کراچی پولیس آفس پر حملے کے واقعے کی تحقیقات کے لیے محکمہ انسداد دہشت گردی سی ٹی ڈی سندھ کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل ذوالفقار علی لاڑک کی سربراہی میں پانچ رکنی کمیٹی قائم کر دی گئی ہے۔ دیگر اراکین میں ڈی آئی جی جنوبی کراچی عرفان علی بلوچ، ڈی آئی جی سی آئی اے کراچی محمد کریم خان، سی ٹی ڈی کے ایس ایس اپی آپریشنز کراچی طارق نواز اور انچارج سی ٹی ڈی کراچی ڈی ایس پی راجا عمر خطاب ہوں گے۔ تحقیقات کے لیے اگر ضرورت پڑے تو چیئرمین کسی اور ممبر کو بھی منتخب کر سکتے ہیں۔ گزشتہ روز صوبہ سندھ کے دارالحکومت میں شاہراہ فیصل پر واقع کراچی پولیس چیف کے دفتر پر دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا، تقریبا ساڑھے تین گھنٹے سے زائد مقابلے کے بعد عمارت کو دہشت گردوں سے کلیئر کرا لیا گیا تھا، حملے میں تین دہشت گرد مارے گئے تھے۔پولیس ترجمان نے بیان میں کہا تھا کہ کراچی پولیس آفس پر حملہ کرنے والے تینوں حملہ آوروں کو پولیس کمانڈوز کی کارروائی میں ہلاک کردیا گیا۔ پولیس کی کارروائی کے دوران ایک دہشت گرد نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا جبکہ دیگر دو پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہوگئے۔ پولیس آپریشن میں رینجرز اور فوج کے اہلکاروں نے بھی حصہ لیا جبکہ وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ بھی آئی جی کے دفترپہنچے اور واقعے کے حوالے سے معلومات لیتے رہے۔ ایک ہیڈ کانسٹیبل اور ایک شہری شہید ہوا اور پندرہ افراد زخمی ہوئے، جن میں پولیس اور رینجرز اہلکار بھی شامل تھے۔ کراچی پولیس آفس پر حملے کے بعد سرکاری عمارتوں اور تنصیبات پر سیکیورٹی انتظامات کی موجودہ صورتحال کا انتظامیہ اور صوبائی حکومت نے سیکیورٹی آڈٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کے ہیڈ کوارٹر پر حملے کو سیکیورٹی کی سنگین خامی کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔کراچی پولیس آفس پر حملے کے بعد کئی سوالات کھڑے ہو گئے ہیں اور ان کے جوابات کے لیے ایک مناسب مشق کی ضرورت ہوگی جس میں سیکیورٹی آڈٹ اور دہشت گردانہ حملوں کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائی کا منصوبہ شامل ہے۔ حالیہ پشاور حملہ ملک بھر کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ویک اپ کال تھی اور اس بات پر گہری تشویش ہے کہ عسکریت پسند کس طرح پولیس ہیڈ کوارٹروں میں گھسنے میں کامیاب ہوئے، یہ خطرناک ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ماضی کی طرح اب بھی پولیس کا مورال بلند ہے اور اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے تیار ہے، شہری علاقوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے عسکریت پسندوں کے خلاف لڑ کر بھاری قربانیوں کے بعد امن کو بحال کیا۔یہ دہشت گردوں کی طرف سے ایک قسم کا پیغام ہے کہ ہم اتنے قریب ہیں ، یہ سیکیورٹی کی سنگین خامی ہے، یہ معمول کی دہشت گردی کارروائی نہیں ہے، اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، لہذا میرا خیال ہے کہ اس کو دوبارہ دیکھنے کی ضرورت ہے، ہماری سہولیات کی سیکیورٹی سے لے کر قانون نافذ کرنے اداروں کی انسدادِ دہشت گردی کی تربیت سمیت ہر چیز کو دوبارہ چیک کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں دہشت گردی کی گزشتہ لہر میں عسکریت پسندوں نے اکثر آسان جگہوں پر حملہ کیا جس میں عوامی مقامات، مارکیٹیں، مساجد، مزارات اور امام بارگاہیں تھیں لیکن حالیہ حملوں میں اب تک ان کی کارروائی میں نمایاں تبدیلی نظر آرہی ہے۔