے سے کام کررہی ہے دیامر سے مزید چار سو غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والے قابل بچوں کو آرمی پبلک سکولوں میں مفت تعلیم دی جائیگی اور میرٹ پر سلیکشن ہوگی۔جرگے سے خطاب میں سابق ترجمان حکومت فیض اللہ فراق نے کہا کہ اجتماعی طور پر شعور و آگاہی وقت کی اہم ضرورت ہے ہمیں بحثیت قوم خود احتسابی کی ضرورت ہے۔ہمیں ایک ذمہ دار قوم بننا ہوگا اور دشمن کے سازشوں کے خلاف آگے بڑھنا ہوگا۔ دیامر بھاشا ڈیم کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کو بہت فائدہ ہوا ہے روزگار ملا ہے اور اربوں روپے دیامر میں آئے ہیں اگر آج ہم اس پر ناشکری کریں اور واپڈا کو برا بلا کہیں تو یہ کفران نعمت ہوگا۔دیامر کی نوجوان کو ٹیکینکل ایجوکیشن سے لیس کرنے کی ضرورت ہے یہاں کے چھوٹے چھوٹے مسائل فوری حل ہونے چاہیں۔ امن ہر معاشرے کی ضرورت ہے' ہمارے ہاں امن و امان کا مسئلہ خاصا گمبھیر ہے کیونکہ ہم نے اس پر توجہ نہیں دی۔ ہم جانتے ہیں کہ اہل یورپ نے آپس میں طویل خونریز جنگیں لڑی تھیں، ایک دوسرے کے شہروں کو تباہ کیا' لاکھوں لوگوں کو کئی بار تہہ تیغ کیا، قلعوں اور شہروں کو آگ لگا کر بھسم کیا، لیکن پھر انہیں سمجھ آگئی کہ ایک دوسرے کو تباہ کر کے لوٹ مار کر کے ہم کبھی خوشحال نہیں ہو سکتے کیونکہ ایک جنگ کے بعد دوسری جنگ تیار کھڑی ملتی ہے۔ معاشی حالت یوں مضبوط نہ ہو گی، کچھ مختلف کرنا پڑے گا۔ پھر انہوں نے اپنی سرحدیں کھول دیں اپنی کرنسی ایک کر دی، عوام کو کام کرنے محنت کرنے اور کاروبار کرنے کے بہتر مواقع میسر آئے اور ترقی کا پہیہ چل پڑا، دفاعی اور جنگی اخراجات نہایت کم ہو گئے۔ عوام کا معیار زندگی بہتر ہوا، اکثر ریاستیں فلاحی ریاستیں بن گئیں۔ آج پاکستان سے لاکھوں لوگ یورپ میں بہتر روزگار بہتر زندگی اور اپنے خاندان کی معاشی ترقی کے لئے جاتے ہیں، وجہ صرف ایک ہے کہ وہاں امن ہے جو استحکام کی ضمانت ہے۔ ہمارے خطے میں بدقسمتی سے عالمی طاقتیں پچھلی چار دہائیوں سے پنجہ آزمائی کرتی آرہی ہیں۔ اس جنگ و جدل کا تمام تر نقصان خطے کے ممالک کو ہوا ہے۔ افغانستان تباہ ہو گیا پاکستان دہشت گردی میں جکڑا گیا اور لاکھوں افغان مہاجرین کے بوجھ سے پاکستانی معیشت کا جنگ اور دہشت گردی میں برا حال ہو گیا۔ دیگر ممالک جیسے ایران، چین اور بھارت بھی یقینا خطے میں عدم استحکام سے متاثر ہوئے۔ آج چین اس خطے کی اقتصادی ترقی کا عزم کئے ہوئے، ساری دنیا کو تجارتی تعلق میں باندھنے کے لئے پاکستان سے اقتصادی راہ داری کے عظیم منصوبہ پر کام زور و شور سے کر رہا ہے۔ یہ راہداری پاکستان ہی نہیں بلکہ پورے خطے کے لیے ترقی کے مواقع پیدا کرے گی اور اس کا لازمی نتیجہ خوشحالی ہے تاہم آج اس منصوبے کو مکمل کرنے کیلئے تحفظ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ اقتصادی راہداری مکمل ہونے کے بعد معاشی ترقی و استحکام کی وجہ سے امن کی ضامن بن جائے گی۔ امن کے لئے آج ہمیں انفرادی سطح پر سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ انفرادی سطح پر عدم برداشت کے خاتمے سے ہی ہم معاشرہ میں سماجی، سیاسی اور مذہبی اختلاف کے باوجود تشدد کو ختم کر سکتے ہیں۔ ہم تنگ نظری اور متعصبانہ رویوں کی حوصلہ شکنی کر کے رواداری کو فروغ دے سکتے ہیں۔ اسی طریقے سے امن آئے گا، ڈر اور خوف کا خاتمہ ہو گا اور ہم ترقی کے راستے پر گامزن ہو سکیں گے۔ امن کے ساتھ ہی افراد، علاقہ ملک اور خطہ ترقی کر سکتا ہے۔ ہمیں امن کیلئے سنجیدہ ہونا پڑے گا تاکہ اپنی ہی نہیں اپنی آنے والی نسلوں کی خوشحالی کی بنیاد مضبوط کر سکیں۔جن معاشروں میں امن قائم ہوجاتا ہے اور زندگی ایک طویل دورانیے کے لیے اپنی ڈگر پر چلنے لگ جاتی ہے وہاں قانون کی پابندی، احترام، محبتیں اور اخلاقی قدریں قائم ہوجاتی ہیں۔ انسانوں میں آپسی ہمدردی کے جذبات پروان چڑھنے لگ جاتے ہیں۔ وہاں کسی طاقت اور اصول کے زور پر نہیں بلکہ انسانی طبعیتوں میں موجود شرافت اور قدریں ہی معاشرے میں سکون رائج کرتی ہیں۔ سماج میں برائی کو برائی ہی سمجھا جاتا ہے اس کے لیے کسی دلیل وحجت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ انٹرنیٹ، الیکٹرانک وپرنٹ میڈیا، سوشل میڈیا اور سماجی رابطوں کے برق رفتار ذرائع کے اِس دور میں ملکی اورعلاقائی امن اور استحکام کو بے شمارخطرات لاحق ہیں مذہبی ونسلی تعصبات بڑھتے جا رہے ہیں اور اقلیتوں کو شہرکے حاشیوں میں دھکیلنے کا رحجان عام ہوتا جا رہا ہے ان کی تاریخ، زبانوں اور ثقافتوں کو غیر مہذب، غیر ترقی یافتہ اور مضحکہ خیز حتی کہ غیر انسانی قرار دینے کا رواج پکڑ رہا ہے حال ہی میں نیوزی لینڈ،فرانس ، بھارت، میانمر، سری لنکا، پاکستان اورچین میں کئی اقلیت مخالف واقعات دیکھنے اور پڑھنے میں آرہے ہیں بعض جگہوں پر انتہائی بھیانک اور دل دہلا دینے واقعات رونما ہو رے ہیں ایسے تمام واقعات میں سوشل میڈیا کا منفی استعمال خصوصی طور پر شامل رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دورِ جدید میں اقلیت کش متشدد واقعات کے اسباب پر غوروخوض، بحث مباحثہ اور سدِباب کے نئے راستے تلاش کرنا از حد ضروری ہو چکا ہے کیونکہ یہ بات ثابت ہے کہ امن کوکسی بھی جگہ اور کسی بھی کمیونٹی کے لئے خطرہ ہر جگہ، ہر ایک کے لئے خطرہ ہے۔تنازعات کے اسباب کو مختلف ثقافتی و لسانی اور مذہبی شناختوں سے جوڑنا اور یہ تصور کرنا کہ تفریق بدیہی اور لابدی ہے مسائل کی جڑ بنیاد ہے، یہ سراسرغلط تصور ہے کیونکہ امن کے حصول یا تشکیل کے لئے ضمنی شناختوں کو مندمل یا ختم کرنے سے امن حاصل نہیں ہوتا ۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جنوبی ایشیا میں بہت سی کمیونیٹیز اپنے مذہبی و شناختی امتیاز کے باوجود باہمی امن اور خوشحالی سے ساتھ ساتھ یا گھل مِل کے رہتے رہے ہیں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ سیاست کے لئے طاقتور اشرافیہ ، صنعت کار، جاگیردار یا سیاستدان مذہبی اور سیاسی تفریق کے لئے مبالغہ آمیز نظریات تخلیق کرتے ہیں، تاریخی واقعات ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان پرداستان سرائی کا تڑکہ لگاتے ہیں اور پھرعوام کو مشتعل کرتے ہیں تاکہ طاقت تک رسائی یا پھر شہرت حاصل کریں چاہے وہ منفی ہی کیوں نہ ہو۔