وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ جیل بھرو تحریک میں صرف سو سے زائد افراد نے گرفتاری دی اور اس میں سے بھی اسّی فیصد کہتے ہیں ہمیں چھوڑ دو، پہلے دور دراز کی جیلیں بھریں گے اس کے بعد لاہور اور پنڈی کی۔اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ جیل بھرو تحریک میں کل ملا کر سو سوا سو افراد ہیں ان میں سے بھی اسی فیصد کہتے ہیں کہ ہمیں چھوڑ دیں، تمام افراد کو تیس تیس دن کے لیے نظر بند کیا گیا ہے، آپ جیل میں جانا چاہتے تھے تو آپ کو جیل بھیج دیا، آپ کو جیلوں کی سیر کرارہے ہیں تاکہ آپ جیلوں کے حالات سے واقف ہوجائیں۔انہوں نے کہا کہ عدلیہ کا احترام کرتے ہیں، عدلیہ کو کمزور کرنا ملک کے مسائل میں اضافہ کرنا ہے، بنچ فکسنگ کی انکوائری کی جائے سوموٹو لیا جائے اور سزا دی جائے کہ کسی جج کے ساتھ پرویز الہی کے تعلقات کیوں ہیں؟ آج دنیا بابا رحمتے اور جسٹس منیر کو کس نام سے یاد رکھتی ہے؟رانا ثنا اللہ نے کہا کہ عمران خان نے ملک میں فتنہ برپا کیا ہوا ہے اور ملک کی بہتری کے لیے کوئی ایک کام نہیں کیا، کبھی کہتا ہے کہ اسلام آباد آرہا ہوں سمندر لے کر اور کبھی کہتا ہے جیل بھروں گا، قوم اس فتنے سے واقف ہوچکی، عمران خان ملک میں عدم استحکام پھیلا رہا ہے اور اس نے چار سال میں کچھ نہیں کیا، اس کی جیل بھرو تحریک ڈوب مرو تحریک بن چکی، اکثر لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں چھوڑ دیں یہ لوگ ہمیں ورغلا رہے ہیں۔وزیر داخلہ نے کہا کہ پی ایم ایل کی پوزیشن آج بھی پنجاب میں بہت بہتر ہے، اگر ہم امیدواروں میں تبدیلی کریں تو نشستیں جیت سکتے ہیں، پارٹی کو سفارشات پیش کریں گے فیصلہ پارٹی قیادت کو کرنا ہے۔جیل بھرو تحریک اس خطے میں سب سے پہلے نوآبادیاتی دور میں آئی، جب مہاتما گاندھی نے نوآبادیاتی دور اور برطانوی راج کے خلاف مختلف مواقع پر احتجاج کیا۔ انہوں نے کہاکیونکہ اس وقت کا شمال مغربی صوبہ جسے آج خیبرپختونخواہ کہا جاتا ہے وہ سرحدی گاندھی باچاخان کے زیر اثر تھا، اس لیے جب ہندوستان میں جیل بھرو تحریک کا آغاز ہوا، تو ان سے یکجہتی دکھاتے ہوئے چارسدہ اور پشاور سمیت کئی علاقوں میں خدائی خدمتگاروں نے گرفتاریاں دیں۔ آزادی کے بعد پہلی جیل بھرو تحریک پاکستان قومی اتحاد کی طرف سے شروع کی گئی، جو بنیادی طور پر بھٹو کی حکومت کے خلاف شروع ہوئی تھی۔اس کے مراکز کراچی سمیت پاکستان کے کئی بڑے شہر تھے۔ اس کے علاوہ 1983 میں ایم آر ڈی یا تحریک بحالی جمہوریت کے دوران بھی جیل بھرو تحریک شروع ہوئی، جس میں سینکڑوں کارکنان گرفتار ہوئے۔انیس سو اٹہتر میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کی طرف سے بھی جیل بھرو تحریک شروع کی گئی، اس مہم کے دوران بہت سارے صحافیوں نے گرفتاری پیش کی اور صحافیوں سے اظہار یکجہتی کرنے کے لیے بہت سارے ٹریڈ یونین لیڈرز نے بھی گرفتاری پیش کی۔ ملکی سطح پر اس طرح کی جیل بھرو تحریک کے علاوہ وہ علاقائی سطح پر بھی کچھ سیاسی جماعتوں، ٹریڈ یونینز اور دوسری تنظیموں نے جیل بھرو تحریکیں شروع کی ہیں۔ایم کیو ایم نے بھی نوے کی دہائی میں جیل بھرو تحریک شروع کی تھی، جس کا مقصد بنیادی طور پر ماورائے عدالت قتل کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا تھا۔ اس تحریک کو 1994 میں شروع کیا تھا اور ایک ہزار سے زیادہ کارکنان اور رہنماﺅں نے گرفتاری پیش کی تھی ۔اس تحریک کا مقصد ماورائے عدالت قتل کے خلاف آواز اٹھانا تھا اور جب فاروق لغاری نے بینظیر بھٹو کی گورنمنٹ ختم کی تو ماورائے عدالت ہلاکتوں کو ان کی برطرفی کی وجوہات میں سے ایک وجہ قرار دیا۔سیاسی جماعتوں کے علاوہ کچھ ٹریڈ یونینز اور چھوٹی تنظیموں نے بھی جیل بھرو تحریک شروع کی لیکن ان اثر کچھ علاقوں تک ہی محدود رہا۔ ستر کی دہائی کے آخری سالوں میں الائیڈ ملز کے مزدوروں نے لاڑکانہ میں تحریک شروع کی تھی۔ملز کے مالکان کا کراچی سے تعلق تھا اور انہوں نے یہ مل اس خوف سے بند کر دی تھی کہ بھٹو کی پھانسی کے بعد کہیں ان کو مالی طور پر نقصان نہ ہو۔ انہوں نے یہ مل بند کر چھے سوسے زیادہ مزدوروں کو بیروزگار کردیا، تو ان بے روزگار مزدوروں نے ٹریڈ یونین کی مدد سے جیل بھرو تحریک شروع کی، جس میں بعد میں روہڑی سکھر اور دوسرے علاقوں کے مزدور بھی شامل ہوگئے۔جیل بھرو تحریک رضا کارانہ گرفتاریوں سے شروع ہوتی ہے اور اس میں تشدد کا عنصر کم ہوتا ہے، اسی لیے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ شاید اس سے کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوتی۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اس کا سیاسی ماحول پر اثر ضرور پڑتا ہے۔ پاکستان قومی اتحاد ذوالفقارعلی بھٹو کے لیے مشکلات کھڑی کرنا چاہتا تھا اور اس میں شامل کچھ جماعتیں ملک میں مارشل لا کا نفاذ بھی چاہتی تھیں۔ پاکستان قومی اتحاد کی تحریک اور بعد میں رضاکارانہ گرفتاریوں نے انہیں ان کے مقاصد حاصل کرنے میں مدد دی۔ ایم آر ڈی کے تحریک کے دوران بھی جیل بھرو تحریک شروع کی گئی، اس سے حکومت پر اخلاقی دباﺅ پڑا جب کہ صحافیوں کی تحریک کی وجہ سے انہیں وقتی طور پر بحال کیا گیا۔1981 میں تحریک بحالی جمہوریت ایم آر ڈی کے نام سے قائم ہونے والے سیاسی جماعتوں کے اتحاد نے پاکستان میں جیل بھرو تحریک کا آغاز اگست 1983 میں سابق صدر ضیا الحق کےخلاف کیا، اس جیل بھرو تحریک میں ملک بھر سے ایم آر ڈی سے منسلک ہزاروں لوگ گرفتار کیے گئے جس میں وکیل، سیاسی کارکن اور سیاسی رہنما کے علاوہ ہر طبقہ فکر کے وہ لوگ شامل تھے جو اس جمہوری تحریک سے وابستہ تھے، تحریک کا مقصد جمہوریت کی بحالی اور مارشل لا کا خاتمہ تھا۔