چیف الیکشن کمشنر گلگت بلتستان راجہ شہباز خان نے مختلف ملاقاتوں میںگلگت بلتستان میں بلدیاتی الیکشن کے انعقاد سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کےا اس موقع پر ممبران کونسل نے اس بات پر زور دیا کہ عوامی مسائل کے حل کیلئے مضبوط بلدیاتی نظام اور اس کا تسلسل یقینی بنانا ہوگا تاکہ عوامی مسائل مقامی سطح پر حل کیے جاسکیں۔موجودہ جی بی کی مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے فوری بلدیاتی الیکشن کرانا نا گزیر ہے۔اس موقع پر چیف الیکشن کمشنر گلگت بلتستان راجہ شہباز خان نے کہا کہ ہم ایک جامع اور کار آمد بلدیاتی نظام قائم کرنے کے لیے کوشاں ہےں اور کوشش ہے کہ فوری صوبے میں بلدیاتی الیکشن کے انعقاد کو ممکن بنائیں۔بلدیاتی نظام دراصل وہ نظام ہے جس میں بنیادی سطح یا ضلع کی سطح پر عوامی مسائل کے حل کے لیے عوامی نمائندوں کو چنا جاتا ہے ۔ ان کو مسائل کے حل کے لیے رقوم فراہم کی جاتی ہیں ۔ ان عوامی نمائندوں کا انتخاب بھی سیاسی بنیادوں پر ہی اکثر و بیشتر کیا جاتا ہے۔ بسا اوقات ان نمائندوں کا انتخاب غیر جماعتی بنیادوں پر کیا جاتا ہے اور کبھی پارٹی بنیادوں پر الیکشن کے ذریعے کیا جاتا ہے ۔ عوام کے ووٹ سے منتخب ہونے والوںکی معاونت کے لیے نچلی سطح پر مزید نمائندے منتخب کےے جاتے ہےں ۔ان کی ذمہ داری یہ ہے کہ عوامی سطح پر جلد از جلد مسائل کو حل کیا جائے ۔ یہ نظام پاکستان میں ہمیشہ اس وقت لایا گیا جبکہ ملکی حکومت آمریت یا فوج کے ہاتھ میں ہوئی ۔ہرآمر ، فوجی حکمران نے اس نظام کو قابلِ عمل بنانے کی جدوجہد کی ، الیکشن بھی کروائے لیکن چونکہ وہ الیکشن سیاسی بنیادوں پر نہیں ہوئے اور کرپشن اس دور میں بھی موجود رہی اس لیے اس نظام کے فوائد عوام تک نہیں پہنچ سکے اور نہ ہی یہ نظام عوام میں مقبولیت پا سکا ۔ جمہوریت کے زمانہ میں یہ نظام زیادہ ترنافذ نہیں کیا گیا بلکہ اکثر و بیشتر اس نظام کو مارشل لا کی پیداوار سمجھ کر رد کر دیا گیا۔درحقیقت یہ ایک اچھا نظام ہے اگر اس میں کرپشن نہ ہو اور منتخب نمائندگان اس نظام کو احسن طریقے سے چلائیں کیونکہ اگر عوامی مسائل عوامی سطح پر حل ہونے لگیں تو ملکی مسائل میں پچاس فی صد کمی کی جا سکتی ہے ۔ اگر عوامی سطح پر منتخب یہ نمائندے ، فراہم کی گئی رقوم کو احسن طریقے سے استعمال کریں تو کسی گلی محلے کی گلیاں کچی نہ ہوں اور نہ ہی کہیں نالیوں اور اس نوعیت کے دیگر مسائل ہوں۔ کوئی بھی منتخب ہواس کا مقصد سیاست برائے سیاست نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کا مقصد عوام کے مسائل کا حل اور عوام کی خدمت ہونا چاہیے ۔بلدیاتی انتخابات میں ایک بات واضح طور پر سامنے آئی کہ کسی بھی صوبے میں کوئی بڑی تبدیلی نہ آسکی۔ جن امیدواروں کو ماضی میں رد کیا گیا یا جن کو منتخب ہونے کے بعد ان پہ الزامات کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا انہی کی نئی نسل کے نمائندے آج کی نسل سے ووٹ مانگ رہے ہوتے ہیں۔ مزید برآں جماعتی بنیادوں پہ ہونے کے باوجود سیاسی جماعتیں نہ تو انتخابی مہم میں اس طرح سے شامل نظر آتی ہیں نہ ہی وہ اس نظام سے مطمئن نظر آتی ہےں۔اس کے علاوہ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ماضی میں جب تیسری سیاسی قوت کا راگ الاپا گیا تو یہ تاثر لے لیا گیا کہ شاید ملک کی تقدیر سنورنے کی طرف آ رہی ہے لیکن ان حالیہ بلدیاتی انتخابات میں ایک مرتبہ پھر پرانے چہرے نئے ناموں کے ساتھ اقتدار کی بندر بانٹ کرتے نظر آ رہے ہیں۔ سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ تبدیلی کے دعوے کرنے والوں نے بھی بہتی گنگا میں حصہ بقدرے جثہ کے مصداق ہاتھ دھونے کو ہی غنیمت سمجھتے ہوئے حالات سے سمجھوتہ کر لیا اور عام عوام کے مسائل جوں کے توں ہے۔افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ پرویز مشرف جسے عام طور پر آمر کہا جاتا ہے، نے موجودہ جمہوریت سے بہت بہتر انداز میں اقتدار نچلی سطح پر نہ صرف منتقل کیا بلکہ اس نظام کو با اخیتار بھی بنایا جس سے عوام نے سکھ کا سانس لیا تھا لیکن جمہوری ادوار شروع ہوتے ہی آمرانہ دور کے اچھے اقدامات کو بھی تبدیل کرنا ضروری خیال کر لیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ بلدیاتی نظام کو ایک نئی شکل دے دی گئی ۔ اس نئی شکل پر بہت سے خدشات ظاہر کیے جاتے رہے ہیں اور اب بھی کم و بیش تمام سیاسی جماعتیں اس بات پہ متفق نظر آتی ہیں کہ اس نظام سے عوام کے مسائل اس طرح سے حل نہیں ہو پائیں گے جس طرح عوام توقع کیے بیٹھے ہیں۔ بلدیاتی نمائندے ہر وقت عوام میں موجود رہتے ہیں۔ جب ان کے پاس مکمل اختیارات نہیں ہوں گے تو نہ صرف وہ عوام کے بنیادی مسائل بروقت حل نہیں کر پائیں گے بلکہ وہ اپنی قدرو قیمت بھی کھو دیں گے۔ یہاں یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ جو بھی رقوم ان نمائندوں کو دی جائیں ان کا احتساب ہونا نہایت ضروری ہے تاکہ کرپشن کی گنجائش نہ رہے ۔ نظام کوئی بھی ہو کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو عوام کو اس کے فوائد تب تک حاصل نہیں ہو سکتے جب تک کہ اس نظام میں موجود کرپشن کو ختم نہ کیا جائے ۔ عوام کی خدمت کو اپنا شعار بنایا جائے ۔اگر وہ رقوم جو مسائل کے حل کے لیے فراہم کی جا رہی ہوں ان کا احتساب ہو گا اور ان کی خرد برد کی پکڑ ہوگی تو اس نظام کی بہتری عوام کونظر آئے گی۔شہری حکومت کی تاریخ موہنجو دڑو اورنینوا سے منسلک ہے ۔ جمہوریت کی ابتداہی بلدیات سے ہوتی ہے ۔ یونان اورروم کی انتہا کو چھونے والی سلطنتوں کی شروعات ہی شہری حکومت سے ہوئی تھی ۔ ہمارے آمر بھی اسی فلسفہ پر کاربند ہیں ۔ یہ جب آتے ہیں تو پہلے بلدیاتی انتخاب کراکے اسی کو اپنا الیکٹوریل کالج بنا لیتے ہیں ۔ لوکل جمہوریت شعور بیداری کا راستہ دکھائی دیتی ہے ۔ جمہور کے لئے آسانیوں کا اہتمام کرتی جس سے معاشرے میں اشتراک عمل کا احساس پروان چڑھتا ہے ۔ہمارے ملک میں بلدیاتی انتخاب فوجی آمروں کے دور میں ہوئے ۔ چاروں آمروں نے علیحدہ علیحدہ سسٹم عطا فرمائے ۔ چارقوتیں بیوروکریسی ، فوج ، ارکان پارلیمان اور سیاسی جماعتیں شہری حکومتوں کو مضبوط مستحکم کر سکتی ہیں مگر یہی چاروں قوتیں ہمارے بلدیاتی نظام کے زوال کا باعث ہیں کیونکہ یہ لوگ عام آدمی کے ہاتھ میں اختیار برداشت نہیں کر سکتے ۔یہ افسوسناک اور جمہوریت گریز رویہ ہے ۔تمام جماعتیں اور تمام جمہوریت کے چےمپئن بلدیاتی جمہوریت سے خائف ہیں۔آئین کے آرٹیکل 140کی رو کے مطابق سیاسی مالیاتی ذمہ داریاں بلدیاتی نمائندوں کے سپرد کریں ۔مقامی حکومتیں دراصل کسی ریاست کو قیادت فراہم کرنے کے لئے ایک نرسری کا کردار اداکرتی ہیں ۔ ساﺅتھ ایشیا‘انڈیا ، بنگلہ دیش ، سری لنکا کے علاوہ دیگر ممالک حکومت سے ہٹ کر ایک مضبوط شہری حکومتوں کا نظام قائم ہے ۔ اس بار سیاسی حکومتوں کو موقع ملا تھا کہ مل بیٹھ کر ایک ایسا تاریخ ساز بلدیاتی نظام قومی مفاد میں تشکیل دیا جائے جو آنے والی نسلوں کےلئے یادگار ہو جائے مگر افسوس کہ فوجی آمروں سے زیادہ سیاسی آمر خطرناک ہیں ۔بلدیاتی نظام میں اختیارات اور انتظامی معاملات کی نچلی سطح پر منتقلی ہوتی ہے جس سے جمہوری اقتدار اعلی کی تعریف کے مطابق مقامی لوگ انتظامی امور اوراشتراکی ترقیاتی اپروچ کا حصہ بنتے ہیں۔ اختیارات، انتظامی امور اور ترقیاتی فنڈز کی نچلی سطح پرمنتقلی کے ذریعے عوام کو بااختیار بنایا جا سکتا ہے۔ اس صورت میں مقامی انتظامیہ، مقامی مسائل کی محدود وسائل کے اندر رہتے ہوئے بہتر حل نکال سکتے ہیں۔ جبکہ محدود وسائل کو اشتراکی ترقیاتی اپروچ کی بنیاد پر، بہتر طریقے سے علاقائی ترقی ممکن ہو سکتی ہے۔ موجودہ دور میں، سالانہ ترقیاتی پلان و ایم ایل اے فنڈ کو سیاسی بنیادوں پر مختص کیا جاتا ہے، جبکہ ان فنڈز کا صرف سیاسی مقاصد کے لیئے استعمال ہوتا ہے۔ اکثروبیشتر یہ فنڈز ترقیاتی کاموں میں لگانے کے بجائے ووٹ خریدنے یا سیاسی کارکنان کو نوازنے کے لیئے استعمال ہوتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان فندز کو مقامی لوگوں کے مسائل اور موجود وسائل کے تناظر میں غیر سیاسی بنیادوں پرمختص کیا جانا ضروری ہے۔ اس کا ایک جامع طریقہ کار ہونا چاہیئے۔ ہر سال علاقائی بلدیاتی باڈی یا کمیٹی کے ارکان عوام کے ساتھ مشاورت کریں اور مسائل کی نشاندہی کریں۔ سب سے اہم اور بنیادی ضرورت یا مسئلہ کے حل کے لیئے تجویز اسمبلی ممبران کے پاس جانی چاہیئے، تاکہ وہ اسی بنیاد پر سالانہ ترقیاتی پلان اورفنڈ کو مختلف مدات میں مختص کرسکے۔ اس کے علاوہ جب یہ عمل نچلی سطح پر نافذ ہوتا ہے تو یہاں سے عام لوگوں کی بہتر سیاسی تربیت ہوتی ہے اور وہ آگے کی سیاست کا حصہ بن کر ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ایک یونین کونسل یا ڈسٹرکٹ کونسل کا ممبر جب اچھا تربیت یافتہ ہو تو وہ عملی طور پر مستقبل میں اسمبلی پارلمینٹ کا حصہ بن کر اپنی صلاحیت ملکی ترقی کے لیئے بروئے کار لاسکتا ہے۔گلگت بلتستان میں عرصے سے بلدےاتی نظام کا غلغلہ سنائی دے رہا ہے‘ےہ جاننے کے باوجود کہ اس کی اہمےت مسلمہ ہے ان انتخابات میں تاخےر سمجھ سے بالاتر ہے‘اس لےے اب گلگت بلتستان میں انتخابات کرا ہی دےے جائےں۔
