بے لگام دہشت گردی

پاکستان میں دہشت گرد عناصر ایک بار پھر سرگرم عمل ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔اس سلسلے میں ملک کے مختلف حصوں میں کارروائیاں بھی کی جارہی ہیں۔ثبوتوں اور شواہد سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ انہیں بیرون ملک سے امداد و اعانت کے علاوہ اسلحہ اور تربیت بھی دی جارہی ہے، اور کچھ وہ ہیں جو ملک کے مغربی حصے میں افغانستان کے ساتھ ملحق علاقوں میں دہشت گردی کی کارروائیاں کررہے ہیں۔ تخریب کار عناصر کی اس دوسری قسم کی ڈوریاں بھی ہلائی تو باہر سے ہی جارہی ہیں۔ ماضی کے واقعات سے یہ بات پوری طرح واضح ہوچکی ہے کہ یہ شرپسند عناصر ہیں جو عوام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو محض اس لیے جانی و مالی نقصان پہنچارہے ہیں تاکہ بیرونی طاقتوں کے ایما پر اپنے شرپسند ایجنڈے کو فروغ دے سکیں۔مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ہر دو طرح کے عناصر کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کا صفایا کررہے ہیں تاکہ ملک میں امن و امان کے قیام کو یقینی بنایا جاسکے۔کلبھوشن یادیو پاکستانی سکیورٹی فورسز کی حراست میں اس بات کا اعتراف کرچکا ہے کہ وہ بھارتی خفیہ ادارے ریسرچ اینڈ انیلسس ونگ راءکے ایجنٹ کے طور پر بلوچستان میں دہشت گرد عناصر کو مختلف طرح کی سہولیات فراہم کرتا تھا اور اس کام کے لیے اس نے خود کو حسین مبارک پٹیل کے فرضی نام سے متعارف کرا رکھا تھا۔ اس وقت بھی بلوچستان میں علیحدگی پسندی کے نام پر جو مختلف مسلح گروہ سکیورٹی فورسز اور عام لوگوں کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں ان کو کسی نہ کسی طرح بیرون ملک سے ہی مدد مل رہی ہے اور اس معاملے میں بھارت سرِ فہرست ہے۔ بھارت کی بلوچستان میں شرپسندی پھیلانے کے ثبوت پاکستان بین الاقوامی اداروں کو بھی پیش کرچکا ہے۔دہشت گردی کی یہ جتنی بھی وارداتیں مختلف عناصر کی طرف سے کی جارہی ہیں ان کے سد باب کے لیے پاکستان کی مسلح افواج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے کارروائیاں تو کررہے ہیں تاہم حکومت کو چاہیے کہ وہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت ان کارروائیوں کو مزید مربوط بنائے اور آپریشن ردالفساد کے تحت بالعموم پورے ملک میں اور بالخصوص بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے علاقوں میں تخریب کار عناصر کی بیخ کنی کے لیے سکیورٹی فورسز کو ہر طرح کے وسائل مہیا کرے تاکہ ملک میں امن و امان کے قیام کے لیے ضروری اقدامات کیے جاسکیں۔ اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ دہشت گرد گروہوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے ماضی بھی کوششیں ہوچکی ہیں لیکن ایسی کسی بھی کاوش کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا،یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک ملک میں امن و امان قائم نہیں ہوگا تب تک سیاسی اور معاشی استحکام کے ثمرات بھی عوام تک نہیں پہنچ پائیں گے۔حالےہ واقعات کے بعد وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اپیکس کمیٹی کا اہم اجلاس ہوا،اپیکس کمیٹی نے کہا کہ پاکستانیوں کا خون بہانے والے دہشت گردوں کو عبرت کا نشان بنائیں گے، دہشت گردی کی بیخ کنی کیلئے ریاست کے تمام اداروں کو اشتراک عمل سے کام کرنا ہوگا، مشترکہ قومی اہداف کے حصول کے جذبے سے کام کرنا ہوگا، مشترکہ اہداف کے حصول کیلئے ضرورت کے مطابق قانون سازی کی جائے گی۔اعلامیے کے مطابق کمیٹی نے کہا کہ ملک کے اندر دہشت گردوں کی معاونت کرنے والے تمام ذرائع ختم کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا، دہشت گردی کی ہر قسم اور ہر شکل کیلئے زیرو ٹالرنس کا رویہ قومی نصب العین ہوگا۔اجلاس میں بارڈر مینجمنٹ کنٹرول اور امیگریشن کے نظام کے حوالے سے جائزہ لیا گیا، دہشت گردوں کے خلاف تحقیقات، پراسیکیوشن اور سزا دلانے کے مراحل پر بھی غور کیا گیا، دہشت گردی کے خاتمے کیلئے وفاق اور صوبوں کے درمیان مشترکہ حکمت عملی اپنانے پر اتفاق کیا گیا۔اعلامیے کے مطابق قومی اتفاق رائے سے اپیکس کمیٹی کے فیصلوں پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے گا، اجلاس نے وزیراعظم کے اے پی سی بلانے کے فیصلے کو سراہا۔کمیٹی نے کہا کہ توقع ہے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے تمام قومی سیاسی قیادت ایک میز پر بیٹھے گی، توقع ہے سیاسی قیادت قومی اتفاق رائے کے ذریعے اقدامات کا فیصلہ کرے گی۔ علما دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ممبر و محراب کا فورم استعمال کریں، علما عوام کو آگاہ کریں کہ ایسے حملے قطعا حرام اور خلاف قرآن و سنت ہیں، علما عوام کو آگاہ کریں بے گناہوں کا خون بہانے والوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اجلاس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر، حساس سول و عسکری اداروں کے سربراہان نے شرکت کی۔