خود کشی کے رجحان کا المیہ



گلگت بلتستان کی حکومت صوبے میں عوام خصوصا خواتین اورطالب علموں کی ذہنی صحت اورنشونما کے معاملے کو انتہائی سنجیدگی سے لیتے ہوئے خصوصی توجہ دے رہی ہے اس ضمن میں چیف سیکرٹری گلگت بلتستان محی الدین احمد وانی کی سربراہی میں ایک اسٹیئرنگ کمیٹی گزشتہ سال تشکیل پائی تھی اسٹیئرنگ کمیٹی کی تشکیل اغراض ومقاصد اور اب تک کی کارکردگی کے حوالے سے چیف سیکرٹری گلگت بلتستان نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا  کہ ہمیں مکمل یقین ہے کہ ایک انسان کی جان بچانا پوری انسانیت کو بچانے کے برابر ہے۔ بدقسمتی سے گلگت بلتستان کے بعض اضلاع میں خود کشی کے بڑھتے ہوئے واقعات باعث تشویش ہیں ہم خطے میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کوروکیں گے اس ضمن میں ایسے حادثات کے رونما ہونے کی وجوہات اور درپیش مسائل کی نشاندہی کر دی گئی ہے اور ہم ایسے ٹھوس اقدامات کریں گے کہ ان واقعات میں نمایاں کمی واقع ہو کر جڑ سے خاتمہ ممکن ہو گا۔خود کشی کا بڑھتا ہوا رجحان یقینا تشوشناک امر ہے۔ بد قسمتی سے دنیا میں ہر سال تقریبا سات لاکھ لوگ خود کشی کی وجہ سے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتے ہیں۔ یہ لمحہ فکر یہ ہے کہ خودکشی پندرہ سے انتیس سال کے لوگوں میں، طبعی یا حادثاتی وجوہ کے بعد، موت کی چوتھی بڑی وجہ ہے۔ دنیا میں  اٹھہترفیصد خودکشیاں معاشی طور پر پسماندہ ملکوں میں ہو رہی ہیں اور ان میں متوسط اور زیریں طبقے کے لوگوں کی تعداد زیادہ نظر آتی ہے۔عالمی سطح پر لوگ مختلف طریقوں سے ،مثلا مضر صحت ادویہ، پھندے سے لٹکنا یا اسلحے سے خود کو ختم کر کے اپنی قیمتی زندگی ضائع کر لیتے ہیں۔ذہنی دبائو اور ذہنی امراض کا بڑھنا، معاشی مسائل، اپنے دوستوں اور محبت کرنے والوں سے تعلقات کا ٹوٹ جانا، نسلی اور علاقائی تعصب، اپنی جنس کے حوالے سے مسائل کا شکار ہونا، قید اور تنہائی پسندی وہ چند اہم مسائل ہیں جو لوگوں کے لیے خودکشی کی اہم وجہ بنتے ہیں۔سماجی و ازدواجی مسائل بھی خود کشی کی ایک بہت بڑی وجہ تصور کی جاتی ہے۔ پاکستان میں بھی خودکشی کے رجحان میں پچھلے چند سال میں نمایاں اضافہ نظر آتا ہے جس کی بڑی وجہ گھریلو تشدد یا معاشی مسائل ہیں جو انسان کے ذہن میں ایک پر کشیدکی طرح پکتے رہتے ہیں یا ایسے ذہنی امراض جن کو پوری طرح حل نہیں کیا جا سکتا۔ یہ سب امراض یا عوامل لوگوں کو اپنی زندگیاں ختم کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ ایسے نوے فیصد لوگ جو ذہنی بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں جب وہ زیادہ ذہنی الجھن کا شکار یا ناامید ہوتے ہیں تو خود کشی کرلیتے ہیں۔ خودکشی کے زیادہ تر کیسز رپورٹ بھی نہیں ہو پاتے اور پوشیدہ ہی رہ جاتے ہیں۔ بہت سے کیسز کی فرانزک رپورٹ نہیں حاصل کی جاتی۔ پاکستان ان ممالک میں سے ہے جہاں خود کشی کو ایک مجرمانہ عمل قرار دیا گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، پاکستان میں پانچ سو کے لگ بھگ قابل سائیکالوجسٹ موجود ہیں جو ایک سیشن کا تقریبا تین ہزار روپے لیتے ہیں۔