رکن گلگت بلتستان اسمبلی پر قاتلانہ حملہ

رکن گلگت بلتستان اسمبلی غلام شہزاد راولپنڈی سکس روڈ پر واقع اپنی رہائش گاہ کے باہر قاتلانہ حملے میں بال بال بچ گئے۔ رکن اسمبلی گزشتہ رات جی بی ہاﺅس اسلام آباد سے واپس اپنی رہائش گاہ پہنچ کر گاڑی پارکنگ میں کھڑی کررہے تھے کہ نامعلوم افراد نے ان کی گاڑی پر فائرنگ شروع کردی جس کے نتیجے میں دو گولیاں ان کی گاڑی کے شیشے کو پار کرگئیں سیکورٹی گارڈ کی جوابی فائرنگ کے بعد ملزمان فرار ہوگئے واقعے کے بعد علاقے میں شدید خوف وہراس پھیل گیا پولیس نے فائرنگ کے واقعے کی تحقیقات شروع کردی ہے،واقعہ پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے رکن اسمبلی غلام شہزاد آغا نے کہا کہ میں خیریت سے ہوں ،فائرنگ کے نتیجے میں گاڑی کو نقصان پہنچا ہے ،انہوں نے مزید کہا کہ گلگت بلتستان کے عوام کیلئے راولپنڈی آہستہ آہستہ غیر محفوظ ہوتا جارہا ہے جو خطرناک ہے ہم نے پہلے ہی خدشہ ظاہر کیا تھا کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کیلئے راولپنڈی میں حالات بگڑرہے ہیں لیکن ہماری باتوں کو سنجیدہ نہیں لیا گیا آج سے پہلے بھی کئی افسوسناک واقعات پیش آچکے ہیں لیکن حکومت نے ان واقعات پر کوئی ایکشن نہیں لیا۔عدم تحفظ کے بڑھتے ہوئے سائے ےقےنا تشوےشناک ہےں‘ دہشت گردانہ حملے دوبارہ بڑھنے سے امن و امن سے متعلق عوامی خدشات بڑھ گئے ہےں اور خدشہ ظاہر کےا جا رہا ہے کہ مستقبل میں ایسے دہشت گردانہ حملوں میں اضافہ ہو جائے گا۔ دہشت گردی کی حالیہ لہر کے دوران خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردانہ حملے ہوئے ہیں۔حالیہ دہشت گردانہ حملوں کے بعد پاکستان کے مختلف علاقوں میں سکیورٹی میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔کئی مبصرین تو اس خوف میں بھی مبتلا ہیں کہ کہیں صورتحال ماضی جیسی نہ ہو جائے جب ٹی ٹی پی پاکستان کے مختلف علاقوں پر حملے کر رہی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ ٹی ٹی پی خود اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے اس کی فنڈنگ ختم ہو چکی ہے اس کے پاس کوئی علاقہ آپریشنل سرگرمیوں کے لیے نہیں ہے،وہ ایک گوریلا جنگ لڑ رہے ہیں جس میں ایک بندہ بھی کسی دہشت گردانہ حملے کے لیے کافی ہوتا ہے،دہشت گردی کے باعث عالمی معیشت کوکئی سو ارب ڈالرسے زیادہ کانقصان پہنچ چکاہے۔کئی صنعتیں تباہ ہوگئیں۔دولت اسلامیہ کی دہشت گردکارروائیوں کے باعث بہت سے یورپی اورعرب ممالک میں خوف ہراس میں اضافہ ہوا۔چند سال قبل داعش کے کچھ جنگجوووں نے پاکستان کے قبائلی علاقوں کابھی رخ کیا۔تاہم انہیں ناکامی ہوئی۔عراق،افغانستان،لیبیااورشام میں لڑی گئی جنگ میں آٹھ لاکھ افراد مارے گئے جبکہ تین کروڑ سے زیادہ لوگوں کواپناگھربارچھوڑ کردوسرے ممالک ہجرت کرناپڑی۔ ایک ترقی پذیرملک ہونے کے باعث معاشی دباﺅ کابھی شکارہوئے لیکن ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت گئے ۔