شرف الدین میمن نے کہا کہ عسکریت پسند ظاہر کررہے ہیں کہ وہ کتنے تیار اور تربیت یافتہ ہیں، اگر وہ ان سہولیات کو نشانہ بنا سکتے ہیں تو پھر عوامی مقامات جیسی جگہیں کتنی غیر محفوظ ہوسکتی ہیں؟ لہذا یہ وقت ہے کہ مناسب سیکیورٹی پلان مرتب کریں اور مکمل اعتماد کے ساتھ اس چیلنج کو لیں۔پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی پیمرا نے سیکیورٹی فورسز کی جانب سے کیے جانے والے سیکیورٹی آپریشن کی لائیو میڈیا کوریج پر پابندی عائد کردی ہے۔ ٹی وی چینلز صرف وہ معلومات نشر کرسکیں گے جو انہیں اداروں کی جانب سے فراہم کی جائیں گی۔ پیمرا کی جانب سے یہ پابندی کراچی کے پولیس چیف کے دفتر پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے حملے کے ایک روز بعد عائد کی گئی۔دہشت گردوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان تقریبا ساڑھے تےن گھنٹے تک جاری رہنے والے مقابلے کے بعد عمارت کو دہشت گردوں سے کلیئر کرایا گیا جس کے نتیجے میں تینوں حملہ آور مارے گئے۔وزیر اعظم شہباز شریف نے کراچی پولیس آفس پر حملے کے خلاف بروقت کارروائی کرنے اور موقع پر موجود رہنے کے وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ کے جذبے کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ اللہ تعالی کا شکر ہے بڑا جانی نقصان یا تباہی نہیں ہوئی، فورسز نے بڑی بہادری سے حملہ آوروں کا خاتمہ کیا۔وزیراعظم شہباز شریف نے وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ کو ٹیلی فون کرکے بروقت کارروائی کرنے اور موقع پر موجود رہنے کے وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ کے جذبے کی تعریف کی۔ وزیر اعلی سندھ نے حملہ آوروں سے متعلق جمع کیے گئے حقائق سے بھی وزیراعظم کو آگاہ کیا۔وزیر اعظم نے مراد علی شاہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالی کا شکر ہے بڑا جانی نقصان یا تباہی نہیں ہوئی، فورسز نے بڑی بہادری سے حملہ آوروں کا خاتمہ کیا۔وزیر اعظم نے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے صوبائی حکومتوں کی استعداد کار بڑھانے میں پوری معاونت کریں گے۔ ڈاکٹر عارف علوی نے وطن کی خاطر بہادری سے دہشت گردوں کے خلاف لڑنے پر پولیس اور رینجر کے جوانوں کو خراج عقیدت پیش کیا اور پولیس آفس حملے کے تمام زخمیوں کیلئے جلد صحتیابی کی دعا کی۔ سندھ بالخصوص کراچی میں امن وامان برقرار رکھنے کے لیے کراچی آپریشن سمیت دہشت گردوں کے خلاف مختلف کارروائیوں میں سندھ رینجرز کے ابتک 148 افسران اور جوان اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں۔ دہشت گرد حملے کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند کھڑے ہوکر ملک اور سماج دشمن عناصر کو دندان شکن جواب دینا اور انہیں جہنم واصل کرنا اب پولیس کی جرات اور بہادری کا سنہری باب بن چکا ہے۔آئی سندھ نے شہدا کے ورثا کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ دکھ کی اس گھڑی میں مجھ سمیت پوری سندھ پولیس آپ کے ساتھ ہے، آپ خود کو ہر گز تنہا نہ سمجھیں، آپ کی داد رسی کرنا اور مسائل و مشکلات کو حل کرنا محکمہ پولیس سندھ کی ذمہ داری ہے۔