وزیر اعلی گلگت بلتستان خالد خورشید کی زیر صدارت صوبے میں امن و عامہ اور دیگر امور کے حوالے سے اہم اجلاس میں گلگت بلتستان کی مجموعی امن و عامہ کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ اس دوران وزیر اعلی گلگت بلتستان نے کہا کہ حکومت صوبے میں امن و امان ، لینڈ ریفارمز ،گندم کی بروقت فراہمی، مشہ بروم بس حادثے کے محرکات، بین الاضلاعی حدود کے تنازعوں اور دیگر امور کے حل کے لئے موثر اقدامات کر رہی ہے اور عوام کو ریلیف کی فراہمی کے لئے سنجیدگی سے کام کر رہی ہے۔ امن و امان کو بہتر بنانے کے حوالے سے وزیر اعلی نے چیف سیکرٹری اور پولیس حکام کو ہدایت کی کہ قانون ہاتھ میں لینے والے عناصر کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے اور عوامی شاہراہوں خصوصا قراقرم ہائی وے ،جگلوٹ سکردوروڈ کو بلاک کرنے اور ٹریفک کو معطل کرنے والے عناصر سے سختی سے نمٹا جائے اور اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی رعایت نہ دی جائے ۔ وزیر اعلی نے مزید کہا کہ غیر ضروری ہڑتالوں اور احتجاج سے پیدا ہونے والے مسائل پر قابو پانے کے لئے ڈویژنل اور ڈسٹرکٹ انتظامیہ مناسب اقدامات کرے اور حکومتی کارکردگی سے عوام کو آگاہ کرے۔احتجاج غلط نہیں ہے۔ اگرچہ ایک جمہوری معاشرے میں، جہاں عدلیہ آزاد ہو، میڈیا آزاد ہو آزادی اظہارِ رائے کو بطور قدر مانا گیا ہو، وہاں احتجاج کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ احتجاج اس لیے ہوتا ہے کہ بات کی شنوائی نہ ہو۔ جہاں یہ مسئلہ نہ ہو وہاں احتجاج کا کوئی جواز نہیں بنتا؛ تاہم اس کے باوجود احتجاج لوگوں کا جمہوری حق ہے لیکن اس کے کچھ آداب بھی ہونے چاہئیں۔ پاکستان کا آئین نقل و حرکت کو ایک شہری کے بنیادی حقوق میں شامل کرتا ہے۔ وہ احتجاج کس طرح آئینی ہو سکتا ہے جو ایک شہری کو اس بنیادی حق سے محروم کر دے؟احتجاج کے لیے جلسہ کیا جا سکتا۔ دھرنے دراصل زندگی کو مفلوج کر نے کا نام ہےں۔ یہ اس لیے ہوتے ہےں کہ کسی حکومتی نظم کو معطل کر دیا جائے۔ یہ کامیاب بھی وہاں ہوتا ہے جہاں اتنی بڑی تعداد میں لوگ جمع ہو جائیں کہ عملا امورِ ریاست سرانجام دینا محال ہو جائے۔ محض چند سو افراد جمع کرنے سے عوام کو چند دن اذیت پہنچائی جا سکتی ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں ہو سکتا۔ دھرنے اور جلسے جلوس میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ جلسہ یا جلوس بالعموم چند گھنٹوں کی سرگرمی ہے۔ دھرنا تو کئی دن کی درد سری ہے۔ جس ملک میں آئے دن جلسے جلوس ہوتے ہوں وہاں زندگی معمول کے مطابق نہیں چل سکتی۔ ٹریفک دنیا بھر میں ایک بڑا مسئلہ ہے۔ کسی وجہ سے چند منٹ کے لیے ٹریفک رک جائے تو اسے دوبارہ بحال ہونے میں گھنٹوں لگتے ہیں۔ اس میں وقت اور انسانی جان جیسی قیمتی چیزوں ضائع ہو جاتی ہیں۔احتجاج کا یہ کلچر ہمیں کہاں لے جا رہا ہے؟ یہ سوال اس وقت سنجیدہ توجہ کا مستحق ہے۔ مطالبے اور احتجاج کی نفسیات ایک قوم کی قوتِ عمل کو سلب کر لیتی اور اسے نفسیاتی مریض بنا دیتی ہے۔ اگر ایک قوم کی نفسیات ہی احتجاجی بن جائے اور سارا سال جلسے جلوس اور دھرنے جاری رہیں تو پھر نظامِ اقدار برباد ہوتا ہے اور زندگی بھی مفلوج ہو جاتی ہے۔احتجاجی کلچر کو کون ختم کر سکتا ہے؟ حکومت یہ کام نہیں کر سکتی۔کوئی بھی احتجاج ہو تو اس کا سب سے زیادہ نقصان احتجاج کرنے والوں کے جیسے ہی دوسرے عام شہریوں کو اٹھانا پڑتا ہے۔ جن بڑے لوگوں کے خلاف احتجاج ہو ان کے معمولات تو متاثر نہیں ہوتے البتہ ایسے روڈ بلاک میں کسی ایمبولینس کو پھنسے دیکھنا شاید ڈاکٹر ہونے کی وجہ سے بھی انتہائی تکلیف دہ ہے کیونکہ وہ گولڈن پیریڈ جس میں کچھ کیا جا سکے وہ شفٹنگ کے مسائل کی وجہ سے ضائع ہو جاتا ہے۔وی آئی پی مومنٹ پہ بات آئے تو لوگ اسے سیکیورٹی ورسز پروٹوکول کی بحث بنائے رکھتے ہیں، آپ کی حفاظت بھی ضروری ہے اور جانے کتنے برسوں تک پروٹوکول بھی لیکن جب آپ کی خاطر روٹ لگتا ہے تو لوگ پریشان ہوتے ہیں، رکشے ایمبولینس یا گاڑی میں ہسپتال جانے والے لوگ جن کا ہسپتال پہنچنا ضروری ہو وہ تو پھنسے رہ جاتے ہیں کہ جونہی سواری بادبہاری گزرتی ہے لوگ پہلے نکلنے کے چکر میں معاملہ مزید خرابی کی طرف لے جاتے ہیں۔ملکی تاریخ میں احتجاجی دھرنوں اور ہڑتالوں کی روایت بہت پرانی ہے۔ ملک کی تاریخ میں پہلی دفعہ بڑے پیمانے پر مظاہرے پچاس کی دہائی میں لاہور میں ہوئے، جب پہلی دفعہ پنجاب کے اس دارالحکومت میں مارشل لا نافذ کیا گیا۔ ساٹھ کی دہائی میں ایوب خان کے خلاف طلبہ کی تحریک چلی، جو بعد میں عوامی احتجاج میں بدل گئی۔ 70 کی دہائی میں نظام مصطفی تحریک چلی، جو ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تھی جب کہ اسی کی دہائی میں تحریک بحالی جمہوریت نے ملک کے طول و عرض پر اپنے پنجے گاڑے۔1988 میں جمہوریت کی بحالی کے بعد پہلے نواز شریف نے بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف احتجاج کیا اور اس کے بعد بے نظیر بھٹو نے نواز شریف کی حکومت کے خلاف لانگ مارچ کیا۔ بعد میں بھی دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کے خلاف احتجاج کیا۔ 2007 میں جنرل پرویز مشرف کے خلاف وکلا تحریک چلی اور بعد میں نون لیگ نے لانگ مارچ کیا۔دوہزار آٹھ کے بعد بھی نون لیگ اور پی پی پی نے ایک دوسرے کے خلاف تحریکیں چلائیں عمران خان کے دور اقتدار میں پاکستان پیپلز پارٹی، ن لیگ اور مولانا فضل الرحمن کی جماعتوں نے بھی لانگ مارچز اور احتجاج کئے۔ احتجاج اور احتجاجی تحریکوں کے ہمیشہ مقاصد مختلف رہے ہیںپاکستان میں کچھ احتجاجی تحریکوں کا رنگ عوامی رہا۔ کچھ صرف ذاتی مفادات کے لیے رہی ہیں اور کچھ نے پاکستان کے سیاسی کلچر کو بہت بری طرح برباد کیا۔ساٹھ کی دہائی میں ایوب خان کے خلاف چلنے والی تحریک میں مہنگائی، طبقاتی تفریق اور کسانوں و مزدوروں کے مسائل سرفہرست تھے۔ اس کے علاوہ جمہوریت بھی اس کا مرکزی نقطہ تھا جب کہ ستر کی دہائی میں چلنے والی تحریک نے پچاس کی مذہبی تحریک کی طرح پاکستان کو مذہبی منافرت کی طرف دھکیلا۔ اس تحریک کا بنیادی نقطہ معاشرے کے سماجی ڈھانچے کو نقصان پہنچانا تھا۔ اسّی کی دہائی میں چلنے والی تحریک بحالی جمہوریت کے مقاصد میں قومیتوں کے حقوق، کسانوں کے مسائل اور جمہوریت کی بحالی جیسے مسائل شامل تھے جب کہ نوے کی دہائی میں بے نظیر اور نواز شریف کی تحریکیں صرف اقتدار کے لیے تھی۔پاکستان کی تاریخ میںسیاستدانوں کے درمیان ماضی میں بھی اختلافات ہوتے رہے ہیں لیکن جتنی سیاسی عدم برداشت اور گالی گلوچ کو پی ٹی آئی اور عمران خان نے فروغ دیا ہے، شائد کسی نے اتنا نہ کیا ہو۔ماضی میں یہ نہیں ہوا کہ آپ میڈیا سے لے کر الیکشن کمیشن تک سب پر کیچڑ اچھالیں۔ آپ کے متعین سیاسی حریف ہوتے تھے، جن سے آپ بات چیت بھی کرتے تھے اور مذاکرات بھی کرتے تھے اور بعض اوقات کسی نتیجے پر بھی پہنچتے تھے لیکن اب اےسا نہےں ہوتا ۔صنعت کاروں کو یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ اگر وقت پر اپنی پیداوار کو عالمی مارکیٹ یا مقامی مارکیٹ تک نہیں پہنچائیں گے، تو ان کے نہ صرف آرڈرز کینسل ہو جائیں گے بلکہ کوئی بھی پاکستان سے کاروبار کرنے میں بہت زیادہ دلچسپی نہیں دکھائے گا۔ ہماری معاشی صورت حال یہ ہے کہ کسی وقت میں انڈیا کی معیشت ہم سے چار گنا آگے تھی اور اب وہ بارہ گنا آگے ہے۔ بالکل اسی طرح معاشی میدان میں ہمارا نمبر دنیا میں سڑسٹھواں ہے۔ احتجاجوں کی وجہ سے زرعی اجناس کو مارکیٹ تک پہنچایا نہیں جا سکتا۔ اگرزرعی اجناس کافی عرصے تک سڑکوں پر یا انتظار کی کیفیت میں رہیں، تو وہ گل سڑ جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں کولڈ اسٹوریج کا کوئی انتظام نہیں ہے، جس کی وجہ سے ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق ہمیں ایک بلین ڈالر سے زیادہ کا نقصان بھی ہوا ہے۔ تو یقینا کسانوں کو اور زراعت کو احتجاج اور دھرنوں سے شدید نقصان پہنچتا ہے۔احتجاج میں مسافروں کو جس شدید اذیت سے گزرنا پڑتا ہے اس کا اندازہ صرف وہی کر سکتا ہے جس کو اس کرب سے گزرنا پڑتا ہے۔ بسا اوقات تو ایسا ہوتا ہے کہ کئی مریض اسپتالوں میں پہنچنے سے پہلے ہی اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں لیکن حیرت ہے کہ ہماری انتظامیہ کراچی سے لے کر خیبر تک یہ سارا تماشا روز اپنی آنکھوں سے دیکھتی ہے مگر اسے روکتی نہیں، پی پی پی کے دور اول میں جب اس کلچر کی ابتدا ہوئی تھی تو کہا گےا تھا کہ اس جن کو بوتل سے نہ نکالیں کیونکہ اگر یہ ایک دفعہ باہر آ گیا تو پھر اس کا دوبارہ بوتل میں بند کرنا مشکل ہو گا۔ اب یہ معاملہ اس مقام تک پہنچ گیا ہے کہ اگر اس کا سدباب نہ کیا گیا تو یہ انارکی پورے ملک اور قوم کو تباہی کی طرف لے جائے گی۔ حکمرانوں کو اس طرف سنجیدگی سے توجہ دینا ہو گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ احتجاج کے لئے ہر شہر میں کوئی جگہ مخصوص کر دی جائے اور سڑکیں بند کرنے کی روش کو پوری قوت سے ختم کر دیا جائے۔