ہم نے نہ صرف اپنے ملک کے اندرموجود مختلف دہشت گرد گروہوں کاخاتمہ کیابلکہ انہیں پاکستان کے اندرداخل ہونے سے روکنے کے بھی اقدامات کیے۔ افغانستان اورپاکستان کے درمیان ایک طویل اور مشکل ترین سرحد ہے،جو 2640 کلومیٹرہے،حکومت نے دہشتگردوں کی آمد روکنے کے لیے پاک افغان سرحد پرباڑ لگانے کافیصلہ کیا جس پرفوری طورپرکام شروع کردیاگیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق نوے فیصد کام مکمل کرلیاگیاہے،جبکہ دشوارگزار علاقوں میں چیک پوسٹیں قائم کی گئی ہیں۔دہشت گردوں کے سرغنہ جانتے تھے کہ باڑ لگانے کاکام مکمل ہوگیا توپاکستان میں کارروائیاں کرنا مشکل ہوجائیں گی۔انہوں نے باڑرکوانے کے لیے ہرحربہ استعمال کیا،سےکیورٹی فورسزکونشانہ بنایاگیا جس میں ہمارے کئی افسراورجوان شہید ہوگئے لیکن کام جاری رہا،اب یہ کام کافی حدتک مکمل ہوگیا ہے اورہماری افغان سرحد محفوظ ہے،افغان سرحد کے بعد پاک ایران بارڈرپربھی باڑلگانے کاکام جاری ہے۔اس کافائدہ ایران اورپاکستان دونوں کوہوگا۔کہا جاتا تھا حکام کی کوششوں اورقربانیوں سے آج خطے سے دہشت گرد تنظیموں کاخاتمہ ہوچکاہے۔داعش اورالقاعدہ نے دنیا بھرمیں جس طرح تباہی مچائی سب کے سامنے ہے۔پاکستان نے کم وسائل کے باوجود جذبے اورجانی ومالی قربانیاں دے کریہ جنگ جیتی ہے۔ابتدا میں عالمی سطح پروہ پذیرائی نہیں ملی جس کی قوم کوتوقع تھی۔کچھ ممالک کی جانب سے پاکستان پرڈبل گیم کاالزام بھی لگایا گیا، باربارڈومور کامطالبہ کیاگیا۔پھر پوری دنیا پاکستان کے کردار کی تعریف کرتی رہی ۔خطے اوردنیامیں قیام امن کے لیے عالمی برادری کوپاکستان کی مدد اورحمایت جاری رکھنی چاہیے تاکہ دہشت گردوں کے جوبچے کھچے گروپ رہ گئے ہیں ان کابھی صفایاکیاجاسکے۔پاکستان دہشت گردتنظیموں سے لڑنے اورانہیں شکست دینے کی مکمل صلاحیت رکھتاہے،یہ بھی ثابت ہوگیاہے کہ امریکہ اورنیٹونے دہشت گردی کے خلاف جتنے وسائل اورڈالرز ضائع کیے پاکستان نے اس کاصرف ایک فیصد خرچ کرکے دہشتگردی کاخاتمہ کردیا۔امریکی میڈیا اورامریکی حکام اس بات کااعتراف کررہے ہیں کہ وہ افغان فوج کواس قابل نہیں بناسکے کہ وہ اپنے ملک کادفاع کرسکیں،وقت آنے پرافغان فوجی ہتھیارڈال کراپنے گھروں کوچلے گئے۔افغانستان میں امریکہ اورنیٹوفورسز کوجس مشکل صورتحال کاسامناکرناپڑا وہ دنیاکے سامنے ہے۔امریکی صدرجوبائیڈن نے بھی اپنے بیان میں اس بات کوتسلیم کیاکہ وہ افغان فوج میں لڑنے کاجذبہ پیدانہیں کرسکے۔امریکہ کی تمام ترکوششوں کے باوجود القاعدہ اورداعش،افریقہ ،لیبیا،شام اورعراق میں موجود ہے۔ پاکستان کی دلیر اور باہمت آرمڈ فورسز کی وجہ سے ان دونوں دہشت گردتنظیموں کانیٹ ورک ختم کیا جا چکا ہے لےکن ےوں لگتا ہے کہ دہشت گردوں کا نےٹ ورک پھر سے فعال ہو چکا ہے حالےہ دنوں میں دہشت گردانہ واقعات اس امر کا بےن ثبوت ہےں کہ دہشت گردو کے سلےپر سےلز فعال ہو چکے ہےں جن کا قلع قمع کرنا بہت ضروری ہے۔