کفایت شعاری کا سبق

 وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ایک قوم کی حیثیت سے ہمیں کفایت شعاری کا مظاہرہ کرنا ہے کیونکہ مشکل وقت میں قوم امتحان سے گزر رہی ہے۔کابینہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ حکومت کفایت شعاری کو اولین ترجیح دے رہی ہے کیونکہ وقت ہم سے پکار پکار کر کفایت شعاری، سادگی اور قربانی کا مطالبہ کر رہا ہے۔ وزیر، مشیر اور بیوروکریٹ سمیت سب کو کفایت شعاری مہم اپنانی ہوگی، ہماری حکومت نے اپنا فرض ادا کرنے کے لیے پوری کوشش کی ہے۔شہباز شریف نے کہا کہ ملک کی بہتری کے لیے ہمیں عملی مظاہرہ کرنا ہوگا اور مخیر حضرات ملکی بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ ہمیں آج بطور قوم وہ مظاہرہ کرنا ہے جس کا وقت ہم سے تقاضا کر رہا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ مخلوط حکومت آسان بات نہیں ہے لیکن اتحادی حکومت ملک کو اپنی سمت میں دوبارہ لانے کی کوشش کر رہی ہے اور ماضی میں جھانکنے کے بجائے ہمیں آج آگے بڑھنے کے عزم کا اعادہ کرنا ہوگا۔کفاےت شعاری کا درس صرف عوام کے لےے نہےں ہونا چاہےے بلکہ حکام بالا اپنی ساری مراعات ختم کرےں۔ ملک کے وزیراعظم سے لے میونسپلٹی کونسلر تک اور سرکاری افسر سے لے کر چپڑاسی تک یہی چاہتے ہیں کہ انہیں زیادہ سے زیادہ تنخواہ اور مراعات ملیں ۔برآمد کرنے کے لیے ہمارے پاس محض پر تعیش شاہانہ انداز کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ عوام کی اکثریت اس طرز حکمرانی اور اجارہ داری سے بے زار ہو چکی ہے۔پاکستان کی پاور پالیٹکس کے کھیل میں اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ، بیوروکریسی اور سیاستدان ہی حکومت کرتے آئے ہیں۔ مقتدرخاندان میں سے کچھ لوگ طاقتور ریاستی اداروں میں چلے جاتے ہیں تو کچھ قانون دان بن جاتے ہیں ، کچھ زرعی زمینیں، کارخانے اور کاروبار سنبھالتے ہیں اور ساتھ میں مختلف سیاسی جماعتوں کا حصہ بن کر سینیٹر، ایم این اے اور ایم پی اے بن جاتے اور ان سے ہی وزیراعظم، وزیراعلی، گورنر، وزرا اور مختلف ٹاسک فورسز کے سربراہ اور ارکان بن جاتے ہیں۔یوں مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ پر مشتمل حکومتی ڈھانچہ مکمل ہو جاتا ہے، وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ ہمیں ہر قسم کا خسارہ ورثے میں ملا۔ اس لیے ہمیں یہ مشکل فیصلے کرنے پڑ رہے ہیں۔حکومت کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ اور تجارتی خسارہ کم نہیں کر سکی ، ڈالرز کی قیمت میں اضافہ کی وجہ سے پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے جس کی وجہ سے مہنگائی کے عفریت نے غریب عوام سے جینے کا حق بھی چھین لیا ہے۔مہنگائی کی وجہ سے عام آدمی اشیائے خورونوش خریدنے میں دقت پیش آتی ہے جس کی وجہ سے نوجوان چوری، ڈاکہ، منشیات فروشی اور دہشت گردی جیسے جرائم میں ملوث ہو رہے ہیں۔ مہنگائی کی وجہ سے مشینری کی عدم دستیابی سے پیداواری صلاحیت متاثر ہو رہی ہے۔امپورٹرز کو نقصانات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے بیرونی سرمایہ کار جب اپنی کرنسی پاکستانی روپیہ میں تبدیل کراتے ہیں تو ان کے نفع کی شرح کم ہو رہی ہے۔