ترقی کے پائیدار اہداف کے حصول کیلئے قومی مباحثے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے رومینہ خورشید عالم نے کہاکہ پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول میں مقامی حکومتوں کا اہم کردار ہے۔انہوںنے کہاکہ عوام کے زیادہ تر مسائل مقامی حکومتیں حل کر سکتی ہیں۔ انہوںنے کہاکہ یورپی ممالک پائیدار ترقی کے عمل میں دنیا کے تمام ترقی پذیر ملکوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔ایس ڈی جیز کی کنوینر رومینہ خورشید عالم نے کہا ہے کہ مقامی حکومتوں کو بااختیار بنائے بغیر ترقیاتی اہداف کا حصول ممکن نہیں، ملکی ترقی پر سیاست نہیں ہونی چاہیے ۔ پاکستان کو بدترین سیلاب سے زیادہ چیلنجز کا سامنا ہے۔قومی مباحثے میں تمام صوبوں کے ارکان اسمبلی اور سیکرٹریز نے خیر مقدم کیا ۔ انہوںنے کہاکہ ہر سیاسی شخصیت اپنے حلقے کی ترقی چاہتی ہے، ملکی ترقی پر سیاست نہیں ہونی چاہیے ۔ رومینہ خورشید عالم نے کہاکہ یہ ملک ہم سب کا ہے اور سب کو ملکر ہی اس ترقی میں حصہ ڈالنا ہے۔مباحثے سے گلگت بلتستان اسمبلی کے سپیکر امجد زیدی نے کہاکہ اس مباحثے میں این ڈی ایم اے کو بھی شامل کرنا چاہیے ۔ انہوںنے کہاکہ گلگت بلتستان میں حالیہ خشک سالی سے کھیت کھلیان سوکھ گئے ہیں۔برفباری سے بھی گلگت بلتستان کے راستے مسدود ہو جاتے ہیں، اسپیکر گلگت بلتستان نے کہاکہ ایس ڈی جیز اجلاس میں شرکت کے بعد ہم نے لوکل گورنمنٹ قانون میں ضروری ترامیم کیں تاکہ مقامی حکومتوں کو بااختیار بنایاجاسکے۔دنیا کی سیاسی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ ان ملکوں کی ترقی کا گراف بہت تیزی سے اوپر گیا ہے جنہوں نے ایسے نظام کو اپنایا جس میں نچلی سطح تک اختیارات کی تقسیم کو ممکن بنایا گیاہو۔ کسی ملک میں اس نظام کو مقامی حکومتوں کا نظام، کہیں میونسپلٹی تو کہیں کائونٹی کہا جاتا ہے۔ نام کوئی بھی ہو اصل مسئلہ اختیارات کی تقسیم اور نظام کا عملی اطلاق کا ہوتا ہے۔ اب کہنے کو تو ہم اس نظام سے صدر ایوب خان کے دور حکومت سے ہیں، جسے ایوب دور میں بنیادی جمہوریت کا نظام کہا گیا۔ اس سسٹم میں 80 ہزار کونسلرز کے انتخابات کے بعد انہیں حق ووٹ دینا تھا کہ جن کا مقصد صدر پاکستان کے الیکشن میں ووٹ دینا تھا۔ یہ بالکل ایسے ہی تھا کہ جیسے گائوں کا لینڈ لارڈ کسی مزارع کو محض اس شرط پر ایک مربع زمین الاٹ کر دے کہ بدلے میں مجھے آپ کی وفاداری چاہئے اور کچھ نہیں تو فیصلہ آپ کریں کہ وہ مزارع تو زندگی بھر کی غلامی کو تیار ہو جائے گا۔ خیر ایوب دور کے علاوہ اب تک کی ہر حکومت نے مقامی نظام کو اپنے ذاتی سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا بلکہ ہمیشہ سے ہی اس نظام کے تحت الیکشن کا انعقاد اس وقت ہوتا ہے جب حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے قریب ہوتی ہے۔ دراصل ہمارے ہاں ایسا سیاسی نظام متعارف کروا دیا گیا ہے جس میں مقامی ایم پی اے اور ایم این اے کے علاوہ ترقیاتی اسکیموں پر پیسہ خرچ نہیں کیا جاسکتا۔ جبکہ اس نظام میں مقامی اور نچلی سطح پر دولت کی تقسیم کے لئے مقامی ڈی سی اور چئیرمین کو یہ اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ اس لئے ایک ایم این اے کے ہوتے ہوئے محلہ کے ایک کونسلر کی کیا اوقات کہ وہ اپنی علاقہ کا کام اس کی مرضی کے بنا سرانجام دے۔ دوسری اہم بات کہ اختیارات کی تقسیم، اس کی ایک سادہ سی مثال یوں پیش کی جا سکتی ہے کہ اسکول کے چپڑاسی کا تقرر وتبدل بھی مقامی ایم این اے کے بغیر ممکن نہیں سمجھا جاتا،کیا ایک ایم این اے کے پاس اتنا وافر وقت ہوتا ہے کہ وہ چپڑاسیوں کے تبادلے کرواتا پھرے ۔ یہی وجہ ہے کہ مقامی حکومتوں کے اختیارات کو محلہ کی صفائی ، نالیوں کی ستھرائی اور خاکروبوں کو کنٹرول کرنے تک ہی محدود کردیا گیا ہے۔ عوامی مسائل کے حل کے لئے انہیں مقامی ایم پی اے یا ایم این اے کا انتظار کرنا پڑتا ہے جو کہ صوبائی یا مرکز میں بیٹھ کر اپنے اپنے کاروبارچلانے میں مصروف ہوتے ہیںکیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر اس نظام کو اہمیت دے دی گئی تو ان کے اپنے اختیارات تقسیم ہو کر کم ہو جائیں گے۔ ملک اس وقت تک تیزی سے ترقی نہیں کر سکتا جب تک کہ اختیارات کو نچلی سطح تک تقسیم نہیں کیا جاتا۔کیونکہ عوام کو ریلیف دینا ممکن نہیں ہوتا اور پوری دنیا میں مقامی حکومتیں کامیابی سے تعمیر ترقی کی ضامن ہیں۔ہمارے ملک میں آزادی کے بعد اختیارات کا منبع مرکز رہا تاہم 18ویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو با اختیار کیا گیا تو آئین کے تحت صوبوں کیلئے ضروری تھا کہ وہ مقامی حکومتوں کو با اختیار کرتے تاکہ عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل کئے جا سکیں،مگر اس حوالے سے وزیر اعظم عمران خان کے عزم اور ارادہ کے بر عکس صوبے مقامی حکومتوں اور ضلعی انتظامیہ کو سیاسی مالی اور انتظامی خود مختاری دینے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتے۔اصل صورتحال یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اور منتخب ارکان مالی اور انتظامی اختیارات چھوڑ کر بے وقعت ہونا اور اثر ورسوخ کھونا نہیں چاہتے، یہی وجہ ہے کہ بیورو کریسی یعنی انتظامیہ خاص طور پر ضلعی انتظامیہ کو ہر دور میں عضو معطل بنا کر رکھا گیا جس کا نتیجہ ہے کہ عوامی مسائل دن بدن بگڑتے جا رہے ہیں۔موجودہ دور میں ہی جن معاملات میں حکومت نے مقامی انتظامیہ کو بروئے کار لا کر نتائج حاصل کرنا چاہے وہاں بہترین کارکردگی سامنے آئی لیکن منتخب ارکان اسمبلی ترقیاتی فنڈز مقامی حکومتوں اور انتظامی اختیارات ضلعی انتظامیہ کو دینا سیاسی موت گردانتے ہیں جس کی وجہ سے یہ دونوں ادارے عضو معطل ہیں جس کے باعث عوام لاچار و بے بس ہو کر رہ گئے ہیں۔