اےک موقف ےہ ہے کہ دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی وجوہات میں اےک غربت بھی ہے اتنا عرصہ گزرجانے کے بعد بھی پاکستانی عوام غربت کے لپیٹ میں ہیں۔غربت بذات خود ایک سنگین مسئلہ ہے اور اس سے بہت سے مسائل جنم لیتے ہیں۔ہمارے ملک میںبہت سے لوگ غربت کے ہاتھوں تنگ آکر خود کشیاں کر رہے ہیں اور پیٹ کے خاطر غیر قانونی کام کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ پاکستان کی ترقی میں غربت ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔شر پسند عناصر غربت کے مارے ہوئے لوگوں کو پیسے کا لالچ دے کر دہشت گردی پر اکسا رہے ہیں۔ہمارے ملک میں اس وقت بےروزگاری عام ہے اور بڑھتی ہوئی آبادی اس بے روزگاری میں مزید اضافہ کررہی ہے ۔ بے روزگاری کی زد میں آئے ہوئے نوجوان سنگین سے سنگین جرم کا بھی ارتکاب بھی کر لیتے ہیں جس سے جرائم کی شرح میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔مناسب روزگار کی عدم دستیابی کی صورت میں لوگ ناجائز ذرائع سے پیسہ کمانے کی سکیمیں بنالیتے ہیں۔ دہشت گردی کی ایک اور وجہ تعلیم کی کمی ہے۔پاکستان آج بھی جہالت کے اندھیروں سے باہر نہیں آیا۔دہشت گردی کی ایک بڑی وجہ صوبائی تعصب اور تنگ نظری بھی ہے۔ہمارے ملک میں لوگ قومی مفاد کی بجائے صوبائی مفاد کی باتیں کرتے ہیں۔چھوٹے صوبے بڑوں صوبوں پر اپنے حقوق غصب کرنے کے الزامات لگاتے ہیں۔ بیرونی طاقتیں صوبائیت پرستی کو ہوا دے رہی ہیں تاکہ ملک میں انتشار پیدا ہو۔ اسی طرح پورے ملک میں فرقہ واریت کو ہوا دی جا رہی ہے تاکہ پوری دنیا کے سامنے پاکستان دہشت گرد ثابت ہو جائے۔انہی شر پسند عناصر نے بلوچستان کے لوگوں کے دلوں میں یہ بات نقش کر دی ہے کہ دیگر صوبے ان کا استحصال کرتے ہیں۔ہمارے ملک میں مختلف مذہبی تنظیموں نے دہشت گردی کو ہوا دے رکھی ہے۔بعض مذہبی تنظیمیں اپنی تنگ نظری کی وجہ سے آئے دن دہشت گردی اور خوف وہراس کا سبب بنتی ہیں۔کسی بھی ملک میں دہشت گردی معاشرے پر دیرپا اثرات مرتب کرتی ہے۔جس میں جانی، مالی، معاشی، اقتصادی اور تعلیمی نقصان شامل ہیں۔پچھلے کچھ عرصے سے دہشت گردی نے بین الااقوامی سطح پر ملکی سطح کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ملک وقوم کا بہت قیمتی سرمایہ دہشت گردی کی نظر ہو گیا ہے۔آج بھی وقت ہے ان مسائل پر سنجیدگی سے قانون سازی کی جائے۔پاکستان میں روز بروز بڑھتے ہوئے واقعات حکومتی اور سیکیورٹی اداروں کی کاکردگی پر سوالیہ نشان ہیں۔ پاکستان واحد ملک ہے جہاں مذہبی عسکریت پسند تنظیموں کے کئی طبقات پائے جاتے ہیں۔عسکریت پسندتنظیموں کے مابین زبردست اشتراک کارقائم ہے۔ حال ہی میں گلگت بلتستان رکن اسمبلی پر حملے کے مختلف پہلوﺅں کا جائزہ لےنے کی ضرورت ہے آےا ےہ فرقہ وارےت کا شاخسانہ ہے ےا پھر اس کی تہہ میں کچھ اور اختلافات پوشےدہ ہےں ۔ملک میں بڑی قربانےوں سے فرقہ وارےت پر قابو پاےا گےا اس لےے ےہ زہر پھر سے قوم کی رگوں میں گھولنے کی اجازت نہ دی جائے۔ اس واقعہ کے ہر پہلو کو دےکھتے ہوئے ان کی تدارک کا اہتمام از حد ضروری ہے۔