خودکشی کے اس بڑھتے ہوئے رجحان پر قابو پانے کے لیے ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ہمارے اردگرد موجود لوگ اگر کسی بھی وجہ سے ذہنی دبائو اور الجھائو کا شکار ہیں تو ہم کس طرح اس پر قابو پانے میں ان کی مدد کرسکتے ہیں۔ ہمارا عام معاملات کے حوالے سے مثبت رویہ بھی لوگوں کو بہت سی پریشانیوں اور الجھنوں سے نجات دے سکتا ہے۔ سوشل میڈیا کا غیر ضروری استعمال بھی لوگوں میں ذہنی دباو کا باعث بنتا ہے اس لیے ہمیں خود بھی اس کا استعمال محدود کرنا چاہیے اور اپنے دوستوں اور عزیزوں، خاص طور پر عمر میں خود سے چھوٹے افراد، کو بھلے انداز میں یہ سمجھانا چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا کو اپنے لیے ایک ایسی عادت نہ بنائیں جس کے استعمال کی وجہ سے ان کا ذہن بہت سے مسائل کا گھر بن جائے۔ ذہنی امراض اور خودکشی جیسے مسائل پر ہم سب مل کر قابو پاتے ہوئے ایک صحت مند معاشرے کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔خود کشی خود کو ہلاک کرنا یا جان بوجھ کر کسی مشکل سے تنگ آکر اپنے آپ کو موت کے حوالے کرنے کا نام ہے۔اسلام میں خودکشی قطعا حرام ہے۔اسلام امن و سلامتی والا مذہب ہے جو انسان ہر گھڑی صبر و تحمل،اعتدال اور توازن پر قائم رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ زندگی اللہ رب العزت کی عطاکردہ نعمتوں میں سے ایک عظیم اساسی اہمیت کی حامل نعمت ہے۔ انسان کا جسم اور زندگی دونوں اللہ تبارک وتعالی کی عطاکردہ امانتیں ہیں جن میں ذراسی بھی خیانت دنیا اور آخرت کی تباہی کا باعث ہو سکتی ہے۔ اسلام جسم و جان کے تحفظ کا حکم دیتے ہوئے معاشرے کے تمام افراد کو اس امر کا پابندکرتا ہے کہ وہ بہرصورت زندگی کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔انسانی جان و مال کی حرمت اللہ رب العزت کے پاس کعبہ کی حرمت سے بھی زیادہ ہے۔اسلام خودکشی تو درکنارمایوسی جو خودکشی کی جانب بڑھنے والا پہلا قدم ہے اسے بھی حرام قرار دیتا ہے۔اسلام خودکشی کی کسی توجیہ کو قبول نہیں کرتاحتی کہ شدید بیماری اور معذوری کی حالت میں بھی نہیں۔موجودہ  میں خودکشی کے اسباب و علل کا جائزہ لیتے ہوئے اس کے انسداد اور تدارک کے اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ مضطرب انسانیت کا مداوا ہو۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق خودکشی اب ایک عالمی وبا کی صورت اختیار کرچکی ہے جس پر قابو پانا فی الحال ممکن دکھائی نہیں دیتا۔اعدادو شمار کے مطابق دنیا میں سالانہ دس لاکھ لوگ خود کشی کے نتیجے میں ہلاک ہوجاتے ہیں۔ دنیا میں ہر تین سکینڈ میں ایک فرد خود کشی کی کوشش کرتا ہے۔ خودکشی کی کوشش کرنے والوں میں ہر بیس میں سے ایک شخص اپنی زندگی کا چراغ گل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے جبکہ باقی انیس افراد ناکام رہتے ہیں۔ اس تناسب سے ہر چالیس سکینڈ میں ایک فرد خود کشی کے سبب موت کا شکار ہورہا ہے۔ دنیا بھر میں روزانہ تین ہزار افراد خودکشی کے نتیجے میں لقمہ اجل ہورہے ہیں۔ ہمارے ملک میں آئے دن خود کشی کا رجحان بڑھتا ہی جارہا ہے اور یہ رجحان ہر عمر کے طبقے میں دیکھا گیا ہے۔