وزیراعظم اور وزرا کے سفر کے لیے ان کو فراہم کیے جانے والے گاڑیوں کے ایندھن پیٹرول اور ڈیزل کی کوئی مقدار مختص نہیں ہے اور وہ لامحدود پیٹرول استعمال کر سکتے ہیں۔اسی طرح اراکین اسمبلی کو سرکاری مصروفیات کے لیے آمد و رفت کے تمام اخراجات حکومت کی طرف سے فراہم کیے جاتے ہیں، جب کہ سول بیوروکریسی کے سینیئر افسران کو ایک مونیٹائزیشن پالیسی کے تحت گاڑی کے ماہانہ اخراجات اور ایندھن کی مد میں ادائیگی کی جاتی ہے جو کہ ان کے عہدے کے لحاظ سے ہوتی ہے۔حکومت وزرا اور دیگر اعلی عہدیداران کے ایندھن کے خرچ پر نظر ثانی کر کے ایک مناسب مقدار میں بچت کر سکتی ہے ، اگر سرکاری افسران کو گھر سے دفتر تک پک اینڈ ڈراپ کی سہولت تک محدود کر دیا جائے۔بجلی، گیس اور ٹیلی فون بلز کی مدد میں ایک مخصوص رقم بطور الاﺅنس مقرر کردی تاکہ اعلی افسران اپنے یوٹیلٹی بلز اپنی جیب سے ادا کریں، تو بھی خاصی بچت کی جاسکتی ہے۔ وزیراعظم اور وزرا کے ساتھ جانے والے بڑے بڑے کاروان بھی محدود کیے جا سکتے ہیں ، وہ درجنوں گاڑیوں کی جگہ ایک یا دوگاڑیاں اپنے ساتھ رکھ سکتے ہیں۔وی آئی پیز اور وی وی آئی پیز کے لیے خصوصی پروٹول ختم کردیا جائے، ان کی سیکیورٹی کے لیے اسمارٹ بندوست کیا جائے، درجنوں پولیس اہلکاروں اور بیسیوں گاڑیوں کے قافلے کی جگہ جدید حفاظتی میکنزم اختیار کیا جائے جس میں گاڑیوں اور پولیس نفری کی تعداد کم ہو۔سیکیورٹی اہلکاروں کو وی آئی پیز اور وی وی آئی پیز کی بلٹ پروف گاڑی میں سفر کرنا چاہیے کیونکہ ان کا بنیادی مقصد ان کے قریب رہ کر حفاظت کرنا ہوتا ہے، اگر سیکیورٹی اور پروٹوکول کے قافلے ہی کم کر دیے جائیں تو پیٹرول کے سرکاری خرچ کا ایک بڑا حصہ بچ جائے گا اور پولیس اہلکار اپنی اصل ڈیوٹی پر آجائیں گے جس سے جرائم میں بھی کمی ہوگی۔عالمی منڈی میں پاکستانی روپیہ کی قدر میں کمی باعث تشویش ہے۔ پاکستانی روپیہ کی تیزی سے گرتی ہوئی قدر اس وقت ملک کو درپیش سب سے سنگین مسئلہ ہے ، جس کی وجہ سے معیشت پیچیدہ اور سنگین مسائل کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔کوئی بھی ملک یہ نہیں چاہتا کہ عالمی منڈی میں اس کی کرنسی کی قیمت میں کمی ہو کیونکہ اس کی وجہ سے اس کی معیشت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ مہنگائی کا طوفان ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے جس کی وجہ سے غریب لوگوں کا جینا حرام ہو جاتا ہے۔ہر ملک اپنی کرنسی کو بقیہ ممالک سے اوپر دیکھنا چاہتا ہے لیکن اس ضمن میں عالمی معیشت کے نزدیک کرنسی محض کاغذ کے ٹکڑوں کے سوا کچھ نہیں اصل پس پردہ محرک قوت خرید ہے۔ماضی میں پاکستان کے معاشی منصوبے دنیا کے کئی ممالک اپناتے تھے ، ابتدائی بجٹوں نے بہترین نتائج پیش کیے۔ سیاسی قیادت مثالی اور دیانت دار تھی لیکن آج پاکستانی معیشت کی تنزلی بیرونی قرضوں میں اضافہ کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ گزشتہ چند برسوں سے کچھ فوڈ پروڈکٹس اور موبائل فونز کے علاوہ پاکستانی صنعتکاری فروغ نہیں پا سکی۔بیرونی ممالک سے امپورٹڈ اشیا پر وسیع زر مبادلہ خرچ کیا جا رہا ہے ، حکومت خود کرنسی کی قدر کم کرتی ہے تاکہ ایکسپورٹس بڑھائی جا سکیں۔جب حکومت ادائیگیوں کا توازن بہتر کرنے کے لیے اوپن مارکیٹ سے ڈالر خریدتی ہے تو ڈالر مزید مہنگا ہو جاتا ہے۔ مارکیٹ قوتوں کے اثرات اور حکومتی کنٹرول میں ناکامی کی وجہ سے ہر حکومت آئی ایم ایف جیسے اداروں سے بیل آوٹ پیکیج لینے کے لیے کڑی شرائط مانتی ہے۔حکمرانی کا روایتی اور فرسودہ نظام تبدیل کرکے انداز حکمرانی شاہانہ کے بجائے سادہ ، اسمارٹ اور سیکیورٹی اورینٹیڈ ہونا چاہیے۔ ملک بھر میں سادگی کے فروغ کے لیے قومی سطح پر مہم چلائیں، تمام وزرا ، مشیروں اور بیوروکریسی کو سادگی کے لیے عملی نمونہ بن کر خود کو عوام کے سامنے پیش کریں۔بڑی بڑی گاڑیوں کا استعمال ، کئی کئی ایکڑ اور کئی کئی کنال پر سرکاری رہائشیں نوآبادیاتی حکمرانوں کا طرز زندگی ہوتاہے، عوامی جمہوریہ کے حکمرانوں کا نہیں۔ کئی کئی ایکڑ اور کئی کئی کنال پر بنی سرکاری عمارات کو منافع بخش کاموں کے لیے استعمال میں لایا جائے۔موجودہ اتحادی حکومت کی معاشی ٹیم کو مضبوط منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جس سے مہنگائی اور بے روزگاری کنٹرول کرکے ڈالر کی قیمتوں کو بڑھنے سے روکا جاسکے۔ کرپشن اور منی لانڈرنگ کے ذریعہ ملک سے باہر لے جائی جانے والی کھربوں روپے کی رقم کو واپس لایاجائے ، حکمرانوں ، وزرا اور بیوروکریسی کے شاہانہ اخراجات ختم کیے جائیں اور پاکستانی روپے کی قدر کو بڑھانے کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں، بیرون ملک سے منگوائی جانے والی تعیشات پر مبنی مصنوعات پر پابندی عائد کی جائے۔ پاکستان کو تباہی کے دھانے تک پہنچانے میں سیاسی جماعتوں ، اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی، سب کا مشترکہ ہاتھ ہے۔پاکستان کے چوٹی کے ماہرین معیشت نے کہا ہے کہ ملکی تاریخ کے سنگین ترین اقتصادی بحران کی ذمہ داری کسی ایک سیاسی جماعت پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ ملک کو تباہی کے دھانے تک پہنچانے میں سیاسی جماعتوں ، اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی سمیت سب کا ہاتھ ہے۔ ملک کے معاشی بحران کا سب سے زیادہ ذمہ دار طبقہ طاقتور اشرافیہ کا ہے جس نے غلط پالیسیاں بنا کر، کرپشن کرکے، ناجائز مراعات حاصل کرکے اورقرضے معاف کروا کر ملک کو بحران سے دوچار کیا اور پھر آئی ایم ایف کا بہانہ کرکے مشکل فیصلوں کا سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا ہے۔ یہ طبقہ ہر جگہ موجود ہے اسے بعض سیاست دانوں کا تعاون بھی حاصل ہے، انہیں اداروں سے بھی ریلیف مل جاتا ہے اس لیے آج بھی بجٹ خسارہ درست کرنے کے لیے شاہانہ حکومتی اخراجات کم کرنے، کابینہ کا سائز چھوٹا کرنے اور کرپشن کے خاتمے کے لیے موثر اقدامات کرنے کی بجائے سارا بوجھ غریب عوام پر ڈال دیا گیا ہے۔اشرافیہ کا یہ مافیا ٹیکس ایمنسٹی کے نام پر ٹیکس چوری کی بھی حوصلہ افزائی کرتا ہے،ملکی اشرافیہ چار ہزار ارب کی مراعات لیے ہوئے ہے وہ اگر دو ہزار ارب کی مراعات چھوڑ بھی دے تو اس سے بھی عام آدمی کو ریلیف مل سکتا ہے۔ پاکستان کی بہترین بائیس فی صد زرعی زمین اس وقت ایک فی صد اشرافیہ کے پاس ہے جو کہ اس سے نو سو پچاس ارب روپے سالانہ کما کر صرف تین ارب روپے کا ٹیکس ادا کرتی ہے۔ دوسری طرف گھی ، چائے اور ڈرنکس سمیت کھانے پینے کی چیزوں پر ٹیکس لگا کر غریب لوگوں سے چار سو پچاس ارب روپے لے لیے جاتے ہیں۔ ملک کا موجودہ اقتصادی بحران ملکی تاریخ کا سب سے بڑا پریشان کن اور مشکل بحران ہے۔ جسے اشرافےہ کی مراعات کے خاتمے سے ہی حل کےا جا سکتا