یہ حقیقت ہے کہ ماضی میں دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ہماری قوم، اس کی فوج اور پولیس کے بہادر سپوتوں نے بے مثال قربانیاں دیں لیکن جو عوامل دہشت گردی کو پروان چڑھاتے ہیں یا جن کے سہارے دہشت گرد پھلتے اور پھولتے ہیںان کی بیخ کنی کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے تھے۔نیشنل ایکشن پلان کے بےس نکاتی پروگرام میں فرقہ واریت کی روک تھام کے لئے خصوصی اقدامات کی سفارش کی گئی ہے جن میں نفرت پر مبنی مواد کی اشاعت پر پابندی اور لاﺅڈ سپیکرز کے غلط استعمال پر قید اور جرمانے کی سزا بھی شامل ہے۔جن ذرائع سے پاکستان میں دہشت گردی پروان چڑھتی ہے، ان میں دہشت گرد تنظیموں کے لئے اندرون اور بیرون ملک مختلف حلقوں کی طرف سے فنڈز کی فراہمی بھی شامل ہے۔ہم جانتے ہےں کہ افغانستان پر روسی قبضے اور جنگ کے دوران افغانیوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو اپناگھر بار اور وطن چھوڑ کر پاکستان میں پناہ لینی پڑی تھی۔جیسے جیسے جنگ کی شدت اور اس کا دائرہ بڑھتا گیا پاکستان میں پناہ لینے والے ان افغان مہاجرین کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ایک وقت میں ان کی تعداد تیس لاکھ سے بھی زائد تھی۔تاہم افغانستان سے روسیوں کے واپس چلے جانے اور افغانستان میں حالات نسبتا معمول پر آنے کے بعد افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد اپنے وطن واپس جاچکی ہے لیکن اب بھی پاکستان میں17لاکھ کے قریب رجسٹرڈ افغان مہاجرین موجود ہیں۔ان کی اکثریت کیمپوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور کچھ خیبرپختونخوا کے شہروں میں اپنے رشتہ داروں کے ہمراہ رہ رہے ہیں۔حکام کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق افغان مہاجرین کے ان کیمپوں کو دہشت گرد اور دیگر جرائم میں ملوث افراد اور تنظیمیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ جب تک افغانستان کی طرف سے ان مہاجرین کی واپسی میں تعاون حاصل نہیں ہوتا،اس کام کو انجام دینا محال نظر آتا ہے۔دوسری طرف ان مہاجرین کی ایک لمبے عرصے سے پاکستان میں موجودگی سیاسی،سماجی اور معاشی مسائل کو جنم دے رہی ہے بلکہ دہشت گردی کے خاتمے اور ملک کے مختلف حصوں خصوصا کے پی کے میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال کو بہتر بنانے کے لئے ان مہاجرین کی واپسی کو ضروری قرار دیا جارہا ہے۔نیشنل ایکشن پلان میں افغان مہاجرین کی جلد وطن واپسی کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات کی سفارش کی گئی ہے۔انسداد دہشت گردی کی مہم کو کامیاب بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ان جرائم میں ملوث پائے جانے والے افراد کو فوری طور پر سزا دی جائے تاکہ دہشت گردوں کے حوصلے پست ہوں اورعوام کا ڈر اور خوف دور ہوسکے۔بدقسمتی سے ہمارے قانونی اور عدالتی نظام میں موجود کچھ خامیوں کی وجہ سے دہشت گرد سزاﺅں سے بچتے چلے آرہے تھے اس کی وجہ سے انہیں نہ صرف دہشت گردی کو مزید پھیلانے کا موقع ملا،بلکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنے والی ہماری سےکیورٹی ایجنسیوں کے ارکان کی بھی حوصلہ شکنی ہوئی اورعوام میں بھی عدم تحفظ کا احساس بڑھا۔اس مسئلے کے حل کے لئے ضروری سمجھا گیا کہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث پائے جانے والے افراد کو عدالتوں کی طرف سے جو سزائیں سنائی گئی ہیں ان پر فوری عملدرآمد ہو اور آئندہ ان کارروائیوں کا ارتکاب کرنے والے افراد کو فوری اور قرار واقعی سزائیں دینے کے لئے خصوصی عدالتیں یعنی فوجی عدالتیں قائم کی جائیں۔اگرچہ دہشت گردوں نے پورے ملک میں اپنے اڈے قائم کر رکھے ہیں جہاں سے وہ اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن صوبہ کے پی کے اور خصوصا وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے یعنی فاٹا ان کی سب سے بڑی آماجگاہ ہیں۔فاٹا کے دہشت گردی کا مرکز بننے میں اس کے صدیوں پرانے سیاسی،انتظامی اور سماجی نظام کا بڑا ہاتھ ہے۔ان علاقوں میں قانون کی گرفت اور آئین کی حکمرانی کمزور ہونے کی وجہ سے دہشت گردی او ردیگر جرائم میں ملوث افراد کو بڑھنے اور پھولنے کا موقع ملا ہے۔دہشت گردی کے خلاف جنگ کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے ایک ہمہ جہتی اور مکمل حکمت عملی تشکیل دی جانی چاہےے تاکہ دہشت گردوں کو بچ نکلنے کا موقع نہ مل سکے۔سب سے نمایاں پہلو ایک مکمل قومی اتفاق رائے ہے۔ملک کی سکیورٹی ایجنسیوں کے درمیان تعاون اور اشتراک کو فروغ دے کر دہشت گردی کے خلاف اس کارروائی کو موثر اور نتیجہ خیز بنانے کی کوشش کی جائے تاکہ پاکستان کے بائےس کروڑ عوام سکھ اور چین کی فضا میں سانس لے سکیں۔