مہنگائی اور اشرافیہ



اوگرا نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے تعین کی سمری حکومت کو بھجوا دی۔ پیٹرول کی قیمت میں 13 روپے 60 پیسے تک اضافے کا امکان ہے۔اوگرا نے پیٹرولیم مصنوعات قیمتوں سے متعلق دو تجاویز بھجوائیں جس میں پیٹرول اور ڈیزل پر دو سے 5 فیصد فی لیٹر جی ایس ٹی عائد کرنے کی تجویزبھی شامل ہے۔دو فیصد جی ایس ٹی عائد کرنے پر پیٹرول کی قیمت میں 5 روپے 44 پیسے جبکہ 5 فیصد جی ایس ٹی عائد ہونے کی صورت میں پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 13 روپے 60 پیسے تک اضافے کا امکان ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈیزل پر 5 سے 10 روپے فی لیٹر لیوی عائد کرنے اور ڈیزل کی قیمت میں 10 سے 15 روپے فی لیٹر اضافہ کرنے کی تجویز بھی بھجوائی گئی ہے۔اوگرا نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں برقرار رکھنے کی بھی تجویز دی ہے۔ گزشتہ 15 روز میں عالمی منڈیوں میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ اس دوران عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت 74 ڈالر فی بیرل تک رہی۔عالمی منڈیوں کے تناسب سے ٹیکس عائد کر کے بھی قیمتیں برقرار رکھی جا سکتی ہیں۔پیٹرول کی قیمتوں کا دارومدار اس بات پر ہے کہ خام تیل کتنا مہنگا ہے۔ خام تیل سے صفائی کے بعد ہی پیٹرول اور دیگر پیٹرولیم مصنوعات بنتی ہیں۔تیل کی قیمتوں پر صنعتی عوامل کے ساتھ ساتھ دیگر عوامل بھی اثر انداز ہوتے ہیں جیسا کہ طلب و مانگ میں فرق، یا جنگ اور وبا وغیرہ تیل کے فی بیرل کی قیمت پہلے ہی کورونا وبا کے اثرات سے نکلنے کے بعد عالمی سطح پر بڑھ رہی تھی کیونکہ کورونا وبا کے دوران دنیا بھر میں تیل کی مانگ کم ہوئی تھی اور اس پر اثر پڑا تھا لیکن گزشتہ برس فروری میں روس کی جانب سے یوکرین پر حملے نے اس میں مزید اضافہ کر دیا اور عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اتنا اضافہ 2011  میں عرب سپرنگ کے بعد سے نہیں دیکھا گیا۔روس دنیا میں تیل کی پیداوار کرنے والا ایک اہم ملک ہے اور اس کی جانب سے یوکرین پر حملہ کرنے کے بعد عالمی منڈی میں یہ خدشات پیدا ہو گئے تھے کہ اس کی تیل کی رسد اب متاثر ہو گی۔ بنیادی فرق یہ ہے کہ اب دنیا موسمیاتی تبدیلیوں کو کم کرنے کی کوششوں میں تیل اور فوسل فیول کا استعمال کم کرتے ہوئے اس سے دور جا رہی ہے۔یورپی یونین 2035  سے پیٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی کاروں پر پابندی لگانے پر بحث کر رہی ہے۔کچھ ممالک میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور مانگ نے تیل کی قلت پیدا کی ہے۔جیسا کہ جون میں سری لنکا میں دیکھنے میں آیا جب ملک شدید معاشی مشکلات کے باعث عالمی منڈی سے تیل خریدنے سے قاصر رہا اور ملک رک کر رہ گیا۔ دنیا کے مختلف ممالک میں پیٹرول کی قیمتوں میں اتنا فرق کیوں ہے؟ویسے تو جن ممالک کو تیل درآمد کرنا پڑتا ہے وہاں لاگت بڑھ جاتی ہے اور نتیجتا وہاں پیٹرول کی قیمت زیادہ ہوتی ہے۔