اعداد و شمار کی روشنی میں ہمارے ملک میں ہرایک لاکھ افراد میں سے 36افراد خودکشی کر لیتے ہیں۔ خود کشی سے بچائو کی عالمی تنظیم کے صدر برائین مشارا کے بموجب دنیا میں جنگوں، دہشت گردی اور تشدد کے واقعات کے باعث جتنی اموات واقع نہیں ہوئی ہیں اتنی خودکشی کے نتیجے میں دیکھنے میں آئی ہیں۔دنیا میں سب سے زیادہ خودکشیوں کی شرح ساتھ کوریا میں ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں ہیں۔ اسلامی ممالک میں خودکشی کی شرح دنیا کے باقی ممالک سے قدرے کم پائی گئی ہے۔عالمی سطح پر خود کشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے پیش نظر اقوام متحدہ نے 1990 میں خود کشی سے بچائو کی بین الاقوامی پالیسی کی منظوری دی اور دس ستمبر 2003 کو پہلی مرتبہ خود کشی سے بچائو کا عالمی دن قرار دیا گیا۔نوجوانوں میں خودکشی کا رجحان بڑی تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔طلبہ اور نوجوانوں میں منفی خیالات و رجحانات کا نمو پانا خود اس بات کی دلیل ہے کہ یقینا ہمارے تعلیمی اور سماجی نظام میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔کوئی ایسی بات یا فکر ہے جو ہماری نوجوان نسل کو خودکشی جیسے انتہائی اقدام پر مجبور کر رہی ہے۔خودکشی کی خبروں خاص طور پر نوجوان نسل کی جانوں کے اتلاف کی خبریں ذہن ودل کو آئے دن ملول کر رہی ہیں۔نوجوان نسل ہمارے ملک کا بیش قیمت اثاثہ ہے۔ملک کی تعمیر و ترقی میں ان کے کردار کو ہر گز نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔خودکشی کی بے شمار وجوہات میں سماجی دبائو،ڈپریشن،خوداعتمادی کا فقدان،غربت،عشق و محبت میں ناکامی وغیرہ شامل ہیں۔ ان وجوہات میں سب سے زیادہ تشویش کا پہلو تعلیمی دبائو کی وجہ سے رونما ہونے والی خودکشیاں ہیں۔ ساری دنیا کے مقابلے میں ہندوستان میں پڑھے لکھے اور امیر نوجوانوں میں خود کشی کا رجحان سب سے زیادہ ہے۔ مغربی ممالک میں خودکشی کا رجحان زیادہ تر عمر رسیدہ بزرگ افراد،غریب اور کم تعلیم یافتہ شہریوں میں پایا جاتا ہے لیکن اس کے برخلاف ہندوستان میں خودکشی کرنے والوں میں زیادہ تر امیر اوراعلی تعلیم یافتہ گھرانوں کے نوجوان پائے گئے ہیں۔یہ بات ماہرین نفسیات کے لئے الجھن، بے چینی اور تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔کئی بچے والدین اور اساتذہ کی جانب سے لادے گئے تعلیمی دبائو کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہوکر خودکشی کربیٹھتے ہیں۔دنیا میں ہر انسان کم از کم ایک بار ڈپریشن کا شکار ضرور ہوتا ہے۔یہ منفی رجحانات ذیل میں پیش کردہ شکلوں یا پھر کسی اور صورت میں نمودار ہوتے ہیں۔بعض مواقع پر ڈپریشن اتنی شدت اختیار کرجاتا ہے کہ اس سے باہر نکل پانا لوگوں کے لئے سخت مشکل کام ہوتا ہے۔ایسے حالات میں ناامیدی کا شکار نوجوان مسائل سے نجات پانے کے لئے اپنی زندگی کا چراغ بجھا دیتے ہیں۔ہر خودکشی کے پیچھے کوئی وجہ اور کوئی قاتل خواہ والدین کی صورت،اساتذہ،خاندان یا معاشرے کے کسی فرد کی شکل میں یا پھر معاشرتی، معاشی ،تعلیمی، مذہبی،سیاسی پالیسیوں کی شکل میں ضرور چھپا ہوتا ہے جس کا تدارک از حد ضروری ہے۔