دنیا میں کوئی ریاست ایسی نہیں ہے جہاں لکڑی لوہے کیطرح یکساں لسانی و مذہبی معاشرہ آباد ہو ۔ معاشرے فیکٹریوں میں نہیں بنتے، پراڈکٹ نہیں ہوتے بلکہ زمین پر جنم لینے والے جیتے جاگتے نامیاتی مظاہر ہوتے ہیں انسانی فکری ارتقا، تجربات، جمالیات اور نظریات سے متنوع افراد اور ثقافتیں جنم لیتی ہیں تنوع اور افتراق کو سراہنے کی بجائے یکجائی اور یک نظری پر زور دینا یا مکینکل یکسانیت کی کورچشمانہ سیاسی کوشش، جہاں بھی ہو، کسی مدعو کردہ المیے سے کم نہیں ہے بالائی تفریق کے ساتھ ساتھ اگر قریب قریب رہنے والے معاشروں کے مشترکہ ورثہ کو بھی تسلیم کیا جائے تو کاٹنے بانٹنے اور علیحدگی پسندانہ رویوں سے بچ کر ہم دوسروں کو بھی اپنے وجود کا حصہ سمجھنے لگتے ہیں مشترکہ ورثہ ایک ایسا زاویہ نظر ہے جو ہمیں زبانوں اور ثقافتوں کے طول و عرض میں افتراق کے ساتھ ساتھ اشتراک فہمی کا شعور بھی دیتا ہے۔ جنوب ایشیائی تہذیبوں کے درمیان حیران کن رنگا رنگی، فرق اور تنوع کے با وجود پاتال میں کئی عناصر ایک جیسے ہیں زبان، ادب، شاعری، موسیقی، لباس و آرائش، آرٹ و آرکیٹکچر، ذائقہ اورخورونوش کی ترجیحات، حتی کہ مخصوص عقائد کو چھوڑ کرروزمرہ کا مذہبی اور صوفیانہ مزاج بھی ایک جیسا ہے۔جو متفرق معاشرے صدیوں تک ایک دوسرے کے ساتھ رہتے رہے ہیں ان کے درمیان سب گل و گلزار اور شیروشکر تھا اور کبھی کوئی اختلاف یا ردو کدورت نہیں تھی 'اختلافات، کشیدگیاں، الگ الگ پہچان، وضع قطع، عقائد، رسوم و رواج حتی کہ تنازعات بھی مشترکہ وراثت ہی کاحصہ رہے ہیں مگر ہم آہنگی اورآپسی اعتماد سازی کے لئے اختلافا ت سے صرفِ نظر کرنا، مشترکہ عناصر کو بڑھاوا دینا، رابطہ کار پل تعمیرکرنا اور اختلافات کو اجنبیت کے بجائے فِطری حسن شمار کرنا زیادہ ضروری ہے خطے میں مذہبی، لسانی اور سیاسی کشیدگیوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے بھی امن اور روشن خیالی کا تقاضا ہے کہ سماجی اور ثقافتی ورثے کے ذریعے تعاون اور بات چیت کی نئی نئی راہیں تلاش کی جائیں۔ تعلیم کواگرغورو فکر اور موثر طریقے سے استعمال کیا جا ئے تو یہ ایک ایسا ہتھیار ہے جو طلبہ وطالبات کے دلوں میں باہمی احترام اورنسانی جذبات بیدار کر سکتا ہے طلبا وطالبات کو یہ جاننا چاہیے کہ لوگوں کا مختلف افکار، نظریات اور عقائد رکھنا عین فطری بات ہے حیات اور کائنات کے بارے میں دنیا کی تاریخ میں کبھی بھی افراد اور معاشروں کے نظریات ایک جیسے نہیں رہے ۔اگر انسان حیوانِ عاقل و ناطق ہے تو ہر انسان کی فکر، ردو قبول اور بات چیت میں فرق ہو گا اور ہونا بھی چاہیے کیونکہ یہی زندگی اور معاشروں کا حسن ہے۔