اگر ہم گلوبل پیٹرول پرائسز ڈاٹ کام پر تیل کی پیداوار کرنے والے ممالک کا جائزہ لیں تو وینزویلا، لبیا اور ایران گاڑی کی پیٹرول کی ٹینکی فل کروانے کے لیے سستے ترین ممالک ہیں۔کچھ ممالک خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں بھی پیٹرول کی قیمتیں حکومتی سبسڈیز کی بدولت کم ہیں۔ سبسڈیز وہ اقدامات ہوتے ہیں جو مختلف ممالک کی حکومتیں مصنوعی طور پر چیزوں قیمتوں کو کم رکھنے کے لیے اٹھاتی ہیں لیکن دیگر ممالک میں اس کے نتائج برعکس ہیں، ان ممالک میں حکومتی سبسڈیز کی بجائے تیل کی قیمتوں پر بھاری ٹیکس اور ڈیوٹیز عائد کی جاتی ہیں جس سے صارفین کے لیے پیٹرول کی قیمت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ راک فائونڈیشن کی ایک تحقیق کے مطابق برطانیہ میں پیٹرول کی قیمت میں یہ اضافہ تقریبا 45 فیصد تک ہے۔ہر ملک کے مقامی حالات بھی اس پر اثرات مرتب کرتے ہیں کہ ہم تیل کی قیمت کے لیے کتنی ادائیگی کرتے ہیں۔ مقامی کرنسی اور ڈالر کے ایکسچینج ریٹ کا بھی عمل دخل ہے کیونکہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت ڈالر کے حساب سے طے کی جاتی ہے۔ تیل کی زیادہ قیمت کے اثرات صرف اس بات تک محدود نہیں ہیں کہ ہم پیٹرول پمپ پر براہ راست کتنے پیسے ادا کرتے ہیں۔مثال کے طور پر پیٹرول کی زیادہ قیمت کا اثر خوراک کی قیمتوں پر بھی پڑتا ہے کیونکہ ان کی ٹرانسپورٹ کی لاگت بڑھ جاتی ہے، اس طرح پبلک ٹرانسپورٹ اور جہاز کے کرایوں میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ ہمیں ایندھن کی مہنگی قیمت کے ساتھ ہی رہنا پڑے گا۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ تیل کے استعمال کو ختم کر دینا اتنا آسان نہیں ہے۔پٹرول کی قیمت میں اضافہ تمام ضروری اشیا میں اضافے کا جواز بنتا ہے۔ جس تناسب سے پٹرول کی قیمت میں اضافہ ہوا ہوتا ہے۔ ضروری اشیا کی قیمتیں اس سے کئی گنا زیادہ بڑھا دی جاتی ہیں۔ نیز جب پٹرول کی قیمتوں میں کمی کا اعلان ہوتا ہے تو یہ قیمتیں نیچے نہیں آتیں۔ اس وقت بنیادی اشیا ایک غریب آدمی کی دسترس سے دور ہیں۔ ان میں سے کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو ہماری زندگی کا لازمی جزو نہ ہو لیکن کمر توڑ مہنگائی نے خلق خدا کو ان سے محروم کر دیا ہے۔ اشیائے خور و نوش کے علاوہ بجلی کے بلوں نے بھی عوام کا جینا حرام کیا ہوا ہے۔کم آمدنی  والا شخص کیسے زندہ رہ سکتا ہے۔ جسے مکان کا کرایہ بھی ادا کرنا ہے۔ بچوں کو روکھی سوکھی بھی کھلانی ہے۔ بیمار بھی ہونا ہے۔ کام پر جانے کے لئے بس میں سفر بھی کرنا ہے۔ گھر آئے مہمان کو بھی بھگتانا ہے۔ بچوں کی شادیاں بھی کرنا ہیں۔ سو جس طرح وہ زندہ رہتا ہے اس زندگی میں ہر لمحے ایک موت چھپی ہوتی ہے۔پاکستان کی ایک تہائی آبادی اس معیار سے نیچے حد درجے افلاس اور بے کسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ یہ غربت صرف دیہاتوں تک محدود نہیں، بلکہ بڑے بڑے شہروں میں بھی اکثریت انہی غریبوں کی ہے، جو دو تین عشرے پہلے متوسط درجے کی زندگی گزار رہے تھے اور پھر رفتہ رفتہ غربت کی سطح پر آگئے۔ غربت کے ساتھ مہنگائی کا جن ہمارے سروں پر کچھ اس طرح مسلط ہے کہ جان چھڑائے نہیں چھوٹتی۔ ایک غیر ملکی سروے رپورٹ کے مطابق اکثر پاکستانیوں کی آمدن کا تقریبا 50 فیصد حصہ فقط خوراک پر خرچ ہو جاتا ہے،مہنگائی نے غریب تو غریب متوسط طبقے کے لوگوں کی بھی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ اس مہنگائی نے غریب عوام کے لئے جینا محال کردیا ہے اور غریب و مزدور طبقہ کی تو بات ہی مت پوچھئے ان کے یہاں تو چولہا جلنا ہی دشوار ہوگیا ہے۔ بھوک افلاس فاقہ کشی کا منظر بھوک سے بلبلاتے بچے اس ناگفتہ بہ صورت حال کو کہ ملک میں خوردنی اشیا کی قلت اور مہنگائی دن بدن شدت اختیار کرتی جا رہی ہے جس نے غریبوں کا خون تک نچوڑ لیا ہے ۔ہمیں متوسط غریب طبقہ کو سامنے رکھ کر پالیسی ترتیب دینی چاہیے تاکہ ان لوگوں کے لیے بھی آسانیاں پیدا ہوں اور ملک میں خوشحالی ممکن ہو۔مہنگائی کاجن بوتل سے پھر ہو چکا ہے۔ برائلر مرغیوں، سبزیوں، کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے جس کا براہ راست اثر عام عوام کی جیب پر پڑا ہے اور انتظامیہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے جبکہ عوامی حلقوں میں اضطرا ب اوربے چینی پائی جا رہی ہے ۔ایک دفعہ پھر بڑے پیمانے پر مہنگائی کی مار جاری ہے۔ہر طرف سے غریبوں کومصائب ومشکلات سے دو چار ہونا پڑرہاہے ا ور اپنی ضرورتوں کوپورا کرنے کے لئے وہ دردر کی ٹھوکریں کھانے پرمجبور ہورہے ہیں ۔ قیمتوں کواعتدال پررکھنے کے لئے متعلقہ ادارے اپنے فرائض منصبی ادا کرنا بھول گئے ہیں اورناجائز منافع خوروں کولوٹ کھسوٹ کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔  پاکستان میں اکثریت لوگوں کا ذ ریعہ آمدنی انتہائی قلیل ہونے کی وجہ سے لوگوں کا گزر اوقات انتہائی دشوار اور مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ دن بدن تمام استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں ہو شربا اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں مہنگائی کی شرح عروج پر پہنچ گئی اور اس مہنگائی نے گزشتہ چار پانچ سال کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ ہر چیز کی قیمت آسمان سے باتیں کررہی۔جوں جوں وقت گزر رہا ہے مہنگائی کاجن بوتل سے باہر آرہا ہے۔ڈالر تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ملکی معیشت ہردن کے ساتھ ہچکولے کھارہی ہے۔بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے عوام کے لیے درد سر بن گیا۔ملک بھرمیں ہوش ربا مہنگائی کے سونامی سے عام آدمی کے لیے دو وقت کی آبرو مندانہ روٹی کا حصول مشکل تر ہو گیا ہے۔ اشیائے خورونوش کے نرخوں میں اضافے کے روز افزوں رجحان کے باعث عام شہری کے لیے زندگی اس حد تک مشکل اور وبالِ جاں بن چکی ہے کہ وہ اس سے چھٹکارے کے لئے خودکشی کا مسافر بننے کو آسان سمجھتا ہے۔
۔