وزیر اعلی گلگت بلتستان کے کوآرڈنیٹر تقی اخونزادہ نے کہا ہے کہ موثر ثقافتی سیاحتی پالیسیاں وضع کی جائیں جو نہ صرف ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھتی ہیں بلکہ پائیدار سیاحتی طریقوں اور مقامی کمیونٹی کی ترقی کو بھی فروغ دیتی ہیں۔ ثقافتی ورثے کے لئے کام کرنے والی تنظیم لاجورد کے زیر اہتمام ہیریٹیج ٹورازم پالیسی ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے تقی اخونزادہ نے کہا کہ گلگت بلتستان میں سیاحت ہی واحد صنعت ہے جس سے مقامی افراد کو روزگار کے ذرائع مل رہے ہےں تاہم سیاحت کے شعبے کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ ثقافتی ورثے کو محفوظ بنانے کے لئے پالیسی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ثقافتی ورثے کے سرمائے کو محفوظ انداز میں اپنی نسلوں کو منتقل کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے رویوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر پالیسی بنے گی بھی تو عملدرآمد میں رکاوٹیں حائل ہوں گی لہذا اس علاقے سے مخلص ہوتے ہوئے سیاحت کے فروغ اور ثقافتی ورثے کے تحفظ کے لیے خلوص دل سے کام کرنا ہوگا۔ ماہرین کے مطابق ثقافت معاشرتی وراثت کے مختلف عناصر میں سے ایک عنصر ہے۔ اس کا تعلق ان افکار و نظریات کے ساتھ ہے جنہیں معاشرے کے افراد اختیار کرتے ہیں اور یہ افکار و نظریات ان کی عملی زندگی میں مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتے ہیں۔ انسانی معاشرے میں آنے والی سماجی اور معاشرتی تبدیلیوں میں ایک محرک ثقافت بھی رہا ہے۔ ثقافت معاشرتی اور سماجی تبدیلی کا موجب ہوتی ہے، اگر وسیع تر تناظر میں ثقافت کے مفہوم و معنی کاتعین کیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ ثقافت معاشرے کا ایک ایسا پہلو ہے جس کا تعلق ان انسانی سرگرمیوں کے ساتھ ہے جو انسانی معاشرے میں انجام پاتی ہیں اس طرح ثقافت میں علوم، فنون اور عقائد سب شامل ہو جاتے ہیں اور اس میں معاشرے کے مختلف افراد کے وہ اسباب زندگی بھی شامل ہیں جن کے تحت وہ زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ یعنی ثقافت معاشرے کے اعتقادی، فکری اور معاشرتی پہلوں سے عبارت ہے۔ ثقافت کی اِصطلاح انسانی زندگی کی تمام سرگرمیوں کا احاطہ کرنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے، جب انہیں نفسیاتی طور پر دیکھا جائے۔ علم البشریات کے ماہرین اس اصطلاح کو ابتدائی انسان کے کام مثلا اوزار بنانا، ٹوکریاں، کشتیاں اور اس طرح کی دوسری چیزیں جو مادی ثقافت کی مختلف شکلیں ہیں، کی اصطلاح کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ عام ذہن ثقافت کو مہذب معاشرہ کی اصطلاح سمجھتا ہے جہاں یہ اچھے آداب و اطوار اور مہذب علمی گفتگو کا مظہر ہوتی ہے۔ ایک غیر مہذب فرد کوجو ان اوصاف سے محروم ہو اور چاہے وہ اپنی صحرائی اور وحشی ثقافت میں فائق تر ہی کیوں نہ ہو اسے غیر تہذیب یافتہ یعنی غیر شائستہ سمجھا جاتا ہے بالکل اس طرح جیسے لفظ، جانور ایک معمولی کیڑے مکوڑے سے بڑے جانوروں تک تمام نوع حیوانات کا احاطہ کرتا ہے۔ اس طرح لفظ ثقافت میں ابتدائی انسان کی ذہانت کی معمولی جھلملاہٹ سے لے کر جدید شہری آبادی کے شکوہ تک سب شامل ہیں۔