چیف سیکرٹری گلگت بلتستان محی الدین وانی نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان کو ملک بھر میں تعلیمی لحاظ سے رول ماڈل بنانا میرا مشن ہے یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چھے ماہ کے دوران گلگت بلتستان کے اندر تعلیمی اصلاحات کے لئے اےک ارب روپے کی خطیر رقم خرچ کی گئی۔ ڈگری گرلز کالج گاہکوچ میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کے لوگوں اور یہاں کے طلباءوطالبات میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ۔ےہ ہر لحاظ سے باصلاحیت ہیں ہماری خواہش ہے کہ یہاں سے لیڈر شپ سامنے آئے بدلتی دنیا میں آئی ٹی کا شعبہ تیزی سے ترقی کررہا ہے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اب گلگت بلتستان میں آئی ٹی کا بجٹ بھی تعلیمی نظام کی بہتری میں خرچ کیا جائے تاکہ تعلیمی اداروں کے اندر آئی ٹی کے شعبے کو ترجیحی بنیادوں پر بہتر بنایا جاسکے چیف سیکرٹری نے مزید کہا کہ ضلع غذر میں فری لانسنگ کے سلسلے میں چھے ماہ کا تربیتی کورس منعقد کیا جارہا ہے میری تمام پروفیشنلز اور بالخصوص طلباءو طالبات سے گزارش ہے کہ وہ اس نادر موقع سے فائدہ اٹھائیں اس کورس کے مکمل ہونے کے بعد فری لانسنگ کے ذریعے ایک گھنٹے میں پےنسٹھ ہزار تک پیسے کمائے جاسکتے ہیں جس سے اس علاقے میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے خطے میں تعلیمی نظام کو آگے لے جانے کے لئے ہم نے نسٹ جیسے اعلی تعلیمی ادارے کی خدمت حاصل کرلی ہے بہت جلد نسٹ کے ماہرین گلگت اور سکردو میں اپنے تجربے کی بنیاد پر نظام تعلیم کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لئے ہماری مدد کریں گے۔آج کے جدید اور ترقی یافتہ دور میں جہاں ٹیکنالوجی انسان کی زندگی کا اہم جز بن چکی ہے اور اب اس ٹیکنالوجی کا استعمال دیگر شعبوں کی طرح تعلیم میں بھی ہو رہا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے تعلیم پر اثرات کے حوالے سے زیادہ نقطہ نظر یہی دیکھنے میں آتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی دنیا کے اربوں انسانوں کو جدید اور بہتر سہولیات اور رہنمائی فراہم کر رہی ہے۔جدید دور کے تقاضوں کی اہمیت کے پیش نظر تعلیم میں مختلف شعبوں کے مطابق ٹیکنالوجی متعارف کرائی گئی ہے جس کا مقصد خاص طور پر طالبعلموں کی رہنمائی کرنا ہے۔ماہرین تعلیم بھی اب اس بات پر متفق ہیں کہ آج کل کے جدید اور ترقی یافتہ دور میں تعلیم میں نئی رجحانات اور نئی تکنیکوں کا استعمال وقت کی ضرورت ہے۔اگر ہم پچھلے چند سالوں کے تعلیم میں جدید ٹیکنالوجی کی بات کریں تو ہمیں ایک واضح فرق نظر آئے گا کہ اس دور کی مقابلے میں آج کل کی تعلیم کے طریقہ کار اور معیار میں کتنی تبدیلی آگئی ہے۔جن تکنیکوں سے کبھی ہم آشنا نہیں تھے۔ اب ہماری آنے والی نسل فیضیاب ہورہی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ٹیکنالوجی کا استعمال تعلیم میں طلب علموں کی بہترین رہنمائی کے لئے کروائی جائے اور ان کا استعمال تعلیم کے علاوہ نصاب کی تیاری اور والدین کی رہنمائی کے لئے بھی ہو۔