لینڈ ریفارمز کا متفقہ‘موزوں اور قابل عمل ڈرافٹ

وزیر اعلی گلگت بلتستان خالد خورشید نے لینڈ ریفارمز کے حوالے سے منعقدہ کمشنرز ،ڈپٹی کمشنرز ، ایس ایم بی آراور فیلڈ سٹاف کی دو روزہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ گلگت بلتستان کا سب سے بڑا اور دیرینہ حل طلب مسئلہ لینڈ ریفارمز کا ہے۔ گلگت بلتستان میں چند اضلاع سٹیلڈ ہیں جبکہ کچھ اضلاع نان سٹیلڈ ہیں، لینڈریفارمز کمیٹی کو ہدایت کی گئی ہے کہ ایک ایسا ڈرافٹ لینڈ ریفارمز ایکٹ تیار کریں جو تمام اضلاع کےلئے موزوں اور قابل عمل ہو۔ ہمارا سب سے بڑا ریسورس ہماری زمینیں ہیں۔ کوئی بھی معاشرہ ریسورس مینجمنٹ کے بغیر ترقی نہیں کرسکتا۔ لہذا ڈرافٹ لینڈر یفارمز میں ریسورس مینجمنٹ پر خصوصی توجہ دی جائے۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان خالد خورشید نے کہا کہ زراعت اور فوڈ سیکےورٹی لینڈ ریفارمز ایکٹ میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ جامع ویژن اور ڈائریکشنز کی موجودگی میں قانونی طریقہ کار کے مطابق اور مساوی طریقے سے زمینوں کا اختیار عوام کو دیاجائے کہ گلگت بلتستان سے غربت کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ حکومت کا ویژن عوام کو بااختیار بنانا اور قانونی طریقہ کار کے تحت زمینوں کی ملکیت عوام کو دینا ہے جس کو عملی جامہ پہنانا آپ کی ذمہ داری ہے۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان خالد خورشید نے کہاکہ گلگت بلتستان پہلا صوبہ ہے جو جی آئی ایس کی بنیاد پر لینڈ سےٹلمنٹ کرنے جارہاہے۔ ہماری حکومت کی پہلی ترجیح لینڈ ریفارمز کی ہے۔صوبائی حکومت نے گلگت بلتستان میں زمینی اصلاحات کے دیرینہ اورپیچیدہ مسئلے کے حل کے لئے اقدامات مزید تیز کر دئیے ہیں اس ضمن میں زمینی اصلاحات سے متعلق تمام جامع قانون سازی اور عمل درآمد کے لیے گلگت بلتستان کے تمام اضلاع کے کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرکی دوروزہ کانفرنس وزیراعلی سیکرٹریٹ میں شروع ہو ئی ۔لےنڈ رےفارمز انتہائی اہمےت کا حامل قدم ہے ‘آزادی کے بعد بھارت اس اقدام میں کامےاب ہو گےا جبکہ ہم ہنوز اےسے نہ کر سکے۔یہ بات حقیقت ہے کہ بڑے جاگیر داروں کے زیر قبضہ رقبوں میں پچھلے ان چالیس سالوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ ایسی صورتحال میں چھوٹے زمینداروں کی زندگی کسی عذاب سے کم نہیں ہوتی۔ وہ اپنی زمین کی کاشت کے لیے بنیادی سامان اور مشین استعمال کرنے کی بھی سکت نہیں رکھتے۔ انہیں قرض کی سہولت تک بھی بہت محدود رسائی حاصل ہوتی ہے اور وہ اپنی شدید غربت کے ہاتھوں سماجی زندگی میں آگے بڑھنے یا تعلیمی سہولیات سے مستفید ہونے سے قاصر رہتے ہیں۔ ان تمام مسائل کا حل سنجیدگی اور اخلاص کے ساتھ لینڈ ریفارمز کرنے میں ہے۔ کچھ ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ ان اصلاحات کا دور اب گزر چکا ہے اور دنیا روایتی کاشتکاری سے کارپوریٹ کاشتکاری کی جانب رخ کر چکی ہے۔ لینڈ ریفارمز میں جاگیردار اور کاشتکار کے بیچ پیداوار کی منصفانہ تقسیم اور زمین کے مالکان اور کمرشل ٹھیکیدارو ںمیں قانونی معاہدے شامل ہیں۔ ان اصلاحات میں زمین کی زرخیزی کو نقصان نہ پہنچنے دینے کی ضمانت اور کسانوں حکومت کی جانب سے کم از کم وضع کردہ تنخواوں کی ادائیگی یقینی بنانا شامل ہے۔ ان اصلاحات میں جو حکومتی ذمہ داریاں شامل ہوتی ہیں، ان میں تمام کسانوں کی آسان قرضوںکی سہولت تک رسائی اوران کی مدت واپسی میں نرمی شامل ہیں۔ مثراور اجتماعی سطح پر اصلاحات کے بغیر شاید ہم زرعی ترقی تو کر لیں مگر ہمارا غریب کسان اسی طرح کسمپرسی میں جلتا رہے گا جیسے وہ ہمیشہ سے جلتا آیا ہے۔البتہ اگر ان اصلاحات کا مقصد کسانوں کی بہتری اور انہیں اوپر اٹھانا ہے تو اس میں ہرگز مزید دیر نہیں ہونی چاہیے۔دو سال قبل لینڈ ریفارمز لانے کیلئے باقاعدہ کمیٹی بنادی گئی تھی اور کہا گےا تھا کہ کمیٹی تمام حوالوں سے مکمل طورپر جائزہ لینے کے بعد لینڈ ریفارمز کے خدوخال ترتیب دیگی۔لینڈ ریفارمز ہر حوالے سے عوام کے مفاد میں ہوں گی۔ ےہ بھی کہا گےا کہ لینڈ ریفارمز کیلئے جو بل اپوزیشن لیکر آئی تھی اس میں بہت ساری غلطیاں تھیں اس لئے بل کو لا ڈیپارٹمنٹ میں بھیجا گیا‘اپوزیشن بل کو خراب کرنا چاہتی ہے اپوزیشن کو بڑا خوف ہے کہ کہیں حکومت لینڈ ریفارمز کا بل پاس نہ کرادے۔عبوری صوبہ اور لینڈ ریفارم بل اپوزیشن کیلئے گلے کی ہڈی بن گیا ہے ۔اس موقف کا اظہار کےا گےا کہ جب ہم اقتدار سنبھال رہے تھے تو کوئی ایک چیز بھی درست نہیں تھی ہم نے نظام کو درست کرنے کی تھوڑی بہت کوشش کی۔سابق حکومتوں نے اس قدر نظام کا بیڑہ کردیاگیاتھاکہ کچھ لوگ ایک ہی سکیل میں بھرتی ہوکر ریٹائر ہوگئے مگر بعض لوگوںکو خصوصی سفارش کے تحت کچھ ہی سالوں میں گریڈ سات سے گریڈ سترہ میں ترقیاں دے دی گئیں۔نظام بہت ہی خراب اس کو درست کرنے کیلئے کافی کوششیں کرنا پڑرہی ہیں انہوں نے کہاکہ تحریک انصاف اور وزیراعظم عمران خان کے ویژن کے تحت یہاں عوام کوگھر کی دہلیزپر انصاف کی فراہمی کیلئے کوششیں جاری ہیں۔عوامی نمائندوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوامی مسائل کے حل کیلئے ہمہ وقت تیار رہیں حق دار کو حق دلانا ہماری اولین ذمہ داری ہے۔لینڈ ریفارمز کے لیے حکومت جو اقدامات کرنے کی خواہاں ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ اپوزیشن اور دیگر جماعتوں سے مشورے کو یقینی بنایا جائے تاکہ ایک متفقہ فیصلہ کیا جا سکے اور ازاں بعد اس میں ترمیم در ترمیم سے بچا جا سکے۔پاکستان کے مقبول ترین سیاسی رہنماذوالفقارعلی بھٹوبھی برسراقتدارآنے کے باوجود ملک میں لینڈ ریفارمز نہ لاسکے لینڈ ریفارمز کیا ہیں اورذوالفقاربھٹو کو اس میں کیوں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا یہ انتہائی اہم سوال ہے ؟لینڈریفامززمینوں کی تقسیم کانظام ہے۔ اس نظام کے تحت ملکیتی شاملات ، دیہہ ، چراگاہیں، جنگلات اورپہاڑوں کی مالک سرکار ہوتی ہے اوران زمینوں میں پائی جانے والی معدنیات سمیت دیگر ثمرات پربھی حکومت کا حق تصور کیا جاتا ہے۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹونے بھی اقتدار میں آنے کے بعد ملک میں لینڈ ریفارمز کا نظام متعارف کرانے کا اعلان کیا مگرکامیاب نہ ہوسکے۔