بعض ان میں صرف معرفت، عقائد، فنون اوراخلاق کو شامل کرتے ہیں، جب کہ بعض کے نزدیک اس میں دین، خاندان، جنگ، امن جیسے ضابطے بھی شامل ہیں جو انسانی نفسیات اور حیاتیات تک کا احاطہ کیے ہوتے ہیں۔ تاہم اگر ہم مشرق اور مغرب کے تصورِ ثقافت کو دیکھیں تو اسلام اور غیر اسلامی دنیا کے تصورِ ثقافت میں بنیادی فرق تصورِ دین کا ثقافت کا عنصر ہونا ہے۔ کیوں کہ مغربی نظریات میں دین سے مراد ایک ما بعد الطبیعاتی نکتہ نظر ہے جس کا تعلق علوم و فنون سے ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ زندگی کی زندہ اور عملی قدر نہیں جبکہ اسلامی نکتہ نظر میں دین ما بعد الطبیعاتی اور فلسفیانہ حقیقت نہیں ہے بلکہ زندگی کی ایک ایسی زندہ حقیقت ہے جس سے زندگی کا کوئی گوشہ خارج اور باہر نہیں ہے کیونکہ جب دین کو محض ایک فلسفیانہ مسئلہ سمجھ لیا جائے تو اس سے عقیدہ اخلاقی اقدار اور زندگی کے عملی معاملات سے بالاتر ہو کر ایک مجرد تصور رہ جاتا ہے۔ جس کا زندگی پر کوئی اثر نہیں رہتا۔ زندگی اخلاقی اقدار سے محروم ہوتی چلی جاتی ہے۔ جس کا مظہر آج کا مغربی معاشرہ ہے۔ ہر معاشرہ اپنی جداگانہ روایات تہذیب وتمدن اور ثقافت رکھتا ہے اور کسی بھی خطے،قوم یا ملک کی تہذیب و ثقافت نہ صرف اس کی تاریخی ترجمان ہوتی ہے پاکستان اس اعتبار سے ایک انمول ریاست ہے جہاں ہڑپہ، موہنجوداڑو، مغلیہ اورگندھارا تہذےبوں کے آثار ملتے ہیں۔پاکستان میں ایسے تاریخی وتفریحی مقامات موجود ہیں جو ہر کسی کا دل موہ لیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ یونیسکو پاکستان کے چھ مقامات کو عالمی ثقافتی ورثے میں شامل کرچکا ہے۔ان چھ مقامات میں موہنجوداڑو،تخت بھائی کے کھنڈرات،شاہی قلعہ،شالامارباغ لاہور،مکلی کا قبرستان اور جہلم کا قلعہ روہتاس شامل ہیں۔اسی طرح ہمارے شعر وادب اور ذوقِ جمالیات کو سنوارنے میں حافظ،سعدی اور رومی نے جوکردار ادا کیا اس سے کون انکار کر سکتا ہے؟ الغرض ہماری ثقافت کی جڑیں اپنی آفاقیت کے باوجود اس دھرتی میں پیوست ہیں۔اس سرزمین پر علم و ثقافت ،فکر ونظر اور حکمت و دانش کے جو کاروان گزرے ہیں،ہم ان کے وارث ہیں اور اس سر زمیں پر بسنے والے انسان کے حصہ میں تاریخ کی صبح سے لے کر آج تک جو کامیایباں،ناکامیاں،دکھ درد اور مسرتیں آیہیں یا اس نے اپنے اندرونی احساسات کے اظہار کے لیے دیرو حرم میں جو درد ناک صداہیں بلند کی ہیں اور کائنات کے حسن وجمال سے مسحور ہو کر بے اختیار خدا کی حمد وثنا میں ملکوتی نغمے بکھیرے ہیں،یہ سب کچھ ہماری میراث ہیں۔ اپنی تہذیبی و ثقافتی میراث کا گہرا شعور ہمیں ایک صحت مند اور با وقار زندگی بسر کرنے کا حوصلہ اور ولولہ عطا کرتا ہے۔پاکستان دنیا کے ان خوش قسمت ترین ملکوں میں شامل ہے جہاں قدیم ترین تہذیبوں کا ورثہ موجود ہے۔سرزمین پاک کو قدرت نے کہیں برف پوش پہاڑوں سے مزین فرمایا تو کہیں لق و دق صحرا دکھائی دیتے ہیں۔ ایک طرف چٹیل میدان ہیں تو دوسری طرف گہرے نیلے سمندر اور کہیں سرسبز و شاداب درختوں کی آبادیاں لہلہاتی نظر آتی ہیں اور کہیں پانی کی بوندبوند کو ترستے صحرائی علاقے۔ پاکستان کے اکثر علاقے دل موہ لینے والے مناظر سے مالا مال ہیں۔ وطن عزیز میں جو آثار قدیمہ اور تاریخی مقامات پائے جاتے ہیں ان کی حفاظت میں کسی قدر عدم توجہی سے کام لیا جاتا ہے کیونکہ ملک میں کوئی ایسا ذمہ دار محکمہ موجود نہیں ۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ ملکی ترقی کے نام پر بے ہنگم منصوبہ بندی بھی اس ملک کے تاریخی اثاثوں کو برباد کر رہی ہے ۔ اس طرح ہم خود ہی اپنے تاریخی ورثے اور تاریخی مقامات کو نقصان پہنچانے کے ذمہ دار ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں ان تاریخی ورثوں اور تاریخی مقامات کے قریب کوئی ایسی عمارتیں تعمیر نہیں کی جاتیں جن سے ان مقامات کو نقصان پہنچے مگر افسوس ہمارے یہاں کسی کو فکر نہیں کہ یہ ہماری پہچان ہے اور قدیم تہذیب و روایات کا حصہ ہے۔ کسی طور ان آثار کو نقصان نہیں پہنچنا چاہئے۔ یہ ورثے ہماری تہذیب و روایات اورتمدن کی عکاسی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہمیں اپنی تہذیب و روایات تاریخی عمارتوں کی حفاظت کیلئے کوئی نہ کوئی اقدام کرنا چاہئے تاکہ انہیں باقی رکھا جاسکے۔ اگر ہم ملکوں کی تاریخ کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ کسی بھی قوم کے آثار قدیمہ اس کا قیمتی سرمایہ اور قومی ورثہ ہوتے ہیں جو نہ صرف اپنے اندر اس قوم کی تہذیب و ثقافت کی پوری تاریخ سموئے ہوتے ہیں بلکہ اپنے اندر بڑی کشش بھی رکھتے ہیں۔ بالخصوص سیاحوں کے لئے ماضی کے تاریخی کھنڈرات نہایت دلچسپی کا باعث ہوتے ہیں۔ محققین ِآثار قدیمہ ، کھنڈرات سے قدیم تہذیبوں کے راز تلاش کرکے تاریخ مرتب کرتے ہیں۔ زندہ قومیں اپنی تہذیب و ثقافت کو کبھی فراموش نہیں کرتیں بلکہ اپنے ماضی اور آبا واجداد کی روایات ، اقدار، تمدن اور معاشرت کو نہ صرف زندہ رکھنے کی کوشش کرتی ہیں بلکہ ان کی حفاظت اور نسل نو کو ان سے روشناس کرانے اور آئندہ نسلوں تک ان کی منتقلی کو یقینی بنانے کیلئے کوشاں رہتی ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اپنی ثقافت اورتاریخی ورثہ ، قدیم تہذیبوں سے متعارف کراناہمارا قومی فریضہ ہے۔زندہ قومیں آثار قدیمہ پر فخر کرتی ہیں۔دنیا بھرمیں تاریخی ورثے لاکھو ں، کروڑوں سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنتے ہیں اور یوںان تاریخی مقاما ت سے قیمتی زرمبادلہ کمایاجاتا ہے ۔ہمارے وطن عزیزمیں معاملہ ذرا برعکس ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم آثار قدیمہ کی اہمیت و افادیت سے بالکل عاری ہیں گویا ہمیں اپنی ثقافتوں کی فکر ہے نہ اپنی وارثت کی کوئی پروا، نہ اپنی تاریخی نشانیوں کا احساس ہے کہ انہیں محفوظ کیسے رکھنا ہے،نہ کسی اور بات کی خبر۔ ان پر توجہ نہ دے کرہم نے سبھی کچھ تقریبا ختم کر ڈالا ہے۔ بروقت ان کی حفاظت نہ کرکے ہم نے اچھا نہیں کیا۔ اب بھی اگر ہنگامی اقدامات نہ کئے گئے تو جلد یہ بچی کچھی تاریخی نشانیاں بھی مٹی ہوجائیں گی۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ جو رقم ان کی دیکھ بھال کیلئے مختص کی جاتی ہے وہ بھی مختلف غیر ذمہ داران ہڑپ کرجاتے ہیں ۔ یہی حال دوسرے تاریخی مقامات کا ہے۔ یہ سب بہت افسوسناک صورتحال ہے۔ ہمیں اس جانب فوری توجہ دینی چاہئے۔گلگت بلتستان کے حکام کو چاہےے کہ وہ ےہاں موجود ورثے کی حفاظت کو ےقےنی بنائےں تاکہ آنے والی نسلےں اس بارے میں جان سکےں۔
