صحت کی سہولیا ت کے حوالے سے اہم قدم

چیف سیکرٹری گلگت بلتستان محی الدین احمد وانی نے شفا انٹرنیشنل ہسپتال اسلام آباد کے دورے کے موقع پر گلگت بلتستان میں صحت کی سہولیات کو بہتر بنانے کیلئے ضلع میں مختلف ہیلتھ کیئر سیٹ اپ کا دورہ کرنے والی ہسپتال کی سینئر انتظامیہ سے ملاقات کی۔ شفا انٹرنیشنل ہسپتال نے قابل کنسلٹنٹس کی تقرری کے علاوہ تمام ہیلتھ کیئر سروسز،پراسسز اور بنیادی ڈھانچے کی بہتری کے لیے پیشہ وارانہ مشاورت پیش کرنے پر اتفاق کیا۔ چیف سیکرٹری نے شامل ہونے والے تمام ڈاکٹروں کے ساتھ مکمل تعاون اور رہائشی سہولیات کی یقین دہانی کرائی۔چیف سیکرٹری نے اس امر کو سراہا کہ پروگرام کی کامیابی کے لیے شفا انٹرنیشنل ہسپتال اسلام آباد ڈاکٹروں کی ایک بیک اپ ٹیم کی صورت میں مناسب سہولت فراہم کرے گا تاکہ گلگت بلتستان کے لوگوں کو مسلسل اور بلا رکاوٹ صحت کی خدمات فراہم کی جا سکیں۔ ممبران نے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے تےن جدید ترین ریفرل لیبارٹریز کے قیام کے مجوزہ منصوبوں پر اتفاق کیا جہاں گلگت بلتستان کے تمام رہائشیوں کو رعایتی نرخوں پر معیاری صحت کی خدمات فراہم کی جائیں گی۔ اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ شفا انٹرنیشنل ہسپتال اسلام آباد پالیسی مشاورت فراہم کرنے کے لیے مختلف اسٹیئرنگ اور مانیٹرنگ کمیٹیوں کا رکن ہوگا۔ مختلف طبی کیمپ اور بہتری کے دیگر اقدامات بھی منصوبہ بندی میں شامل ہے۔صحت کی سہولےات کے حوالے سے ہمارے صورتحال ناگفتہ بہ ہے‘کوالیفائیڈ نرسز ، دائیوں ، دانتوں کے ڈاکٹرز اور فارماسسٹس کی کمی ہے خواتین کی صحت کے حوالے سے کوئی ٹھوس حکمتِ عملی اختیار نہیں کی جا رہی ۔ جس کی وجہ سے زچگی کے دوران خواتین کی شرح اموات خاصی زیادہ ہے ۔ ملک میں خواتین کی اکثریت خون کی کمی اور غذائی قلت کا شکار ہے ۔صحتِ عامہ کے ناقص نظام کا اثر اسہال کے بڑھتے ہوئے معاملات خصوصا بچوں میں دیکھا جا سکتا ہے ۔معاشرے کے امیر طبقے کو صحت کی سہولیات تک بہتر رسائی حاصل ہے کیونکہ وہ نجی ہاسپٹلز کے متحمل ہو سکتے ہیں لیکن دوسری طرف غریبوں کو بنیادی صحت کی سہولیات تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ حکومت صحت کی خدمات کی فراہمی میں معیار کو یقینی بنائے ۔ اسے صحت سے متعلق پیشہ ور افراد کو بہتر مراعات فراہم کرنی چاہئیں اور تربیتی اداروں کے نظام کو بہتر کرنے کی طرف خصوصی توجہ دینی چاہیئے تاکہ صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو بہتر بنایا جا سکے ۔ کیونکہ ایک صحت مند قوم ، بہتر پیداواری اور صحت مند معیشت کو یقینی بنا سکتی ہے ۔آئینِ پاکستان کے مطابق سوائے وفاقی حکومت کے زیرِ انتظام علاقوں کے ، صحت کی دیکھ بھال بنیادی طور پر صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے ۔ کورونا، ایڈز ، پولیو اور کچھ دیگر توسیعی پروگراموں کے نفاذ کی اور حفاظتی ٹیکوں کے توسیعی پروگرام کی ذمہ داری بڑی حد تک وفاقی وزارتِ صحت پر ہے ۔ صحت کی دیکھ بھال کا شعبہ نجی اور سرکاری شعبہ پر مشتمل ہے ۔پاکستان میں نظامِ صحت کی حالت یہ ہے کہ نجی شعبہ ، آبادی کا تقریبا 70 فیصد خدمت کرتا ہے ۔بنیادی طور پر خدمت کے نظام کی فیس ہے ۔ سرکاری طور پر صحت کے حوالے سے بدانتظامی اس حد تک عیاں ہے کہ نہ تو نجی اور نہ ہی سرکاری شعبے ریگولیٹری فریم ورک کے اندر کام کرتے ہیں ۔ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں تےس فیصد سے بھی کم آبادی کو پرائمری ہیلتھ کیئر سینٹرز کی سہولیات تک رسائی حاصل ہے ۔اوسطا ہر فرد ایک سال میں ایک سال سے بھی کم ہیلتھ کیئر سینٹرز تک جاتا ہے ۔ ہیلتھ کیئرسینٹرز میں جانے میں عدم دلچسپی کی وجہ صحت کی دیکھ بھال کرنے والے پیشہ ور افراد اور خاص طور پر وہاں خواتین کی کمی ، غیر حاضری کی اعلی شرح ، سہولیات کا ناقص معیار اور ادویات کی عدم دستیابی شامل ہے جبکہ دوسری طرف پاک فوج ، پاکستان ریلوے ، اٹامک انرجی اور بہت سے دیگر ادارے ایسے بھی ہیں جو اپنے ملازمین کو بہترین صحت کی سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر لازم ہے کہ وہ مل بیٹھکر عوام کی صحت کے حوالے سے ایک واضح اور جامع پالیسی مرتب کریں ۔ نئے ہاسپٹلز بنائے جائیں ۔نئے ڈاکٹرز اور لیڈی ڈاکٹرز کو ملازمتیں دی جائیں ۔ پیشہ ور نرسز کو تعینات کیا جائے ۔ غریب عوام کے لیئے مفت ادویات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے ۔ تاکہ غریب عوام کو بہتر اور مفت صحت کی سہولیات میسر آ سکیں اور انکا معیارِ زندگی بہتر ہو سکے ۔چےف سےکرٹری کی جانب سے رےفرل سسٹم پر پےشرفت خوش کن ہے۔پنجاب میں اس کا تجربہ کےا جا چکا ہے جس کے مثبت نتائج برآمد ہوئے ہےں۔پنجاب حکومت ٹیچنگ ہسپتالوں پر سے مریضوں کا بوجھ کم کرنے اور طبی خدمات میں بہتری کے لیے ریفرل سسٹم متعارف کرانے کا فیصلہ کیا تھا۔ٹیچنگ ہسپتالوں میں برسوں سے مریضوں کی بڑی تعداد کے باعث وہاں بستروں سمیت دیگر بنیادی سہولیات کی کمی سے خطرے کی گھنٹی بج رہی تھی، لگ بھگ تمام طبی مراکز میں ہر بستر پر دو یا تین مریض ایک ساتھ رہنے پر مجبور تھے اور کسی وبا کے پھوٹ پڑنے پر حالات زیادہ سنگین ہوجاتے تھے۔اسی طرح ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملے پر بھی حد سے دباﺅ پڑ رہا تھا جس کے نتیجے میں غلط تشخیص اور غلط علاج کی شکایات عام ہوگئی تھیں۔ حکومت بعض اضلاع کے اہم علاقوں میں ریفرل کلینکس تشکیل دےے جنہیں ریفرل مراکز کے طور پر استعمال کیا گےا، یہاں ٹیچنگ ہسپتالوں کے لیے مریضوں کو ریفر کیا جاتا رہا ۔ےہ کہا گےا کہ اس سسٹم کے تحت عام مریضوں کے لیے ہسپتال کا او پی ڈی بند کردیا جائے گا جناح ہسپتال کا او پی ڈی صرف ان مریضوں کے لیے ہوگا جنہیں ریفرل کلینکس سے بھیجا جائے گا۔ کمپیوٹرائزڈ سسٹم بھی اس پروگرام کا حصہ ہوگا، جس میں جناح ہسپتال کو ریفر کیے جانے والے مریضوں کا ریکارڈ یعنی ان کے مرض، کنسلٹنٹ کا نام، اپائٹمنٹ کا دن اور وقت وغیرہ منسلک ہوں گے۔