بھٹو کو دو تین مشکلات کے باعث اعلان کے باوجود لینڈ ریفامز نافذ نہیں ہوسکا۔ لینڈ ریفارمز کے لیے سرمایہ دار بڑی رکاوٹ بنے۔ظاہر ہے جب سرمایہ دار طبقہ حکومت میں بھی حصہ دار ہو تو ایسا نظام کیوں کر نافذ ہوسکتا ہے جس میں سراسران کا ذاتی نقصان ہو؟ اگر حکومت اپنے اختیارات کے استعمال میں پرعزم ہو تو دوست بھی دشمن بن سکتے ہیں۔المیہ ہے کہ جب بھی ایسا اعلان ہوا لوگوں کی وفاداریاں بدل گئیں۔ بھٹو کے دوستوں نے بھی ایسا کرنے پر مسلم لیگ میں شامل ہونے کی دھمکی دی۔دوستوں کا اصل چہرہ دیکھ کر عوامی لیڈر نے ملک کے وسیع تر مفادمیں اپنے وزرا کے ذریعے بھی لینڈ ریفارمز لانے کی بھرپورکوشش کی لیکن سرمایہ داروں نے ان کی ایک نہ چلنے دی۔بھٹو کافنانس منسٹر بڑا سخت تھا اس نے سرمایہ داروں کو پریشان کیا۔سیاسی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو اپنے دور میں لینڈ ریفامز کا نفاذ کرنے میں کامیاب ہوجاتے تو آج ملک کی سیاسی ،سماجی اور معاشرتی صورتحال ہی کچھ اور ہوتی کسی سے قرض لینا پڑتا اور نہ ہی حکومتوں کوکشکول لے کر در در پھرنا پڑتا۔کچھ عرصہ قبل بھی گلگت بلتستان میں لینڈز ریفامز ایکٹ پر یہ اعتراضات سامنے آئے تھے کہ اس ایکٹ کے تحت خالصہ سرکار کی اصطلاح کو ڈوگروں سے منسوب کر کے ختم کی جا سکتی ہے ، اس کی جگہ گورنمنٹ لینڈز یا پاک سرکار کا لفظ استعمال کیا جا سکتا ہے تاکہ عوام کو تاثر دیا جا سکے کہ ہم نے ڈوگروں کی خالصہ سرکار کو ختم کیا ہے۔ گلگت بلتستان کی اہمیت کی حامل بنجر زمینوں کو سرکاری ملکیت قرار دے کر سرکار کی تحویل میں لی جا سکتی ہیں۔معدنیات اور قیمتی پتھر والی جگہیں قانون کے مطابق مائننگ اور انڈسٹریل ڈپارٹمنٹ کی ملکیت قرار دی جا سکتی ہیں اور ان علاقوں کو لیز پر دے کر کان کنی کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔بے گھر لوگوں کے لئے منصوبہ کے نام پر بھی ہزاروں ایکڑز زمیں مختص کی جائے گی ان زمینوں کی بھی مالک حکومت ہوگی۔گلگت بلتستان میں انڈسٹری لگانے کے لئے بھی عوامی ملکیت کی ہزاروں ایکڑ زمین کو حکومتی ملکیت میں منتقل کی جا سکتی ہے۔جن علاقوں میں لوگوں کا زمینوں پر اجتماعی تنازعہ چل رہا ہے ان کو بحق سرکار قرق کرنے کی شق بھی ایکٹ میں شامل ہوسکتی ہے۔شاہراہ قراقرم سمیت گلگت بلتستان کی تمام شاہراہوں سے متصل بنجر زمینوں کو سرکاری اداروں اور کاروباری مقاصد کے لئے حکومتی تحویل میں لیا جا سکتا ہے جس سے لوگوں کی شاملات اور شاملات دیہہ اراضی بھی حکومت کی ہو جائے گی۔ہزاروں ایکڑ عوامی ملکیتی زمین ملٹی نیشنل کمپنیوں کو تجارتی و کاروباری مقاصد کے لئے دی جا سکتی ہے۔ گلگت بلتستان میں ڈیفنس ہاﺅسنگ سوسائیٹز، کارپوریٹ ہوٹلز، سیاحتی سینٹرز اور دیگر مقصد کے لئے بھی ہزاروں اراضی کی ضرورت ہے ، زرعی اصلاحات کی بازگشت آج بھی پورے ملک میں سنائی دیتی ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ لینڈ ریفارمز کے حوالے سے گلگت بلتستان میں مشاورت کے عمل کو یقینی بنایا جائے۔