خیبر پختونخوا کے دار الحکومت پشاور میں پولیس لائنز کے قریب واقع مسجد میں دھماکے کے نتیجے میں 44 افراد شہید اور 157 زخمی ہوگئے جبکہ مزید اموات کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ شہر کے تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے اور زخمیوں کو طبی امداد دی جا رہی ہے۔کہا جا رہا ہے کہ پشاور کی مسجد میں ہونے والا دھماکا خودکش تھا۔ دھماکے کے بعد مسجد کی چھت منہدم ہوگئی، متعدد جوان اب بھی ملبے کے نیچے پھنسے ہوئے ہیں اور امدادی کاموں میں مصروف رضاکار انہیں نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دھماکے کی نوعیت سے متعلق ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔دھماکے کے وقت وہاں تےن سو سے چار سو کے درمیان پولیس اہلکار موجود تھے، سی سی پی او نے کہا کہ بظاہر ہے یہ ہی لگتا ہے کہ کہیں سیکورٹی میں کوتاہی ہوئی۔یہ انتہائی افسوس ناک واقعہ ہے اور بحیثیت مسلمان مسجد میں باجماعت نماز کی ادائیگی کے دوران ہونے والے حملے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ وزیراعظم کو پشاور پولیس لائنز مسجد میں ہونے والے دھماکے کے حوالے سے تمام تر پہلوﺅں پر بریفنگ دی گئی۔دھماکے کی نوعیت کے حوالے سے تاحال تعین نہ ہوسکا کہ آیا بم مسجد کے اندر نصب کیا گیا تھا یا خود کش حملہ تھا اور حملے کی ذمہ داری بھی کسی نے قبول نہیں کی۔ دھماکا دوپہر تقریبا ایک بج کر چالےس منٹ پر اس وقت ہوا جب ظہر کی نماز ادا کی جا رہی تھی، دھماکا شدید نوعیت کا تھا جس کے باعث مسجد کی چھت اور دیوار منہدم ہوگئی۔گورنر ہاﺅس، وزیراعلی سیکریٹریٹ، کور کمانڈر اور اہم دفاعی تنصیبات کی طرف جانے والے راستے بند کردیے گئے۔سجد سے متصل عمارت کی کھڑکیاں بھی دھماکے کی شدت کے باعث ٹوٹ گئیں۔دھماکے کے بعد پولیس، فوج اور بم ڈسپوزل اسکواڈ سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے جائے وقوع کو گھیرے میں لے لیا جب کہ امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔وزیراعظم شہبازشریف نے پولیس لائنز پشاور کی مسجد میں خود کش دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ شہریوں کا ناحق خون بہانے والوں کو عبرت کا نشان بنائیں گے۔ اللہ تعالی کے حضور سربسجود مسلمانوں کا بہیمانہ قتل قرآن کی تعلیمات کے منافی ہے، اللہ کے گھر کو نشانہ بنانا اس بات کا ثبوت ہے کہ حملہ آوروں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، دہشت گرد پاکستان کے دفاع کا فرض نبھانے والوں کو نشانہ بنا کر خوف پیدا کرنا چاہتے ہیں، پاکستان کے خلاف جنگ کرنے والوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیں گے۔وزیراعظم نے کہا کہ شہریوں کا ناحق خون بہانے والوں کو عبرت کا نشان بنائیں گے، دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پوری قوم اور ادارے یکسو اور متحد ہیں،پوری قوم اپنے شہدا کو سلام عقیدت پیش کرتی ہے۔شہباز شریف نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں امن وامان کی بگڑتی صورتحال پر جامع حکمت عملی اپنائیں گے، وفاق صوبوں کی انسداد دہشت گردی کی صلاحیت بڑھانے میں تعاون کرے گا۔