گلگت بلتستان میں چار روز سے جاری برفباری کے باعث بالائی علاقوں سے رابطے
منقطع ہوگئے ہیں، بلتستان میںبرفباری کاسلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے جس کے
باعث تمام اضلاع کے بالائی علاقوں کے راستے بند ہوگئے ہیں ، برفباری کی وجہ
سے ارندو ،بیسل سیسکو ،زل باشہ اور اسکولی ،تستے برالدو کے زمینی رابطے
منقطع ہیں اور عوام گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں سڑکوں کی بندش کے
باعث بالائی علاقوں میں عوام کو غذائی قلت کا بھی سامنا ہے، بالائی شگر کے
عوام نے محکمہ تعمیرات کو کئی بار برفباری کے سیزن میں سڑکوں سے برف ہٹانے
کے لئے ہیوی مشینری فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے‘ بالائی شگر کی رابطہ
سڑکیں موت کا کنواں بن چکی ہیں راستے بند ہونے کی وجہ سے خوراک کی ترسیل
بھی بند ہوگئی ہے، استور دوفٹ تک برف پڑچکی ہے،استور میں شدید برفباری کے
باعث اس کا بالائی علاقوں سے رابطہ منقطع ہوگیا ہے،چلاس، دیامر، بابوسر
ٹاپ، بٹوگاہ ٹاپ اور نانگا پربت میں بھی وقفے وقفے سے برفباری کا سلسلہ
جاری رہا جب کہ کوہستان میں شاہراہ قراقرم لینڈ سلائیڈنگ کے باعث بند ہوگئی
جسے بعد ازاں بحال کر دےا گےا۔ضلع دیامر کی تحصیل تانگیر میں ہفتے کی صبح
گیچھر جھیل اور لابر جھیل میں برفانی تودے گر گئے جس کے نتیجے میں جھیلیں
پھٹنے سے علاقے میں سیلابی صورتحال پیدا ہوگئی اور پانی قریبی دیہاتوں میں
داخل ہونے سے چالیس گھروں کو جزوی نقصان جبکہ چار گھر مکمل طور پر متاثر
ہوئے تاہم کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔اچانک برفانی تودے گرنے سے
جھیلوں میں پانی کے بہاﺅ میں خطرناک اضافہ ہونے سے دونوں جھیلیں پھٹ گئیں
اور سیلابی صورتحال پیدا ہوگئی، پھپھٹ اور اطراف میں سیلابی پانی گاﺅں میں
داخل ہونے سے چالیس گھروں کو جزوی طور پر نقصان کا سامنا ہوا جبکہ چار
گھرانے مکمل بے گھر ہوگئے ، سیلابی پانی سے لوگوں کی زرخیز زمینون کو بھی
شدید نقصان پہنچا ۔چلاس سے کمشنر دیامر اور ڈپٹی کمشنر دیامر نے ڈسٹرکٹ
ڈیزاسٹر منیجمنٹ کے ذریعے متاثرین میں امدادی سامان تقسیم کرنے کیلئے کھانے
پینے کی اشیائ، کمبل، کوٹ اور خیمے تانگیر روانہ کردیئے۔ آزاد کشمیر گلگت
بلتستان اور خیبرپختونخوا کے پہاڑی علاقوں میں زبردست برفباری ہو رہی ہے اس
کے نتیجے میں راستے بند ہو رہے ہیں۔ رابطہ سڑکیں بھی لینڈ سلائیڈنگ کی زد
میں ہیں۔ محکمہ موسمیات کے مطابق یہ صورت حال معمولی وقفوں کے ساتھ جاری
رہنے کا امکان ہے۔ اس سے دیہی علاقوں خصوصا غریبوں کی بستیوں کے لئے بے
شمار مسائل پیدا ہوں گے جن کے ازالے کے لئے پیشگی انتظامات اور اقدامات
نہایت ضروری ہیں۔ضروریات زندگی کی بلاتعطل ترسیل پر توجہ دینی چاہئیے۔ بجلی
اور گیس کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہیئے حکومت کو چاہےے کہ برفباری کو
لوگوں کے لئے زحمت نہ بننے دے ان کی مشکلات کا بروقت حل نکالے اور ان کے
نقصانات کا ازالہ کرے۔ پہاڑی علاقوں میں عوام کی مشکلات کا تعلق موسم اور