کنسلٹنٹ دفتری اوقات کے دوران ان مریضوں کی تعداد کمپیوٹرائزڈ سسٹم کے ذریعے بتائے گا، جن کا وہ معائنہ کرے گا۔ موثر اور فنکشنل ریفرل سسٹم کے پروگرام میں شامل آبادیوں کو طبی سہولیات کی فراہمی کے لیے اسے اہم ترین ذریعہ مانا جاتا رہا ہے، اس پروگرام کے تحت ریفرل سسٹم کے ذریعے طبی خدمات کی فراہمی کو ہر سطح تک یقینی بنایا جا سکتا ہے ۔ریفرل سسٹم کی چار فنکشنلز سطحوں تک رسائی کو یقینی بناےا جاناتھا پہلی سطح عام گھرانوں سے لے کر کمیونٹی مڈوائف اور بی ایچ یو، دوسری سطح بی ایچ یو سے آر ایچ سی و ٹیچنگ ہسپتال، تیسری سطح آرایچ سی سے ٹیچنگ ہسپتال اورڈی ایچ کیو ہسپتال اور چوتھی سطح ٹیچنگ ہسپتال سے ڈی ایچ کیو اور ٹیرٹائری کیئر ہپستال تک ہوگی۔عام گھرانوں کی سطح پر پروگرام میں برادری سے تعلق رکھنے والے عملے جیسے لیڈی ہیلتھ ورکرز، کمیونٹی مڈوائفزاور لیڈی ہیلتھ سپروائزرز وغیرہ کو شامل کیا جائے گا۔ہر گھرانے کو لیڈی ہیلتھ ورکر کے ساتھ بی ایچ یو رجسٹر کرے گا، ہر لیڈی ہیلتھ ورکر کمیونٹی مڈوائفز اور بی ایچ ایو سے منسلک ہوگی۔اسی طرح ہر مڈوائف لیڈی ہیلتھ سپروائزر سے رابطے میں ہوگی اور ایل ایچ ڈبلیو یا سی ایم ڈبلیو کی جانب سے ریفر کیے جانے پر ہر گھرانہ بی ایچ ڈبلیو سے مربوط ہوجائے گا۔ایل ایچ ڈبلیو، سی ایم ڈبلیو اور بی ایچ یو وغیرہ بنیادی طبی سہولیات کے نظام کے پرائمری کردار ہوں گے جو بی ایچ یو کے متعین کردہ کسی آبادی والے علاقے کے لیے ریفرل سسٹم کے پہلے لیول کی ذمہ داری سنبھالیں گے۔ریفرل سسٹم کی دوسری سطح بی ایچ یو اور آر ایچ سی ٹی ایچ کیو کے درمیان ہوگی، مریضوں کو بی ایچ یو کی جانب سے آر ایچ سی یا ٹی ایچ کیو کی جانب ضرورت کو مدنظر رکھ کر ریفر کیا جائے گا۔بی ایچ یو کے طبی سہولیات فراہم کرنے والے ہیلتھ آفیسرز، ایل ایچ وی، طبی ٹیکنیشن اور ڈسپنسر سمیت آر ایچ سی اور ٹی ایچ کیو کے طبی سہولیات فراہم کرنے والے مل کر ریفرل سسٹم کی اس دوسری سطح کو پر کریں گے۔ریفرل سسٹم کی تیسری سطح آر ایچ سی اور ٹی ایچ کیو‘ ڈی ایچ کیو کے درمیان ہوگی، آر ایچ سی کو ریفر کیے جانے ولے مریضوں کو ان کی ضروریات کے مطابق ٹی ایچ کیو یا ڈی ایچ کیو ریفر کیا جائے گا۔آر ایچ سی کا طبی عمل جیسے ہیلتھ آفیسرز، ویمن میڈیکل آفیسر، ایل ایچ وی، نرس، میڈیکل ٹیکنیشن اور ڈسپنسر کے ساتھ ٹی ایچ کیو اور ڈی ایچ کیو عملہ اس لیول کو پورا کرے گا۔ٹی ایچ کیو ایسے مریضوں کو ڈی ایچ کیو یا ٹیرٹائری کیئر ہسپتال ریفر کرے گا جن کا علاج اس کے بس میں نہیں ہوگا، اسی طرح ڈی ایچ کیو ایسے مریضوں کو ڈی ایچ کیو ریفرل فارم ٹیچنگ ہسپتال بھجوائے گا۔ریفر کرنے والے اور ریفرل مراکز کے درمیان رابطوں کو ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے گا۔گلگت بلتستان میں بھی اگر ےہ سسٹم شروع کر دےا جائے تو ےقےنا عوام اس سے بحسن وخوبی مستفےد ہوں گے۔