پاکستان میں تعلیمی شعبے میں ابھی تک جدید ٹیکنالوجی سے وہ استفادہ نہیں کیا جا سکا جو دیگر ممالک کررہے ہیں۔اسے ہمارا المیہ ہی کہا جاسکتا ہے کہ ہمارا نظامِ تعلیم مفلوج اور بوسیدہ حال ہے۔ ہم اس نظام تعلیم کے ذریعے آج تک ایسے سائنسدان، انجینئر یا ڈاکٹر پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں جو بہتر طور پر اپنا فریضہ انجام دینے کی قابلیت رکھتے ہوں اور اپنے ہنر میں بھی ماہربھی ہوں۔ نااہل لوگ جب امور تعلیم پر فائز ہوں اور تعلیمی سرگرمیاں مسلسل تجرباتی مراحل سے گزر رہی ہوں تو قوم کی زبوں حالی کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں رہ جاتا۔تعلیمی نظام، سیاست کے شکنجے میں بری طرح سے کچلا جارہا ہے۔ پچھہترسالوں میں ہم یہ طے نہیں کر پائے کہ ہمارے تعلیمی مقاصد کیا ہوں گے اور نظام تعلیم کن اصولوں پر چلایا جائے گا۔غیر مناسب انتظامات اور نااہل افراد کی تعیناتی کی بدولت ہر سال نئی پالیسیاں آزمائی جاتی ہیں اور نتائج کوپس پشت ڈال کر اگلے سال ایک اور پالیسی متعارف کروادی جاتی ہے۔نت نئی بدلتی ہوئی تعلیمی پالیسیاں اساتذہ اور طالب علم کے معاشی اور اخلاقی فرائض پر اثر انداز ہورہی ہیں۔ ان پالیسیوں کا مثبت فائدہ سیاسی قائدین تواٹھا رہے ہیں اور اساتذہ اور حصول علم کے متلاشیوں کو ایک روشن پاکستان کا خواب دکھا رہے ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں تعلیمی مقاصد حاصل کرنے کے لئے ماحول اور حالات کی راہ ہموار ہونا ضروری ہے۔ تعلیم کے فرائض انجام دینے والوں کو اگر تعلیمی پالیسیاں بنانے دی جائیں تو یقینابہتری آئے گی۔ اس کا آغاز سیلف موٹیویشن سے کرنا ہوگا جو صرف سازگار ماحول کی بدولت ممکن ہو سکتا ہے۔روایتی تدریسی طریقہ کار اب مستعمل نہیں رہا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال لازمی ہو گیا ہے۔ ہمیں جدید طرز تعلیم کو اپنانا ہوگا اور کمپیوٹر، پروجیکٹرز، اور ٹیب کا استعمال لازم کرنا ہوگا۔ طالبہ و طالبات کو انٹرنیٹ اور سیل فونز کے ذریعے روزمرہ معاملات میں رہنمائی مہیا کرنی ہوگی۔ ایک ایسا ورچوئل ایجوکیشن سسٹم بنانا ہوگا جس کے ساتھ طالب علم ہمہ وقت رابطے میں رہیں اورمسلسل رہنمائی حاصل کریں۔ اس سلسلے میں فری انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرنا چاہیئے۔ طلبہ کو انوائرنمنٹل سائنسز اور بزنس ایجوکیشن کی تعلیم پر فوکس کرنا ہوگا۔ تعلیم اب صرف پڑھنے لکھنے تک محدود نہیں رہ گئی۔ اب اس کا تقاضا بدل رہا ہے۔ اب اس کا مقصد صحت، تعلیم اور روٹی کا حصول ممکن بنانا ہے جس کا خواب ہمارے سیاسی قائدین ہمیں کسی اور تناظر میں دکھا رہے ہیں۔ ٹیکنیکل ایجوکیشن کو فروغ دیا جانا چاہیئے تا کہ کارخانے سرگرم عمل ہو سکیں اور خیالات میں مثبت پہلو نمایاں ہوں۔ نان جویں کی فکر انسان کی صلاحیتوں کو ختم کرتی ہے اور اس کا آسان حصول قابلیتوں کو نکھارتا ہے۔ ایجوکیشن سسٹم تعلیم یافتہ افراد کو سونپ کر اسے سیاست سے پاک کر دیا جائے تاکی تعلیمی انقلاب بپا ہو سکے ۔