جغرافیہ سے ہے۔ موسم کی سختیوں کی وجہ سے معمولاتِ زندگی کافی متاثر ہوتے
ہیں۔ یہ مسائل ایسے ہیں جن کا مکمل خاتمہ تو نہیں کیا جاسکتا البتہ حکومتی
اقدامات کے سبب ان مشکلات کو بڑی حد تک کم ضرور کیا جاسکتا ہے۔ مشکلات اور
مسائل کی دوسری قسم کا تعلق حکومتی یا انتظامی عدم توجہی سے ہے۔ یہاں
ہسپتالوں، سڑکوں، تعلیمی اداروں اور موبائل جیسی سہولیات اکثر و بیشتر
دستیاب ہی نہیں ہوتیں۔سیاحوں کو ان دشواریوں اور ان گنت مسائل کا علم ہی
نہیں ہوتا جن کا سامنا کرتے ہوئے یہاں کے مقامی باشندے اپنے شب و روز
گزارتے ہیں۔برف باری سے لطف اندوز ہونے کے لیے سےاح ان پرفضا اور برف پوش
پہاڑوں کا نظارہ کرنے کے لیے آتے ہےں۔ یہاں کے بلند وبالا پہاڑ، شفاف چشمے،
ندیاں اور مقامی لوگوں کی مہمان نوازی، قرب و جوار کے علاقوں کے سیاحوں کو
اپنی طرف کھینچ لاتے ہیں۔ان سیاحتی مقامات میں بسنے والوں اور ان کو درپیش
مسائل کو کبھی اجاگر ہی نہیں کیا گیا ےہاں کے بلند وبالا پہاڑ اور جنگلات
نے ملک کے دیگر سرد علاقوں کی طرح چاندی کی چادر اوڑھی ہوئی ہے۔ برف سے
ڈھکے درختوں سے جب برف پگھلنا شروع ہوتی ہے تب ہلکے سبز رنگ کے پتے اور ان
پر پڑنے والی سورج کی کرنوں سے جو منظر وجود میں آتا ہے وہ واقعی دیدنی
ہوتا ہے۔سیاحت کے فروغ کے لیے جو بنیادی سہولیات درکار ہوتی ہیں ےہ علاقے
تاحال ان سہولیات سے محروم ہےں۔سیاح جب کسی سیاحتی مقام پر ہوں اور اس
دوران برف باری شروع ہوجائے تو سیاحوں کی خوشیاں دوبالا ہوجاتی ہیں، انہیں
ایسا محسوس ہوتا جیسے ان کے پیسے وصول ہوگئے۔سیاح تو برف باری سے خوب لطف
اندوز ہوتے ہیں، مگر دوسری طرف ان پہاڑی علاقوں کے کچے مکانات میں مقیم
افراد اس یخ بستہ موسم میں باہر نکل کر گھروں کی چھتوں سے برف ہٹانے میں
مصروف ہوجاتے ہیں کیونکہ کچے مکانات برف کا بھاری وزن برداشت نہیں کرپاتے۔
دن تو دن اگر برف باری رات کے وقت بھی شروع ہوجائے، تب بھی سردی کے باوجود
برف ہٹانا پڑتی ہے ۔جن گھروں کی چھتیں اسٹیل کی چادروں سے بنی ہوتی ہیں
وہاں برف ہٹانے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ برف خود ہی وہاں سے گر جاتی ہے۔برف
باری کے دوران سڑکیں بند ہوجانے سے بھی مقامی افراد کو کافی پریشانی کا
سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس دوران اگر کسی قسم کی ایمرجنسی کی صورتحال کا
سامنا ہو تو یہ تکلیف دگنی ہوجاتی ہے۔ کسی ایمرجنسی کی صورت میں ہسپتال
جانا مقصود ہو تو مریض کو چارپائی میں پندرہ سے بےس لوگ کندھوں پر اٹھا کر
لے جاتے ہیں۔ بعض دفعہ بروقت طبی مدد نہ ہوپانے کی وجہ سے مریض ہسپتال
پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ دیتا ہے۔لہذا یہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے کہ
حکومت ان علاقوں کی رابطہ سڑکیں بحال رکھنے کے لیے پہلے سے بلڈوزر کی
فراہمی کو یقینی بنائے۔ اس کے علاوہ ان علاقوں میں موبائل ہسپتالوں کی
