وزیر اعظم شہبا زشریف نے کہا ہے کہ عمران خان نے ملک کو خطرناک صورتحال پر پہنچایا، ہم نے آنے کے بعد ملک کو سنبھالا دیا، جب بھی انتخاب ہوں گے مسلم لیگ نون بھاری اکثریت سے کامیاب ہو گی۔وزیر اعظم کے زیر سربراہی اجلاس میں موجودہ سیاسی اور معاشی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا، اجلاس میں پارٹی کارکنوں کو متحرک کرنے کے لیے پارٹی عہدیداروں کو ٹاسک دیئے گئے۔شہباز شریف نے کہا کہ نون لیگ ایک مضبوط اور بڑی جماعت ہے اس کو کوئی بھی ختم نہ کر سکا، ہم نہیں چاہتے کہ عوام پر مہنگائی کا بوجھ ڈالیں،غریب عوام کا احساس ہے، ہماری کوشش ہے کہ جو بھی قدم اٹھائیں اس سے غریب آدمی کو نقصان نہ ہو۔وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے معاملات جلد حل ہو جائیں گے، ہم عنقریب معاشی بحرانی کیفیت سے نکل جائیں گے، معاشی معاملات سے نمٹنے کے لئے تمام پلان موجود ہیں، مہنگائی پر بہت جلد قابو پالیا جائے گا۔شہباز شریف نے کہا کہ سابق حکمران جماعت کی خرابی کو درست کرنے میں وقت لگتا ہے، ہر طرح سے معاملات کنٹرول میں ہیں، کوئی فکر کی بات نہیں۔اس وقت پاکستان میں مجموعی طور پر مہنگائی کی شرح بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ماہرین کے اندازوں کے مطابق تقریبا ایک سال تک اس میں کمی آنے کی توقع نہیں ہے۔ شرح سود بھی اوپر جائے گی، معیشت جو حد سے زیادہ پھیلی ہے وہ اب سکڑے گی۔ تو اب مہنگائی کی شرح 2023 جون کے بعد نیچے آنے کی توقع ہے۔اس کے گہرے معاشی اثرات بھی ہیں اور اس کے سیاسی اعتبار سے بھی اثرات دیکھنے کو ملیں گے کیونکہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ عوام کی طرف سے خاصا سخت ردِ عمل آنا شروع ہو گیا ہے کہ اشرافیہ سے قربانی نہیں مانگی جا رہی، سارا بوجھ عوام پر ڈالا جا رہا ہے۔ یہاں سمجھنے کی بات یہ کہ معیشت کی شرح نمو تو اس وقت چھ فیصد ہے لیکن پاکستان کا اصل چیلنج دہرے خسارے ہیں۔ یعنی ہماری درآمدات زیادہ ہیں برآمدات کم ہیں، جبکہ دوسری جانب ہمارے خرچے زیادہ ہیں لیکن ریوینو کم ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ معاشی ترقی کے لیے ایک طویل مدتی اصلاحاتی حکمتِ عملی بنائے، ہم ہر پانچ سال کے بعد آئی ایم ایف کے پاس اسی وجہ سے جاتے ہیں، جب تک ہم معیشت کا ڈھانچہ نہیں بدلتے اور خساروں میں کمی نہیں لاتے تو ہم اس چکر میں پھنسے رہیں گے۔جب ہم درآمد کرتے جاتے ہیں تو اس کے لیے ڈالر چاہیے ہوتے ہیں، ڈالر آپ کے پاس برآمدات سے آتے ہیں، برآمدات میں اضافہ تب ہوتا ہے جب سرمایہ کاری میں اضافہ ہو رہا ہو اور وہ پیداواری سیکٹرز میں جائے۔ ہم ایک تجارتی معیشت بن کر رہ گئے ہیں، نہ کہ پیداواری۔ہمیں درپیش بہت سے عالمگیر بحران حقیقی اجرتوں میں کمی کا باعث بنے ہیں۔ ان بحرانوں کے باعث لاکھوں کارکن سنگین حالات سے دوچار ہیں جنہیں بڑھتی ہوئی غیریقینی صورتحال کا سامنا ہے۔اگر کم ترین اجرت پانے والوں کی قوت خرید برقرار نہیں رہتی تو آمدنی میں عدم مساوات اور غربت مزید بڑھ جائے گی۔ اس طرح دنیا بھر میں مزید سماجی بے چینی کو ہوا ملے گی اور تمام لوگوں کے لیے خوشحالی اور امن کا حصول مشکل ہو جائے گا۔ مہنگائی اور کسی حد تک یوکرین کی جنگ اور توانائی کے عالمی بحران کے نتیجے میں سست رو معاشی نمو نے دنیا بھر کے ممالک میں اجرتوں کو متاثر کیا ہے جن میں جی20 کے نمایاں صنعتی ملک بھی شامل ہیں۔اندازے کے مطابق ترقی یافتہ جی20 ممالک میں حقیقی اجرتوں میں 2.2 فیصد کمی ہوئی اور ترقی پذیر جی20 ممالک میں اس دوران اجرتوں میں 0.8 فیصد اضافہ ہوا۔ یہ کووڈ 19 وبا سے پہلے 2019 میں ہونے والے اضافے سے 2.6 فیصد کم ہے۔ خِطوں اور ممالک کے حوالے سے معلومات بھی شامل ہیں جس میں بتایا گیا ہے کہ زیادہ آمدنی والے ممالک میں مہنگائی مقابلتا تیزی سے بڑھی ہے۔بڑھتی ہوئی مہنگائی نے غریب خاندانوں کو بری طرح متاثر کیا ہے کیونکہ ان کی بیشتر تلف پذیر آمدنی لازمی ضرورت کی اشیا اور خدمات پر خرچ ہوتی ہے جن کی لاگت میں عموما غیرلازمی اشیا کے مقابلے میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔ بہت سے ممالک میں مہنگائی کم از کم اجرت کی حقیقی قدر کو بھی ختم کیے دیتی ہے۔ اجرتی کارکنوں اور ان کے خاندانوں کو اپنی قوت خرید اور معیار زندگی برقرار رکھنے میں مدد دینے کے لیے پالیسی سے متعلق موثر اقدامات کی فوری ضرورت کو واضح کیا ہے۔یہ اقدامات موجودہ سطح کی مہنگائی، عدم مساوات اور سماجی بے چینی میں اضافے کو روکنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ہمیں آمدنی کی درجہ بندی کے وسطی اور زیریں حصے میں کارکنوں پر خاص توجہ دینا ہو گی۔حقیقی اجرتوں میں کمی پر قابو پانے سے معاشی ترقی برقرار رکھنے میں مدد مل سکتی ہے ۔ غیرمستحکم ریاستی قرضوں نے بہت سے ترقی پذیر ممالک کو شدید معاشی نقصان پہنچایا ہے بہت سے ممالک کو سماجی بے چینی سمیت کئی معاشی مسائل کا بھی سامنا ہے کیونکہ وہ بھاری قرضوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ یوکرین پر روس کے حملے سے یہ حالات اور بھی بدترین صورت اختیار کر گئے ہیں۔ یہ حملہ نہ صرف اندروں ملک بلکہ اس کی سرحدوں سے باہر بھی بہت بڑے انسانی مصائب کا باعث بنا۔ جنگ نے اشیا کی تجارتی ترسیل کے عالمگیر نظام میں بھی نئی رکاوٹیں پیدا کیں جس کے نتیجے میں ایندھن اور خوراک کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں اور ان حالات نے عورتوں اور لڑکیوں کو غیرمتناسب طور سے متاثر کیا۔ انتہائی غربت میں زندگی بسر کرنے والے 760 ملین لوگوں میں عورتوں اور لڑکیوں کی تعداد مردوں اور لڑکوں سے سولہ ملین زیادہ ہو گی۔بیک وقت بہت سے بحرانوں کے ضمنی اثرات سے خوراک و غذائیت، صحت و تعلیم، ماحول اور امن و سلامتی کی صورتحال میں بھی بگاڑ آیا ہے‘موسمےاتی تبدےلےوں نے بھی حالات کو خراب کےا ہے۔مہنگائی موجودہ نظام کا ایک لازمی جزو ہونے کی حیثیت سے اس کے خمیر میں یوں گندھی ہوئی ہے اور اس کے انگ انگ میں یوں پھیلی ہوئی ہے کہ اس کو اس نظام سے الگ کرنا کسی طرح بھی ممکن نہیں ۔مہنگائی کی طوفانی لہر جو پچھلے چند سالوں سے شدت کے ساتھ پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے، اب برداشت کی تمام حدود پار کر رہی ہے۔ تیل، چینی، آٹا، دالیں، سبزیاں، انڈے، گوشت، بجلی وگیس کے بل اور سکول فیس آبادی کے بڑے طبقے کی برداشت سے باہر ہو چکے ہیں۔ جب ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ موجودہ معاشی نظام کام کیسے کرتا ہے تو ہمیں مہنگائی اور اس سرمایہ دارانہ نظام کے درمیان ایک گہرا اور لازمی رشتہ دیکھنے کو ملتا ہے۔مہنگائی کی دوسری وجہ حکومت کی جانب سے ڈیمانڈ سپلائی کے میکینزم کی نگہداشت میں نااہلی اور کرپٹ حکومتی عہدیداروں کا اس عمل کی نگہداشت میں بڑے بڑے سرمایہ داروں کو سپورٹ کرنا ہے، جس سے مارکیٹ میں اشیائے ضرورت کی کمی کی وجہ سے ان کی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے جمہوری حکمران عالمی طاقتوں اور مقامی سرمایہ داروں کے فرنٹ مین بن کر سپلائی چین کو ہائی جیک کرنے کی کوششوں میں کوئی مداخلت نہیں کرتے بلکہ الٹا ان کی بلیک میلنگ میں آ کر ان کے سامنے سر جھکاتے ہیں۔ یہ سرمایہ دار ذخیرہ اندوزی کر کے اور کارٹیل بنا کر سپلائی کی قلت پیدا کرتے ہیں تاکہ اشیا کی قیمت بڑھا کر دن دوگنا، رات چوگنا منافع کما سکیں۔ حکومت آئی ایم ایف کو ڈالر کی قسطیں پوری کرنے کے چکر میں ضروری اشیا درآمد ہی نہیں کرتی یا تاخیر سے درآمد کرتی ہے خواہ و تیل، اےل اےن جی ہو یا گندم، چینی اور دیگر اجناس، تاکہ ڈالر کو بچا کر کرنٹ اکاﺅنٹ کا خسارہ کم کیا جا سکے اور بین الاقوامی سود خوروں کی قسطیں پوری کی جا سکیں خواہ عوام کے پاس دو وقت کے کھانے کی روٹی ہی کیوں نہ ختم ہو جائے۔ یوں سپلائی کی قلت قیمتوں کے بڑھنے پر منتج ہوتی ہے اور مہنگائی کا سبب بنتی ہے۔مہنگائی میں اضافے کی تیسری بڑی وجہ توانائی کی قیمت میں ہوشربا اضافہ ہے جس سے کاروباری اور تجارتی سرگرمیوں کی لاگت میں اضافہ ہوتا ہے۔ بجلی بنانے کے کارخانوں کی نجکاری سے انرجی انفراسٹرکچر عوامی اور ملکی کنٹرول سے نکل کر چند ملٹی نیشنل سرمایہ داروں کے قابو میں آ جاتا ہے جو توانائی کی فراہمی اور اس کی قیمتوں پر بڑی حد تک اثر انداز ہوتے ہیں۔مہنگائی میں اضافے کی چوتھی بڑی اور بنیادی وجہ سرمایہ دارانہ معیشت میں ٹیکس کا نظام ہے جو بلواسطہ اور بلا واسطہ ٹیکسوں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے اکثر ٹیکس خصوصی طور پر بلا واسطہ ٹیکس، تمام اشیا اور خدمات پر بالعموم لاگو کیے جاتے ہیں جس وجہ سے اشیا اور خدمات کی قیمتیں اپنی اصل قیمتوں سے بہت زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔ اس کی ایک مثال پٹرولیم مصنوعات کی اصل قیمتوں پر لاگو کیا جانے والا جنرل سیلز ٹیکس اور پٹرولیم لیوی ہیں۔ مہنگائی موجودہ نظام کا ایک لازمی جزو ہونے کی حیثیت سے اس کے خمیر میں یوں گندھی ہوئی ہے اور اس کے انگ انگ میں یوں پھیلی ہوئی ہے کہ اس کو اس نظام سے الگ کرنا کسی طرح بھی ممکن نہیں ۔ جہاں تک پاکستان کا حال ہے حکومتوں کو ماضی کی حکومتوں کو مطعون کرنے کی بجائے اپنی کارکردگی ظاہر کرنا ہو گی اگر وہ جانتی ہےں کہ سابقہحکومتوں نے صورتحال خراب کی ہے تو تو انہےں کس نے کہا ہے کہ حکومت میں آنے کی کوشش کرےں ‘حالات خراب ہوں تو بڑی کابےنہ نہےں بنائی جاتی بلکہ بچت کی جاتی ہے لےکن ہمارے ہاں جانتے ہوئے بھی اخراجات بڑھا دےے جاتے ہےں کےونکہ بوجھ تو عوام کو برداشت کرنا ہے۔
