غیر ملکی خبر رساں ایجنسی رائٹرز نے گزشتہ روز اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ عالمی بینک نے پاکستان کو 1.1 ارب ڈالر قرض کی فراہمی توانائی کے قرضوں اور ٹیرف کے حوالے سے کچھ اقدامات کے سبب آئندہ مالی سال تک موخر کردی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اہم مسئلہ توانائی کے شعبے میں گردشی قرضے کی منیجمنٹ اور ٹیرف پر نظرثانی کا ہے۔عالمی بینک نے پاکستان میں ممکنہ آپریشنزکی منظوری میں تاخیرسے متعلق فیصلے کے حوالے سے خبروں کو بے بنیاد قراردیا ہے۔ پاکستان میں عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر ناجی بن حسائن نے سماجی رابطوں کے پلیٹ فارم ٹوئٹر پر جاری کردہ اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں عالمی بینک کے ممکنہ آپریشنز کی منظوری میں تاخیر کے حوالے سے عالمی بینک کے فیصلے کے بارے میں پریس رپورٹس بے بنیاد ہیں۔ہمارے تمام مجوزہ آپریشنزاور ان کی رقوم سے متعلق بورڈ کی منظوری کی تاریخیں واضح ہیں۔ عالمی بینک مناسب طریقہ کار کے بعد اور مجوزہ منصوبوں کی تیاری کی بنیاد پر بورڈ کے غور و خوض کے لیے پروجیکٹ کی تجاویز کے تبادلے کے وقت کا فیصلہ کرتا ہے۔بدقسمتی سے پاکستان کی معیشت ان قرضوں کی دلدل میں مسلسل دھنستی جا رہی ہے ۔ کبھی کم اور کبھی زیادہ لیکن مجموعی طور پر ہمیں گزشتہ دو چار دہائیوں سے یہ دباﺅ بدستور بڑھتا ہی جا رہا ہے۔قرضوں کے علاوہ حکومت کو اپنے حکومتی اداروں یا عالمی سرمایہ کاروں یا اداروں کو مختلف طرح کی مالیاتی گارنٹیز بھی دینا پڑتی ہیں جِسے سوورن گارنٹیز کہا جاتا ہے، یہ حکومتی گارنٹی بھی ایک طرح کی مالیاتی ذمہ داری ہوتی ہے۔ معیشت کے ذمہ واجب الادا قرضوں کے حساب میں یہ ریاستی گارنٹیز بھی اندرونی و بیرونی قرضوں میں شامل کرکے اسے مجموعی قومی پیداوار یعنی جی ڈی پی کے تناسب سے دیکھا جاتا ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے معیشت کے اندرونی اور بیرونی قرضوں میں تیزی سے اضافہ ہوا۔سی پیک کی سرمایہ کاری اور اس کے علاوہ براہ ِ راست بیرونی سرمایہ کاری کے سبب تجارتی خسارہ بڑھا اور معیشت پر بیرونی قرضوں کا بوجھ بڑھنا شروع ہوا تو ایک موقف یہ بھی دہرایا جاتا رہا کہ معیشت میں اس غیرمعمولی سرمایہ کاری کی وجہ سے وقتی دباﺅ ہے۔اس سرمایہ کاری کے ثمرات معیشت میں اضافی پیداوار کی صورت میں جب ظاہر ہوں گے تو معیشت کی ان قرضوں کی ادائیگی کی صلاحیت میں بھی اسی تناسب سے یا شائد کچھ زائد تناسب سے ہی اضافہ ہو گا۔گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان کی معیشت کو اچانک غیرمعمولی دباﺅ کا سامنا ہے۔ اس دباﺅ کا ایک ان چاہا نتیجہ ہمارے سامنے خوفناک حد تک بڑھے ہوئے اندرونی اور بیرونی قرضوں میں مزید نئے قرضوں کا بوجھ ہے۔ قرضوں کے حجم میں اضافے کے علاوہ ایک اور رجحان بھی گزشتہ سالوں سے نمایاں رہا۔ حکومت نے قومی بینکوں کے قرضوں اور کچھ طویل مدت قرضوں کی ادائیگی تو ضرور کی لیکن سٹیٹ بینک سے نئے قرض لے کر بینکوں سے قرضوں کے موجودہ رجحان میں قلیل مدت قرضوں پر تکیہ کرنا پڑ رہا ہے۔ ان قرضوں پر مارک اپ کی شرح بھی زیادہ ہے اور ان کی ادائیگی کے لئے پھر سے نئے قلیل مدت قرضے لینے پڑتے ہیں، اس عمل کو مالیاتی اصطلاح میں رول اوور کرناکہتے ہیں۔ یہ صورت کچھ بیرونی قرضوں میں بھی ہے جہاں قلیل مدت اور کمرشل بینکوں اور شرائط پر تکیہ ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر سال اور بالخصوص گزشتہ سال اور آنے والے سالوں میں واپس کئے جانے والے قرضوں کی مالیت اور ان پر ادا کئے جانے والے سود کی ادائیگیوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ۔ تیزی سے بڑھتے ہوئے بیرونی قرضوں اور ان پر سود کی ادائیگیوں کے بوجھ نے معیشت کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ بیرونی قرضوں کے اس بوجھ کے معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور آنے والے چند سال بھی اس اقتصادی دباﺅ میں گزرنے کا اندیشہ ہے۔ حکومت کے بجٹ میں اندرونی اور بیرونی قرضوں پر سود کی واپسی اور ادائیگیوں کے لئے مختص رقم ترقیاتی اور دفاعی اخراجات سے بھی زیادہ ہے۔ مالی بوجھ آنے والے سالوں میں مزید بڑھے گا جس کی وجہ سے ترقیاتی اخراجات، دفاعی اخراجات اور دیگر جاری حکومتی اخراجات پر دباﺅ بدستور بڑھے گا۔ ان سیکٹرز کے لئے اخراجات میں اضافہ وقت کی ضرورت ہونے کے باوجود حکومت خاطر خواہ فنڈز کا بندوبست کرنے کےلئے مشکلات کا شکار رہے گی۔تجارتی اور کرنٹ اکاﺅنٹ خسارے میں اضافے کی وجہ سے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔حکومت کو اپنے زرِمبادلہ کو ایک حد تک برقرار رکھنے کے لئے مزید بیرونی سہارے کی ضرورت ہے۔ نئی حکومت کو اسی مجبوری کی بنا پر آتے ہی اس بحران کا سامنا کرنا پڑا۔زرِ مبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی کی وجہ سے شرح مبادلہ پر دباﺅ روپے کی قدر میں مزید کمی کا باعث بنتا ہے۔ جس معیشت میں درآمدات برآمدات سے دو گنا سے بھی زائد ہوں اور کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ بھی زیادہ ہو تو اس کا لامحالہ نتیجہ روپے کی قدر پر مسلسل دباﺅ ہے اور مزید کمی کی تلوار پھربھی لٹکتی رہتی ہے۔ روپے کی قدر میں کمی سے مہنگائی میں اضافہ اور کاروباری لاگت میں اضافہ ایک نئے مشکل اقتصادی سلسلے کا باعث بنتا ہے۔بیرونی قرضوں اور سود کی ادائیگیوں کے لئے روپے کی صورت میں درکار وسائل میں بیٹھے بٹھائے مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ معاشی شرح نمو مجموعی اقتصادی صورتحال کا نچوڑ ہوتی ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان کو مستحکم اقتصادی ترقی اور بار بار کے بوم اینڈ برسٹ سائیکل سے چھٹکارہ پانے لئے تسلسل کے ساتھ چھ فی صد سے زائد سالانہ شرح نمو کی ضرورت ہے۔ تاکہ سرمایہ کاری میں تسلسل کے ساتھ اضافہ ہو سکے، انفراسٹرکچر میں جدت اور مزید بہتری لائی جا سکے، روزگار کے مزید مواقع پیدا کئے جا سکیں، عوام کی فلاح کے لئے ترقیاتی اخراجات اور دیگر حکومتی ترجیحات کے لئے مناسب وسائل فراہم ہو سکیں، معیشت میں یہ گنجائش پیدا کی جاسکے تاکہ نئے بیرونی قرضے اضافی پیداوار کا باعث بنیں اور ادائیگیوں کے لئے خود کفالت کا سبب بنیں ۔ ملکی معیشت ایک بار پھر نازک دوراہے پر کھڑی ہے۔