گلگت بلتستان کے مسائل و حقوق

پاکستان پیپلز پارٹی گلگت بلتستان کے پارلیمانی اور تنظیمی وفد کی قائد حزب اختلاف و صوبائی صدر امجد حسین ایڈووکیٹ کی قیادت میں سابق صدر آصف علی زرداری سے زرداری ہائوس اسلام آباد میں ملاقات شرکاء نے سابق صدر آصف علی زرداری کی خیریت دریافت کی اور ملکی سیاست میں ان کے مثبت کردار کو سراہا ملاقات میں وفاقی اور صوبائی سطح پر سیاسی صورتحال پر تفصیلی گفت و شنید ہوئی۔اس موقع پر صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ گلگت بلتستان کے عوام ہمارے دل کے بہت قریب ہیں پیپلزپارٹی اور گلگت بلتستان کا مضبوط رشتہ ہے گلگت بلتستان کی تعمیر و ترقی سمیت وہاں کے آئینی ،انتظامی اور دیگر مسائل کو حل کرنے کے لئے پیپلز پارٹی نے ہمیشہ مثبت اقدامات اٹھائے ہیں اور آئندہ بھی پیپلز پارٹی کو موقع ملا تو گلگت بلتستان کو آئینی حقوق فراہم کرنے سمیت وہاں کے بنیادی حقوق کی فراہمی کے لئے موثر اور سنجیدہ اقدامات اٹھائیں گے۔ گلگت بلتستان میں صحت کے بے پناہ مسائل ہیںبالخصوص امراض قلب کے مریضوں کی تعداد میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس کو مد نظر رکھتے ہوئے وہاں پر امراض قلب کا ایک جدید ہسپتال تعمیر کیا جائے گا جو پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت طرف سے وہاں کے عوام کے لئے تحفہ ہوگا۔ صدر آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی گلگت بلتستان کے وفد کو ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ مضبوط رابطہ قائم رکھیں اور عوامی ایشوز پر عوام کی آواز بنیں۔ گلگت بلتستان اور پیپلز پارٹی لازم و ملزوم ہیں وہاں پیپلزپارٹی کی جڑیں مضبوط ہیں ہم آئندہ بھی وہاں کے لوگوں کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کریں گے اور ان کی امیدوں کو پورا کریں گے۔ قبل ازیں وزیراعلی خالد خورشید نے وفاقی حکومت سے گلگت بلتستان کے حقوق حاصل کرنے کیلئے حکمت عملی مرتب کرلی ہے اور فائنل رائونڈ شروع کرنے کیلئے اتحادیوں کو اعتماد میں لے لیاہے،وزیراعلی خالد خورشید کی قائد ملت جعفریہ و اسلامی تحریک پاکستان کے سربراہ سید ساجد علی نقوی سے اہم ملاقات ہوئی۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان خالد خورشید نے علامہ ساجد علی نقوی کو حکومتی اقدامات اور معاشی مشکلات کے بارے میں آگاہ کیا۔ اس موقع پر دونوں رہنمائوں نے علاقے کی تعمیر و ترقی اور قیام امن کیلئے مل کر چلنے پر اتفاق کیا۔وزیراعلی نے بتایا کہ وفاقی حکومت نے گندم سبسڈی اور فنڈز میں بڑے پیمانے پر کٹوتی کی ہے جس سے ایک طرف علاقے کے لوگوں کو گندم اور آٹے کی فراہمی مشکلات کا سامنا ہے تو دوسری جانب فنڈز میں کٹوتی کے باعث نہ صرف روزمرہ کے حکومتی امور چلانے میں مشکلات درپیش ہیں بلکہ ترقیاتی عمل بھی متاثر ہورہاہے ، علامہ ساجد نقوی نے وزیراعلی کو یقین دہانی کرائی کہ علاقے کے حقوق کے لئے خالد خورشید جو بھی قدم اٹھائیں گے اسلامی تحریک اس میں ان کے شانہ بشانہ ہوگی،دریں اثناوزیراعلی نے مجلس وحدت المسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس سے بھی ملاقات کی ملاقات میں گلگت بلتستان کی