گلگت بلتستان کی مقامی زبان بروشسکی کا رسم الخط منظور کر لیا گیا ہے، قومی نصاب کونسل سیکرٹریٹ میں بروشسکی پرائمر کی تقریب رونمائی جس میں فارسی اور رومن رسم الخط میں بروشسکی کے رسم الخط کی منظوری دی گئی ۔ اس تقریب کی مہمان خصوصی نیشنل کریکولم کونسل آف پاکستان کی ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر مریم چغتائی تھیں۔قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے ڈاکٹر معیز الدین ہکل نے اس رسم الخط کی نشوونما کےلئے ذمہ دار متعدد افراد کے تعاون کو پیش کیا جو اب بروشسکی کی ہر بولی کے لیے معیاری رسم الخط کے طور پر تیار ہوا ہے۔ اس زبان کو پہلی بار 1854 میں الیگزینڈر کننگھم نے کھجونا کے نام سے ریکارڈ کیا تھا۔ بروشو ماراکا کے ممبران اور ایڈیٹوریل بورڈ کے ممبران کے تعاون کا یہاں اعتراف کیا گیا ہے۔مریم چغتائی نے کہا کہ ہمیں اپنی زبانوں پر جشن منانا چاہیے اور یہ حکومت کی بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ اس ادارے کی طرف سے کالاشہ کلچر پر اسی طرح کا کام جاری ہے۔ لہذا ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کے لیے بروشسکی جیسی مرتی ہوئی زبانوں اور ثقافت کو محفوظ اور فروغ دینے کی ضرورت ہے۔صدر بروشو ماراکا محمد وزیر شفیع نے اس معیاری رسم الخط کی ترقی میں اپنی صلاحیتوں کا حصہ ڈالنے والے ہر فرد کا اعتراف کیا۔بروشو ماراکا کے بانی رکن مجیب الدین نے غیر مطبوعہ ادب کی اشاعت کی اہمیت پر روشنی ڈالی جو قومی نصاب کونسل آف پاکستان جیسے اداروں کی سرپرستی کا منتظر ہے۔تقریب کے چیئرنگ آفیسر سہیل بن عزیز نے بروشسکی جیسی زبان کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔انہوں نے کہا بروشسکی اسٹڈیز کے لیے تاریخی دن ہے جس نے اس چھت کے نیچے اپنے اسکرپٹ کا اعلان کیا ہے۔کشمیر اور گلگت بلتستان میں مقامی زبانوں کے تحفظ کی کوششیں عرصے سے جاری ہےں ۔اےک پروگرام میں آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کی سرکاری یونیورسٹیوں پر توجہ دی گئی تھی۔ اس منصوبے کے تحت ستائےس افراد کو بنیادی لسانی تجزیے، زبان کو دستاویزی صورت میں لانے کے ضروری طریقوں، اس حوالے سے درکار سافٹ ویئر کے استعمال اور لسانی ڈیٹا کے انتظام کی مہارتوں میں تربیت دی گئی اور بعد میں انہیں ان مہارتوں پر عمل کرنے کا موقع فراہم کیا گیا۔ان تربیت یافتہ فیکلٹی ممبران اور کنسلٹنٹس نے گلگت بلتستان کے اضلاع ہنزہ، نگر اور اسکردو کا دورہ کیا اور ڈیٹا اکٹھا کرنے اور اس کا تجزیہ کرنے کے لیے شینا، کھوار، واخی، بلتی، بروشاسکی اور ڈوماکی زبان بولنے والوں کے ساتھ کافی وقت گزارا۔پراجیکٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالقادر خان کے مطابق، کل پےنتےس فیکلٹی ممبران اور 180 طلبا اور لینگوئج ایکٹوسٹس کو سات متعلقہ یونیورسٹیوں میں ورکشاپس کے ذریعے تربیت دی گئی۔ دوپانچ روزہ ورکشاپس کا انعقاد بھی کیا گیا جن میں سے ایک کشمیر میں مقیم شرکا کے لیے آزاد جموں و کشمیر یونیورسٹی میں اور دوسری گلگت بلتستان ریجن کے لیے قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی میں منعقد کی گئی۔ اس کے علاوہ اس پروگرام کے تحت طلبا اور مقامی کمیونٹی کے لیے تےن آگاہی سیمینار بھی منعقد کیے گئے۔ ان خطوں میں بولی جانے والی زیادہ تر زبانیں غیر دستاویزی ہیں، ان کی کوئی گرامر یا لغت نہیں ہے اور یہ اسکولوں میں بھی نہیں پڑھائی جاتی ہیں۔ ان زبانوں کے بولنے والے اردو اور انگریزی زبانوں کی طرف منتقل ہو رہے ہیں جس کے نتیجے میں ہماری قیمتی ثقافت، روایات اور مقامی اقدار کو بہت نقصان پہنچ رہا ہے۔علاقائی زبانوں کو درپیش خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے اقدامات کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے اور انہیں دیگر علاقوں میں بھی شروع کرنا چاہیے۔آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان خاص طور پر اپنی مقامی زبانوں کے فروغ اور انہیں دستاویزی صورت میں لانے کے ذریعے اپنے ورثے، مظاہرِ فطرت اور ثقافتی تنوع کو محفوظ رکھنے کے لیے حکومتی سرپرستی کے خواہاں ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی مدد کی جائے اور اسی طرح کی کوششیں دوسرے صوبوں میں بھی شروع کی جائیں۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر سابا کوروشی نے کہا تھا کہ ان لوگوں کی زبانوں کو محفوظ رکھنا صرف انہی کے لیے ہی نہیں بلکہ تمام انسانیت کے لیے بھی اہم ہے۔ہر مقامی زبان کی معدومیت کے ساتھ اس کے ساتھ وابستہ تصورات، ثقافت، روایت اور اس میں پایا جانے والا علم بھی چلا جاتا ہے۔ یہ اس لیے اہم ہے کیونکہ ہمیں اپنے ماحول سے تعلق کے انداز میں بنیادی تبدیلی لانے کی اشد ضرورت ہے۔ دنیا کی آبادی میں مقامی باشندوں کی تعداد چھ فیصد سے بھی کم ہے لیکن وہ دنیا کی اندازا 6700 میں 4000 سے زیادہ زبانیں بولتے ہیں۔تاہم، محتاط اندازوں کے مطابق اس صدی کے اختتام تک دنیا کی تمام زبانوں میں سے نصف معدوم ہو جائیں گی۔اگر ہم فطرت کا کامیابی سے تحفظ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں مقامی باشندوں کی بات ان کی اپنی زبانوں میں سننا ہو گی۔مقامی باشندے دنیا میں باقی ماندہ حیاتیاتی تنوع کے تقریبا 80 فیصد حصے کے محافظ ہیں۔ہر دو ہفتے کے بعد ایک مقامی زبان ختم ہو جاتی ہے۔ اس صورتحال کو ہمارے لیے خطرے کی گھنٹی ہونا چاہیے۔جنرل اسمبلی کے صدر نے ممالک پر زور دیا تھا کہ وہ مقامی لوگوں کے حقوق کا تحفظ کرنے کے لیے ان کے ساتھ مل کر کام کریں۔ اس میں ان کی مقامی زبانوں میں تعلیم اور وسائل تک رسائی اور انہیں اور ان کے علم کو استحصال سے بچانے کی یقین دہانی جیسے اقدامات شامل ہیں۔مقامی لوگوں کے ساتھ بامعنی مشاورت اور انہیں فیصلہ سازی کے عمل میں ہر مرحلے پر ساتھ لے کر چلنا غالبا سب سے اہم ہے۔اشتےاق احمد ےاد کے مطابق سابق چیف سیکرٹری گلگت بلتستان ڈاکٹر کاظم نیاز صاحب نے گلگت بلتستان لینگویجز اکیڈمی کے قیام کیلئے اعلی سرکاری اہلکاروں پر مشتمل ایک کمیٹی بھی تشکیل دی تھی۔کمےٹی کو نصاب سازی و لینگویجز اکیڈمی کے قیام کی کلیدی ذمہ داری سونپی گئی۔نصاب سازی کا براہِ راست تعلق محکمہ تعلیم گلگت بلتستان سے تھا اس لئے سیکرٹری تعلیم گلگت بلتستان ثنا اللہ صاحب اور ان کی ٹیم کو بھی اہم ذمہ داری دی گئی تھی۔