دہشت گرد اےک بار پھر سر اٹھا رہے ہےں‘ ان دہشت گردوں کا قلع قمع کرنا بہت ضروری ہے یہ دہشت گرد اعلی تربیت یافتہ ہیں اور پاکستان مخالف قوتوں کے آلہ کار ہیں اور یہ پاکستان کا امن تباہ کرنا چاہتے ہیں پاکستان میں دہشت گردی کی حالیہ کاروایوں کو جس طرح افواج پاکستان،پولیس اور اداروں کے نڈر نوجوانوں نے روکا اس پر انہیں خراج تحسین پیش کرنے کی بھی ضرورت ہے دہشت گردوں کو افواج پاکستان اور اداروں نے یہ پیغام دے دیا ہے کہ پاکستان اس بار پوری طرح ان سے نمٹنے کیلئے تیار ہے اور اس کے پاس اعلی تربیت یافتہ نڈر فورس موجود ہے اور جدید ساز و سامان کیساتھ جدید ٹیکنالوجی بھی موجود ہے ۔ملک بھر خصوصا صوبہ خیبر پختونخوا میں لا قانونیت کی نئی لہر نے سر اٹھا لیا ہے اور حالیہ دنوں میں جس طرح سےکیورٹی اداروں کے اہلکاروں پر دہشت گردانہ حملے کئے جا رہے ہیں ان سے عوام کے اندر خوف کی لہریں ابھرنا فطری امر ہے۔گزشتہ دنوں نستہ میں پولیس چوکی پر دہشت گرد حملے میں ایک سیکورٹی اہلکار شہید جبکہ دو سپاہی زخمی ہو گئے ہیں، جوابی کارروائی میں ایک حملہ آور زخمی ہوا ‘ایک اور تھانے پر دہشت گرد حملے میں ایک پولیس افسر اور دیگر سکیورٹی اہلکاروں کی شہادت کی خبر آچکی ہے، جو صوبے میں لا قانونیت کی ایک بار پھر عود کرآنے کی واضح نشانیاں ہیں، بعض دیگر واقعات میں کچھ لوگوں کو بھتے کی کالیں موصول ہونے اور ان کو نظر انداز کرنے کے بعد ان کے گھروں پر دستی بموں سے حملے کرنے کی خبریں بھی لاقانونیت میں اضافے کی نشانی ہیں، اگرچہ سی ٹی ڈی اہلکار کے گھر پر دستی بم سے حملہ اور پولیس پر حملوں کے پیش نظر مین شاہراہ پر ناکہ بندیاں بڑھا کر چیکنگ سخت کر دی گئی ہے، دہشت گردوں کے پاس رات کی تاریکی میں حملہ کرنے والے آلات بھی موجود ہیں جن سے ان کے حملے کرنے کی صلاحیت کہیں زیادہ ہے اور ان آلات کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد طالبان کے ہاتھ لگے ہیں اور وہیں سے دہشت گردوں کو فراہم کئے جا رہے ہیں،نگران صوبائی حکومت ہی ممکنہ طور پر اس حوالے سے پیش رفت کر سکتی ہے۔بہرحال صوبے میں دہشت گردی کی روک تھام کیلئے ضروری اقدام اٹھانا صوبائی حکومت کی اولین ذمہ داری بنتی ہے۔ دہشت گرد بلواسطہ و بلا واسطہ حملے کرتے ہیںانکا تعلق زیادہ ترسیاسی و تزویراتی ہے۔عوامی سطح پر بے چینی اوراحساس عدم تحفظ پیداکر کے حکومت وقت پرعوامی و سیاسی دباﺅمیں اضافہ کرنامقصود ہو تو مذہبی دہشت گردشہری آبادی پراسطرح حملہ کرتا ہے جسمیں زیادہ سے زیادہ لوگ ہلاک ہو جائیں۔شہری آبادی پراس قسم کاحملہ کرناہوتو رہائشی علاقوں یامذہبی رسومات پر اسطرح حملہ کرتے ہیں کہ جسمیں زیادہ سے زیادہ ہلاکتیں ہوجائیں تاکہ حکومت ِوقت کی کارکردگی کوعوام کے سامنے بے اثراورانتہائی شرمناک بنایاجاسکے۔ اسطرح کے حملے سے دہشت گرد تنظیمیں معاشی، معاشرتی اورسیاسی نقصانات پہنچاتی ہےں جبکہ دوسری طرف حکومتِ وقت کوشدیدسیاسی چوٹ دی جاتی ہے۔ پیپلزپارٹی کی گزشتہ دورحکومت میں دہشت گردی کاجب کوئی واقعہ ہوجاتاتوسیاسی جماعتوں اور عوامی حلقوں کی جانب سے حکومت کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوتاجاتاجسکی وجہ سے اسکی سیاسی ساکھ کو سخت دھچکا پہنچتا۔ماضی میں دہشت گردتنظیموں کوبنانے کیلئے بین الاقوامی سطح پرجسطرح کئی ممالک مشترکہ طورپرفنڈزاوراسلحہ مہیاکرتے تھے آج انہی ممالک پرمشتمل فوجی اتحادتشکیل دیکر ان مذہبی دہشت گردتنظیموں کے خلاف فوجی آپریشن کیاجارہاہے۔اقوام متحدہ کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ افغانستان میں مقیم غیر ملکی دہشت گرد گروپ طالبان کی فتح کو وسطی اور جنوبی ایشیا میں اپنے اثر و رسوخ کو اجاگر کرنے کی مہم کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ بلاشبہ یہی پراگندہ مہمات استعماری قوتوں کے خلاف خود مختیاری کی جنگ لڑنے والی مظلوم قوموں کا مورال بلند اور غاصب قوتوں کا ڈیٹرنٹ کند ہونے جانے کا تاثر قائم کرتی ہیں۔ رپورٹ میں افغانستان میں دہشتگردوں کی فعال موجودگی کے ساتھ اہم دہشت گرد تنظیموں میں القاعدہ، اسلامک موومنٹ آف ازبکستان، ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ، تحریک طالبان پاکستان اور اسلامک اسٹیٹ خراسان جیسی خطرناک تنظمیوں کی نشاندہی ملتی ہے، اس کرہ ارض کی دو بڑی طاقتوں نے گریٹ گیم کے تحت پچھلی ڈیڑھ صدی سے افغانیوں کو میدان کارزار کا ایندھن بنانے کے سوا کچھ نہیں دیا، اس لئے وہاں معاشرتی نظام کو ریگولیٹ کرنے والا ادارہ جاتی ڈھانچہ اور پولیس فورس استوار ہو سکی نہ دفاعی نظام کو متشکل کرنے والی منظم فوج کھڑی نظر آتی ہے۔امریکیوں نے بیس سالوں کی سر توڑ کوشش کے بعد تین لاکھ جوانوں پہ مشتمل نیشنل آرمی بنائی، کاغذات میں تو تین لاکھ تھی مگر برسرزمین فوج کی تعداد سوا لاکھ سے زیادہ نہیں ہو گی اعلی پایہ کے امریکی ماہرین کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے اور اربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود بھی وہ ملی اردو کو پروفیشنل آرمی نہ بنا سکے چنانچہ جونہی نیٹو فورسز نے کابل سے قدم باہر نکالے افغان آرمی ہوا میں تحلیل ہو گئی، جس کے بعد افغانستان کے طول و ارض میں پھیلی فوجی چھاﺅنیوں میں بھاری مقدار میں پڑا جدید اسلحہ اور لاتعداد ایمونیشن پہ ان عسکری گروپوں نے قبضہ کر کے ایک بار پھر باہمی جنگ و جدل کی پوزیشن اختیار کر لیا امریکیوں نے دانستہ اسی نیت سے یہاں بھاری مقدار میں اسلحہ اور بارود چھوڑا تاکہ عسکریت پسندوں کے متحارب دھڑے کئی سالوں تک محو جنگ رہ سکیں۔بلاشبہ سرحد پار سے پھوٹنے والی دہشت گردی کی تازہ لہر، جس میں پولیس اور سیکیورٹی فورسز کو ہدف بنایا جا رہا، علاقائی امن کے لئے خطرہ ثابت ہو سکتی ہے، شاید اسی لئے وفاقی وزیر داخلہ نے پڑوسی ملک کے حکمرانوں پر زور دیا کہ وہ افغان سر زمین سے نکلنے والی دہشت گردی کے خلاف اپنے عہد و پیماں کا احترام کریں۔ چونکہ اس تنظیم کے کئی کمانڈر ماضی میں افغان طالبان کے اتحادی ہونے کی وجہ سے افغانستان میں پناہ لئے بیٹھے ہیں، اس لئے ٹی ٹی پی کی طرف سے تشدد کی تازہ وارداتوں کی ذمہ داری قبول کرنے سے پاک افغان تعلقات کو متاثر ہوں گے۔