سیاسی اور معاشی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا،وزیراعلی نے کہا کہ ان کی حکومت کی پوری کوشش ہے کہ معاملات افہام تفہیم سے حل کئے جائیں لیکن وفاقی حکومت نے جو حالات پیدا کردیئے ہیں ان سے صوبے کے عوام براہ راست متاثر ہورہے ہیں او رعوامی نمائندہ ہونے کے ناتے ان کا فرض ہے کہ وہ عوام کو مشکلات سے نکالنے کے لئے اپنا کردار ادا کریں ، اس مقصد کے لئے جو ممکن ہوسکا کیا جائے گا اگر احتجاج کا راستہ اختیار کرنا پڑا تو اس سے بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔وزیر اعلی گلگت بلتستان  نے کہا کہ ابھی تک وفاق نے گلگت بلتستان کے لئے ایک روپیہ بھی اضافی جاری نہیں کیا پہلی بار گلگت بلتستان نے دس ارب روپے خسارے کا بجٹ پیش کیا ہمیں 47 ارب کے فنڈز مل رہے ہیں جس میں سے 41 ارب محض تنخواہیں ادا کر رہے ہیں۔گلگت بلتستان کو بائیس سے تئیس ارب روپے اے ڈی پی کی مد میں ملنے چاہئیں تھے اے ڈی پی کو وفاق نے محض اٹھارہ ارب تک رکھا ہے وفاقی حکومت کی جانب سے آج ہمیں خط ملا کہ وفاق ہمیں دو ارب روپے دے گا۔آج سے پانچ سال پہلے 14 ارب روپے گندم کی بوریوں پہ سبسڈی دی جارہی تھی۔اس میں پی ڈی ایم حکومت نے آتے ہی کٹوتی کی اس سے بھی بڑی افسوسناک بات یہ ہے کہ آبادی میں اضافے کے ساتھ گندم میں بھی اضافہ ہونا چاہیے تھا مگر آج وفاقی حکومت ہمیں نو ارب گندم کی مد میں دینے کا کہہ رہی ہے جو گلگت بلتستان کی عوام کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے۔گلگت بلتستان حکومت اتنے بڑے خسارے کو کیسے مینیج کرے۔ ہمیں محض نظام حکومت چلانے کے پیسے دے دیں۔گلگت بلتستان کو دیوار کے ساتھ لگایا جا رہا ہے جب لوگ احتجاج پر نکل آئیں تو ہم سے شکوہ نہ کیا جائے۔وفاق کے پی ڈبلیو ڈی ڈیپارٹمنٹ میں گلگت بلتستان کی ضروریات سے کئی گنا زیادہ پیسے رکھے گئے ہیں۔ہم وفاقی حکومت کو متنبہ کرتے ہیں کہ ہوش کے ناخن لیں ورنہ عوام سڑکوں پر ہوگی تو دشمن ملک اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔سیاسی قیادت کا بنیادی کام ہے افراتفری پر قابو پایا جائے مگر پی ڈی ایم کی وفاقی حکومت چن چن کر گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور کے پی کے ساتھ امتیازی سلوک کر رہی ہے اگر ملک میں افراتفری ہو گی تو اس کا ذمہ دار کون ہے۔ملک کا دیوالیہ نکل رہا ہے اور یہ توشہ خانہ کی گھڑیوں پہ لگے ہوئے ہیں۔ہم انہیں آخری مرتبہ متنبہ کر رہے ہیں پھر عوام کو جوابدہ وفاقی حکومت ہوگی ہم نہیں ہونگے ۔تحریک انصاف کی رکن صوبائی اسمبلی و پارلیمانی سیکرٹری برائے جنگلات دلشاد بانو نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت کی طرف سے گلگت بلتستان کو فنڈز جاری نہ ہونے کے باعث صوبے میں مالی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا ہے گلگت بلتستان کو 30 ارب روپے اے ڈی پی کی مد میں ملنے چاہئیں تھے اے ڈی پی کو وفاق نے محض اٹھارہ ارب تک رکھا ہے بدقسمتی سے وفاقی حکومت نے نہ ہی بجٹ میں اضافہ کیا بلکہ گندم سبسڈی میں بھی کمی کردی جس کی وجہ سے صوبے میں عوام کو مزید مسائل کا سامنا ہے ۔ گلگت بلتستان کے عوام کو ٹرخایا جارہا ہے جو گلگت بلتستان کی عوام کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے پی ڈی ایم کی امپورٹڈ حکومت گلگت بلتستان کو دیوار سے لگا رہی ہے وفاق کی طرف سے بجٹ میں تاریخی کمی کے باعث گلگت بلتستان کے ترقیاتی منصوبے متاثر ہورہے ہیں اور ان میں سے پاور سیکٹر کے اہم منصوبے التواکا شکار ہیں جبکہ گندم سبسڈی میں کمی کے باعث گلگت بلتستان کے عوام کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ وفاقی حکومت نے اگر گلگت بلتستان کے ساتھ سوتیلا سلوک روا رکھا تو عوام وفاقی حکومت کے ظالمانہ اقدامات کے خلاف بھر پور احتجاج کریں گے اس سے پہلے وفاقی حکومت گلگت بلتستان کے ساتھ سوتیلا سلوک بند کرے۔گلگت بلتستان کے تقریبا عمومی طور پر معاشی لحاظ سے لوگ مڈل کلاس کے ہیں جن کا ذریعہ معاش زراعت، مال مویشی، یا ملازمت پیشہ ہے۔ جبکہ تجارت و سیاحت اور معدنیات سے جڑے پیشوں کو فروغ حاصل ہو رہا ہے۔ تعلیم، صحت، صنعت و تجارت اور سیاحت کے لیے انفراسٹرکچر کا شدید فقدان ہے۔ معدنیات، کوہ پیمائی، سیاحت، تحقیق، زراعت اور معدنیات سمیت اہم شعبوں میں کوئی قابل ذکر سرمایہ کاری نہیں کی گئی۔ آئینی طور پر یہ علاقہ مسئلہ کشمیر سے جڑا ہوا متنازعہ علاقہ شمار ہوتا ہے جس کا حتمی فیصلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی نگرانی میں استصواب رائے کے ذریعے ہونا باقی ہے۔  یہ متنازعہ علاقہ جعرافیائی اعتبار سے اپنے اطراف میں چار ممالک پاکستان، چین، انڈیا اور افغانستان جن میں سے تین ایٹمی طاقتوں کے درمیان گھرا ہوا ہے، جبکہ ترکمانستان کے راستے روس سے بھی قریب تر ہے۔ دنیا کی ابھرتی ہوئی اقتصادی طاقت چین کا ون بیلٹ ون روٹ منصوبے کے تحت چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری اسی  خطے سے گزر رہی ہے۔راہداری کے ذریعے چائنہ کو پاکستان سے ملانے کے لیے پانچ سو کلومیٹر سے زائد کا راستہ گلگت بلتستان سے ہی گزر کر بن رہا ہے۔ سنگلاخ پہاڑی سلسلے میں سی پیک کے لیے یہی واحد راستہ ہے۔ مگر اس اہم منصوبے کے نہ کسی اہم بین الممالک اجلاس میں گلگت بلتستان کو سٹیک ہولڈر کے طور پر حیثیت دی گئی اور نہ ہی یہاں باقی صوبوں کی طرح یہاں منصوبے شروع کیے جا رہے ہیں جو لوگوں کے احساس محرومی کو مزید بڑھاوا دے رہا ہے۔ نیز دیامر بھاشا ڈیم بھی اسی علاقے میں بنے گا۔انسانی حقوق کی پامالی کا معاملہ بھی انتہائی سنگین ہے۔ قانون و انصاف کی فراہمی کے لیے موجود نظام جس چیف کورٹ، ڈسٹرکٹ کورٹ اور سیشن کورٹ شامل ہیں بہت ہی ناقص، سست اور ریاستی جبر سے متاثر ہے اور علاقے میں عوام کے لیے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ میں مکمل طور پر ناکام ہے۔ قانون و انصاف کے کمزور نظام کے باعث علاقے میں میں ہزاروں ایکڑ اراضی پر بلا معاوضہ قبضہ کرنا، آزادی اظہار پر قدغن لگاتے ہوئے سیاسی مسائل وحقوق کے لیے آواز اٹھانے والے دسیوں سماجی کارکنوں کو جھوٹے مقدمات میں پابند سلاسل کرنا اس کی چند واضح مثالیں ہیں۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ گلگت بلتستان کے مسائل و حقوق کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے تاکہ عوام کے مسائل حل ہو سکیں۔