چیف سیکرٹری اور اِس کمیٹی کے دیگر معزز ممبران کی مشاورت کے بعد ثنا اللہ صاحب اور ظفر وقار تاج صاحب نے مقامی زبانوں میں نصاب سازی کیلئے پانچ زبانوں کے ماہرینِ لسانیات اور ادیبوں پر مشتمل ایک سربراہ کمیٹی جبکہ ہر زبان کیلئے الگ الگ ذیلی کمیٹیاں تشکیل دی تھےں۔پھراول ادنی جماعت سے لیکر تیسری جماعت تک شنا زبان کی کتابوں کا مسودہ تیار ہوچکا تھا۔ مستقبلِ قریب میں شینا زبان کی نصابی کتابوں کو سامنے رکھتے ہوئے بلتی، بروشسکی، کھوار اور وخی زبانوں کی کمیٹیوں کے اراکین نے اپنی اپنی زبانوں میں نصاب سازی کا عمل مکمل کرنا تھا۔گلگت بلتستان کی مقامی زبانوں میں ایک زبان ڈوماکی ہے۔ جو معدومیت کی صورتِ حال سے دوچار ہے۔ اس زبان پر تحقیقی کام کرنے اور معدومیت کی صورتِ حال سے نکالنے کی اشد ضرورت ہے۔ جبکہ گوجری زبان بھی اربابِ بست و کشاد کے توجہ کی متقاضی ہے۔دنیا بھر میں ہر سال اکےس فروری کو زبانوں کی پہچان اور اہمیت سے آگاہی کے لئے مادری زبانوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں تقریبا سات ہزار زبانیں بولی جاتی ہیں۔لیکن صد افسوس کہ آج تک مقامی زبانوں کو وہ مقام و مرتبہ حاصل نہیں ہو سکا جو ان کا اولین حق تھا۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی قوم کو مٹانا ہو تو اس کی زبان مٹا دو تو قوم کی روایات، تہذیب، ثقافت، تاریخ اور اس کی قومیت غرض سب کچھ مٹ جائے گا۔مادری زبان انسان کی شناخت، ابلاغ، تعلیم اور ترقی کا بنیادی ذریعہ ہے لیکن جب زبان ناپید ہوتی ہے تو اس کے ساتھ تہذیب و تمدن اور ثقافت کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے۔اسی لئے دنیا بھر میں ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دیے جانے کا انتظام ہوتا ہے کیونکہ بچے کے ذہن میں راسخ الفاظ اس کے اور نظام تعلیم کے درمیان ایک آسان اور زود اثر تفہیم کا تعلق پیدا کر دیتے ہیں۔لیکن انگریز نے پنجاب میں رائج نظامِ تعلیم کو ختم کرتے ہوئے پرائمری تک تعلیم کے لیے ،مقامی زبانوں کی جگہ اردو زبان کو لازمی قرار دیا۔ جبکہ فارسی کی جگہ انگریزی سرکاری زبان بنا دی گئی ۔ انگریزی بولنے اور پڑھنے والے اعلی تعلیم یافتہ کہلانے لگے،باقی سب جاہل تھے ۔انگریز نے غلامی کا وار اس انداز میں کیا کہ مسلمانوں کا صدیوں سے رائج نصاب بے وقعت ہو گیا۔ ایک طرف مسلمان معاشی طور پر دلد ل میں پھنستے چلے گئے تو دوسری طرف تعلیمی میدان میں انگریزی زبان کے فروغ کا زور و شور ان کو لے ڈوبا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انگریزی ایک ترقی یافتہ اور جدید سائنسی علوم کے ذخیرے سے مالا مال زبان ہے لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دنیا کی کسی بھی قوم نے اپنی زبان اور روایات چھوڑ کر کسی غیر کی زبان اور تہذیب و تمدن کو اپنا کر کبھی ترقی نہیں کی۔ کیونکہ مادری زبان انسان کی شناخت، ابلاغ، تعلیم اور ترقی کا بنیادی ذریعہ ہے لیکن جب زبان ناپید ہوتی ہے تو اسکے ساتھ ثقافتوں اور روایات کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے۔ جن معاشروں میں دانشوراپنی دھرتی کے ساتھ جڑے رہتے ہیں اور ان کا تعلق اپنی مٹی کے ساتھ مضبوط ہوتا ہے تو ان ممالک کی عوام اپنی ثقافت، زبان اور اپنی تاریخ پر فخر کرتی ہیں۔لہذا ہمیں ہر صورت مقامی زبانوں کا تحفظ کرنا چاہیے۔
