وزیر اعظم شہباز شریف نے دہشت گردی کے خلاف جامع حکمت عملی تشکیل دینے کا عزم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ہم خود اپنے گھر کے حالات ٹھیک نہیں کریں گے تو کوئی ہماری مدد کو نہیں آئے گا اور سیاسی استحکام ہر لحاظ سے مقدم ہے ۔انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ نون کی سابقہ حکومت نے اسٹیک ہولڈرز کو ایک جامع بحث کے لیے مدعو کیا تھا جس کی وجہ سے نیکٹا کا منصوبہ تشکیل پایا تھا۔وزیر اعظم نے کہا کہ پشاور میں ہونے والے سانحے پر میں نے تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز کو مدعو کیا لیکن انہوں نے مناسب نہیں سمجھا کہ اس اجلاس میں تشریف لائیں۔چند لوگ ایک کمرے میں بیٹھ کر ایسے معاملات پر بات کرنے سے انکار کرتے ہیں اور آج جب ہم ایک کمرے میں بیٹھے ہیں تو ایک حصہ سڑکوں پر جانا چاہتا ہے اور معاملات خراب کرنے کی پوری کوشش کی جارہی ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔آج پاکستان معاشی چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے اور عالمی مالیاتی فنڈ سے معاملات بھی ہفتوں میں طے پاجائیں گے جس کی کڑی شرائط منظور کرنے کے لیے ہم مجبور ہوگئے ہیں کیونکہ ریاست سب سے پہلے اور باقی چیزیں بعد میں ہیں۔شہباز شریف نے کہا کہ تمام سیاسی شراکت داروں نے اپنا سیاسی اسٹیک داﺅ پر لگایا ہے اور ریاست بچانے کے لیے خلوص سے پوری کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان کا ایک دوست ملک ہے، جس کے بارے میں ہم سب کا خیال تھا کہ وہ آئی ایم ایف سے معاہدے کا انتظار کر رہے ہیں اور پھر اپنا حصہ ڈالیں گے لیکن اس دوست ملک نے چند دن پہلے آگاہ کیا ہے کہ ہم آپ کی مدد کریں گے۔وزیراعظم نے زور دیا کہ اگر ہم خود اپنے گھر کے حالات ٹھیک نہیں کریں گے تو کوئی ہماری مدد کو نہیں آئے گا اس لیے سیاسی استحکام ہر لحاظ سے مقدم ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان کو ترقی کی راہ پر لانا ہے، معاشی ترقی دلانا ہے، غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ کرنا ہے اور پاکستان کو اپنا کھویا ہوا مقام دلانا ہے تو ہمیں اپنی تمام ذاتی پسند اور ناپسند سمیت انا کو ایک طرف کرکے اکٹھے ہوکر تمام توانائیاں استعمال کرنا ہوں گی۔کون نہےں جانتا کہ ایشیا کی تمام قومیں یہی سمجھتی رہی ہیں کہ اچھا بادشاہ ہی رعایا کی ترقی اور خوشی کا ذریعہ ہوتا ہے۔ یورپ کے لوگ جو ایشیا کے لوگوں سے زیادہ ترقی کر گئے تھے، یہ سمجھتے تھے کہ ایک عمدہ انتظام قوم کی عزت و بھلائی و خوشی اور ترقی کا ذریعہ ہے، خواہ وہ انتظام باہمی قوم کے رسم و رواج کا ہو، یا گورنمنٹ کا اور یہی سبب ہے کہ یورپ کے لوگ قانون بنانے والی مجلسوں کو بہت بڑا ذریعہ انسان کی ترقی اور خیال کرکے ان کا درجہ سب سے اعلی اور نہایت بیش بہا سمجھتے تھے، مگر حقیقت میں یہ سب خیال غلط ہیں۔ کوئی قانون گو وہ کیسا ہی ابھارنے والا کیوں نہ ہو، سست آدمی کو محنتی، فضول خرچ کو کفایت شعار، شراب خور کو تائب نہیں بنا سکتا، بلکہ یہ باتیں شخصی محنت، کفایت شعاری، نفس کشی سے حاصل ہو سکتی ہیں۔ قومی ترقی، قومی عزت، قومی اصلاح، عمدہ عادتوں، عمدہ چال چلن، عمدہ برتاﺅ کرنے سے ہوتی ہے، نہ گورنمنٹ میں بڑے بڑے حقوق اور اعلی اعلی درجے حاصل کرنے سے۔ کہا جاتا ہے الناس علی دین ملوکہم۔ اگر اس مقولے میں الناس سے چند خاص آدمی مراد لئے جائیں جو بادشاہ کے مقرب ہوتے ہیں تو یہ مقولہ صحیح ہے اور اگر یہ معنی لئے جائیں کہ رعایا اپنی گورنمنٹ کی سی ہو جاتی ہے تویہ مقولہ صحیح نہیں ہے۔ ریایا کبھی گورنمنٹ کے رنگ میں نہیں رنگی جاتی بلکہ گورنمنٹ رعایا کا سا رنگ بدلتی جاتی ہے۔ نہایت ٹھیک بات ہے کہ گورنمنٹ عموما ان لوگوں کا جن پر وہ حکومت کرتی ہے عکس ہوتی ہے۔ جو رنگ ان کا ہوتا ہے اسی کا عکس گورنمنٹ میں پایا جاتا ہے۔ جو گورنمنٹ اپنی رعایا سے تہذیب و شائستگی میں آگے بڑھی ہوئی ہے، رعایا اس کو زبردستی سے پیچھے کھینچ لاتی ہے اور جو گورنمنٹ کمتر اور تہذیب و شائستگی میں پیچھے ہوتی ہے وہ ترقی کی دوڑ میں رعایا کے ساتھ کھنچ جاتی ہے۔ جیسا قوم کا چال چلن کا ہوتا ہے یقینی اسی کے موافق اس کے قانون اور اسی کے مناسب حال گورنمنٹ ہوتی ہے۔ جس طرح کہ پانی خود اپنی جگہ بناتا ہے ، اسی طرح عمدہ رعایا پر عمدہ حکومت ہوتی ہے اور جاہل و خراب وناتربیت یافتہ رعایا پر ویسی ہی اکھڑ حکومت کرنی پڑتی ہے۔ تمام تجربوں سے ثابت ہوا ہے کہ کسی ملک کی خوبی و عمدگی اور قدر و منزلت بہ نسبت وہاں کی گورنمنٹ کے عمدہ ہونے کے زیادہ تر اس ملک کی رعایا کے چال چلن، اخلاق و عادت، تہذیب و شائستگی پر منحصر ہے کیونکہ قوم شخصی حالتوں کا مجموعہ ہے اور ایک قوم کی تہذیب در حقیقت ان مرد و عورت و بچوں کی شخصی ترقی ہے، جن سے وہ قوم بنی ہے۔ اگر ہم چاہیں کہ بیرونی کوشش سے ان برائیوں کو جڑ سے اکھاڑ ڈالیں اور نیست و نابود کردیں تو یہ برائیاں کسی اور نئی صورت میں اس سے بھی زیادہ زور شور سے پیدا ہو جائیں گی۔ جب تک شخصی زندگی اور شخصی چال چلن کی حالتوں کو ترقی نہ کی جائے۔ وہ قومیں جو دل سے غلام ہیں وہ بیرونی زور سے، یعنی عمدہ گورنمنٹ یا عمدہ قومی انتظام سے آزاد نہیں ہو سکتیں جب تک کہ غلامی کی یہ دلی حالت دور نہ ہو۔ اصل یہ ہے کہ جب تک انسانوں میں یہ خیال ہے کہ ہماری اصلاح و ترقی گورنمنٹ پر یا قوم کے عمدہ انتظام پر منحصر ہے اس وقت تک کوئی مستقل اور برتاﺅ میں آنے کے قابل نتیجہ اصلاح و ترقی کا قوم میں پیدا نہیں ہو سکتا۔ گو کیسی ہی عمدہ تبدیلیاں گورنمنٹ یاانتظام میں کی جائیں۔مستقل اور مضبوط آزادی، سچی عزت، اصلی ترقی، شخصی چال چلن کے عمدہ ہونے پر منحصر ہے اور وہی شخصی چال چلن معاشرت و تمدن کا محافظ اور وہی شخصی چال چلن قومی ترقی کا بڑا ضامن ہے۔