آئین کے آرٹیکل 140 اے کے تحت تمام صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ صوبے میں مقامی حکومت کا نظام بنائیں اور انہیں سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات بھی منتقل کریں گی۔ اور اس کا اختیار مقامی حکومتوں کے منتخب نمائندوں کے پاس ہو گا جب کہ اس کے لیے انتخابات کرانے کی ذمہ داری الیکشن کمیشن کے پاس ہو گی۔البتہ آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاق کے بجائے صوبوں کے پاس اختیارات آجانے کے بعد سے اکثر اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی سے اجتناب دیکھا گیا ہے۔اس میں اصل رکاوٹ طاقت رکھنے کی سوچ ہے، تاریخی طور پر ملک میں زیادہ تر اختیارات مرکز کے پاس رہے اور پھر انہیں صوبوں کو منتقل کرنے میں 60 سال سے زائد کا عرصہ لگا۔ البتہ اس کے بعد اب یہی اختیارات صوبوں سے مقامی سطح پر منتقل ہونے تھے، جو بدقستی سے اب تک نہیں ہوسکے ہیں۔یہی سوچ حکومت کے دوسرے اہم حصے انتظامیہ اور انتظامیہ کے اہم ترین حصے ضلعی انتظامیہ کو مالی اور انتظامی حوالے سے با اختیار کرنے میں حائل ہے۔صوبوں میں برسرِ اقتدار سیاسی جماعتوں کو یہ خدشہ ہے کہ اگر یہ اختیارات منتقل کردیے گئے تو ان کی طاقت کم پڑ جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ان اختیارات کو آسانی سے نیچے منتقل کرنے کو تیار ہی نہیں کیونکہ اختیارات و وسائل کی نیچے منتقلی سے اراکین اسمبلی کا اثر و رسوخ کم ہوجائے گا۔ وزرائے اعلی اور صوبائی حکومتیں مقامی حکومتوں کے انتخابات اور انہیں اختیارات دینے اور انتظامیہ کو با اختیار کرنے کو تیار ہی نہیں۔ان کے مطابق آئین پر عمل درآمد کی صورت میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے اختیارات محدود ہوجاتے ہیں کیوں کہ پھر ترقیاتی فنڈز اراکین اسمبلی کو نہیں بلکہ مقامی حکومتوں کو دینے پڑیں گے۔ جس سے ان کے اثر و رسوخ میں کمی آجائے گی اور پھر ان کی اہمیت کم ہوجائے گی جو یہ نہیں چاہتے۔ترقی یافتہ ممالک میں بیورو کریسی حکومت یا حکمرانوں کی ملازم نہیں ریاست کی ملازم تصور کی جاتی ہے۔وہ حلف بھی ریاست سے وفاداری کا اٹھاتے ہیں ان کو آئین 25سال کم از کم دیتا ہے خدمات کیلئے جبکہ منتخب ارکان چار یا پانچ سال کیلئے مینڈیٹ لے کر آتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ کوئی سرکاری ملازم کسی وزیر گورنر یا صدر وزیر اعظم کا کوئی زبانی حکم نہیں مانتا،غیر قانونی تو بالکل بھی نہیں۔ٹریفک سارجنٹ صدر وزیر اعظم وزیر کا چالان کر دیتا ہے اور اسے تبادلہ کا خوف نہیں ہوتا۔کوئی کلرک بھی کسی وزیر کے قواعد کے منافی حکم کو ماننے سے انکار کر سکتا ہے، مگر ہمارے ہاں حکمران چاہتے ہیں سب کچھ ان کے ہاتھ میں رہے بس انہی کا حکم بجا لایا جائے۔اس لیے آئین کے مطابق مقامی حکومتوں کو اختیارات سونپ کر عوام کو ریلیف فراہم کیا جائے جبکہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کو محض قانون سازی تک محدود رکھا جائے۔