آئی جی سندھ نے اس موقع پر موجود سینئر پولیس افسران کو ہدایات دیں کہ شہدا کے قانونی ورثا کے لیے مروجہ مراعات کی بابت تمام ترقانونی و دستاویزی امور کو جلد سے جلد پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔امریکا نے کراچی پولیس آفس پر دہشت گرد حملے کی شدید مذمت کی ہے۔ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نیڈ پرائس نے کہا کہ ہم اس دہشت گردانہ حملے میں پاکستانی عوام کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ تشدد جواب نہیں ہے، اور اسے رکنا چاہیے، حملے میں زخمی اور ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ سے گہری تعزیت کرتے ہیں۔سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے گزشتہ روز کراچی پولیس آفس پر دہشت گرد حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ شہری مراکز میں دہشتگردی میں اچانک اضافہ انٹیلی جنس کی ناکامی ہے۔کراچی پولیس آفس پر کل کے دہشتگرد حملے کی شدید مذمت کرتا ہوں، ایک مرتبہ پھر ہماری بہادر پولیس کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ خصوصا شہری مراکز میں دہشت گردی میں اچانک اضافہ انٹیلی جنس کی ناکامی اور ریاست کے ہاں دہشت گردی کے انسداد کی ایک واضح فعال حکمتِ عملی کے فقدان کو ظاہر کرتا ہے۔دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی سربراہی کرنے والے پولیس افسران میں شامل ڈی آئی جی ایسٹ زون مقدس حیدر کا کہنا ہے مجموعی طور پر تےن حملہ آور تھے، جو انڈس کرولا کار میں تین بیگز میں کھانے پینے کی چیزوں کے ساتھ آئے تھے۔کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان محمد خراسانی کی جانب سے کیے گئے میسج میں کراچی میں پولیس چیف کے دفتر پر حملے کی ذمے داری قبول کر لی تھی۔اس سے قبل 2011 میں پی این ایس مہران پر بھی کالعدم ٹی ٹی پی نے حملہ کیا تھا اور اس وقت سترہ گھنٹے کے آپریشن کے بعد پی این ایس مہران کو دہشت گردوں سے کلیئر کرایا گیا تھا۔اس حملے میں دس سیکیورٹی اہلکار شہید ہو گئے تھے اور دہشت گردوں نے امریکا کے تیارہ کردہ دو طیارے تباہ کردیے تھے۔ تین سال بعد دہشت گردوں نے 8 جون 2014 کو کراچی ایئرپورٹ پر حملہ کیا تھا جس میں 24 افراد شہید ہو گئے تھے اور املاک کو بھی بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا تھا اور اسی حملے کے بعد دہشت گردوں کے خلاف پندرہ جون کو آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا گیا تھا۔ابتدائی تحقیقات کے مطابق دہشتگرد ایک گاڑی میں آئے، جو تحویل میں لے لی گئی ۔کراچی پولیس آفس پر دہشت گرد حملے میں آپریشن کے دوران مارے جانے والے دودہشت گردوں کی شناخت کر لی گئی جبکہ تیسرے کی مشکوک ہے۔ کراچی پولیس آفس پر حملہ کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں نے کیا۔ایک دہشتگرد کی شناخت زالا نور ولد وزیرحسن کے نام سے کی گئی جس کا تعلق شمالی وزیرستان سے تھا۔ سیکےورٹی آپریشن کے دوران خود کو دھماکے سے اڑانے والے دہشتگرد کا نام کفایت اللہ ولد میرز علی خان تھا اور وہ وانڈہ امیر لکی مروت کا رہنے والا تھا۔ دہشتگرد ایڈیشنل آئی جی کراچی کو ٹارگٹ کرنا چاہتے تھے۔ دہشتگردوں کو ایڈیشنل آئی جی کراچی کا فلور بھی معلوم تھا۔دہشتگرد ایک ماہ تک ریکی کرتے رہے، ایڈیشنل آئی جی کراچی کے دفتر پر دہشتگرد پہلے بھی آچکے تھے۔ ریکی مکمل کرنے کے بعد حملہ کیا گیا، صدر کی طرف سے دہشتگرد ایک گاڑی میں آئے تھے۔