بلا شبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے دنیا بھر میں زندگی کے ہر شعبے میں کارکردگی اور رفتار کو بہتر بنانے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ آج ڈاکٹر ، انجینیئر ، حاشیوں اور لکیروں سے خاکے بنانے والے، ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے، تاجر، بینکر ز اور حتی کہ عام لوگ انفرادی طور پر بھی اس کے محتاج ہو گئے ہیں۔ دنیا بھر میں مالی لین دین ، سپلائی کا پورا جال، ریل گاڑیوں اور جہازوں کا سفر، توانائی کا کنٹرول، دفاعی سامان اور دفاع کا پورا نظام، عدالتی نظام، محکمہ موسمیات کی تمام تر رپورٹس کی تیاری اور سیٹلائیٹ میں ہونی والی سرگرمیاں غرض ہر شعبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا محتاج ہے۔تعلیمی ماہرین زیادہ سے زیادہ طالب علموں کی تعلیمی اداروں تک رسائی ممکن بنانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے مدد حاصل کرنے پرزور دے رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تعلیمی اداروں کے بڑھتے ہوئے اخراجات طلبا وطالبات کے لیے بھی اعلی تعلیم تک رسائی کو مشکل بنا رہے ہیں۔جس کی وجہ سے ماہرین اب بنیادی تعلیمی ڈھانچے میں جدید تقاضوں کے مطابق تبدیلی کی بات کر رہے ہیں۔اس لئے موجودہ دور میں روایتی تعلیمی طریقہ کار کے مقابلے میں ٹیکنالوجی کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔اگرچہ ہمارے تعلیمی اداروں میں کسی حد تک نئی ٹیکنالوجی کا استعمال پہلے ہی موجود ہے اور بڑھ رہا ہے لیکن ہمیں اس سلسلے میں ان مقاصد کی نشاندہی کرنی ہے جو ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔جن میں زیادہ سے زیادہ طلبہ کا گریجویشن تک پہنچنا ، غیر متعلقہ نصاب کا خاتمہ، اعلی تعلیم تک رسائی کو آسان بنانا اور ایک بزنس ماڈل کی طرز پر تعلیمی اداروں کا چلانا اہم ہے جہاں صرف منافع ہی حاصل کرنا مقصود نہ ہو۔ اگر اعلی یونیورسٹیوں کی بات کی جائے تو وہاں صرف امراءہی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ غریب طلبہ کی ایک بڑی تعداد ان میں جانے کی استطاعت نہیں رکھتی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بزنس ماڈل کی طرز پر تعلیمی اداروں کا چلانا نہ صرف تعلیمی اداروں کے لیے بہتر ہے بلکہ اس سے یونیورسٹیوں میں تعلیم کے معیار کے حوالے سے مقابلے کی فضا بھی پیدا ہو گی۔ٹیکنالوجی کا علم رکھنے والے اساتذہ آسانی سے کمپیوٹر پر طلبہ کے کام کی نہ صرف نگرانی انجام دے سکتے ہیں بلکہ طلبہ کو ضامن ترقی تجاویز ،بروقت رہبری و رہنمائی اور حوصلہ افزائی کے ذریعے تندہی سے سود مند، اعلی و معیاری سرگرمیاں انجام دینے کے قابل بناتے ہیں۔ان تمام امور کے علاوہ طلبہ کو سیکھنے کے ایسے پروگرام مہیا کرنا بھی ضروری ہے جس سے ان میں تحقیق، تفتیش، تجسس، اختراعی فکر اور تخلیقی خیالات کو فروغ حاصل ہوسکے۔ بلاشبہ ان امور اور اہداف اور اسی قسم کے اعلی مقصدی تعلیمی واکتسابی پروگرامز کو ترتیب دینے میں کمپیوٹر ٹیکنالوجی بے حد معاون و مددگار ثابت ہوتی ہے۔
