بجلی کے بڑے بریک ڈاﺅن کے سبب کراچی، لاہور اور اسلام آباد سمیت ملک کے کئی شہروں میں بجلی کی فراہمی معطل ہوگئی ۔اس پر افواہوں کا سلسلہ شروع ہو گےا‘ کبھی کہا گےا کہ مارشل لاءلگ گےا ہے ‘وزےراعظم کو گرفتار کر لےا گےا ہے‘بھارت کی سازش بھی قرار دی گئی مگر وزارت توانائی کے مطابق نیشنل گرڈ کی سسٹم فریکوئنسی کم ہونے کے بعد پاکستان بھر میں بجلی کے بریک ڈاﺅن کی اطلاعات موصول ہوئیں۔وزارت توانائی کی جانب سے ٹوئٹ میں کہا گیا کہ ابتدائی اطلاعات کے مطابق آج صبح 7:34 پر نیشنل گرڈ کی سسٹم فریکوئنسی کم ہوئی جس سے بجلی کے نظام میں وسیع بریک ڈاﺅن ہوا، سسٹم کی بحالی پر کام تیزی سے جاری ہے۔وزیر توانائی خرم دستگیر نے کہا کہ یہ کوئی بڑا بریک ڈاﺅن نہیں ہے، موسم سرما میں ملک بھر میں بجلی کی طلب کم ہونے اور معاشی اقدام کے تحت ہم رات کے وقت بجلی پیدا کرنے کے نظام کو عارضی طور پر بند کر دیتے ہیں، تاہم آج صبح جب سسٹم کو فعال کیا گیا تو دادو اور جامشورو کے درمیان کہیں فریکوئنسی اور وولٹیج میں اتار چڑھاﺅ دیکھا گیا۔پشاور اور اسلام آباد میں گرڈ اسٹیشنز کی بحالی شروع ہو چکی ہے، میں یقین دلاتا ہوں کہ اگلے 12 گھنٹوں میں پورے ملک میں بجلی مکمل طور پر بحال کردی جائے گی۔ وارسک سے گرڈ اسٹیشنز کی بحالی کا آغاز کردیا گیا ہے اور پچھلے ایک گھنٹے میں اسلام آباد سپلائی کمپنی اور پشاور سپلائی کمپنی کے محدود تعداد میں گرڈ بحال کر دیے گئے ہیں۔وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر نے کہا کہ ملک بھر میں رات 10 بجے تک بجلی بحال کردی جائے گی۔اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر نے کہا کہ بجلی کے بریک ڈاﺅن کی بحالی کے لیے جو سب سے اہم قدم اٹھایا گیا وہ یہ ہے کہ جنوب میں اچھ کے مقام پر ایک پاور پلانٹ موجود ہے جس کے ذریعے سکھر، نوشہرو فیروز، لاڑکانہ اور خیرپور ناتھن شاہ میں معمول کے مطابق بجلی فراہم کی جارہی ہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ اسی پاور پلانٹ کو استعمال کرتے ہوئے کچھ بجلی بلوچستان، کچھ پنجاب اور کچھ جنوبی پنجاب میں بحال کی گئی ہے۔ تھرکول میں بجلی کی فراہمی کی سہولیات موجود ہیں جس سے اب کے الیکٹرک کو جزوی طور پر بحالی کا آغاز کردیا ہے اور جیسے جیسے نیشنل گرڈ بحال ہوگا اس کو بھی بڑھاتے جائیں گے۔ہم تمام ذمہ داران انتہائی سنجیدگی سے ملک میں بجلی کی بحالی کی کوشش کر رہے ہیں اور ہائیڈل سسٹم کو دوبارہ چلانے میں کچھ رکاوٹیں بھی آئی ہیں۔ یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ چونکہ بجلی کا ترسیلی نظام محفوظ ہے اس لیے بجلی کی بحالی میں یہ چیلنج ہے کہ ملک کے تمام بجلی بنانے کے کارخانے اور پلانٹس کو ایک ایک کرکے شروع کرنا ہے جس کے لیے بھی بجلی کی ضرورت ہوتی ہے، لہذا کچھ گھنٹوں سے اس کا بھی انتظام کر رہے ہیں۔ وزیراعظم کی ہدایت پر نیشنل ٹرانسمیشن اتھارٹی کو ملک کے کسی بھی پاور پلانٹ کو چلانے کی اجازت دے دی ہے چاہے وہ مہنگے ایندھن پر کیوں نہ چلانا پڑے۔ بجلی بریک ڈاﺅن پر وزیراعظم نے تین رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے جو تفتیش کرکے بتائے گی کہ کس وجہ سے بجلی کا بریک ڈاﺅن ہوا۔قبل ازیں وزیر اعظم شہباز شریف نے ملک میں بجلی کے تعطل کا سخت نوٹس لیتے ہوئے اعلی سطح کی تحقیقات کا حکم اور وفاقی وزیر سے فوری رپورٹ طلب کرلی تھی۔وزیر اعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری بیان کے مطابق وزیر اعظم نے ملک میں بجلی کے تعطل کا سخت نوٹس لیتے ہوئے اعلی سطح کی تحقیقات کا حکم دے دیا، جبکہ وزیراعظم نے تحقیقات کے لیے اعلی سطح کی کمیٹی بھی تشکیل دے دی۔وزیر اعظم نے وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر سے بجلی کے تعطل کی فوری رپورٹ بھی طلب کی ہے۔شہباز شریف نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں بجلی کا اتنا بڑا بحران پیدا ہونے کی وجوہات سے آگاہ اور اس کے ذمہ داروں کا تعین کیا جائے۔انہوں نے ملک میں بجلی کی فوری بحالی کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ عوام کی مشکلات کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔کراچی میں ضلع کورنگی کے کئی علاقوں، ملیر، لانڈھی، گلستان جوہر، موسمیات، اختر کالونی، میں بجلی کی فراہمی معطل ہوگئی، علاوہ ازیں آئی آئی چندریگر روڈ، نیو کراچی، گلشن اقبال، ابراہیم حیدری کے علاقے بھی بجلی سے محروم ہوگئے۔نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی نیپراکی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ حکام نے ملک بھر میں بجلی کے بحران کا نوٹس لیتے ہوئے نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی این ٹی ڈی سی سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی ہے۔ نیپرا 2021 اور 2021 میں ہونے والے بجلی کے بلیک آﺅٹس پر جرمانے عائد کرتی رہی ہے، اور ان واقعات کو کم کرنے کے لیے مسلسل تجاویز اور ہدایات بھی دیتی رہی ہے۔ترجمان سول ایوی ایشن اتھارٹی نے جاری بیان میں بتایا کہ تمام بڑے ایئرپورٹس پر بجلی کا کوئی مسئلہ نہیں، بجلی کے متبادل نظام کی بدولت صورتحال معمول کے مطابق ہے۔ اسٹینڈ بائے پاور سسٹمز کی مدد سے بلا تعطل بجلی کی فراہمی جاری ہے،دو گھنٹے جنریٹرز پر چلنے کے بعد پشاور ایئرپورٹ پر معمول کی بجلی سپلائی بحال ہو گئی ہے۔کے الیکٹرک حکام نے کراچی کے مختلف علاقوں میں بجلی کی فراہمی معطل ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ کے الیکٹرک کا عملہ صورتحال کا جائزہ لے رہا ہے اور بحالی کا عمل شروع کیا جارہا ہے۔ ترجمان کے الیکٹرک نے بتایا کہ پہلی ترجیح اسٹریٹجک تنصیبات بشمول ہسپتال، ایئر پورٹ وغیرہ کو بجلی کی بحالی ہے، شہر کی بجلی کی فراہمی جلد معمول پر لائی جائے گی۔بریک ڈاﺅن کی وجہ سے آئیسکو کے تقریبا 117 گرڈ اسٹیشنز متاثر ہوئے ۔ مرکزی کنٹرول روم سے سسٹم بحالی کی براہ راست نگرانی جاری ہے، سسٹم کو نقصان سے بچانے کی لئے فیڈرز پر بجلی مرحلہ وار بحال کی جارہی ہے۔