اپنی دنیا آپ پیدا کر



چیف سیکرٹری گلگت بلتستان محی الدین احمد وانی نے قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے دورہ پرکہا طلبا اپنے اندر اعتماد پیدا کریںاور کچھ کرنے کا عزم اور اپنے خوابوں کو بڑا رکھیں۔ انہوںنے کہاکہ طلبا سرکاری نوکریوں کی طرف نہ جائیں بلکہ دوسروں کو نوکری دینے والے بنیںاور خود روزگاری کے موقع پیدا کریں۔چیف سیکرٹری گلگت بلتستان نے کہاکہ ٹیم ورک کے ساتھ کام کیاجائے تو سب کچھ ممکن ہے ۔اسی ٹیم ورک کی بنیاد پر حکومت گلگت بلتستان نے دس ماہ کے مختصر عرصے میں گلگت بلتستان کے تمام سکولوں کو ٹیک بیس بنایا اور ہائیر سکینڈری سکولوں کوسمارٹ سکولوں میں تبدیل کیا۔چیف سیکرٹری نے کہاکہ پورے پاکستان میں گلگت بلتستان وہ واحد خطہ ہے جہاں پر تعلیم پر سب سے زیادہ اخراجات کئے گئے ہیں۔اس موقع پرقراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر عطااللہ شاہ نے افتتاحی کلمات پیش کرتے ہوئے چیف سیکرٹری گلگت بلتستان کی جانب سے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے سمیت گلگت بلتستان میں تعلیم کے فروغ اور دیگر شعبہ جات کی ترقی کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کی تعریف کرتے ہوئے کہاکہ قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی موجودہ دور کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے ٹیکنالوجی بیس تعلیم وتحقیق پر کام کررہی ہے ۔اس حوالے سے بہت جلد ٹیکنالوجی فوکس سمسٹر پروگرام متعارف کرارہے ہیں۔ ہمیں جدید دور کے مطابق ٹیکنالوجی کی تبدیلیوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور ان تبدیلیوں کے مطابق اپنے آپ کو تیار کرنا ہوگا۔تاکہ دنیاکے دیگر ممالک کے ساتھ آگے بڑھ سکیں۔چیف سیکرٹری کی جانب سے طلباء کو نوکریوں کی تلاش  کی بجائے نوکریاں فراہم کرنے والے بننے کی جو نصیحت کی گئی ہے وہ بجا ہے۔ہمارے ہاں ہر سال لاکھوں کی تعداد میں بچے  ڈگریاں لے کر آنکھوں میں پرتعیش نوکریوں کے خواب سجائے یونیورسٹیوں سے نکل رہے ہیں مگر جب مارکیٹ میں آ کر حالات دیکھتے ہیں تو ان میں سے بعض لوگ دلبرداشتہ ہو کر خودکشی تک کر لیتے ہیں یا فارغ رہ کر فضول سوچوں میں نشہ کی لت میں پڑ کر اپنی اور اپنے خاندان کی زندگی برباد کر لیتے ہیں،پاکستان میں اتنی نوکریاں کہاں ہیں، کسی ریفرنس کے بغیر کوئی نوکری ملنا دیوانے کا خواب ہے۔ اگر بالفرض نوکری ملے گی بھی تو چند ہزار روپے میں خجل خوار ہونا انکا مقدر ہے۔ پرائیویٹ نوکری میں تو آپکا سیٹھ جب چاہے آپکو نوکری سے نکال دے اور آپ پھر سڑکوں پر دھکے کھا رہے ہوں گے، جو بچے ڈگریاں کر رہے ہیں وہ یہ بات اپنے دماغ میں بٹھا لیں کہ انھیں مستقبل میں نوکری ملنے کا امکان صرف پانچ فیصد یا اس سے بھی کم ہے۔طلباء کو آگاہی دی جائے کہ نوکری کے بجائے اپنا چھوٹا سا کاروبار شروع کیجئے جو چار پانچ سال میں اچھی خاصی ترقی کر جائے گا کہ نوکری ڈھونڈنے کے بجائے چند سال میں بہت سے لوگوں کو روزگار آپ خود دے رہے ہوں گے۔اگر ایک پڑھا لکھا لڑکا یا لڑکی بہت چھوٹے پیمانے پر بھی اپنا ذاتی کاروبار شروع کرتا ہے تو وہ ان پڑھ کی نسبت کہیں زیادہ تیزی سے ترقی کرتا ہے۔