جاپان کو افرادی قوت کی پیشکش

چیف سیکرٹری گلگت بلتستان محی الدین احمد وانی نے اسلام آباد میں ایڈیشنل سیکرٹری فیڈرل بورڈ آف انویسٹمنٹ جمیل قریشی اورجاپانی آئی ٹی کمپنی پلس ڈبلیو کے کنٹری ڈائریکٹر ایچ آر سے تفصیلی ملاقات میںجاپانی کمپنی کے کنٹری ڈائریکٹر کو گلگت بلتستان حکومت کی جانب سے صوبے میں آئی ٹی شعبے کو دی جانے والی خصوصی توجہ اور اقدامات سے آگاہ کیا اور اس شعبے میں مہارت رکھنے والی افرادی قوت بارے بھی تفصیلی آگاہی فراہم کی اور سفارشات پیش کیں کہ جاپان پاکستان کے دیگر صوبوں کی طرح گلگت بلتستان سے افرادی قوت کی بھرتیوں کیلئے بھی موثر اقدامات کرے انہوں نے کہا کہ میں یقین سے کہتا ہوں کہ گلگت بلتستان کے جوان افراد جاپان میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکتے ہیں چونکہ یہ محنتی اورعملی کام ایمانداری سے سرانجام دینے کے عادی ہیں انہوں نے مزید کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ گلگت بلتستان اورجاپان کے ٹیکنیکل کالجوں کے مابین بھی رابطہ استوار ہو سکے ۔آج کے معاشرے میں آئی سی ٹی کی اہمیت بہت زیادہ ہے کیونکہ اس سے تعلیم یا تعلقات جیسے شعبوں پر اثر پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر ، یہ دوسروں کے درمیان سیکھنے اور تعلیم کے نئے اسلوب ، صحت کی دیکھ بھال ، معاشرتی کے نئے طریقوں پر اثرانداز ہوتا ہے۔انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجیز وہ اوزار ہیں جو معلومات کی پروسیسنگ کے لئے ضروری ہوتے ہیں ، خاص طور پر کمپیوٹر ، مواصلاتی آلات اور سوفٹویئر ایپلی کیشنز کا استعمال کسی سے معلومات کو تبدیل ، ذخیرہ کرنے ، حفاظت ، عمل ، منتقلی اور بازیافت کرنے کیلئے جگہ اور کسی بھی وقت آئی سی ٹی کی اہمیت کو تصورات ، طریقوں اور اطلاق کی متحرک نوعیت کی وجہ سے محدود نہیں کیا جاسکتا ، جو مستقل ارتقا میں ہیں۔ آئی سی ٹی روزانہ کی زندگی کے ہر پہلو میں مداخلت کرتی ہیں اور باضابطہ اور غیر رسمی تعلیم میں اعلی ترجیحات میں شامل ہوچکی ہیں۔اس کا دائرہ صرف تعلیم تک محدود نہیں ہے کیونکہ آئی سی ٹی ثقافت ، معیشت اور سیاست کے کلیدی عوامل بن چکے ہیں یہاں تک کہ دور دراز اور پسماندہ علاقوں میں بھی جو عالمی آبادی پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں جو براہ راست ٹیکنالوجی کا استعمال نہیں کرتے ہیں۔آئی سی ٹی کا بنیادی مقصد معاشرے میں بہتری لانے کیلئے افراد کی بااختیار اور آزادی ہے۔ تکنیکی انقلاب نے روز مرہ کی زندگی کے بہت سارے پہلوئوں کو گہرائی سے تبدیل کیا ہے ، مواصلات ، معاشرتی اور طویل فاصلے کے تعلقات کی ترقی میں سہولت فراہم کی ہے تاہم ، اس بات پر غور کرنا ضروری ہے کہ ان ٹیکنالوجیز کے ذریعہ افراد ، تنظیموں اور معاشروں کے طرز عمل ، اقدار اور صلاحیتوں کو کس طرح متاثر کیا جاسکتا ہے ۔نئی نسلوں اور آئی سی ٹی کو دیکھیں تو ، اس حقیقت کو نظر انداز کرنا ناممکن ہے کہ آج کا نوجوان بیک وقت کئی دنیائوں میں رہتا ہے۔ بہت سے نوجوان اپنے ذاتی کمپیوٹروں پر چیٹنگ کرتے ہوئے اپنے بیڈروم میں اپنی شناخت تیار کرتے ہیں۔