نئی حکومت کے لئے لازم ہے کہ ان مسائل کے طویل مدت حل کے لئے بنیادی اصلاحات اور پیداواری ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیاں لا کر معیشت کو کم ویلیو پیداواری ڈھانچے سے نکال کر بہتر ویلیو اور ٹیکنالوجی کے پیداواری سانچے میں ڈھالنے کا بیڑہ اٹھائے تو یقینا ایک نئے مستحکم معاشی مستقبل کا تصور کیا جا سکتا ہے ، ورنہ معیشت کے موجودہ پیداواری ڈھانچے کے ساتھ کسی غیر معمولی تبدیلی کی گنجائش کم ہے۔اتنے بے تحاشہ قرضے اتارنے کے لیے پاکستان کو مزید قرضے لینے پڑیں گے اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا جسے معاشی اصطلاح میں ڈیٹ ٹریپ یا قرضوں کی دلدل میں دھنس جانا کہتے ہیں اور ایسی صورتحال میں پرانا قرض اتارنے کے لیے نئے قرض لیے جاتے ہیں۔ اس کے پاکستان کی معیشت پر انتہائی نقصان دہ اثرات ہوں گے۔ پاکستان کی آمدن کا ایک بڑا حصہ قرض کی رقم پر ادا کیے جانے والے سود کی مد میں جائے گا۔بھوک اور افلاس کے سائے میں رہنے والے کروڑوں پاکستانی، اشرافیہ کی مفاد پرستی اور بے حسی کی منہ بولتی تصویر ہیں۔ قدرت کی بے پناہ مہربانیوں اور تمام تر وسائل رکھنے کے باوجود وطن عزیز کی معاشی حالت ایک فقیر کی سی ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی کا مقصد کاسہ گدائی لیے ملک ملک صرف اس لیے پھرنا ہے کہ کہیں سے امداد یا قرض حاصل کیا جا سکے۔ پھر اس قرض سے مخصوص اشرافیہ کو فوائد دیئے جائیں۔ ملک میں ایک چھوٹا سا طبقہ امیر سے امیر تر ہوا ہے۔ جبکہ پاکستانیوں کی ایک کثیر تعداد نان جویں سے محروم ہے۔ مڈل کلاس کو کسی بھی سوسائٹی کا انجن سمجھا جاتا ہے۔ حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے سب سے زیادہ ٹیکسز، سوشل پریشر اور مسائل مڈل کلاس کو دیکھنا پڑتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ درمیانہ طبقے کو پاکستان میں پنپنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔ پاکستان قرضوں میں جکڑی ایک ریاست ہے۔ پاکستان کے ہر فرد کا بال بال عالمی ساہوکاروں کو گروی رکھا جا چکا ہے۔ ملک چلانے کے لیے سخت محنت، عرق ریزی سے تیار کی گئی پالیسیاں اور ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر فیصلوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اقتدار کی ہوس اور مال بنانے کے لیے سیاست کرنے والے صرف ایک مخصوص طبقے کا ہی تحفظ کر سکتے تھے۔ حکمرانوں کو قرض لینے کے عادت پڑ گئی ہے۔ ملک چلانے کے لیے امداد اور قرض سے ملنے والے مال کی لت کے باعث آج پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ دنیا کے مختلف ملکوں کو قرضوں کے شکنجے میں کیسے پھنسایا جاتا ہے؟ مقروض ممالک کی معیشت کو قرضوں کا اسیر بنا کر کیسے تباہ و برباد کیا جاتا ہے۔ پاکستان کا شمار بھی انہی ممالک میں ہوتا ہے جو قرضوں کے منجھدار میں ایسے پھنسے ہوئے ہیں کہ جہاں سے نکلنے کوئی امید نظر نہیں آتی۔ پاکستان کی اشرافیہ عیش و اقتدار کے نشے میں مست ہے۔ قرض کا طوق عوام کے گلے میں ڈال دیا گیا ہے۔ کسی کو فکر نہیں یہ قرض کون اتارے گا۔ عوام کولہو کے بیل کی طرح دن رات کام کرتے ہیں۔ حکمران طبقات ان پر سوار ہو کر حکومت کرتے ہیں اور قرض لیتے ہیں۔
