قراقرم کوآپریٹو بنک لمیٹڈ نے گلگت بلتستان میں سرکاری سکولوں کے ہونہار طلباء میں کاروباری صلاحیت اجاگر کرنے' اپنے کاروبار کی سوچ اپنانے 'کاروبار کیلئے نئے آئیڈیاز متعارف کرانے اور ہنر مندی کے حصول کیلئے پچاس ہزار روپے تک کے چھوٹے پیمانے پر قرضہ جات کی فراہمی کا فیصلہ کرتے ہوئے بورڈ سے باقاغدہ منظوری لے لی ہے۔ طلباء کو کاروبار کے لیے قرضوں کی فراہمی حوصلہ افزاء امر ہے'ہمارے ہاں طلباء کی اکثریت نے تعلیم کو ملازمت کے حصول کا ذریعے سمجھ رکھا ہے جبکہ ہمارے ہاں نجی و سرکاری شعبوں میں جاب مارکیٹ انتہائی محدود ہے اسلئے اپنے کاروبار کی حوصلہ افزائی ضروری ہے' دراصل وسائل کی کمی کے باعث طلباء کا رجحان ملازمتوں کی طرف ہوتا ہے اگر وسائل فراہم کر دیے جائیں تو وہ اپنے کاروبار کے حوالے سے پیشرفت کو ممکن بنا سکتے ہیں۔کچھ عرصہ قبل مرکزی سطح پراسٹوڈنٹ لون اسکیم کی ایپکس کمیٹی نے ملک بھرکے518طلبہ کے لیے آٹھ کروڑ چھبیس لاکھ روپے بلا سود قرض کی منظوری دی ۔ قرض حاصل کرنے والے طلبہ میں انڈرگریجویٹ، گریجویٹ اور پی ایچ ڈی طلبہ شامل تھے۔قرضوں کی فراہمی دس سال تک کے لیے تھی۔طلبہ کو اپنی تعلیم مکمل کرنے کے ایک سال یا ملازمت حصول کے چھے ماہ کے بعد ماہانہ بنیاد پر قرض واپس ادا کرنا تھا۔نیشنل بینک آف پاکستان نے بھی اپنی ایک اسٹوڈنٹ لون اسکیم شروع کی تھی اس اسکیم کے تحت ہونہار اور اہل طلبہ کو بلا سود قرضے فراہم کیے گئے ۔ مقامی بینکوں ایم سی بی، اے بی ایل، ایچ بی ایل اور این بی پی نے ایسے ہونہار طلبا کو بلا سود قرضے فراہم کیے جو مالی طور پر بقا کی جدوجہد کر رہے تھے اور انہیں اپنے تعلیم مکمل کرنے کے خواب کو پورا کے لیے مالی مشکلات اور وسائل کی عدم دستیابی کا سامنا تھا۔گریجویشن، پوسٹ گریجویشن اور پی ایچ ڈی کرنے والے طلبا ملک بھر کے پبلک سیکٹر کے تعلیمی اداروں میں توجہ کے مذکورہ بالا شعبوں میں درخواست دینے کے اہل تھے۔یہ ایک اچھی سکیم تھی جو طلباء کی تعلیم میں معاون تھی تعلیم مکمل کرنے کے بعد طلباء کو کاروبار کیلئے بھی قرض بھی فراہم کیا گیا۔پاکستان میں ماضی کی حکومتوں کی طرف کاروبار کرنے کے لیے بلا سود قرض دینے کی سکیموں کا اجرا کیا گیا جن میں کامیاب نوجوان پروگرام اور کامیاب پاکستان پروگرام جیسی سکیمیں شامل تھیں۔ تاہم اکثر افراد اس بارے میں شکایت کرتے ملتے تھے کہ اس قرض کے حصول کے لیے درخواست دینے کے باوجود یہ قرض انہیں نہیں ملا۔سابقہ حکومت کی جانب سے اکتوبر کے مہینے میں کامیاب پاکستان پروگرام کی سکیم کا اجرا کیا گیا، جس کے تحت لوگوں کو کاروبار کرنے، زرعی زمین اور مکان خریدنے کے لیے بلاسود قرض دے جانے ہیں جو بینکوں نے مائیکرو فنانس اداروں کے ذریعے مستحق افراد میں تقسیم کرنا تھے۔ اس سکیم کے تحت پانچ لاکھ تک کا قرض بلا سود فراہم کیا جاتا رہا۔یہ حکومت کا فلیگ شپ منصوبہ تھا جس سے معاشرے کے غریب طبقات کو مالی طور پر خود مختار بنانا تھا۔ یہ بھی کہا گیا کہ اس سکیم کے تحت پانچ لاکھ کی رقم سے کاروبار شروع کرنے کا جو اعلان کیا گیا، وہ زیادہ فائدہ مند نظر نہیں آتا کیونکہ اس سے چھوٹے پیمانے پر بھی کوئی کام نہیں ہو سکتا۔ ملک میں ماضی میں بھی ایسی سکیموں کا اجرا کیا گیا ہے تاہم اس کا نتیجہ کچھ ایسا شاندار نہیں نکلا کہ اس سے عام آدمی کو کوئی خاص فائدہ ملا ہو اور وہ مالی طور پر خود مختار ہوا ہو۔اگرچہ حکومت نے اس سکیم کے لیے مائیکرو فنانس اداروں کے ذریعے رقم تقسیم کی جو بینکوں نے فراہم کی تھی تاہم یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ بینک قرض دینے سے پہلے رسک منیجمنٹ کے پہلو دیکھتے ہیں تاکہ ان کا سرمایہ محفوظ رہے۔ حکومتی سکیمیں اکثر بینکوں کے نان پرفارمنگ لون کے پورٹ فولیو میں اضافہ کرتی ہیں جو بینکوں کے فائدے کی چیز نہیں ہوتی۔ بینکوں کی جانب سے جب حکومتی سکیموں کے تحت قرضے فراہم کیے جاتے ہیں تو اس کے لیے مخصوص بینکنگ پراڈکٹس تیار کی جاتی ہیں جنہیں تیار کرنے میں کچھ عرصہ درکار ہوتا ہے۔ اسی طرح ان پراڈکٹس کی ہینڈلنگ کے لیے افرادی قوت کی ضرورت ہوتی ہے جو بینک فوری طور پر ہائر نہیں کر سکتا۔ اسی طرح ان پراڈکٹس کے بارے میں عملے کی تربیت اور ان سے متلعق دستاویزی ضرویات کی تکمیل سے متعلق آگاہی بھی ضروری ہوتی ہے۔اکثر درخواست گزار قرضہ حاصل کرنے کے طریقہ کار کے بارے میں شکایت کرتے ہیں جس کی بنیاد ی وجہ یہی ہے کہ جو درخواستیں دیتے ہیں یا آن لائن فارم بھرتے ہیں وہ بنیادی معلومات بھی اکثر اوقات غلط لکھ دیتے ہیں۔چھوٹے قرض لینے والے ایسے افراد ہوتے ہیں جن کی آن لائن فارم بھرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی جس کی وجہ ان کے اندر کمپوٹر لٹریسی کا فقدان ہے اور جو ان کی جگہ آن لائن فارم بھرتے ہیں وہ ایسی بنیادی غلطیاں کرتے ہیں جو قرض لینے کے طریقہ کار کو متاثر کرتی ہیں۔غربت کوئی شعبہ نہیں ہے جس کو کوئی ادارہ بنا کر ختم کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں چند ایک زمیندار ہیں جن کے پاس لاکھوں ایکڑ زمین ہے اور لاکھوں افراد ایسے ہیں جن کے پاس ایک گز زمین بھی نہیں ہے۔ غربت ختم کرنے کے لیے اس تضاد کو ختم کرنا ہو گا۔ غربت کا خاتمہ صرف پیسے بانٹنے سے ممکن نہیں بلکہ اس کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہوں گے اور یہ صرف زیادہ سے زیادہ کارخانے لگانے سے ہی ممکن ہے۔ روزگار کے مواقع مہیا کرنے کے علاوہ حکومت کو زمین کی تقسیم اور ٹیکس کے نظام میں اصلاحات بھی کرنا ہوں گی۔ پاکستان میں کبھی کسی حکومت نے غربت کے خاتمے کے لیے تسلسل سے سیاسی آمادگی کا اظہار نہیں کیا گیا۔ اس حوالے سے باتیں بہت کی گئی ہیں تاہم پالیسیوں میں تبدیلی نہیں لائی گئی۔ ملک سے غربت کا خاتمہ اس وقت ہی ممکن ہے جب عوام کو رہائش فراہم کرنے اور زمین کے حصول کی حکومتی پالیسیوں میں تبدیلی لائی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ صحت کی بنیادی سہولیات فراہم کر کے بھی غربت کو کسی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔لاکھوں نوجوان ہر سال پاکستان کی ورک فورس میں شامل ہوتے ہیں اور زیادہ تر اپنی سی وی لیے نوکریاں ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔ اپنا کاروبار شروع کرنے کا شاید ہی کوئی سوچتا ہے۔ جب کوئی نوجوان کاروبار شروع کرنے کا سوچتا ہے تو اس کے پاس بہت ساری معلومات نہیں ہوتیں جیسا کہ اس کاروبار سے منسلک حکومتی قوانین کیا ہیں یا پالیسی کیا ہے۔ یا پھر یہ کہ اسے کس محکمہ سے کون سی اجازت درکار ہے۔ کدھر سے ہم نے این او سی لینا ہے۔ اس کے بارے میں ایسا کوئی ایک پورٹل نہیں ہے جہاں یہ ساری معلومات باآسانی مل جائیں۔ پاکستان میں آپ زبان پر کاروبار کرتے ہیں۔ اگر آپ اپنے کسی وینڈر یا کسٹمر کے ساتھ کوئی معاہدہ کرتے ہیں اور وہ اسے توڑ دیتا ہے تو آپ کے پاس کوئی ایسا طریقہ نہیں ہے کہ آپ قانون کا سہارا لے کر اس پر بروقت عمل کروا سکیں۔ کوئی موثر اور جلد کام کرنے والا محتسب نہیں ہے۔ عدالتوں میں تو آپ کو کئی کئی سال لگ جاتے ہیں۔ اگر پاکستان میں آپ کو کسی بینک سے رجوع کرنا پڑے تو یہاں شرحِ سود اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ آپ کی کاسٹ آف ڈونگ بزنس بہت بڑھ جاتی ہے۔ پھر قرضہ دینے کا بینک کا معیار یہ ہے کہ جس کے پاس پہلے پیسے ہوں اسی کو قرضہ دو۔ کوئی چیز گروی رکھے بغیر کسی نوجوان کو بینک سے کاروبار کے لیے قرضہ نہیں ملتا۔ یعنی آپ کو آخر کار اپنے ماں باپ، بہن بھائی یا کسی رشتے دار کے پاس ہی جانا پڑتا ہے۔ آپ کو کوئی بینک آئیڈیا یا کیش فلو کی بنیاد پر کہ اس کاروبار میں دم ہے، کوئی قرضہ نہیں دیتا۔جب کوئی سرمایہ کار آپ کے ساتھ بیٹھتا ہے تو وہ یہ کہتا ہے کہ میں آپ کے بزنس کا ستر سے نوے فیصد حصہ لے لوں گا۔ وہ یہ نہیں سوچتا کہ بزنس کے بانی جس کا آئیڈیا ہے اس کا اگر حصہ زیادہ ہو گا تو وہ زیادہ محنت سے زیادہ دل لگا کر کام کرے گا۔ اور اگر کاروبار کامیاب ہو گیا تو سرمایہ کار کا چھوٹا حصہ بھی بڑا ہو جائے گا۔ نوجوانوں کیلئے کاروبار شروع کرنا مشکل ہے مگر یہ مارکیٹ اس قدرے فائدہ مند ہے کہ ان دشواریوں کے باوجود نوجوانوں کو کاروبار کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ہمارے ہاں ابھی سٹارٹ اپ کلچر قائم نہیں ہوا لوگ اتنی تیزی سے کام نہیں کرتے جتنے دوسرے ممالک میں کرتے ہیں۔ باہر تو یہ ہوتا ہے کہ لوگ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے دفتر میں بیٹھے رہتے ہیں اور جب تک کام ختم نہیں ہوتا تب تک گھر نہیں جاتے۔ پاکستان میں شاید ابھی بھی نائن ٹو فائیو ذہنیت ہے۔ ہم یونیورسٹیوں میں انٹرپنیورشپ یعنی ذاتی کاروبار کرنے کے کورسز پڑھاتے ہیں مگر ان کو پڑھانے والے اساتذہ نے خود کبھی کوئی کمپنی نہیں چلائی ہوتی، انہیں کیا پتا کہ ایک کاروبار کرنے کے مسائل کیا ہوتے ہیں۔ ہمارے تعلیمی اداروں نے ڈگریوں پر توجہ دی ہے، ہنر پر نہیں۔ ہم کتابی باتیں سیکھا کر بچوں کو مارکیٹ میں بھیج دیتے ہیں۔اب تو لوگ قرضہ لیتے ہیں، کم شرحِ سود کی وجہ سے اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں، کوئی گاڑی لے لیتا ہے تو کوئی سیاحت میں خرچ کر دیتا ہے۔اس لیے تعلیمی اداروں میں طلبہ کو تعلیم مت دیں، ہنر سکھائیں۔ انہیں کہیں کہ چھٹیوں میں فیکٹریوں میں کام کریں تاکہ جب تک وہ فارغ التحصیل ہو کر مارکیٹ میں آئیں تو ان کے پاس کوئی ہنر ہو جو ان کے لیے بھی سود مند ہو اور انٹرپنیور کو بھی فائدہ پہنچائے۔