انسان کی قومی ترقی کی نسبت ہم لوگوں کے یہ خیال ہیں کہ کوئی خضر ملے، گورنمنٹ فیاض ہو اور ہمارے سب کام کر دے۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ ہر چیز ہمارے لیے کی جائے اور ہم خود نہ کریں۔کیا ہمیں نظر نہیں آتا کہ قریب انتیس برس قبل سو ویت یونین کے ٹوٹنے، کمیونزم کے خاتمے اور دنیا کے دو قطبی سے یک قطبی ہو جانے کے بعد سب نے مل کر ایک کے خلاف ایکا کر لیا ہے۔آج پوری دنیا اسلام دشمنی اور اسلامو فو بیا کی شکار ہے۔ اہل ایمان کے دائمی دشمنوں نے دو کام کیے ہیں۔بوسنیا اور چیچنیا میں کس کا قتل عام اور کس کی نسلی صفائی کا کام ہوا ؟ فلسطین، عراق، افغانستان، پاکستان، سیریا اور یمن، الجیریا ونائجیریا وغیرہ میں کس کا قتل عام اور نسلی صفائی کی ابلیسی کوششیں جاری ہیں ؟بات در اصل یہ ہے اور یہی تمام دشمنان اسلام کے اسلامو فوبیا اور اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے انجام دی جانے والی دہشتگردیوں کا اصل سبب ہے کہ اسلام ہی فقط ایسا نظام ہے جو دنیا میں معیاری سماجی انصاف قائم کر سکتا ہے۔ حریت، رنگ و نسل ذات پات، قبیلے اور قومیت کے بے جا امتیازات سے آزادی، سماجی، معاشی، علمی اور سیاسی ہر طرح کا انصاف، انسانی اخوت، عالمی برادری اور مساوات یہ سب بذات خود اسلام کی بنیادی خصوصیات ہیں۔اسلام میں بلندی و پستی اور عزت و ذلت کا معیار رنگ، نسل، قوم، قبیلہ، ناک، پیشانی اور آنکھوں کی بناوٹ نہیں صرف اور صرف تقوی ہے ۔یہ دنیا عالم اسباب ہے۔ یہاں جو بوئیں گے وہی کاٹنا پڑے گا۔ یہاں ایمان اور عمل صالح دونوں ساتھ ساتھ ضروری ہیں۔ صرف کوئی ایک، تنہا، نجاتِ اخروی اور حصول ِجنت کے لیے کافی نہیں۔ کم از کم قرآن سے تو یہی ثابت ہے کہ جس میں حذف و اضافہ ا ور تحریف ممکن نہیں۔ٹھیک ہے کہ ہم پور ا معاشرہ، پورا ملک اور پوری دنیا تو کیا صرف اپنے تمام زیر دستوں اور صرف اپنے گھر والوں کو بھی نہیں بدل سکتے لیکن، ہم خود اپنے آپ کو ضرور بدل سکتے ہیں کہ اپنا نفس اور اپنا جسم خود ہمارے اختیار میں ہے۔ ہم وہ کام ابھی اور اسی وقت شروع کردیں جو ہمارے بس میں اور ہمارے اختیار میں ہے۔ اس لیے کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا یقینا اللہ کسی قوم کے حالات کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنے آپ کو نہ بدلیں۔جب لوگوں پر ظلم و زیادتی عام ہو جائے، جب لوگ خدمت خلق اور نیکی کرنے کی عادت چھوڑ دیں اور جب لوگ شکر نعمت کرنے کے بجائے کفران نعمت کرنے لگیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ نہ صرف وہ نعمتیں چھین لی جائیں گی بلکہ عذاب بھی ضرور نازل ہوگا۔وہ عمل جس سے دنیا کی معزز قوموں نے عزت پائی ہے وہ اپنی مدد آپ کرنا ہے۔ جس وقت لوگ اس کو اچھی طرح سمجھیں گے اور کام میں لائیں گے تو کامےاب ہو جائےں گے۔