نوکری اور کاروبار کرنے والوں کے اندر یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ وہ اپنا کام چھوڑ کر دوسرے میدان میں قسمت آزمائی کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ نوکری کرنے والوں کا رجحان کاروبار کرنے کی طرف زیادہ ہوتا ہے، بنسبت اس کے کہ کاروبار کرنے والے نوکری کی طرف متوجہ ہوں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟کاروبار اور نوکری پیشہ افراد اپنی اپنی فیلڈ کا انتخاب اپنے طبعی رجحان یا مائنڈسیٹ کی وجہ سے کرتے ہیں۔ جس فرد کا کاروباری مزاج ہے ہی نہیں، اسے آپ لاکھوں روپے لگا کر کوئی بزنس کھول کر دیں اس سے نہیں چلے گا۔ اور یہ چیز انسان کی فطرت میں ہوتی ہے۔ والدین کو بخوبی علم ہوتا ہے کہ اس کا کون سا بچہ کاروباری ذہن کا ہے اور کون سا پڑھنے پڑھانے اور کھیل کود میں دلچسپی رکھنے والا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کاروباری ذہن والا بندہ کسی جگہ نوکری میں پھنس جاتا ہے تو وہ زیادہ عرصہ نہیں چل سکتا اور جلد یا بدیر فارغ ہو جاتا ہے۔انسان کی فطرت ہے کہ جو چیز اس کو حاصل ہوجائے رفتہ رفتہ نگاہوں میں اس کی قدروقیمت کم ہوتی جاتی ہے۔ ہم آئے دن اس کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں، نئی گاڑی، نئے جوتے، نئے کپڑے، نیا گھر، نیا شہر غرض یہ کہ ہر نئی چیز میں اللہ نے فطری طور پر انسان کے لیے کشش رکھی ہے۔ہر نئی چیز میں لطف ہے۔ نوکری کا بھی یہی معاملہ ہے کہ بے تحاشہ پاپڑ بیلنے کے بعد جب آدمی کو جاب مل جاتی ہے تو پہلی پہلی تنخواہ کا لطف ہی کچھ اور ہوتا ہے، اس کے بعد یہ لطف کم ہونا شروع ہوجاتا ہے اور وہ رقم جو تنخواہ کے عنوان سے ہر ماہ اسے باقاعدگی سے ملتی رہتی ہے، حقیر لگنے لگتی ہے۔ کیوں کہ بندے نے اپنا معیار زندگی بھی تنخواہ کے حساب سے بڑھا لیا ہوتا ہے۔آدمی کے پاس جب کچھ رقم جمع ہوجاتی ہے یا کہیں سے دستیاب ہوجاتی ہے تو وہ اسے نوکری سے بے نیاز بنا دیتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ خالی جیب اور زیرو بینک بیلنس والے انسان کا رویہ ایک طرح کا ہوتا ہے اور بھرے پیٹ انسان کا رویہ دوسری طرح کا۔ جو لوگ اپنی کمپنی اور مالک سے بے نیاز ہوجائیں وہ ہر وقت مالک یا باس سے ٹکرا جانے کے کے موڈ میں نظر آتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ من کے اندر کی یہ مستی خواہ مخواہ ہی پیدا نہیں ہوجاتی۔ یہ سب دولت کا اور بینک بیلنس کا کمال ہوتا ہے۔ ایک ضرورتمند اور مجبور انسان کبھی بھی اس رویے کا مظاہرہ نہیں کرسکتا۔ ایسا آدمی نوکری چھوڑنے کے بہانے ڈھونڈ رہا ہوتا ہے تاکہ اس کے دماغ میں جمع شدہ پونجی نے جو خمار بھر دیا ہے اس سے لطف اندوز ہوسکے۔ جو لوگ نوکری یا کاروبارکرتے چلے آئے ہیں ان کی سوچ، مزاج، میلانات اور ذہنیت میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ نوکری پیشہ افراد ایک روٹین کے اسیر بن جاتے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ وہ ان کی زندگی کا ایک جزو بن جاتی ہے۔ جبکہ کاروباری حضرات اکثر کسی روٹین کے پابند نہیں رہتے۔ نوکری پیشہ افراد مقررہ اوقات ہی میں دل جمعی سے کام کرنے کے عادی ہوتے ہیں جبکہ کاروباری لوگوں کی دنیا ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ وہ صرف اتنا ہی کام نہیں کرتے ہیں جتنا آپ کونظر آرہا ہوتا ہے بلکہ ان کا اصل کام پردے کے پیچھے ہوتا ہے جس پر کہ کاروبار چل رہا ہوتا ہے۔ کاروباری حضرات پابندیوں اور معمولات کو پائوں کی زنجیر سمجھتے ہیں جبکہ نوکری پیشہ افراد کو یہی چیز لطف دیتی ہے۔ غرض یہ کہ کاروباری اور نوکری پیشہ ، دونوں حضرات کی ایک الگ ذہنیت ہوتی ہے۔ آدمی کو ہر وقت ترقی اور بہتری کے لیے نہ صرف سوچتے رہنا چاہیے بلکہ اس کے لیے منصوبہ بندی اور عملی جدوجہد بھی کرتے رہنا چاہیے۔ لیکن یہ بات ذہن میں رہے کہ اس کے لیے کوئی ایسا لگابندھا فارمولا نہیں ہے کہ تمام انسانوں کے اوپر یکساں لاگو ہو۔ یہ منحصر ہے آدمی کی عمر، صحت، موجودہ نوکری کی نوعیت اور دستیاب وسائل اور حالات و موجودہ زمینی حقائق پر۔ آدمی کب تک جاب کرے، جاب کرے بھی کہ نہ کرے، کب چھوڑ کر کاروبار شروع کرے، کاروبار کے لیے کن چیزوں کا ہونا لازمی ہے۔ منصوبہ بندی کیسے ہوتی ہے اور کی گئی منصوبہ بندی کے خاکہ میں کس طرح رنگ بھرے جاتے ہیں'ان نکات پر غور کرے۔ جن لوگوں کو اللہ نے حلال اور مناسب ذریعہ معاش دیا ہوا ہے وہ محض اس وجہ سے نوکری کو لات نہ ماریں کہ کچھ رقم جمع ہوگئی ہے جس سے کاروبار شروع کیا جاسکتا ہے۔کاروبار کے لیے سرمایہ ضرور ایک لازمی اور اہم عنصر ہے لیکن صرف سرمایہ ہی کافی نہیں بلکہ کچھ دیگر لوازمات اور اسباب کا ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ سرمایہ۔ آج کل کے صنعتی ترقی اور کارپوریٹ دور میں نوکری بھی اب پہلے جیسے چیز نہیں رہی۔ پہلے نوکری اور غلامی میں زیادہ فرق نہیں تھا۔ آجکل، اعلی تعلیم یافتہ، ماہر اور تجربہ کار افرادکو بڑی بڑی کمپنیاں اتنے بڑے اور دلکش پیکج دیتی ہیں کہ گویا کہ وہ وہاں ملازم نہیں بلکہ حصہ دار ہیں۔دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ لگی بندھی روزی کو قبل اس کے کہ کوئی دوسرا ذریعہ آمدن مہیا ہوجائے، چھوڑنا دانشمندی نہیں۔ کاروبار کے لیے سب سے اولین شرط طبعیت کا میلان، رجحان یا ارادہ ہے۔دوسری چیز سرمایہ ہے، تیسری چیز پراڈکٹ ہے جس کی بنیاد پر کاروبار ہونا ہے ۔ وقت کی قربانی بھی دینی ہوگی اور وقت کی منصوبہ بندی بھی کرنی ہوگی۔ ۔ پیسہ کا صحیح استعمال جانتا ہو، آمدن اور اخراجات کو متوازن رکھ سکتا ہو۔ نقصان برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو۔ بیک وقت کئی کام کرنے کی صلاحیت اور طاقت رکھتا ہو۔یوں  انسان اپنا باس خود ہوگا اس لیے وہ اپنے بل بوتے پر کام کرسکتا ہو، منصوبہ سازی کر سکتا ہو، کاموں کو منضبط انداز میں سرانجام دے سکتا ہو۔۔ اپنی خوبیوں اور صلاحیتیوں، کمزوریوں اور خامیوں کا علم و ادراک رکھتا ہو۔ طلباو کو چاہیے کہ کاروبار کے لیے ابھی سے خاکہ بنائیں اور پھر اس میں رنگ بھرنا شروع کریں۔ یہ عمر ہوتی ہے جس میں پہنچ کر انسان دنیا کو دیکھ بھال چکا ہوتا ہے، گرم سرد ، اچھے برے اور دوست دشمن کا تجربہ رکھتا ہے۔ یہ بات یاد رکھیں کہ کوئی بھی کاروبار اول روز ہی سے منافع دینا شروع نہیں کردیتا اس لیے صبر اور حوصلے سے کام لیں۔