ترجمان کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی محمد افضل کے مطابق صوبے میں تےن ٹرانسمیشن لائنیں 220 کلو واٹ اوچ سبی، 220 کلو واٹ دادو-خضدار اور 220 کلو واٹ ڈیرہ مراد جمالی ٹرپ کر گئیں۔ اس کے نتیجے میں بلوچستان بھر میں بجلی کی بڑی بندش ہوئی ہے، متاثرہ شہروں میں کوئٹہ، پشین، قلعہ عبداللہ، چمن، لورالائی ژوب، قلعہ سیف اللہ، مستونگ، سبی، زیارت، قلات اور خضدار شامل ہیں۔گزشتہ حکومت میں بھی بجلی برےک ڈاﺅن کے واقعات پےش آئے۔سابق وفاقی وزیِرِ توانائی عمر ایوب کا کہنا تھا بجلی کے بریک ڈاﺅن کی وجوہات کا تعین کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ گڈو کے پاور پلانٹ پر مسئلہ پیدا ہوا اور ایک سیکنڈ میں فریکیونسی پچاس سے زیرو ہو گئی جس کے بعد ہم نے تربیلا کو دوبار اسٹارٹ کیا، جس سے بجلی بحال ہونا شروع ہوئی۔وزیر توانائی کا کہنا تھا کہ فالٹ پورے ملک کے پلانٹس میں نہیں آیا تھا بلکہ ایک مخصوص جگہ پر بجلی کی فریکونسی کم ہوئی جس کی وجہ سے پورے سسٹم نے خود کو شٹ ڈاﺅن کرنا شروع کردیا۔ان کا کہنا تھا کہ بجلی کا سسٹم اس وقت سٹیبل ہے اور دھند ختم ہونے کے بعد ہی فالٹ کی اصل وجہ اور جگہ معلوم ہو سکے گی اور تحقیقات کے بعد ہی حقائق سامنے لائیں گے۔عمر ایوب کا کہنا تھا کہ جب ہماری حکومت آئی اس وقت تک ٹرانسمیشن پر کوئی کام نہیں ہوا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ کے دور میں اٹھارہ ہزار واٹ ترسیل کا نظام تھا لیکن ہم بجلی کے ترسیلی نظام کو چوبےس ہزار میگا واٹ تک لے گئے ہیں۔بجلی کے ملک گیر بریک ڈان کے سبب کراچی میں پانی کی فراہمی کا نظام معطل ہوگیا، شہر کو 30 کروڑ گیلن پانی فراہم نہ ہونے سے پانی کے بحران کا خدشہ پیدا ہوگیا۔ بجلی بند ہوتے ہی کراچی میں پانی کی فراہمی مکمل طور پر رک ہوگئی، شہر میں پانی فراہم کرنے والی لائف لائن دھابیجی پمپنگ اسٹیشن سے پانی کی فراہمی بند ہوگئی جس سے شہرکو یو میہ 44 کروڑ گیلن پانی فراہم کیا جاتا ہے۔حب ڈیم دوسرا بڑا ذریعہ ہے جہاں سے یومیہ دس کروڑ گیلن پانی فراہم کیا جاتا ہے وہاں سے بھی پانی فراہم نہ ہوسکا، اسی طرح گھارو، این ای کے، پیپری پمپنگ اسٹیشن سے بھی پانی کی فراہمی بند ہوگئی، رات گئے تک 30 کروڑ گیلن سے زائد پانی شہر کو فراہم نہیں کیا جا سکا جس کی وجہ سے شہر کے مختلف علاقوں میں پانی کی فراہمی بری طرح متاثر ہوگئی۔بجلی کے بریک ڈاﺅن میں لوڈ متوازن کرنے کے لیے منگلا کے ذریعے سسٹم بحال کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ۔ ذرائع کے مطابق ارسا نے منگلا سے پانی کے اخراج کی اجازت دے دی۔ارسا حکام کے مطابق نہروں کی بندش کے باعث منگلا ڈیم سے پانی بند تھا، ایک ہزار میگاواٹ منگلا سے سسٹم میں آنے سے سسٹم متوازن ہونے کا امکان ہے۔ذرائع کے مطابق سسٹم کی بحالی کے لیے مطلوبہ بجلی بھی گرڈ میں لانے کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں۔ازاں بعد مختلف شہروں میں بجلی کی بحالی کا عمل شروع ہوگیا ۔ ملک بھر کے 1112 گرڈ اسٹیشنز میں سے 182 سے بجلی بحال ہوگئی ہے تاہم 930 گرڈ اسٹیشنز سے بجلی کی بحالی باقی ان سطور کی اشاعت تک باقی ہے۔