آج کے نوجوانوں کو عالمی میڈیا کی ثقافت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ایک یکجہتی قوت کی نمائندگی کرتا ہے ، ایک ایسی ثقافتی درسگاہ جس میں انہیںکیا سوچنا ، محسوس کرنا ، یقین کرنا ، خوف اور خواہش کرنا ہے استعمال کرنے اور عمل کرنے کی تعلیم دیتی ہے۔آئی سی ٹی سے متاثرہ ثقافت ایک ایسا ماحول تشکیل دیتی ہے جس میں معاشرتی کے روایتی طریقوں کو تبدیل کیا جاتا ہے اور ، کم از کم کسی حد تک ، اس کی جگہ نئی جگہ دی جاتی ہے۔ٹیکنالوجی آفاقی اثرات کا حامل ایک غیر جانبدار آلہ نہیں ہے ، بلکہ اس کے نتائج کا ایک ذریعہ ہے جو اس کے استعمال کے تاریخی ، معاشرتی اور ثقافتی تناظر کی نمایاں طور پر تشکیل دیتا ہے۔آئی سی ٹی اور سمارٹ زندگی گزارنے والے ماحول گھر میں بوڑھوں کی دیکھ بھال کرنے ، بوڑھوں کی روز مرہ کی سرگرمیوں سے نمٹنے اور ان کی آزادی میں اضافہ کرنے میں مدد فراہم کرنے میں بھی تیزی سے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔جب بوڑھے زیادہ آزادانہ طور پر گھر میں زندہ رہ سکتے ہیں ، تو وہ زیادہ سرگرم رہتے ہیں۔ اس طرح یادداشت کمزور ہونے میں تاخیر ہوتی ہے۔ اس طرح ، طویل مدتی میں ، مہنگے ادارہ جاتی نگہداشت کی ضرورت کم ہوسکتی ہے اور معیار زندگی بہتر ہوسکتا ہے۔تعلیم کے لئے آئی سی ٹی سے مراد خاص طور پر سیکھنے کے مقاصد کیلئے معلومات اور مواصلاتی ٹکنالوجی کی ترقی ہے۔تعلیم میں آئی سی ٹی کو اپنانے اور استعمال کرنے سے تدریس ، سیکھنے اور تحقیق پر مثبت اثر پڑتا ہے۔ یہ تعلیم کو متاثر کرسکتی ہے اور اس تک زیادہ سے زیادہ رسائی کی اجازت دیتی ہے ،ان میں لچک میں اضافہ ہوتا ہے تاکہ طلبا وقت اور جغرافیائی رکاوٹوں سے قطع نظر تعلیم تک رسائی حاصل کرسکیں۔وہ طلبا اور اساتذہ کو نئے امکانات پیش کرتے ہوئے سیکھنے کے عمل کے لئے مناسب ماحول اور حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ایک گیلپ سروے کے مطابق آئی ٹی ڈگری ہولڈرز کے صرف دس فیصد کو پاکستان میں کام کرنے والی بڑی کمپنیاں ملازمت کے لئے اہل سمجھتی ہیں، جب کہ باقی ماندہ نوے فیصد میں سے آدھے طلبا چھوٹے سافٹ ویئر ہائوسز میں نوکری کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ سامنے آنے والی اکثریتی رائے کے مطابق پاکستان میں صرف ڈگری یافتہ لوگوں کی تعداد بڑھانے کی بجائے ہنرمند افراد پیدا کرنے کی ضرورت ہے، اسی صورت میں ہی  مہارت کے خلا کو پر کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں نوکری حاصل کرنے کے لیے ڈگری کے ساتھ انگریزی زبان میں مہارت ضروری ہے، بڑے اداروں میں کمزور انگریزی والے قابل افراد کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ایک اندازے کے مطابق پاکستانی یونیورسٹیوں سے ہر سال پچیس ہزار طلبہ آئی ٹی کی ڈگری لیتے ہیں، جن میں سے تقریبا پانچ ہزار کو اچھی سافٹ ویئر یا ٹیک کمپنی میں نوکری ملتی ہے، جب کہ زیادہ تر لوگ اس ڈگری سے پہلے حاصل کی گئی اپنی غیر متعلقہ تعلیم کی وجہ سے رہ جاتے ہیں۔ سفارشات کہ مطابق اس حوالے سے پاکستانی وزارت انفارمیشن  ٹیکنالوجی اور ٹیلی مواصلات کو آئی ٹی کی تعلیم کے نصاب کو از سر نو تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔سب سے پہلے پاکستانی یونیورسٹیوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو متفقہ طور پر اس بات کے لئے زور دینے کی ضرورت ہے کہ ملک کی پیشہ وارانہ اور تکنیکی ضروریات سے نمٹنے کے لئے نصاب اپ ڈیٹ کیا جائے۔دوسرے نمبر پر آئی ٹی انڈسٹری کو سافٹ ویئر سے متعلق ضروری ہنر سیکھانے کی ضروریات ہے اور آئی ٹی سے متعلق ان شعبوں کی اہمیت پر زور دینے کی ضرورت ہے جن کو پسِ پشت ڈال کر صرف چیدہ چیدہ معاملات سے متعلق پڑھا دیا جاتا ہے۔تیسرے نمبر پر آئی ٹی کی صنعت کے ساتھ نچلے درجے کی یونیورسٹیوں کے انضمام کو بہتر بنانے کے لئے بھی ایک بہتر طریقہ کار طے کرنے کی ضرورت ہے۔اس کا طریقہ کار یہ ہو سکتا ہے کہ سافٹ ویئر ہائوسز اور ٹیک کمپنیز سے ماہرین کی خدمات حاصل کرکے بچوں کو ڈگری کے دوران وہ چیزیں سکھائی جائیں، جن کا عملی زندگی میں پہنچ کر فائدہ ہو۔کورونا کی وبا کے دوران یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آئی کہ ہمارے ملک میں اعلی درجے کے آئی ٹی ماہرین کی کتنی شدید ضرورت ہے، اس کمی کو موجودہ طریقہ کار اور نصاب کی مدد سے پورا نہیں کیا جا سکتا۔اگرچہ آئی ٹی مصنوعات کا موجودہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی کا حجم گذشتہ سال کی پہلی سہ ماہی کے حجم سے بیالیس فیصد زیادہ ہے مگر اس شعبے سے منسلک افراد کے مطابق یہ حجم ابھی بھی بھی بہت کم ہے۔ اگر صرف انڈیا کی آئی ٹی برآمدات کو لیا جائے تو گذشتہ برس اس کا حجم 200 ارب ڈالر تک رہا۔ اگرچہ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انڈیا اس شعبے میں پاکستان سے بہت پہلے داخل ہوا اور نوے کی دہائی کے شروع میں ہی انڈیا میں اس شعبے کے فروغ کے لیے کام شروع ہو چکا تھا مگر دوسری جانب پاکستان میں آئی ٹی کے شعبے میں کام میں اضافہ2000 کے بعد نظر آیا۔ انڈیا میں کمپیوٹر سائنس اور ریاضی کے مضامین پڑھنے کا بہت زیادہ رجحان ہے اور یہی چیز پڑوسی ملک کو اس شعبے میں پاکستان پر سبقت دلوا رہی ہے۔ موجودہ دور میں پالیسی کے لحاظ سے بہت مثبت پیش رفت ہوئی ہے تاہم گروتھ کے رجحان کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ پالیسی میں تسلسل ہونا چاہیے۔ پہلے آئی ٹی سیکٹر کو 2025  تک ٹیکس کی چھوٹ دی گئی لیکن پھر ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے اس چھوٹ کو ختم کر دیا گیا۔ایسے اقدامات سے مستقبل کی گروتھ پر سوالیہ نشان اٹھتے ہیں۔ اس شعبے کو سب سے بڑا مسئلہ سپلائی سائیڈ کا ہے۔  آئی ٹی کی خدمات کی ڈیمانڈ  بہت زیادہ بڑھی ہوئی ہے ، پاکستان میں ہر سال ایک لاکھ آئی ٹی گریجویٹس کی ضرورت ہے لیکن تعلیمی اداروں سے صرف پچیس ہزار لوگ ہی نکل رہے ہیں۔اگر پچیس ہزار طلبا تعلیمی اداروں سے پاس آئوٹ ہو بھی رہے ہیں تو ان میں سے صرف 2500 ایسے ہیں کہ جن کے اندر وہ مہارت اور ہنر ہے جو کہ آئی ٹی کے شعبے میں درکار ہوتی ہے۔ایسے میں جاپان کو گلگت بلتستان میں آئی ٹی کی مہارت رکھنے والی افرادی قوت کی پیشکش نہایت اہم ہے۔