سہولت بھی فراہم کرے تاکہ کم از کم وہاں کے مریضوں کو فرسٹ ایڈ جیسی بنیادی
طبی امداد کی سہولت تو میسر ہو۔ ان موبائل ہسپتالوں میں سردی سے ہونے والی
بیماریوں سے بچاﺅ کی ادویات بھی دستیاب ہونی چاہئیں۔ اس طرح کے اقدامات سے
نہ صرف مقامی عوام کی مشکلات کم ہوسکیں گی بلکہ یہاں آنے والے سیاحوں کا
بھی اعتماد بڑھے گا اور سیاحت کو فروغ ملے گا۔ان علاقوں میں جہاں کھانا
پکانے کے لیے لکڑی درکار ہوتی ہے وہیں سردی سے بچاﺅ کےلئے جلائی جانے والی
آگ کا ایندھن بھی جنگل کی قیمتی لکڑیاں بنتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں
میں جنگلات کافی زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ان علاقوں میں
سردی کے موسم میں بجلی کی بلاتعطل فراہمی یقینی بنائے اور موسم سرما میں
بجلی کے بل پر سبسڈی دے تاکہ لوگ بجلی کے ہیٹرز استعمال کرسکیں اور لکڑی پر
انحصار کم سے کم ہو۔ ان علاقوں کے عوام کو اگر سبسڈی پر گیس سلینڈرز بھی
فراہم کیے جائیں تو بھی یہ ملکی مفاد میں بہتر ہوگا کیونکہ یوں ایندھن کے
لیے جنگلات کاٹے جانے سے محفوظ ہوجائیں گے۔پہاڑی علاقوں میں لوگ دودھ، دہی
اور مکھن کی روزانہ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مویشی پالتے ہیں۔ ان
جانوروں کے لیے بطور چارہ استعمال کی جانے والی گھاس گرمیوں کے موسم میں
کاٹی جاتی ہے اور اسے محفوظ کرکے سردیوں کے موسم میں جانوروں کو کھلایا
جاتا ہے، لیکن ان تمام تر اقدامات کے باوجود سردیوں میں مویشیوں کی دیکھ
بھال کرنا واقعی ایک مشکل کام ہوتا ہے ۔ سیاحتی علاقوں میں سے کچھ علاقے
ایسے بھی ہیں جہاں موبائل سروسز موجود نہیں، اس کام کے لیے کسی قسم کی
حکومتی سرمایہ کاری کی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہ کام نجی موبائل نیٹ ورک
کمپنیوں سے باآسانی کروایا جاسکتا ہے، لیکن یہ کام کروانے کے لیے حکومت کو
خاص توجہ دینی چاہیے۔اکثر لوگ سوچتے ہیں کہ آلودگی اور گندگی صرف شہروں کا
مسئلہ ہے، لیکن ایسا نہیں اب تو یہ سیاحتی مقامات کا بھی مسئلہ بھی بن گیا
ہے۔ بیشتر سیاحتی مقامات پر کچرے پھینکے کے لیے کوڑے دان وغیرہ موجود ہی
نہیں ہوتے جس کی وجہ سے ان مقامات پر کوڑا کرکٹ جابجا بکھرا نظر آتا ہے۔ اس
کے علاوہ ان مقامات پر پبلک ٹوائلٹس کی سہولت موجود نہیں، جبکہ مقامی
گھروں سے نکلنے والا سیوریج کا پانی صاف و شفاف ندیوں میں شامل ہوکر انہیں
مسلسل آلودہ کر رہا ہے۔ پہلے جہاں بے شمار مچھلیاں ہوا کرتی تھیں، اب وہاں
کچھ نہیں۔سردیوں کے دوران درجہ حرارت منفی ہونے کی وجہ سے پانی فراہم کرنے
والی پائپ لائنےں جم جاتی ہیں جس کے سبب پانی کی فراہمی بہت زیادہ متاثر
ہوتی ہے اور پھر لوگوں کو سخت سردی میں گھروں سے دور جاکر پانی لانا پڑتا
ہے۔ےہ سیاحتی مقامات ہمارے ملک کا اثاثہ ہے، ان کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری
ہے، اگر ہم چاہتے ہیں کہ ان سیاحتی مقامات میں رونقیں قائم رہیں تو ہمیں
وہاں کے مقامی افراد کو درپیش مسائل اور مشکلات کے بارے میں بھی سوچنا
ہوگا۔