1986 میں ایم آر ڈی نے جنرل ضیا الحق کے خلاف دوسری بار جیل بھرو تحریک کا آغاز کیا جس میں پاکستان پیپلز پارٹی پیش پیش تھی، جنرل ضیا الحق کے مارشل لا میں کوڑے لگائے جاتے، پھانسی کی سزا اور تشدد بھی کیا جاتا تھا، ایم آر ڈی جیل بھرو تحریک کے ذریعے جنرل ضیا الحق کو اقتدار سے الگ کرنے میں ناکام رہی تاہم، ایم آر ڈی کی کامیابی یہ تھی کہ وہ ضیا الحق کی مکمل فتح اور جمہوریت کی فاش شکست کے بیچ حائل ہو گئی۔عوام کا مطالبہ تھا کہ ملک میں جلد از جلد انتخابات کروائے جائیں، اس تحریک کے دوران ملک بھر میں بڑے پیمانے پر جلسے جلوسوں کا انعقاد کیا گیا، بالآخر سولہ نومبر 1988 کو عام انتخابات منعقد ہوئے جس کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی نے حکومت بنائی اور دودسمبر 1988 کو بینظیر بھٹو ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں۔18 نومبر 2004 کو متحدہ مجلس عمل کے صدر قاضی حسین احمد کی جانب سے حکومت کو متنبہ کیا گیا کہ اگر ان کی 28 نومبر 2004 کو ہونے والی احتجاجی ریلی میں کسی قسم کی رکاوٹ ڈالی گئی تو وہ جیل بھرو تحریک کا آغاز بھی کر سکتے ہیں تاہم ان کی یہ دھمکی محض دھمکی ہی رہی۔چھے نومبر 2007 کو خیبر پختونخوا کے وکیلوں نے ملک میں صدر پرویز مشرف کی جانب سے ایمرجنسی کے خلاف بھوک ہڑتالی کیمپ لگنے کے ساتھ ساتھ جیل بھرو تحریک کا بھی اعلان کیا، وکیلوں کی جانب سے حکومت کو دی جانے والی دھمکی صرف دبا کے طور پر استعمال کی گئی اور اس پر کبھی عمل درآمد نہیں کیا گیا۔13 نومبر 2007 کو پاکستان پیپلز پارٹی ، عوامی نیشنل پارٹی ، جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں نے ایمر جنسی کے خلاف، محترمہ بینظیر بھٹو کی گھر میں نظر بندی اور ججوں کو برخاست کرنے کے خلاف احتجاج کیا تو پولیس نے مختلف جماعتوں کے سوسے زائد کارکنوں کو گرفتار کر لیا، جس پر پاکستان پیپلز پارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں نے ملک بھر میں جیل بھرو تحریک کا آغاز کر دیا تھا۔اس تحریک کے دوران عوامی پارٹی کے پانچ کارکنوں نے عدالت کے ذریعے کوٹ غلام محمد کے پولیس سٹیشن میں اپنی گرفتاری پیش کی تھی۔پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے گزشتہ سال میانوالی جلسے میں حکومت کو جیل بھرو تحریک کی دھمکی دینے کے 133 دن بعد باقاعدہ سترہ فروری 2023 کو ملک بھر میں جیل بھرو تحریک کا اعلان کیا ۔سابق وزیراعظم عمران خان نے سب سے پہلے آٹھ اکتوبر 2022 کو میانوالی میں جلسے میں حکومت کے خلاف جیل بھر تحریک کی دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ان کے کارکنوں کو ڈرانا دھمکانا بند نہ کیا گیا تو وہ جیل بھرو تحریک کا آغاز بھی کر سکتے ہیں۔ےہ پہلی جےل بھرو تحرےک ہے جس میں گرفتاری سے ڈرا جا رہا ہے اور لےڈرشپ جےل جانے کی بجائے کارکنوں کو جےل جانے کا کہہ رہی ہے‘ ےہی وجہ ہے کہ ےہ تحرےک مکمل طور پر ناکامی سے دوچار ہے اور جےل جانے والے اپنی رہائی کے لےے عدالتوں سے رجوع کر رہے ہےں۔
